Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 42
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَیْهِ١ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے پاس غَيْبُ : غیب السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف يُرْجَعُ : باز گشت الْاَمْرُ : کام كُلُّهٗ : تمام فَاعْبُدْهُ : سو اس کی عبادت کرو وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کرو عَلَيْهِ : اس پر وَمَا : اور نہیں رَبُّكَ : تمہارا رب بِغَافِلٍ : غافل (بےخبر) عَمَّا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ بات اللہ ہی جانتا ہے اور سب کام اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پس اسی کی عبادت کرو اس پر توکل کرتے رہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے آپ کا رب بیخبر نہیں ہے۔
ہشتم۔ وللّٰہ غیب السموات والارض الخ میں سورة کو نہایت مطالب عالیہ پر تمام کیا۔ اول ٗ اللہ تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا اظہار کیا۔ للّٰہ غیب السموات والارض میں اس کے علم کا کہ کوئی چیز آسمان و زمین کی اس پر مخفی نہیں مطیع اور عاصی کو بھی جانتا ہے والیہ یرجع الامر کلہ میں قدرت کاملہ کا اظہار ہے اور یہی دونوں ایسی صفت ہیں کہ جن سے عبادت کی جاتی ہے پھر جب یہ دونوں خاص اسی کا حصہ ہیں تو پھر اس کے سوا اور کسی کو نافع و ضار سمجھنا عبث اور فضول بلکہ نامعقول ہے۔ یہ پہلا مرتبہ تصحیح عقائد کا تھا۔ دوم فاعبدہ کہ اس کی عبادت کیا کر۔ عبادت ایک وسیع المعنی لفظ ہے مال سے ‘ جان سے ‘ روح سے ‘ اعضاء سے ‘ یہ دوسرا مرتبہ تقویٰ و طہارت کا ہے (سوم) توکل علیہ کہ اس کے سوا ہر چیز سے انقطاع کرکے ہر کاروبار میں اسی کا بھروسہ رکھے۔ اسباب کو اسباب جانے موثر حقیقی اور مسبب الاسباب پر نظر رکھے۔ یہ تیسرا مرتبہ معرفت و حقیقت کا ہے پس جب انسان ان تینوں مراتب کو حاصل کرکے کامل بن گیا تو پھر ایک مجمل عبارت میں اس کے لئے دار آخرت میں لذائذِ روحانیہ ملنے کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔ وما ربک بغافل عما تعلمون کہ وہ تمہارے کام سے بیخبر نہیں ضرور جزاء و سزا دے گا۔ سبحان اللہ مبادی اور اوساط اور مقاطع میں کس خوبی کو ملحوظ رکھا ہے کہ جس کے ادراک میں ہزاروں لطف آتے ہیں۔
Top