بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الر۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کی آیتیں حکیم دانا کی طرف سے مستحکم کردی گئیں۔ پھر مفصل بیان کی گئی ہیں (بایں مضمون)
ترکیب : الر اسم ہے اس سورة کا مبتداء کتاب موصوف حکمت الخ صفت مجموعہ خبر یا مبتداء محذوف کی خبر یا بالعکس ان لا تعبدوا الخ مفعول لہ ہے فصلت کا اے فصلت لا جل ان لاتعبدوا وقیل ان مفسرۃ لان فی تفصیل الآیات معنی القول وان استغفروا اس پر معطوف الاحین کا عامل یعلم۔ تفسیر : یہ سورة بھی مکہ میں اسی ہنگامہ میں نازل ہوئی ہے کہ جب جہالت اور بت پرستی کا بازار گرم تھا۔ خدا پرستی کا نام لینے والے پر نہ صرف انگلیاں ہی اٹھتی تھیں بلکہ زہر آلود تیروں کا تودہ بنایا جاتا تھا۔ اس میں منجملہ حالات دیگر انبیاء کے حضرت ہود (علیہ السلام) کا قصہ نہایت عبرت انگیز ہے جس لئے ان کے نام سے یہ سورة نامزد کی جاتی ہے اس میں ایک سو تئیس آیات ہیں۔ الرا میں بہت کچھ امور مخفیہ کی طرف اشارہ فرما کر کہ جن کو کما ینبغی اس کا رسول کریم ہی سمجھتا تھا۔ سب سے اول قرآن مجید کی خوبی اور اس کا منجانب اللہ ہونا بیان فرماتا ہے بقولہ کتاب احکمت آیات الخ احکام مضبوطی اور خلل و فساد کا دفع کرنا یعنی یہ کتاب قرآن وہ ہے کہ جس کی آیات محکم ہیں جن میں عقل سلیم اور فہم مستقیم کو غور و فکر کرنے سے کوئی بھی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے اخبار ماضیہ سچے سچے واقعات عبرت خیز کا فوٹو ہیں، اس کے احکام تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملک تک اور عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ حاصل کرنے کے طریق حکماء کا دستور العمل ہیں۔ اس پر عبارت کی صفائی تہذیب اور سچائی کا زیور علاوہ ہے۔ ایسی کتاب اگر آسمانی کتاب نہیں تو کیا پھر محض تاریخی کتابیں کہ جن میں مبالغہ آمیز الفاظ اور توہمات ہوں یا وہ کہ جن میں عناصر اور مخلوقات کی پرستش ہو ‘ عالم آخرت اور انسان کی سعادت کا طریقہ ندارد ہو ‘ وہ آسمانی کتابیں ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ثم فصلت یعنی حالت مجموعی کے لحاظ سے تو یہ محکم تھی ہی مگر حالت تفصیلی پر بھی غور کیا جاوے اور ہر ایک معاملہ کی آیات کو ان کے مطالب پر جداگانہ لحاظ کیا جاوے تو بھی یہی کہنا پڑے گا کہ یہ تفصیل (کہ دلائلِ توحید اپنے موقع پر احکام اور مواعظ اور قصص اپنی جگہ پر ترغیب و ترہیب دنیا کی بےثباتی ‘ عالم آخرت کی خوبی اپنے محل پر) من لدن حکیم خبیر ہے یعنی بشیر کا کام نہیں اسی حکیم وخبیر نے ان موتیوں کو اپنے اپنے موقع پر لڑیوں میں پرو دیا ہے۔ پھر اس کی اجمالی اور تفصیلی دونوں حالت ایسی ہوں تو پھر اس میں شک کرنا آفتاب کا انکار کرنا ہے پھر ان لاتعبدوا سے لیکر وھو علی کل شیئٍ قدیر تک ان چند باتوں کی تفصیل فرماتا ہے کہ جن پر دنیا و آخرت کی سعادت اور خلاف کرنے میں ہلاکت متصور ہے جن کے ظاہر کرنے کو دنیا میں انبیاء بھیجا جاتے ہیں جس لئے اول امر کے لحاظ سے وہ بشیر اور ہلاکت سے مطلع کرنے کے اعتبار سے نذیر کہلاتے ہیں۔ اننی لکم منہ نذیر و بشیر۔ (1) لاتعبدو الخ کہ اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہ وہ پہلا حکم ہے کہ جس کی عدول حکمی میں نہ صرف برِّعرب بلکہ اس عہد میں روئے زمین کے بنی آدم گرفتار ہلاکت تھے۔ یہ اس لئے کہ عبادت و پرستش کا استحقاق اس کے لئے ہے کہ جس نے پیدا کیا ہو اور وہ ہر ایک کے حال سے مطلع بھی ہو کہ جو اپنے مطیع و عابد کو بھلائی ‘ سرکش کو برائی پہنچا سکے یعنی علم ہونا چاہیے۔ سوم حاجت روا۔ اوراقل مرتبہ رزاق مطلق تو ہو۔ سو یہ تینوں باتیں بجز اس کے اور کسی میں نہیں پائی جاتیں ان تینوں باتوں کو الا انہم الخ سے شروع کرے گا (2) استغفروا ربکم کہ اپنے گذشتہ گناہوں پر خدا سے معافی مانگو ‘ استغفار کرو۔ اس میں ضمناً تمام بری باتوں کے ترک کرنے کی طرف بھی اشارہ ہے۔ (3) ثم توبوا الیہ کہ اس کی طرف رجوع کرو یا توبہ کرو کیونکہ انسان جب گناہوں سے استغفار کرکے اور موحد بن کے پاک اور باطنی گندگیوں سے صاف ہوجاتا ہے تب اس کی بارگاہِ اقدس کی طرف رجوع کرنے کے لائق ہوتا ہے اور اس کی بارگاہ میں جانا یا اس کی طرف رجوع کرنا بغیر اس کے آلات صوم و صلوٰۃ ‘ خیرات و صدقات ‘ صلہ رحمی ‘ علم ‘ ذکر و فکر ‘ دعاء و مناجات کے ممکن نہیں اس میں ضمناً اصول حسنات کو عمل میں لانے کی طرف اشارہ ہے جب اس کو یہ رتبہ حاصل ہوا تو وہ مستحق فضل و عنایت ہوا اور عنایت دو قسم پر ہے دنیا کی عافیت آخرت کی نجات و ترقی درجات اس لئے اول کی طرف یمتعکم متاعًا حسنًا میں اشارہ ہے اور دوسری کی طرف یؤت کل ذی فضل فضلا میں اور نیز وہاں کے درجات کا باعتبار مراتب سعادت تفاوت بھی ظاہر فرماتا ہے۔ ہرچند دنیا کی فراغدستی اور خوشحالی ایمان و کفر پر موقوف نہیں بلکہ بعض اوقات امتحاناً ایمانداروں کے لئے ایسی مصیبت اور تنگی پیش آتی ہے کہ دنیا قید خانہ ہوجاتا ہے اور کفار کو عیش و نشاط بےحد دے کر بھر کر کشتی ڈبوئی جاتی ہے مگر خداوند کا وعدہ ہے کہ وہ ایمانداروں اور نیکوں کو عمومی حالت میں فراغ دستی ‘ تندرستی غیر قوموں کے ہاتھ سے رستگاری دے گا اور دیا کرتا ہے جیسا کہ توریت کے بھی متعدد مقامات میں اس امر کی تصریح ہے۔ الی اجل یوں کہا کہ ہمیشگی تو اسی کے لئے ہے آخر دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ پھر ان تولوا سے قدیر تک خلاف کرنے میں قہر کا آنا دنیاوی سزا اور مرنے کے بعد خدا کی طرف جانا اخروی سزا اور نیز مسئلہ حشر ثابت کرتا ہے وھو علی کل شیء قدیر اس کی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ وہ کرسکتا ہے ہر بات پر قادر ہے کوئی اسباب ظاہر پر مغرور نہ ہوئے۔ الا انہم اب یہاں سے ان تینوں اوصاف کی توضیح کرتا ہے اور سب سے پہلے وصف علم کو بیان فرماتا ہے جس کی نسبت مکہ کے کفار کو جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے ابن عباس ؓ سے منقول ہے یہ گمان تھا کہ وہ بوقت قضاء و حاجت اپنے اوپر کپڑا ڈال لینا خدا سے مخفی ہونا سمجھتے تھے یا دل میں برے ارادے رکھنے کو (یثنون صدورھم) اور کپڑے یا پردے میں گناہ کرنے کو خدا سے مخفی رہنا جانتے تھے کیونکہ وہ یعلم مایسرون الخ کہ اس کو ہر ایک چھپی اور کھلی بات معلوم ہے۔ اس میں انسان کے باطنی حالات پر سخت تنبیہ بھی ہے پھر اس کی دلیل ذکر کرتا ہے ومامن دابۃ الخ کہ دنیا پر کوئی ایسا جانور نہیں کہ جس کو وہ روزی نہ دیتا ہو اور یہ اسی کا کام ہے جو علم رکھتا ہوگا۔ اس میں وصف دوم رازقیت کا بھی ثبوت ہوگیا اس پر ترقی کرتا ہے کہ وہ ہر چیز کا مستقر یعنی ٹھہرنے کی جا ‘ ماں کے پیٹ سے لے کر شب کے آرام گاہ تک اور اس کے منازل وجود تک اور مستودع یعنی اخیر سپرد کئے جانے کی جگہ قبر یا جہاں اس کی ہڈیاں پڑیں گی یا کہاں جاوے گا کیا انجام ہوگا یعنی ازا بتداتا انتہا سب جانتا ہے تیسرے وصف کو ھو الذی خلق السموات الخ میں ثابت کرتا ہے اور اس کو ثبوت علم کے لئے دلیل بھی بنا سکتے ہیں (کان عرشہ الخ کی تفسیر سورة بقرہ میں دیکھو) اس کے بعد عالم آخرت اور موت کے بعد زندہ ہونے پر جو ان کا تعجب تھا اس کو ذکر فرماتا ہے کہ جس کو وہ سحر مبین کہتے تھے اور عذاب دنیاوی کی روک رکھنے پر جو وہ کہتے تھے کہ کیوں روک رکھا ہے اس سے ان کی نادانی اور بدبختی کا اظہار فرما کر کلام تمام کرتا ہے۔
Top