Tafseer-e-Haqqani - Hud : 20
اُولٰٓئِكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ١ۘ یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ لَمْ يَكُوْنُوْا : نہیں ہیں مُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنیوالے، تھکانے والے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : سے دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : حمایتی يُضٰعَفُ : دوگنا لَهُمُ : ان کے لیے الْعَذَابُ : عذاب مَا : نہ كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ طاقت رکھتے تھے السَّمْعَ : سننا وَمَا : اور نہ كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھتے تھے
یہ لوگ زمین پر بھی ہمارے قابو سے باہر نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی حمایتی تھا ان کو دو چند عذاب دیا جائے گا وہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھ سکتے تھے۔
ترکیب : یضاعف جملہ مستانفہ ہے ماکانوا میں تین وجہ ہیں اول یہ کہ نافیہ ہے والثانی مصدریہ۔ وفیہ مافیہ والثالث بمعنی الذی لاجرم الخ اس میں دو قول ہیں۔ اول یہ کہ لا کلام سابق کے رد کے لئے ای لیس الامر کمازعموا جرم فعل ضمیر اس میں مضمر اس کی فاعل وانہم الخ جملہ محل نصب میں دوم لا جرم بمعنی حق بمنزلہ ایک کلمہ کے انہم جملہ محل رفع میں فاعل ہو کر۔ تفسیر : کفار مکہ کی عادت تھی کہ وہ طرح طرح کے شبہات وارد کیا کرتے تھے۔ کبھی نئے نئے معجزات طلب کیا کرتے ٗ کبھی قرآن مجید کا انکار کرتے تھے۔ کبھی اپنے پرانے ڈھکوسلوں کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے کہ ان بتوں کی پرستش کا اسی نے ہم کو حکم دیا ہے۔ اسی نے ان کو اپنے کارخانہ قضاء و قدر کا مختارِ کل کیا ہے اسی کے حکم سے ہم بعض چیزوں کو حلال بعض کو حرام قرار دیتے ہیں۔ چونکہ یہ سب باتیں بےبنیاد اور خدا تعالیٰ پر ناحق کا بہتان تھا اس لئے ان کے جواب میں فرماتا ہے ومن اظلم ممن افترٰی کہ اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے پھر اولئک یعرضون الخ میں خدا تعالیٰ کی عدالت میں ان کا پیش کیا جانا اور گواہوں کا ان کی تکذیب کرنا بیان فرماتا ہے (اشہاد جمع شاہد کہ صاحب و اصحاب اور جمع شہید کشریف و اشراف گواہوں سے مراد مجاہد کے نزدیک وہ ملائکہ ہیں جو اعمال لکھتے تھے قتادہ اور مقاتل کے نزدیک عامۃ الناس مراد ہیں جیسا کہ کہتے ہیں یہ بات علی رؤس الاشہاد ہوئی اور مفسرین کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں) پھر جب عدالتِ آسمانی میں ان کا جھوٹ ثابت ہوجاوے گا تو اعلان کردیا جاویگا کہ الا لعنۃ اللّٰہ الخ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ اس کے بعد ان کے کچھ اوصاف و حالات بیان فرماتا ہے کہ اور لوگ بھی ان اوصاف سے دور رہیں (1) یہ کہ وہ آپ تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو بھی اللہ کے رستہ سے روکتے ہیں (2) اس راہ الٰہی میں شبہات پیدا کرکے کجی نکالنا چاہتے ہیں یبغونہا عوجا جیسا کہ آج کل پادری نئے نئے رسالے اور کتابیں طبع کرتے ہیں کہ جن میں اسلام کی ہجو اور اس میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں پھر عورتوں کے ذریعہ سے زنانہ سکول قائم کرکے پردہ نشین عورتوں پر بھی جال مارتے ہیں (3) یہ کہ آخرت کے منکر ہیں (4) اولئک الخ یہ لوگ اپنے اسباب و مال کے زور میں اور اپنی کامیابیوں کے نشہ میں آکر یہ نہ سمجھیں کہ خدا کے قبضہ قدرت سے باہر ہوگئے۔ اس نے عذاب بھیجنے میں جو دیر کر رکھی ہے کسی مصلحت اور 1 ؎ الاخبات ھو الخشوع والخضوع وھو ماخوذ من الخبیث والارض الطمئنۃ فاذا یقدی بالی فمعنا بالاطمینان اخبت الیہ ای اطمکن الیہ اذا مقیدی بالعام فمعناہ الخشوع احبت لہ ای خشع الہ 12۔ عبد الحق اپنے حلم کی وجہ سے کر رکھی ہے (5) خدا کے مقابلہ میں ان کا کوئی فرضی معبود جس کو وہ پوجتے ہیں اس کے عذاب سے بچا نہیں سکتا۔ چناچہ جب آپڑتی ہے تو کوئی دیوی دیوتا اس کا ہاتھ نہیں روکتا (6) ان کو دو چند عذاب ہوگا گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کا (7) نہ حق سن سکتے تھے نہ دیکھ سکتے تھے یعنی ان کے تعصب نے ان کے سمع و بصر باطنی کو بیکار کردیا لاکھ دلائل پیش کرو مگر پرانی لکیر کے فقیر ہیں بھلا کسی کی کب مانتے ہیں (8) یہ لوگ زیاں کار ہیں۔ آخرت میں ان کے یہ فرضی ڈھکوسلے کھولے جائیں گے نہ مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت و تثلیث و کفار پر ایمان لانا نجات دے گا نہ گائے کی دم پکڑ کے (نرک) جہنم سے پار ہوں گے نہ اور کسی کی نذر و نیاز کام آئے گی۔ اس کے بعد اہل ایمان اور نیک لوگوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہا کریں گے پھر ان دونوں فریق یعنی اہل ایمان و کفار کا فرق ظاہر کرتا ہے کہ ایک فریق اندھا اور بہرہ۔ دوسرا دیکھنے اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ یعنی ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ پہلا کفار و مشرکین کا فریق اور دوسرا اہل ایمان اور نیکوں کا۔ 1 ؎ یعنی دل میں جس کی نسبت حکم ہوچکا کہ یہ دنیا میں ایمان نہیں لائے گا اس کے سوا ایمانداروں اور اپنے خاندان کو بھی کشتی میں سوار کرلے۔ 12 منہ بسم اللہ متعلق بارکیولمجراہا و مرساہا بضم المیم من اجریت وارسیت اسازنان وہما منصوبان علی الظرفیۃ اے وقت اجرائہا و ارسائھا و قری الاول بفتح المیم والثانی بضما و قریٔ بفتحھا و قری مجریہا و مرسیہا بلفظ میم الفاعل مجروری الحل علی انہما و صفان للہ و الرسوالثبات فی موج جمع موجبۃ کالجبال صفۃ الموج شبہا بالجبال فی تراکمہا و ارتقاعھا 12 منہ۔ ابعی من البلع ہو الشرب و تغیر الماء و منہ البالوعۃ وہی موضع یشرب الماء ریخیہ و منہ بلع الطعام اذا ازدروہ اقبعی الاقلاع الامساک و قیل من القلع یعنی الجذب و غیرض الماء اے نقص یقال غاض الماء و غضیۃ انا 12 اس آیت میں وقیل یا ارض ظالمین کما میں جو کچھ فصاحت و بلاغت کے اسرار ہیں ان سے منکرین کے بھی ہوش جاتے رہے تھے لطف یہ کہ اس آیت کے 19 کلمات اور ان میں 21 اقسام بدیع موجود ہیں مناسبت ‘ مطابقت ‘ مجاز ‘ استعارہ ‘ اشارہ ‘ تمثیل ‘ ارداف ‘ تعلیل ‘ احتر اس ‘ صحۃ ‘ المتقسیم عند المتاخرین ‘ ایضاح معاذ علی حسن حق اکار تسہیم تہذیب۔ حسن بیان۔ تمکین۔ تحنین مقابلہ ذم وصف۔ اس کی شرح میں علماء نے بڑی بری نادر تصانیف کی ہیں علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی نے اپنی تفسیر میں اور سید محمد ابن اسماعیل ابن صلاح نے اپنے رسالہ نہرالمورد فی تفسیر آیہ ہود میں بہت کچھ لکھا ہے اور بشرط فرصت اردو میں ہم بھی ایک جداگانہ کتاب لکھ کردکھائیں گے۔ 12 منہ
Top