Tafseer-e-Haqqani - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ (ان سے) کہیں میں تمہیں صاف (صاف) ڈر سنانے والا ہوں
ترکیب : انی بالکسر علی تقدیر قال وبالفتح بانی ان لا تعبدوا بدل ہے کلام سابق انی الخ سے مانراک اگر رویۃ العین سے ہے تو اس کے بعد کا جملہ حال اور قد مقدرانہ مفعول ثانی ار اذل جمع ارذل اور یہ رذل کی جمع ہے وقیل ارذل واحدۃ و جمعہ اراذل بادی بمعنی ظاہر اگر دال کے بعد ہمزہ سے پڑھا جاوے تو بدأیبدأ اذا فعل الشیء اولا سے ہوگا ورنہ بدایبدو سے جس کے معنی ظاہر کے ہیں۔ یہ منصوب ہے ظرف ہونے کی وجہ سے اور عامل اس کا اتبعک ہے۔ لن یؤتیہم الخ جملہ مقولہ ولا اقول کا تزدری دال بدل ہے ت سے اصلہ تزتری وھو تفعل من زریتت دال سے بدل گئی لتجانس الزار فی الجہر اور ت چونکہ حروف مہموسہ میں سے ہے اس لئے ز کے ساتھ جمع نہ ہوئی۔ تفسیر : مضامین مذکورہ بالا کے بعد چند عبرتناک واقعات بیان فرماتا ہے جن میں سے اول قصہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی بدبخت قوم کا ہے کہ حضرت نے سینکڑوں برس وعظ و پند کیا۔ طرح طرح سے سمجھایا مگر ان کی بدبختی اور شامت کا ہے کو راہ راست پر آنے دیتی تھی۔ آخر سب غرق ہوئے۔ طوفان آیا اگرچہ یہ قصے آگے بھی کئی بار آچکے ہیں خصوصاً سورة ٔ یونس میں بھی جو مکیہ ہے مگر لطف اور اعجاز یہ ہے کہ ایک ایک قصے کو کس کس رنگ سے پلٹ کر بیان کیا جاتا ہے جو اپنے موقع پر نیا قصہ معلوم ہوتا ہے اور ایک جداگانہ عبرت پیدا کرتا ہے توریت میں بھی یہ قصہ طوفان نہایت وضاحت سے مذکور ہے مگر توریت موجودہ میں اور قرآن میں بجز دو تین باتوں کے کہ جن کو بیان کرتے ہیں اور کچھ اختلاف نہیں۔ اب اس کا سبب غالباً وہی سبب ہے کہ توریت موجودہ میں بیشمار مواقع ہیں اس کے مصنف یا کاتبوں سے غلطیاں سرزد ہوئیں یا بعد میں کچھ کمی زیادتی ہوگی جیسا کہ اس کا ثبوت ہم نے اپنی اس کتاب میں متعدد جگہ کیا ہے اور کتب مناظرہ اظہار الحق وغیرہ میں بڑی تشریح ہے۔ ان اختلافی باتوں میں اہل کتاب قرآن پر غلطی کا الزام لگایا کرتے ہیں اور بعض برائے نام مسلمان جو ان کے مرید اور توریت موجودہ کو اصلی توریت بنانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں کچھ دور ازکار توجیہیں کرکے باہم توافق پیدا کرتے ہیں کہ اس سے یہ مراد اور اس سے یہ مراد۔ اگر توافق اور تطابق کسی وجہ وجیہ کے ساتھ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہ باتیں یہ ہیں اول فارالتنور تنور کا جوش مارنا اور موافق قول اکثر مفسرین تنور سے پانی جوش مار کر نکلنا طوفان کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ توریت میں اس کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ اگر تنور سے روٹیاں پکانے کا تنور مراد ہے تو اس کا وہی جواب ہے جو گذرا اور اگر مفسرین اسلام میں سے دوسرے فریق کا قول مان لیا جاوے کہ جس کو امام رازی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ تنور سے مراد روٹیاں پکانے کا تنور نہیں بلکہ عرب روئے زمین کو تنور کہتے ہیں تب یہ معنی ہوں گے کہ زمین سے پانی پھوٹ نکلا جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں ہے ففتحنا الخ ؎ القول الثانی لیس المراد من التنور تنور الخبز وعلی ہذا التقدیر ففیہ اقوال (الاول) انہ انفجرالماء من وجہ الارض کما قال تعالیٰ ففتحنا ابواب السماء بماء منہمر وفجرنا الارض عیونا فالتقی الماء علی امر قدقدر والعرب تسمی وجہ الارض تنوراً تو کچھ بھی باہم مخالفت نہیں رہتی کیونکہ توریت سفر پیدائش کے ساتویں باب میں آسمان سے پانی برسنا اور زمین کے سوتوں میں سے نکلنا لکھا ہے۔ دوم و نادیٰ نوح ابنہ الخ کہ نوح نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کو کہا لیکن وہ سوار نہ ہوا اور غرق ہوگیا حالانکہ توریت کے سفر مذکور میں نوح کے تین بیٹے لکھے ہیں۔ سام حام یافث اور تینوں کا کشتی میں سوار ہونا اور طوفان سے نجات پانا لکھا ہے اور نیز مفسرین اسلام اس بیٹے کا نام کنعان بتلاتے ہیں حالانکہ کنعان حام کا بیٹا نوح کا پوتا ہے جیسا کہ توریت میں تصریح ہے۔ اس کا جواب بھی وہی ہے جو بیان ہوا کہ توریت میں غلطی ہے اور توریت کی غلط بیانی پر ہم اسی سفر اور اسی مقام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں کہ جن میں اضطراب پایا جاتا ہے جن کی تفسیر میں علمائے اہل کتاب بھی بہت مضطرب ہیں : شاہد اول توریت سفر پیدائش 7 باب 17 درس میں اور چالیس دن طوفان کی باڑہ زمین پر رہی اور اس کی چند سطر بعد پھر یہ بھی ہے (24) اور پانی کی باڑہ ڈیڑھ سو دن تک زمین پر رہی۔ اب دونوں میں ایک ضرور غلط ہے یا وہم مصنف ہے۔ علاوہ اس کے اول بات کی تائید اسی کے گیارہویں درس سے ہوتی ہے اور نیز 8 باب میں بھی ڈیڑھ سو دن کے بعد پانی کا کم ہونا لکھا ہے اور اس کے بعد کا بیان کہ چالیس دن کے بعد نوح نے کشتی کی کھڑکی کھول کر کوے کو اڑایا اور اس کے بعد کبوتری کو اڑایا اور وہ واپس آئے پھر سات روز بعد اڑایا تو درخت کے پتے منہ میں لائے (اور پتے منہ میں لانا پانی اترنے کی دلیل میں ہے) اس کی تغلیط کرتا ہے۔ شاہد دوم 9 باب میں ہے کہ حام نے اپنے باپ نوح کو خیمہ میں بحالت مخموری عاد پر جو ہود کی قوم تھی برہنہ دیکھا جس پر سام اور یافث نے اس پر کپڑا ڈھانکا 18 تا 23 پھر درس 24 میں ہے کہ جب نوح ( علیہ السلام) اپنی مے کے نشے سے ہوش میں آیا تو جو اس کے چھوٹے بیٹے نے اس کے ساتھ کیا تھا اسے معلوم کیا۔ 25 تب وہ بولا کہ کنعان ملعون ہو وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہوگیا۔ 26 پھر بولا خداوند سام کا خدا مبارک اور کنعان اس کا غلام ہوگا۔ 27 خدا یافث کو پھیلا دے اور وہ سام کے وڈیروں میں رہے اور کنعان اس کا غلام ہو۔ اب غور کرنا چاہیے کہ اگر چھوٹے بیٹے سے مراد جس نے برہنگی دیکھی حام ہے تو اس کے بیٹے کنعان غریب کی کیا خطا ہے جو اس پر لعنت کی گئی اور سام کو حام کا غلام بنایا گیا ؟ اگر کہو نسل حام کے لئے بددعا ہے تو پھر کیا حام کی نسل میں یہی تھا بلکہ کوش اور مصر اور فوط اس کے تین بھائی اور بھی تھے اور اگر چھوٹے بیٹے سے مراد کنعان ہے تو مدعا حاصل ہے۔ اب رہا اس نافرمان کا غرق ہونا تو یہ قرین قیاس ہے اس اختلاف سے صرف یہ بات دکھانی منظور ہے کہ مصنف توریت نے ضرور یہاں کچھ خلط ملط کردیا اور ممکن ہے کہ کنعان دو ہوں ایک حام کا بیٹا دوسرا نوح کا چھوٹا بیٹا جو طوفان میں غرق ہوا۔ شاید اسی بات کو مؤرخ توریت نے خلط کردیا۔ مخالفت سوم واستوت علی الجودی کہ نوح کی کشتی جودی پہاڑ آٹھہری حالانکہ توریت سفر پیدائش 7 باب 4 درس میں ہے اور ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کو ارارات کے پہاڑوں پر کشتی ٹک گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسٹر میتھر جو پادری ہیں اپنی اس کتاب لغات بائبل کے 60۔ 61 صفحہ میں جو اپنی بیوی کے نام سے تصنیف کی ہے یہ کہتے ہیں ارارات یہ سرزمین ملک آرمینہ کا ایک صوبہ ہے لیکن ملک کے کون سے پہاڑ پر نوح کی کشتی ٹکی معلوم نہیں ہے۔ سکندر کے دنوں میں بروسس نے ٹھہرایا کہ جبال جودی جو کردستان کے پہاڑوں میں اور آرمینہ کے دکھن طرف ہے وہی پہاڑ ہے اور اس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ کشتی کے ٹکڑے چوٹی پر اب تک موجود ہیں۔ ایک خانقاہ بھی اس جگہ پر تعمیر ہوئی جو کشتی کی خانقاہ کے نام سے نامزد تھی۔ یہ خانقاہ 776 ء میں بجلی سے نیست ہوئی لیکن اتر طرف ایک اور پہاڑ ہے جس کو اکثر عالم ٹھیک سمجھتے ہیں۔ ولایتی اسے ارارات آرمینی میں سیس ترک اگر ی داغ یا بھاری پہاڑ اور فارسی کوہ نوح انتہیٰ ۔ ولیم پنک اپنے جغرافیہ میں کہتا ہے کہ شہر ایروان جو کبھی آرمینہ کا پائے تخت تھا اور بالفعل اس کا قصبہ ہے اس کے پاس کوہ ارارات واقع ہے جس پر کشتی ٹھہری تھی۔ صاحب مراصد کہتے ہیں الجودی بیامشددۃ حبل مطل علی جزیرۃ ابن عمر فی شرقی دجلۃ من اعمال الموصل استوت علیہ سفینۃ نوح لما نضب المائ۔ ان اقوال سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ کوہ ارارات اور کوہ جودی کا سلسلہ ملتا ہے۔ پس توریت کے بیان کو صحیح تسلیم کرلیا جاوے تو یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ ملک ارارات آرمینہ کا ایک صوبہ ہے جس کے پہاڑوں کا سلسلہ جارجیہ یعنی کردستان کے پہاڑوں سے آملتا ہے اس کی انتہا اور اس کی ابتداء کا موقع جودی پہاڑ ہے۔ اس خاص جگہ کا نام نہ لیا تو سعا کوہ ارارات کہہ دیا۔ قرآن نے اس کا ٹھیک موقع بتلا دیا پس جو صاحب ارارات کے ان پہاڑوں کو لحاظ کرتے ہیں جو جودی سے فاصلہ پر واقع ہیں وہ دونوں بیانوں میں تفاوت سمجھتے ہیں ورنہ دراصل تفاوت نہیں۔ فوائد (1) طوفان نوح کی بابت دو قول ہیں بعض کہتے ہیں کہ صرف آرمینہ اور کردستان وغیرہ ان ملکوں میں آیا تھا کہ جہاں وہ بت پرست قومیں آباد تھیں جن کے لئے نوح بھیجے گئے تھے اور اس عہد میں زیادہ تر آباد یہی ملک تھے گویا ان پر طوفان آنا تمام جہان پر آنا ہے۔ اکثر علمائِ اہل اسلام و اہل کتاب تمام دنیا پر طوفان آنے کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پھر دنیا میں صرف حضرت نوح (علیہ السلام) سے نسل جاری ہوئی جس کی بابت خدا نے وعدہ کرلیا ہے کہ پھر کبھی میں دنیا کو اس طرح ہلاک نہ کروں گا (پیدائش باب 9 درس 9) (2) نوح کی کشتی کی بابت قرآن میں صرف اسی قدر ہے اصنع الفلک باعیننا ووحینا جس کا یہ مطلب کہ نوح نے الہامِ الٰہی سے ایسی کشتی بنائی کہ جس میں اس کے تینوں بیٹے اور ان کی بیویاں اور اسی یا کم زیادہ ایماندار اور ہر جانور کا جوڑا نر و مادہ آسکتا تھا مگر توریت میں ہے کہ اس کی لمبائی تین سو ہاتھ اور چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے تین درجہ اور اس میں روشندان اور دروازے اور کھڑکیاں اور کوٹھڑیاں تھیں اور اندر باہر رال لگائی گئی تھی اس کو خشکی میں بنتے دیکھ کر کافر ہنستے تھے کہ نوح سچ مچ دیوانہ ہے جس پر انہوں نے فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم تم پر اسی طرح ہنسیں گے۔ طوفان کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آسمان سے بھی بیشمار مینہ برسا اور زمین سے بھی جا بجا چشموں کی طرح پانی پھوٹ کر ابلنے لگا۔ بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھا کہ جو بلند سے بلند پہاڑ تھے ان پر بھی پندرہ ہاتھ پانی بڑھ گیا۔ چالیس دن یا کم زیادہ مدت تک یہ حال رہا کشتی پانیوں پر پہاڑ جیسی موجوں میں تیرتی پھرتی تھی۔ پھر خدا نے رحمت کی۔ آسمان کا پانی بند ہوا زمین کا زمین میں پیوست ہوگیا نوح کشتی سے اتر کر ملک آرمینہ میں ایک جگہ آرہے جہاں ایک گائوں ارگوری نام تھا جو 1840 ء میں اس پہاڑ کی آتش فشانی سے غارت ہوگیا۔ پہلے زلزلہ آیا اور لال دھواں نکلا پھر میلوں تک بڑے بڑے پتھر پہاڑ سے جا کر گرتے تھے۔
Top