Tafseer-e-Haqqani - Ar-Ra'd : 28
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَتَطْمَئِنُّ : اور اطمینان پاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : جن کے دل بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے اَلَا : یاد رکھو بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے تَطْمَئِنُّ : اطمینان پاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع)
اس کو اپنے تک پہنچنے کا رستہ دکھاتا ہے ان کو جو ایمان لائے اور ان کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے۔ سن رکھو دلوں کو چین تو اللہ ہی کی یاد سے ہوتا ہے۔
ترکیب : الذین آمنوا مبتداء طوبٰی لہم جملہ خبر وحسن مآب جمہور کے نزدیک نون کا ضمہ مآب کی طرف اضافت ہے۔ معطوف ہے طوبیٰ پر وحسن بالفتح بھی پڑھا گیا ہے۔ طوبیٰ پر معطوف بنا کے اور اس کو جعل کا مفعول مان کر ولوان کا جواب محذوف ما آمنوا ان لو یشاء اللّٰہ مفعول لم یایئسبمعنی افلم یتبین لہدی الناس لوکا جواب تصیبہم کا فاعل قارعۃ واہیۃ تفرعہم او تحل کی ضمیر قارعۃ کی طرف پھرتی ہے وقیل للخطاب۔ تفسیر : اہل مکہ بار بار وہی شبہ کرتے تھے کہ کوئی معجزہ کیوں آنحضرت ﷺ ہمارے کہنے کے موافق ظاہر نہیں کرتے۔ ویقولون الخ اس کا جواب اگرچہ پہلے بھی دیا تھا مگر چونکہ انہوں نے پھر وہی سوال کیا تھا اس کا یہاں اور عمدہ اسلوب سے جواب دیا۔ اول یہ کہ ان اللّٰہ یضل من یشاء الخ ہدایت و گمراہی اس کی طرف سے ہے معجزہ دیکھنے سے کیا ازلی گمراہ ہدایت پر آجاتے ہیں بلکہ جو ازلی نیک ہیں من اناب خدا کی طرف رجوع کرنے والے وہی ہدایت پاتے ہیں سو ان کو ظاہری معجزہ کی کچھ بھی ضرورت نہیں۔ ان کے لئے ایک باطنی معجزہ ہر وقت موجود ہے۔ وہ کیا کہ تطمئن قلوبہم کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سننے سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ گویا ان کے چشم باطن پیغمبر کے فرمودوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں۔ کوئی کھٹکا اور خطرہ ان کے دل میں باقی نہیں رہتا اور یہ اس لئے کہ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب اللہ تعالیٰ ارواح صافیہ و نفوس طیبہ کا محبوب حقیقی ہے اور تمام منازل کا منتہی وہی ہے۔ اسی کی یاد سے روح کو قرار آتا ہے جس کی صحبت کا یہ اثر ہے پھر یہ کیا کم معجزہ ہے۔ اس کے بعد ان ہدایات یافتوں کا مرتبہ بیان فرماتا ہے کہ ان کے لئے خوشی ہے۔ بعض کہتے ہیں طوبیٰ سے مراد وہ درخت ہے جو جنت میں ہے اور اچھا ٹھکانا ہے یعنی جنت۔ دوم یہ کہ آنحضرت ﷺ کچھ دنیا میں نئے نبی نہیں آئے ہیں جو بات بات پر معجزات طلب ہوتے ہیں۔ پہلے انبیاء کیا ہر وقت منکروں کے کہنے سے معجزہ دکھایا کرتے تھے۔ یہ بھی کبھی ہوگیا ہوگیا ورنہ مقصود اصلی تو ان کو پیغامِ الٰہی پہنچا دینا ہے۔ لتتلوا اعلیہم الخ جو وہ اس کی رحمت کا انکار کر رہے ہیں (مکہ کے مشرک لفظ رحمن سے بھی چونکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے وہ کون ہے) حقیقت میں کسی شاہی معزز ایلچی سے بار بار ہر کہ و مہ کا سند طلب کرنا گویا ایک تمسخر کرنا ہے۔ اسی طرح سر دفتر انبیاء سے بار بار صداقت کے لیے معجزہ مانگنا حمق ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں تو ان سے اپنا اصلی منشاء ظاہر کر دے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے جس پر میرا بھروسہ ہے اور جس کے پاس جانا ہے۔ سوم اگر ان کے کہنے سے قرآن میں یہ بھی اثر ہو کہ مکہ کے پہاڑ ٹل جاویں ‘ زمین کشادہ ہوجاوے زمین میں سے چشمہ بھی پھوٹ نکلیں ‘ مردہ بھی زندہ ہو کر ان سے وہاں کا حال کہہ دیں (مکہ کے چند کافروں نے آنحضرت ﷺ سے یہ استدعا کی تھی) تو پھر کیا وہ مانیں گے ؟ اس میں بھی صدہا وہم کریں گے۔ یہ سب باتیں ہم کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اطمینان دیتا ہے کہ کہیں تم دل میں ان باتوں کی آرزو نہ کرنا کیونکہ تم جانتے ہو اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ اس کے بعد کفار مکہ سے ان کی سرکشی کی سزا میں ان پر مصیبت نازل ہونے کا وعدہ کرتا ہے کہ ایک نہ ایک بلا ان پر پڑتی رہے گی یا ان کے دروازوں پر آپڑے گی یعنی قریب الوقوع ہوگی وعدہ ٔ 1 ؎ الٰہی آنے تک یعنی فتح مکہ تک سو ایسا ہی ہوا۔ 1 ؎ یا یہ معنی کہ فتح مکہ کے لئے آپ ان کے گھروں کے پاس آٹھہریں جیسا کہ فتح مکہ کے روز ٹھہرے تھے۔ 12 منہ
Top