بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : ایک کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتُخْرِجَ : تاکہ تم نکالو النَّاسَ : لوگ مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَي النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّھِمْ : ان کا رب اِلٰي : طرف صِرَاطِ : راستہ الْعَزِيْزِ : زبردست الْحَمِيْدِ : خوبیوں والا
(یہ) ایک کتاب ہے کہ جس کو ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے رب کی اجازت سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاویں اس خدائے زبردست ‘ ستودہ صفات کے رستہ کی طرف
ترکیب : کتاب موصوف انزلناہ الخ صفت مجموعہ خبر ہے مبتدا مخدوف ھذا یا الرا کی باذن ربہم موضع نصب میں ہے ای ماذو قالھم الی صراط بدل ہے الی النور سے باعادۃ حرف الجر اللہ مجرور ہے الحمید سے بدل ہو کر تفسیر : یہ سورة بھی مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے اخیر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا مناجات کا بھی اس خوبی کے ساتھ ذکر ہے کہ جس سے قدیم زمانہ کے خدا پرست لوگوں کا اپنے رب کے ساتھ عجز و نیاز اور سچا توکل ان لوگوں کے دلوں پر کہ جن پر بت پرستی یا الحاد کا دھبہ نہیں لگا ‘ عجب اثر پیدا کرتا ہے۔ اس لئے اس سورة کا نام سورة ابراہیم ہے۔ اس سورة میں بھی بیشتر اصول مذہب کا ثبوت ہے ایک نئے ڈھنگ سے آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کے زمانہ میں دنیا بھر میں کوئی بھی فرقہ خدا پرست نہ تھا۔ اہل کتاب میں سے یہود کی ابتری تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) ان کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ان کو بھی نہ مانا بلکہ آمادہ فساد و جنگ وجدال ہوگئے اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے عہد تک اور بھی بگڑ گئے تھے۔ رہے عیسائی سو تین سو برس کے بعد تو ان کے مذہب میں یہاں تک تثلیث اور الوہیت مسیح اور صلیب پرستی نے رواج پایا تھا کہ بت پرست قومیں بھی ان سے پیچھے رہ گئی تھیں، عرب اور روم اور ہندو ایران و چین کی بت پرستی اور آتش و عناصر پرستی کا تو کچھ ٹھکانا ہی نہ تھا تمام عالم تاریکی کفر و الحادو بت پرستی میں چھپا ہوا تھا ایسے زمانہ میں اللہ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان ہوا کہ اس نے مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک آفتاب ہدایت جلوہ گر کیا تاکہ لوگوں کو ان اندھیریوں میں سے نکال کر روشنی میں لاوے وہ روشنی کیا ہے اللہ عزیز حمید کا سیدھا رستہ کون عزیز وحمید ؟ وہ اللہ کہ جس نے آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو پیدا کیا اور جس کی ان پر بادشاہی ہے۔ اب اس آفتاب جہانتاب کے طلوع ہونے پر بھی جو تاریکی میں رہنا پسند کرتے ہیں تو دراصل یہ ان کی تقدیر کی بدبختی ہے یعنی عذاب شدید اور یہ بات ان کو اس وجہ سے ہے کہ وہ شہوات و لذات دنیائے دنی پر غش ہیں اس نادان بچہ کی طرح سے (جو ماں کے پیٹ ہی کو ایک عالم پر فضا اور وہاں کے خون حیض کو عمدہ غذا سمجھتا ہے) اس عالم کی زندگی کو زندگی اور یہیں کے مال و کامرانی کو عیش جاودانی سمجھتے ہیں اس لئے اس عالم نورانی کے رستہ سے باز رہتے ہیں اور اپنے رسوم و عادات سے باہر ہونا برا سمجھتے ہیں بلکہ یہ ظلمت پسند اس آفتاب ہدایت کو شکوک و شبہات کے گردوغبار سے چھپانا چاہتے ہیں یعنی دین حق میں کجی نکال کر لوگوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں پھر ایسے لوگوں کے نہایت در نہایت گمراہ اور بدبخت ہونے میں کیا کلام ہے۔ پھر نہ صرف یہی احسان کیا کہ کتاب اور رسول ان کے پاس بھیجا بلکہ رسول کو ان کا ہمزبان کیا اگر کتاب اور رسول کی اور زبان ہوتی تو عرب کو دقت ہوتی جو اور تمام دنیا کے ہادی بنائے گئے ہیں الٹے اس نعمت کو مکہ کے کافر بےقدر جان کر قرآن کی قدر و منزلت نہ کرتے پھر اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اس بات کی مصلحت و حکمت وہی جانتا ہے۔
Top