Tafseer-e-Haqqani - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے ان کو نہیں دیکھا کہ جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلہ میں ناشکری کی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں لے اترے
ترکیب : کفروا مفعول ثانی بدل کا جہنم بدل ہے دارالبوار سے۔ یقیموا و ینفقوا امر کے صیغے بحذف لام ای لیقیموا و لینفقوا کیونکہ قل اس پر دال ہے سرًا و علانیۃً مصدر ہیں موقع حال میں دائبیں حال الشمس والقمر سے ل مضاف ماموصولہ مضاف الیہ جملہ مفعول انکم من بقول اخفش زائد ہے۔ ھذا موصوف البلد صفت یا ھذا اسم اشارہ البلد مشارٌا لبہ یہ سب مفعول اول اجعل کا آتنا اس کا مفعول ثانی۔ ان نعبد ای عن نعبد من عصانی شرط فانک جواب والعائد محذوف ای لہ من ذریتی میں من زائدہ بواد موصوف عند بیتک صفت یا بدل علی الکبر حال ہے وہب لی سے۔ تفسیر : یہاں کلمہ خبیثہ کے پھل بیان فرماتا ہے الم تر سے لے کر الی النار تک کہ اللہ نے تو ان کو طرح طرح کی نعمتیں دی تھیں۔ انہوں نے بجائے شکر گزاری کے کفر کیا یعنی ناقدری کی اور آپ تو ڈوبے ہی تھے اپنی قوم کو بھی گمراہ کرکے جہنم میں لے گئے۔ اس میں مکہ کے کفار سرداروں کی طرف اشارہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ناشکری ہے کہ منعم حقیقی کے ساتھ اور لوگوں کو شریک سمجھ لیا اور ان کو اس کی خدائی کا حصہ دار بنا دیا۔ پھر ان کے لئے یہیں چند روز عیش و آرام کرنے کی مہلت ہے ورنہ پھر تو جہنم ہی ٹھکانا ہے۔ ایمانداروں کو ان کے برخلاف شکرگزاری کی تعلیم کرتا ہے۔ قل لعبادی سے ولاخلال تک اور وہ شکر گزاری کیا ہے ؟ نماز پڑھا کریں جس میں ہاتھ پائوں سے زبان سے ‘ دل سے اس کی تعظیم و ستائش ہے اور ہمارے دیے میں سے دیا کریں فقیر کو ‘ مسکین کو ‘ اپنے کو ‘ بیگانے کو ‘ ظاہر کر کے چھپا کے اور اس میں دیر نہ کریں۔ یہی دار عمل ہے جو کرنا ہے کرلیں ورنہ پھر ایک دن آنے والا ہے کہ جس میں نہ اعمال صالحہ خریدے جاویں گے نہ کوئی دوستی محبت میں نیک عمل دے گا۔ پھر ان ناشکروں کو بتلاتا ہے کہ اللّٰہ الذی الخ اللہ منعم حقیقی تو وہ ہے کہ جس نے تمہارے لئے یہ کام کئے ہیں (1) آسمانوں اور زمین کو تمہارے فائدے کے لئے بنایا۔ (2) بادلوں سے مینہ برسایا (3) پھر اس پانی سے زمین میں سے تمہارے لئے طرح طرح کی چیزیں پیدا کیں۔ (4) پانی پر سفر کرنے کے لئے تمہیں کشتی بنانا سکھایا (اسی طرح ریل آگبوٹ دخانی کلیں ہزاروں باتیں بندوں کو سکھائیں کہ جن سے آرام پاتے ہیں) (5) نہروں کو تمہارے بس میں کردیا جدھر چاہتے ہو لے جاتے ہو اور پانی سے طرح طرح کے کام لیتے ہو پن چکی اور کیا کیا (6) چاند اور سورج کو تمہارے لئے ایک خاص چال سے چلایا اگر اس میں خلاف ہو تو انتظام عالم بگڑ جاوے (7) رات دن کو تمہارے لئے مسخر کیا اپنے وقت پر رات دن آتے ہیں جس سے دنیا کے تمام کاروبار ٹھیک ٹھیک ہوتے ہیں (8) ان پر کیا حصر ہے تم نے جو کچھ مانگا اس میں سے کچھ نہ کچھ تمہیں دیا۔ آنکھ ناک بےقیمت اعضاء بےمانگے دیے اور پھر ہر موقع پر ہر اڑی میں تمہاری مدد اور مشکل کشائی کرتے ہیں۔ لاکھوں نعمتیں ہیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے۔ پھر بتلاؤ جن کو تم نے اس کا شریک بنایا ہے ان میں سے کون سی چیز انہوں نے پیدا کی ہے پھر جو تم اللہ کے ساتھ ان کو ملاتے ہو یا اللہ کے منکر ہو بڑے ظالم اور بڑے ناشکر ہو ان الانسان لظلوم کفار۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شکر گزار بندے کا ذکر کرتا ہے اور ان کی وہ دعائیں بھی کہ جن سے نیاز کی بو آتی ہے تاکہ مکہ اور اس کے اطراف کے ناشکر کفار کو جو ابراہیمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ معلوم ہو کہ تم انہیں کی دعا کی برکت سے مکہ میں امن سے بیٹھے ہوئے ہو۔ یہاں کوئی مار دھاڑ نہیں کرتا۔ انہی کی دعا سے اس خشک ملک میں میوے اور تازہ ترکاریاں کھاتے ہو ‘ انہی کی برکت سے دنیا بھر کے لوگ تمہاری طرف آتے ہیں پھر تم کیسی نااہل اولاد ہو جو اس کی ناشکری اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کر رہے ہو۔
Top