Tafseer-e-Haqqani - Ibrahim : 47
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍؕ
فَلَا تَحْسَبَنَّ : پس تو ہرگز خیال نہ کر اللّٰهَ : اللہ مُخْلِفَ : خلاف کرے گا وَعْدِهٖ : اپنا وعدہ رُسُلَهٗ : اپنے رسول اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
پس (اے نبی ! ) کبھی خیال بھی نہ کرنا کہ اللہ نے جو وعدہ اپنے رسولوں سے کیا ہے اس کے خلاف کرے گا بیشک اللہ زبردست بدلہ لینے والا ہے۔
ترکیب : یوم انتقام کا ظرف ہے یا اذکر محذوف کا مفعول۔ والسمٰوٰت تقدیرہ غیرالسمٰوٰت۔ سرابیلہم جملہ حال ہے المجرمین سے و تغشی بھی حال ہے لیجزی ای فعلنا ذلک للجزاء اور ممکن ہے کہ یہ برزوا سے متعلق ہو۔ ولینذروابہ اے ھذا القرآن بلاغ وانذر للناس لام بلاغ سے متعلق ہے اور ممکن ہے کہ انزل محذوف سے ولیذکر معطوف ہے ولینذروا پر۔ تفسیر : یہ اس انتقام کے دن کی کیفیت بیان فرماتا ہے یوم تبدل الارض الخ کہ اس دن یہ زمین و آسمان بدل جاویں گے۔ صحیحین میں حدیث ہے کہ قیامت کو ایک سفید ستھری زمین پر لوگ جمع کئے جاویں گے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں آسمانوں و زمین کی صفات میں تغیر وتبدل ہوگا۔ یہ زمین زیادہ وسیع کردی جائے گی۔ بعض کہتے ہیں ذات میں تغیر و تبدل ہوگا یعنی اور نئی زمین اور نیا آسمان ہوگا اور یہی قوی ہے کیونکہ وہ عالم اس عالم کے غیر ہے جیسا کہ اس کی تشریح سورة بقر کی تفسیر میں ہم کرچکے ہیں۔ مکاشفات یوحنا حواری سے بھی کہ جس کو عیسائی الہامی سمجھتے ہیں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے پھر اس دن کی کیفیت بیان فرماتا ہے کہ سب قبروں سے نکل کر خدائے قہار کے سامنے آجاویں گے اور گناہگار زنجیروں میں جکڑے ہوئے نظر آویں گے۔ انسان کے ملکات رذیلہ اور بری خصلتیں اس کے ہاتھ پائوں کی زنجیریں بن جائیں گی اور ان کے سرابیل (جمع سر بال قمیص یعنی کرتا) کرتے قطران (وھوشیء یتجلب من شجر یسمی الابہل فیطبخ، و یطلٰی بہ الابل الجرب یتسارع فیہ اشتعال النار وھواسود اللون منتن الریح) یعنی رال کے ہوں گے جن میں جلدی آگ بھڑک اٹھے گی اور آگ کا شعلہ ان کے مونہوں کو ڈھانک لے گا یہ بھی انسان کے اعمالِ بد ہوں گے جو لباس کی طرح دنیا میں اس کو ڈھانکے رہتے ہیں جن میں آتشی شعلہ قبول کرنے کی زیادہ قابلیت ہے اور یہ آسمان و زمین کا تبدل اور عدالتِ الٰہی کا قائم ہونا اس لئے ہوگا کہ لیجزی اللّٰہ کل نفس ما کسبت ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ ملے۔ یہ وجود قیامت پر ایک برہان قاطع ہے کس لئے کہ اس کی عدالت کا مقتضٰی یہی ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیوے اور دار دنیا اس امر کے لئے کافی نہیں۔ اول تو یہ دارعمل ہے نہ کہ دار جزائ۔ دوم نہ یہاں سزا کامل ہے نہ جزاء کامل ہے کس لئے کہ کون سے نعمائِ دنیا ہیں جن میں کچھ نہ کچھ تلخی نہ ملی ہو اور کون سے شدائد ہیں کہ جہاں ذرا ظہور راحت نہ ہو اس لئے کوئی اور مقام اس فیصلہ کے لئے مقرر ہونا چاہیے وہ روز قیامت ہے اور کوئی یہ نہ خیال کرے کہ اس روز بیشمار مخلوق ہوگی ان کے حساب کے لئے غیرمتناہی زمانہ چاہیے پھر اس عرصہ میں بہت سے جزاء و سزا سے بچ جاویں گے کیونکہ ان اللّٰہ سریع الحساب وہ طرفۃ العین میں بلکہ ایک وقت میں سب سے جلد حساب لے گا اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل دنیا اپنے ناز و نعم میں مست ہو کر اس پیش آنے والے دن کو دور نہ سمجھیں اس کی عمر کا انجن ہر ذرہ منازل طے کرتا ہوا جا رہا ہے جلد وہ مقام آنے والا ہے چونکہ عالم آخرت کے یہ اسرار ایسے نہیں کہ ان کو کوئی بغیر مدد الہام عقل سے دریافت کرسکے اس لئے فرما دیا ھذا بلاغ للناس ولینذروا بہ کہ قرآن لوگوں کو ان کے نیک و بد کی خبر دینے والا اور دار آخرت کی خرابیوں سے خوف دلانے والا ہے اور نیز انسان کی سعادت کا رہبر کامل ہے اور نیز اتمام حجت ہے اس پر بھی جو کوئی نہ مانے تو اپنا سر کھائے۔ انسان کی دو قوت ہیں ایک نظریہ جس سے علم و ادراک صحیح صحیح حاصل کرسکتا ہے منجملہ اس کے خدا کی ذات وصفات پر ایمان ہے اور نیز فرشتوں ‘ رسولوں اور ان کی فرمودہ پر۔ دوسری قوت عملیہ ہے کہ جس سے نیک کام کرسکتا ہے ان دونوں قوتوں کی اصلاح سعادت ہے۔ اس لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے ہیں۔ پس اول کی طرف جو اصل الاصول ہے بلاغ للناس ولینذروا بہ ولیعلموا انما ھو الٰہ واحد میں اشارہ ہے کس لئے کہ ایمان اور علم ہی عمل کی بنیاد ہے اور دوسرے کی طرف ولیذکر اولو الالباب میں کس لئے کہ یہ سمجھنے سے مراد توبہ کرنا ‘ نیک کاموں کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اللھم وفقنا للحسنات،۔ اواخر ربیع الاول 1306 ء میں بوقت صبح بمقام دہلی یہ حصہ تمام ہوا۔
Top