Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 5
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا١ۚ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۪
وَالْاَنْعَامَ : اور چوپائے خَلَقَهَا : اس نے ان کو پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں دِفْءٌ : گرم سامان وَّمَنَافِعُ : اور فائدے (جمع) وَمِنْهَا : ان میں سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور چارپایوں کو بھی اسی نے بنایا تمہارے لیے ان میں جڑاول ہے (1)
والانعام خلقہا الیٰ قولہ ان ربکم لرؤف رحیم یہ تیسری قسم ہے۔ اس میں انعام کے پیدا کرنے سے اور ان سے انسان کے لیے فوائد حاصل ہونے سے استدلال کرتا ہے۔ الانعام بھیڑ بکری، اونٹ گائے کو کہتے ہیں۔ اول تو ان کی پیدائش میں غور کیجئے کہ ہر ایک کو اس کے مناسب حال پر بنایا۔ اگر اونٹ کی لمبی گردن نہ ہوتی تو بوجھ اٹھا کر اس سے اٹھا نہ جاتا۔ علی ہذا القیاس پھر جو ان سے انسان کو منافع اور فائدے پہنچتے ہیں ان میں فکر کیجئے۔ پہلا ضروری فائدہ تو ان کے بالوں سے وہ کپڑے تیار ہوتے ہیں کہ جن سے سردی دفع ہوتی ہے۔ اونٹ اور بھیڑ بکری کی پشم اس میں بہت مستعمل ہوتی ہے۔ دوم اور بہت سے فائدے ہیں ومنافع۔ سوم بعض ان میں سے کھائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری فائدے ہیں اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔ ولکم فیہا جمال الخ کہ جب وہ شام کو جنگلوں سے چر کر گھروں میں آتے ہیں اور ان کے مالک ان گلوں اور ریوڑوں کے انتظار میں گائوں کے کنارے نکل کر بیٹھتے ہیں تو پھر اس وقت ان کو جو کچھ رونق اور زینت ہوتی ہے انہیں کے دل سے پوچھنی چاہیے اسی طرح جب صبح کو چرنے جاتے اور غل و شور مچاتے ہیں تو وہ بھی عجب کیفیت ہوتی ہے۔ یہ بھی خدا ہی کا کام ہے کہ ان جانوروں کو تمہارے قابو میں کردیا ورنہ زور و طاقت میں وہ بھی کچھ کم نہیں۔ اس کے سوا ان پر بوجھ لاد کر ایسے دور دراز شہروں میں لے جاتے ہو کہ اگر خود اٹھا کرلے جاتے تو حقیقت معلوم ہوتی یہ سب باتیں اس کی رحمت سے ہیں ان ربکم لرؤف رحیم۔ اس پر بھی عذاب کی جلدی کرتے ہو۔ (1 یعنی ان کی کھال اور بالوں سے جاڑے کے کپڑے بناتے ہو۔ دِف معناہ السخانۃ وقال ابن عباس ؓ دف الثیاب ای من الاسیۃ والاردیۃ۔ حقانی)
Top