Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 98
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
فَاِذَا : پس جب قَرَاْتَ : تم پڑھو الْقُرْاٰنَ : قرآن فَاسْتَعِذْ : تو پناہ لو بِاللّٰهِ : اللہ کی مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان الرَّجِيْمِ : مردود
پھر (اے نبی ! ) جب آپ قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو
ترکیب : فاذا قرأت ای اردت قرأتہ شرط فاستعذ جواب۔ سلطانہ ای الشیطان مبتدا علی الذین خبر یتولونہ ای الشیطان والذین معطوف ہے الذین پر مجرور ہے علی کا بہ ای اللہ ای سلطان الشیطان علی الذین یشرکون باللہ۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا من عمل صالحا الخ اور نیک کاموں میں قرآن مجید کا پڑھنا ایک اعلیٰ درجہ کا کام ہے اور انسان جب قرآن پڑھتا ہے تو اس کی قوت ملکیہ کو غلبہ اور بہیمیہ کو (جو شیطان ابلیس یا اس کی ذریت کا مرکب ہے) کمزوری حاصل ہوتی ہے تب شیطان اس کی اعانت کے لیے اس فعل میں تشویشات ڈالتا ہے اس لیے اس کے دفعہ کے لیے خدا تعالیٰ سے پناہ لینی چاہیے۔ منجملہ تشویشات شیطانیہ کے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو اس کے نیک کام پر غرور و خودبینی کی طرف ابھارتا ہے اس لیے فرمایا فاذا قرأت القرآن الخ آیت میں گو خطاب آنحضرت ﷺ کی طرف ہے مگر مراد سب لوگ ہیں۔ کس لیے کہ جب ایسے بڑے جلیل القدر انبیاء کو پناہ مانگنے کا حکم ہوا تو اوروں کو بدرجہ اولیٰ حکم ہے اور اسی طرح جب قرأتِ قرآن کے وقت استعاذہ 1 ؎ کا حکم ہے حالانکہ قرآن کی حفاظت کا بارگاہِ الٰہی نے ذمہ بھی لے لیا ہے بقولہ لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ وبقولہ انانحن نزلنا الذکروانالہ لحافظون تو اور کاموں میں بھی استعاذہ بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے۔ جمہور کے نزدیک یہ حکم ندب کے لیے ہے خواہ قرآن نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر تو اول میں اعوذباللہ من الشیطان الرجیم کہنا مندوب یعنی بہتر اور عمدہ بات ہے مگر عطاء ظاہر الفاظ پر خیال کر کے اس حکم کو وجوب پر محمول کرتے ہیں یعنی استعاذہ واجب ہے خصوصاً جبکہ قرآن نماز میں پڑھا جائے۔ شافعیہ کہتے ہیں چونکہ نماز کی ہر رکعت میں قرآن کا پڑھنا ایک مستقل پڑھائی ہے اس لیے ہر رکعت میں جبکہ قرآن پڑھا جائے اعوذ کہنا چاہیے مگر حنفیہ وغیر ہم فرماتے ہیں کہ سب رکعات کا حکم ایک ہے۔ متعدد قرأت نہیں بلکہ یہ ایک ہی قرأـت ہے سلام پھیرنے تک اس لیے ایک بار اعوذ کہنا اول میں کافی ہے فاستعذ کیتعقیب کے لیے ہے اس لیے ظاہری معنی پر خیال کر کے اہل علم کی ایک جماعت جن میں ابوہریرہ ؓ اور امام مالک (رح) اور دائود ظاہری (رح) وغیرہ ہیں یہ کہتے ہے کہ قرأت کے بعد اعوذ کہنی چاہیے تاکہ جو اس کو اس نیک کام سے عجب پیدا ہو دور ہوجائے مگر جمہور اس کے برخلاف ہیں کیونکہ محاورہ کے موافق افعال سے مراد ان افعال کا ارادہ کرنا ہوتا ہے جیسا کہ آیا ہے اذا اکلت فقل بسم اللہ واذاقمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم جس سے یہ مراد نہیں کہ جب کھا چکو تب بسم اللہ کہو بلکہ جب کھانے کا قصد کرو پہلے بسم اللہ کہو اسی طرح یہاں حکم ہے اور اسی کو عقل چاہتی ہے۔ اس حکم سے یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ شیطان کو بھی انسانی کاموں میں قدرت تصرف ہے نیک و بد سب پر اس کا زور چلتا ہے اس شبہ کو اس قول سے دفع کردیا انہ لیس لہ سلطان الخ کہ ایمانداروں اور خدا پر بھروسہ کرنے والوں پر اس کا کچھ بھی زور نہیں چلتا کبھی بشریت سے جو وسوسہ پیدا ہر تا ہے دفع ہوجاتا ہے اور اس پر جمتے نہیں اور جو گناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے اس کے وسوسہ سے تو اس کے بعد وہ توبہ و استغفار کر کے اس کو دھو ڈالتے ہیں۔ ہاں اس کا زور تو انہیں پر چلتا ہے جو اس کو دوست بنائے رکھتے ہیں یعنی قوت بہیمیہ اور لذائذِ شہوانیہ میں گرفتار ہیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں۔ 1 ؎ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہنا۔
Top