بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے کہ وہ جس نے راتوں رات اپنے بندہ (محمد) کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی کہ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تاکہ اس کو ہم اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں سننے والا دیکھنے والا وہی خدا ہے۔
ترکیب : سبحٰن اسم ہے بمعنی تسبیح بمعنی التنزیہ اور کبھی علم بھی ہو کر مستعمل ہوتا ہے تب اضافۃ سے منقطع ہوگا اور غیرمنصرف ہوگا۔ قدقلت لماجاء فی فخرہ، سبحان من علقمۃ الفاخر۔ اور اس کا نصب فعل محذوف سے ہے جو متروک الاظہار ہے۔ اسرٰی و سرٰی ایک معنی میں ہے لیلاً منصوب ہے اسرٰی کا مفعول فیہ ہو کر حولہ منصوب ہے مفعول بہ یافیہ ہو کر بارکنا کا لنری اسریٰ سے متعلق ہے۔ تفسیر : چونکہ پہلی دونوں سورتوں کے خاتمہ پر آنحضرت ﷺ کو عبادت و تسبیح اور اس پر صبر یعنی اس کے تکالیف برداشت کرنے اور اس پر مدافعت کا حکم دیا گیا تھا جس کی آپ نے بخوبی تعمیل کی اب اس سورة کی ابتدا میں اس عبادت و صبر کا نیک نتیجہ ظاہر فرماتا ہے وہ کیا ؟ حضرت کو معراج ہونا جس میں صدہا اسرار غیب اور آسمانوں اور جنت و دوزخ کے حالات دکھائے گئے یہ امر نبوت کی اعلیٰ ترقی ہے۔ جملہ مفسرین متفق ہیں کہ عبدہ سے مراد اس جگہ حضرت محمد ﷺ ۔ اسرا رات میں سیر کرانا لے جانا لیکن پھر لیلاً کا لفظ نکرہ کر کے لانا اس لیے ہے کہ تمام رات کی سیر نہ کوئی سمجھ لے بلکہ یہ واقعہ رات کے ایک خاص حصہ میں ہوا تھا۔ وہ یہ کہ مسجد الحرام سے حضرت کو مسجد اقصیٰ 1 ؎ تک لے گئے پھر وہاں سے آسمانوں تک پہنچے۔ مسجد الحرام خانہ کعبہ اور اس کے آس پاس کی جگہ یعنی صحن۔ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ میں خانہ کعبہ کے پاس حجر 2 ؎ کے اندر کچھ بیدار کچھ سوتا تھا کہ جبرئیل میرے پاس براق لائے الخ اور بعض روایات میں ہے کہ اس رات آپ ام ہانی کے گھر میں تھے۔ اس کی تطبیق علماء نے یوں کی ہے کہ ام ہانی کا گھر حرم میں واقع تھا اور یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو روحانی طور پر بھی کئی بار معراج ہوئی ہے۔ اُم ہانی کے گھر سے شاید روحانی معراج ہوئی ہو نہ یہ کہ جس کا یہاں ذکر ہے اور اسی طرح وہ جو بعض اہل علم معراج کو خواب بینی کہتے ہیں غالباً ان کی مراد بھی خواب کی معراج ہوگی نہ یہ کہ جو حالت بیداری میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ ہوئی اور مسجد اقصیٰ تک ایک رات کے کچھ حصہ میں جانا تو اس آیت سے ثابت ہے اور پھر آگے آسمانوں تک احادیث صحیحہ سے جو بحالت مجموعی حد تواتر کو پہنچ گیا ہے اور اسی پر جمہور اہل اسلام کا اتفاق ہے سلف سے خلف تک مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اس کو اقصیٰ بمعنی بعید اس لیے کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ سے یہ اس دور فاصلہ پر ہے کہ پھر اس سے پرے اور کوئی مسجد نہ تھی۔ غرض کوئی وجہ ہو مگر عرب خصوصاً اہل مکہ اس کو مسجد اقصیٰ کہتے تھے اس کے گرد برکت دینے سے مراد یہ ہے کہ پھل پھول کی جگہ میں مسجد اقصیٰ ہے ایسے سرسبز ملک اور محل میں یہ سرسبزی خدا کی عطاکردہ برکت ہے اور اس کے سوا اس کے گرد حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے مزارات اور آثار باقیہ میں جو سراسر برکات ہیں اور یہ سیر کس لیے کرائی کہ خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو اپنے نشان قدرت اور عالم غیب کی چیزیں دکھائے منجملہ ان کے جنت و دوزخ کی چشم دید حالت اور ملائکہ اور عالم قدس کے لوگوں کی کیفیت تاکہ نبوت کے مرتبہ کی تکمیل ہوجائے جو تمام عالم کے نبی کے لیے ضروری تھی۔ سمیع وبصیر اس مقام پر عجب لطف دے رہا ہے۔ بصیر اس عجیب سیر میں حضرت ﷺ کی نگہبانی کے لیے آیا ہے مسافر کو کہتے ہیں اللہ نگہبان اور سمیع منکروں کے بیہودہ سوالات پر تہدید کے لیے آیا۔ آسمان اور بہشت و دوزخ کی سیر اور وہاں انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کی کیفت اور نماز پنجگانہ وہاں فرض ہونا احادیث صحیحہ میں مفصلاً مذکور ہے۔ ابحاث : (1) یہ معراج کا واقعہ محققین کے نزدیک ہجرت سے ایک سال پیشتر رجب کے مہینے میں ستائیسویں شب کو ہوا تھا جیسا کہ معالم التنزیل وغیرہ کتب سے ثابت ہے۔ (2) آنحضرت ﷺ نے جب صبح کو اس معراج کی کیفیت بیان فرمائی تو اہل مکہ اور بھی تمسخر کرنے لگے۔ چناچہ قریش کے چند قافلے ملک شام میں تجارت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ قریش مکہ نے آپ سے سوال کیا کہ اگر آپ شباشب بیت المقدس گئے تو ہمارے فلاں فلاں قافلے آپ کو رستہ میں ضرور دکھائی دیے ہوں گے اگر آپ سچے ہیں تو ان کی پوری کیفیت بیان فرمائیے کہ اس رات وہ کہاں تھے اور اہل قافلہ اس وقت کیا کر رہے تھے اور ان میں کیا واقعہ ہوا تھا۔ چناچہ آپ نے ان کی سب مفصل کیفیت بیان کردی اور جب وہ قافلے واپس آئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ فلاں شب تم کہاں تھے اور کیا معاملہ تم میں گزرا تھا انہوں نے وہی بیان کیا جس کی آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی جیسا کہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔ سوال : احادیث میں یہ موجود ہے کہ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے بیت المقدس کے مکانات کا پتا پوچھنا شروع کیا اور آپ جب بتلاتے بتلاتے گھبرا گئے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے لا کر حاضر کردیا۔ اول تو بیت المقدس جو خاص ہیکل سلیمانی سے عبارت ہے بخت ِ نصر کے حادثہ میں گرایا گیا اور پھر جو اس کی تعمیر ہوئی تو اس کو انطاکیہ کے بادشاہ اینٹوکس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پیشتر ہی گرا دیا پھر اس کے بعد جو تعمیر ہوئی وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد تک تمام نہیں ہوئی تھی جس کی سرپرستی ہیرڈوس حاکم شام کرتا تھا جو قیاصرہ روم کا گورنر تھا اس کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیشین گوئی کے موافق حضرت مسیح (علیہ السلام) کے صعود سے تخمیناً چالیس برس بعد روم کے قیصر طیطوس نے بیخ و بنیاد سے گرا دیا اور اس پر ہل چلوا دیے پھر جو کسی نے اس کی تعمیر کا قصد کیا تو نہ کرسکا۔ اس کی بنیادوں میں سے مدتوں تک آگ کے شعلے نکلتے رہے جو یہود پر مسیح کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے قہر الٰہی تھا آخر وہ تعمیر حضرت عمر ؓ کے عہد تک خراب پڑی رہی وہاں خس و خاشاک اور بول و براز پڑا رہتا تھا پھر اس کو عمر ؓ نے تعمیر کیا یہ بات عیسائیوں اور محمدیوں کی تاریخ میں بالاتفاق مانی گئی ہے پس آپ نے نماز وہاں کیونکر پڑھی اور اس کے نشانات لوگوں کے سوال کے موافق کیونکر بیان فرمائے اس عہد کے پیشتر صدہا سال سے ہی اس کو کسی نے نہیں دیکھا تھا وہ اس کے نشانات کیونکر پوچھ سکتے تھے ؟ دوم جو کچھ ہو پھر اس کے حضرت کے روبرو مکہ میں حاضر ہونے کے کیا معنی ؟ معلوم ہوا کہ اسلام ایسی ہی غلط باتوں اور توہمات پر مبنی ہے جن کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا۔ جواب : مسجد اس جگہ کا نام ہے جو وہ عمارات کے گر جانے یا بدل جانے سے نہیں بدلتی گو وہ خاص ہیکل منہدم تھی مگر اس کے آس پاس عیسائیوں نے مکانات تعمیر کر رکھے تھے جن کو خود عیسائی اور عوام ہیکل اور بیت المقدس ہی کہتے تھے جن کو قریش مکہ نے جبکہ وہ اس ملک اور شہر میں تجارت کے لیے آتے جاتے تھے بارہا دیکھا تھا انہیں کو آنحضرت ﷺ نے مطابق سوال کے بتلا دیا۔ رہا اس کا مکہ میں آپ کے سامنے موجود ہوجانا جسے دیکھ دیکھ کر آنحضرت ﷺ قریش کو جواب دیتے اور نشان بتلاتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ ان مکانات کو اٹھا کر ملائکہ مکہ میں لے آئے تھے بلکہ آپ پر انکشاف روحانی ہوا اور تمام عمارت قلبی آنکھوں کے سامنے آگئی آپ تو سیدالمرسلین مؤید بالہام تھے۔ معمولی لوگوں کے سامنے غائب چیزوں کا تصور میں پورا نقشہ کھینچ جاتا ہے وہ چیزیں اس عالم میں آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ پادری صاحب ایسے واہی تباہی شبہات سے جن کے پیش کرنے سے عاقل و اہل علم شرم کرتے ہیں جاہل مسلمانوں کے اعتقاد میں فتور ڈالا کرتے ہیں اور اس کو مشن کی عمدہ کارگزاری سمجھ کر فخر کیا کرتے ہیں شرم شرم۔ (3) جسم عنصری کا تھوڑی سی دیر میں مسجد اقصیٰ پہنچنا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آسمانوں پر جانا اور آسمانوں سے گزر کر عرش تک جانا اور وہاں باوجود اس جسم عنصری کے روحانیات محضہ سے ملنا ‘ جنت و دوزخ دیکھنا عقلاً ممنوع ہے حکماء نے اس کے محال ہونے پر اور آسمان کے خرق و التیام کے محال ہونے پر دلائل قائم کئے ہیں اور نیز کوئی اہل ادیان حقہ یعنی عیسائی ایسی باتوں کا قائل نہیں اسی لیے آج کل کے فلسفی مسلمان بلکہ کچھ اگلے زمانہ کے بھی جن کو معتزلہ کہتے تھے اس معراج کو خواب پر محمول کرتے ہیں۔ عائشہ ؓ اور معاویہ ؓ کے قول سے ان اعتراضات کے بچنے کے لیے۔ جواب جسم عنصری کا ایسی حرکت سریع کرنا خصوصاً جبکہ اس کی عنصریت روحانیت سے بھی لطافت میں بڑھ جائے کچھ بھی محال نہیں۔ آج کل ریل اور تار برقی کی حرکت کو ملاحظہ کرلیجئے اور اسی طرح آسمانوں کا خرق والتیام جن خیالات فاسدہ سے محال ثابت کیا تھا ان کی پوری پوری حکمائِ اسلام نے علم کلام میں قلعی کھول دی ہے اور ثابت کردیا ہے کہ وہ حکمائِ یونان اپنے عقلی ڈھکوسلوں سے زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے جن کے مسائل طبیعات و ہیئت کی آج کل حکمائِ یورپ کیسی خاک اڑا رہے ہیں اور جو کوئی ملحد عیسائی ایسی باتوں کا قائل نہیں تو کیا ہوا۔ پر جو اناجیل و بائبل کو مانتے ہیں ان پر ان باتوں کا تسلیم کرنا ضرور ہے دیکھے انجیل مرقس کے سولہویں باب انیسویں درس میں یہ ہے یعنی مسیح خداوند لوگوں سے کلام کرنے کے بعد آسمان کی طرف چڑھ گیا اور خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ پر جا بیٹھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر چلے گئے اور اسی طرح دوسری کتاب کتاب السلاطین کے دوسرے باب میں مذکور ہے کہ ایلیاء (یعنی حضرت الیاس علیہ السلام) اور الیسع باتیں کرتے جاتے تھے کہ ایک آگ کی گاڑی اور آگ کے گھوڑے نمودار ہوئے اس میں چڑھ کر ایلیا آسمان پر چلا گیا اور اسی طرح قسیس ولیم اسمٹ اپنی کتاب طریق الاولیاء میں حضرت اخنوخ 3 ؎ (علیہ السلام) کا زندہ آسمان پر جانا بیان کرتا ہے اور اہل اسلام تو قاطبۃً اس پر متفق ہیں دس بیس ملحدوں کا کیا ذکر ہے اور عائشہ ؓ اور معاویہ ؓ کی حدیث دوسری معراج کے بارے میں ہے جو حضرت کو اس سے پیشتر خواب میں معلوم ہوئی تھی (جیسا کہ معالم میں ہے) ۔ (4) یہ معراج روحانیت کا کامل غلبہ ہے عبادت و تسبیح کے سبب جس سے روح جسم پر غالب آگئی اور جسمانیت میں سرایت کرگئی اور جسم بھی بمنزلہ روح کے لطیف ہوگیا تھا اور یہ بات اہل کمال پر مخفی نہیں۔ 1 ؎ مسجد اقصیٰ بیت المقدس یہ انبیاء سابقین کا قبلہ ہے یہ مسجد جس کو اہل کتاب ہیکل کہتے ہیں ملک فلسطین کے یروشلم شہر میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تخمیناً پانچ سو برس بعد تعمیر کی تھی اس پر بنی اسرائیل کی شرارت و بدکاری سے کئی بار صدمات آئے ‘ گرائی گئی اور پھر بنی۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں شہزادہ روم طیطس کی گرائی ہوئی مسجد کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ مسجد اسی جگہ کا نام ہے نہ عمارت کا کیونکہ عمارت بدلتی رہتی ہے مسجد نہیں بدلتی مگر اس کے آس پاس عیسائیوں نے مذہبی عمارت تعمیر کر رکھی تھی۔ اس زمانہ میں ان کو بھی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کہتے تھے جن کے نشان آنحضرت ﷺ نے قریش کے پوچھنے پر بیان فرمائے۔ 2 ؎ حجر جس کو آج کل حطیم کہتے ہیں اور حجر کنارہ کو بھی کہتے ہیں یہ گوشہ کعبہ میں ہے۔ 3 ؎ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام۔ 12 منہ 1 ؎ جب بنی اسرائیل نے اول حملہ دشمن کے بعد خدا سے عاجزی کی اور روئے پیٹے تب اس نیکی کا ثمرہ انہیں کے لیے یہ ہوا کہ خدا نے بنی اسرائیل کو پھر قوت عطا کی ازسرنو حکومت و شوکت قائم ہوئی اس کے نشے میں جو پھر بدکاری اور بت پرستی کی اس کا وبال بھی پھر انہیں پر پڑا کہ کوئی دوسرا دشمن کھڑا ہوگیا جس نے بنی اسرائیل کے چہرے بگاڑ دیے مسجد اقصیٰ میں گھس کر سب تبرکات جلا دیے مسجد میں بھی آگ لگا دی صدہا ہزارہا کو دشمن اسیر کر کے لے گیا اور مقتولوں اور مجروحوں کا تو حساب ہی نہیں عورتوں کا ننگ و ناموس جدا برباد ہوا۔
Top