Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ
: اور
اٰتَيْنَا
: ہم نے دی
مُوْسَي
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَجَعَلْنٰهُ
: اور ہم نے بنایا اسے
هُدًى
: ہدایت
لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اَلَّا تَتَّخِذُوْا
: کہ نہ ٹھہراؤ تم
مِنْ دُوْنِيْ
: میرے سوا
وَكِيْلًا
: کارساز
اور ہم نے موسیٰ کو (بھی) کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنایا تھا (اس میں حکم تھا) کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا۔
ترکیب : الا تتخذوا اصل میں ان لا تھا۔ ان مفسرہ ہے اس چیز کا کہ جس کو کتاب شامل تھی امرونہی سے۔ وکیلا مفعول ہے لا تتخذوا کا اور مفعول ثانی یاذریۃ ہے والتقدیر لاتتخذوا ذریۃ من حملنا وکیلا ای ربا مفوضًا الیہ۔ اس صورت میں من دونی حال ہوگا وکیلا سے یا من دونی خود مفعول ثانی ہے۔ اس صورت میں ذریۃ کا نصب منادیٰ مضاف ہونے کی وجہ سے ہے یا باضماراعنی مرتین مصدر ہے غیر لفظ سے وعدا ولٰہما ای موعود اولی المرتیں خلال ظرف ہے جاسوا کا۔ تفسیر : آنحضرت ﷺ کی بزرگی ذکر فرما کر (یعنی معراج کا ذکر کر کے) بتلاتا ہے کہ ہمیشہ سے انبیاء کے ساتھ ہم یوں ہی انعام و اکرام کرتے آئے ہیں اس سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کتاب یعنی تورات دی تھی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت تھی اس میں بڑا تاکیدی حکم یہ تھا کہ اے نوح (علیہ السلام) اور اس کیساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کی نسل میرے سوا اور کسی کو کارساز ‘ حاجت روا نہ بنانا مگر بنی اسرائیل بت پرستی کی ہلاکت میں پڑے۔ قضاء قطع کرنا، فیصلہ کرنا اور ادا کرنا، حکم کرنا مگر یہاں مراد قطعی طور پر بتلا دینا ہے۔ وعد اولہما یعنی اولیٰ المرتین باس قتال و منہ قولہ تعالیٰ و حین الباس۔ قال اللیث الجوس والجعود دسان التردد۔ فجاسو ابن عباس ؓ اس کے معنی کرتے ہیں فتشوا۔ ابوعبیدہ ؓ کہتے ہیں طلبو امن فیہا ابن قتیبہ کہتے ہیں عاثوا وا فسدوا الخلال ہوالانفراج بین الثئین والدیار دیار بیت المقدس۔ بعض مفسرین نے : فی الکتاب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات مراد لی ہے اور یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت بنی اسرائیل کو یہ بات اول سے سنا دی ہو کہ تم ملک میں دو بار فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے پہلی مرتبہ جب تم ایسا کرو گے تو تم پر ہم بڑے جنگ آور بندے مسلط کر دیـ گے جو تمہارے گھروں میں گھس گھس کر تمہیں قتل کریں گے۔ اس کے بعد ہم پھر تم کو دولت و ثروت ‘ اولاد و حشمت دیں گے مگر تم پھر فساد و شرارت کرو گے تو ہم پھر تم پر ایک قہار قوم مسلط کریں گے جو تمہارے منہ بگاڑ دے گی اور اول بار کی طرح بیت المقدس تک ان کی نوبت آئے گی اس کے بعد شاید خدا تم پر مہربانی کرے اور جو تم پھر بدی و شرارت کرو گے تو ہم بھی پھر تم کو سزا دیں گے۔ مگر اب بالفعل جو اہل کتاب کے پاس توریت کے نام سے ایک کتاب ہے اس میں اس صراحت کے ساتھ یہ مضمون نہیں ہاں اس کے بعض فقروں سے نکلتا ہے اس اصلی توریت میں یہ مضمون ہوگا بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے یعنی یہ بات بنی اسرائیل کے لیے ہم نے دفتر قضاء وقدر میں لکھ دی تھی۔ وقال ابن عباس ؓ وقتادۃ یعنی قضینا علیہم فالی بمعنی علیٰ والمراد بالکتاب اللوح المحفوظ (معالم) ۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب ای علمنا ھم واخبرنا ھم فیما آتیناھم من الکتاب انھم سیفسدون (معالم) ۔ اس قول سے توریت کی تخصیص نہیں سمجھتی جاتی بلکہ عام ہے کوئی کتاب ہو جو بنی اسرائیل کو دی گئی تھی اور کاتب الحروف کے نزدیک یہی قول قوی ہے اب ہم جو آج کل کی کتابوں کو دیکھتے ہیں کہ جن کو اہل کتاب الہامی مانتے ہیں ان میں سے کتاب یسعیاہ (شعیا) اور یرمیاہ (ارمیاہ) اور حرقیل اور ہوسیع اور یوئیل اور عاموس اور میکیاہ اور حبقوق (علیہم السلام) کی کتابوں میں یہ مضمون بکثرت موجود اور باوجود تحریفات کے بہت کچھ مذکور ہے اسی کی نسبت فرماتا ہے وقضینا الیٰ بنی اسرائیل فی الکتاب الخ اب یہ بات باقی رہ گئی کہ پہلی مرتبہ بنی اسرائیل کی شرارت و بت پرستی پر کس جبار بادشاہ کو خدا نے ان پر مسلط کیا تھا ؟ اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ بخت نصر بابل کا بادشاہ ہے مگر اس کی چڑھائی کا باعث جو حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے خون کا انتقام کہتے ہیں۔ وہ بڑی غلطی کرتے ہیں کس لیے کہ بخت نصر جس کو اہل کتاب بنوکد نضر کہتے ہیں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے صدہا سال پیشتر گزرا ہے اور پچھلے مرتبہ جس نے بنی اسرائیل پر چڑھائی کی ہے بعض کے نزدیک وہ شاہ اینٹوکس انطاکیہ کا بادشاہ ہے اس کے بعد پھر کچھ بنی اسرائیل کی حالت سنبھلی تھی جیسا کہ عسٰی ربکم ان یرحمکم سے پایا جاتا ہے تو بنی اسرائیل نے یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ بھی بڑی بدسلوکی کی تو ان عدتم عدنا کے موافق خدا نے شہزادہ روم طیطس کو چڑھایا جس نے بالکل ستیاناس کردیا اسی کے گرائے ہوئے بیت المقدس کو حضرت عمر ؓ نے تعمیر کیا ہے۔ اب ہم بیت المقدس کی مفصل تاریخ لکھتے ہیں جس سے ناظرین آپ سمجھ لیں گے کہ اس آیت کا مصداق ان بادشاہوں میں سے کون ہے اور کون سا واقعہ اس سے زیادہ چسپاں ہے۔ وھو حسبی ونعم الوکیل۔ تاریخ بیت المقدس چونکہ مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن مجید کی ان آیات میں واقع ہے کہ جس کو مفسرین اسلام بیت المقدَس یا بیت المقدَس سے تعبیر کرتے ہیں تو ہم کو ضرور ہوا کہ اس کا مفصل حال بیان کریں تاکہ پھر شب معراج میں آنحضرت سرور کائنات (علیہ السلام) کا وہاں تشریف لے جانا ذہن نشین ہو اور اس پر جو مخالفین نے شبہات کئے ہیں وہ بھی دفع ہوجائیں اور نیز پچھلی آیتوں کا مطلب بھی بخوبی واضح ہوجائے۔ فصل اوّل : مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس 1 ؎ اس مسجد کا نام ہے کہ جس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا جس کو اہل کتاب ہیکل کہتے ہیں۔ یہ مسجد شہر شلیم یا جیروسلم میں واقع ہے جو ملک فلسطین میں ہے اور اس ملک کو یہودیہ اور ارض مقدسہ (ہولی لینڈ) کنعان بھی کہتے ہیں اور کبھی ملک شام بھی۔ جغرافیہ فرہاد کے صفحہ 422 میں ہے وکنعان اسم قدیم شام است کماقال الیاقوت کنعان بالفتح ثم السکون و عین مہملۃ و آخرہ نون قال ابن الکلبی الشام ومنازل الکنعانیین ینبسون الی کنعان بن حام بن نوح۔ و کنعان موضع من ارض الشام کان منزل یعقوب (علیہ السلام) فی قریۃ یقال لھا سیلون بین سحل و نابلس وبھا الجب الذی القی فیہ یوسف علیہ السلام۔ ” کنعان شام کے اس حصہ کا نام ہے جس کے ایک گائوں میں جس کا نام سیلون ہے سجل اور نابلیس کے درمیان حضرت یعقوب (علیہ السلام) رہا کرتے تھے اور یہیں وہ کنواں بھی ہے جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے ڈال دیا تھا “ اور شام کے ملک میں ایک 1 ؎ اور کبھی شہر یروشلم کو بھی کہتے ہیں وہاں کے اہل اسلام بیت المقدس کہا کرتے ہیں۔ معراج میں بیت المقدس کا ذکر تھا اس کے بعد جو کچھ نابکار یہودیوں کی ناشائستہ حرکات سے اس مقام متبرک پر بھی مصائب آئے ان کا ذکر اس لیے اور بھی مناسب ہوا کہ قریش کے کان کھل جائیں کہ کعبہ کی بدولت جو تم امن سے رہ کر روزی کھاتے ہو اور شرارت کرتے ہو ہم اس پر بھی اپنے بندے یعنی لشکر محمدی چڑھا لائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جب قریش نے مکہ سے آنحضرت ﷺ اور ایمانداروں کو نکال دیا اور ان پر ظلم و ستم کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تو اس ہجرت کے کئی سال بعد مسلمانوں کی ایک معقول جماعت فراہم ہوگئی مکہ پر چڑھ آئے قریش کو بجزامان مانگنے کے چارہ نہ ہوا لیکن یہ چڑھائی کرنے والے خدا پرست تھے بجائے انہدام کعبہ کے انہوں نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا، یہ کعبہ کی خاص فضیلت ہے کہ پھر اس پر کسی نے چڑھائی نہ کی نہ انشاء اللہ کوئی کرسکے گا جب تک دنیا میں اسلام باقی رہے گا۔ گائوں کا بھی کنعان نام ہے اسی طرح فلسطین بھی اس ملک کو کہتے ہیں یعنی ملک شام کا وہ جنوبی و مغربی حصہ جو بحیرہ روم کے کنارہ پر واقع ہے جس میں عسقلون اور یقرون اور یافہ اور غازہ وغیرہ شہر آباد ہیں۔ زمانہ قدیم میں اس ملک میں فرقہ کوش کے لوگ رہتے تھے جن کا مقابلہ بنی اسرائیل سے ہوا کرتا تھا اور سیریہ 1 ؎ کہ جس کو زمانہ قدیم میں آرام کہتے تھے ایشیا ترکی کا ایک حصہ ہے جس میں شہر آلیپو یعنی حلب واقع ہے کبھی شام وسیع معنی میں اطلاق ہوتا ہے جس سے ملک فلسطین بھی مراد لیا جاتا ہے۔ جغرافیہ فلسطین : اب ہم اس ملک فلسطین یا کنعان کا حال بیان کرتے ہیں کہ جس میں شہر جیروسلم یا یروشلم واقع ہے۔ اس ملک کے حدوداربعہ یہ ہیں : شمال میں ملک سر یا یعنی شام اور مغرب میں شمالی حصہ تک بحیرہ روم جس کے کنارہ پر طرابلس عسرہ یافہ صید اعسقلون عکہ صوربیروت لاذقیہ قیساریہ وغیرہ شہر واقع ہیں اور جنوب میں ملک عرب کے شمالی حصے اور مشرق میں یرون ندی اور بحرا لمیت کہ جس کو بحرلوط بھی کہتے ہیں یعنی وہ کھاری جھیل کہ جس کا طول تخمیناً ستر میل اور عرض دس میل ہے جس کے کناروں پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی نافرمانی سے وہ پانچ گائوں جو غارت ہوگئے بستے تھے۔ اس ملک کا طول شمالاً و جنوباً سر یا سے لے کر عمالیقیون کی زمین تک اسی کوس اور عرض مشرق مغرب بحیرہ روم سے لے کر موآبیوں کی زمین تک چالیس کوس اور پھر حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کے عہد میں اس ملک کے اور بھی حدوداربعہ وسیع ہوگئے تھے۔ قدیم زمانہ میں اس ملک پر بابل اور نینوٰی کے بادشاہوں کی حکومت تھی۔ شاہان نینوٰی کے عہد میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اطراف بابل اپنے اصلی وطن سے ہجرت کر کے اس ملک یہودیہ یا شام میں آرہے تھے اس عہد میں شاید یہاں نینوٰی کے بادشاہ کی حکومت نہ تھی یا ہوگی تو کامل طور پر نہ ہوگی بلکہ توریت سے یہ معلوم ہوتا ہے طوائف الملوکی تھی اس ملک میں شمال کی جانب سے پہاڑوں کے دو سلسلہ جنوب و مغرب کی طرف چلتے ہیں اور اس مقام کو لبنان کہتے ہیں۔ تھوڑی دور اسی طرح چل کر مغربی سلسلہ شہر صور کے دو کوس شمال اترا طرف بحیرہ روم کے کنارہ پر ختم ہوتا ہے اور دوسرے سلسلہ کی پھر دو شاخیں ہو کر جنوب کی طرف چلتی ہیں ان دونوں میں سے مشرقی سلسلہ کا نام ایک موقع پر حرمون ہے یہ پہاڑ بعض جگہ تو ہزار جبکہ بعض جگہ گیارہ ہزار فٹ بلند ہے جس کی چوٹیوں پر ہمیشہ برف جمی رہتی ہے پھر یہ سلسلہ دریائے جلیل کے قریب مشرق کی طرف لبن کہلاتا ہے پھر اور آگے یرون ندی کے قریب کوہ جلعاد کہلاتا ہے جہاں سے روغن بلساں آیا کرتا تھا، پھر آگے چل کر اس کو ابریم کا پہاڑ اور مدیانیوں کی زمین کے قریب اس کو کوہ شعیر کہتے ہیں جس میں سے ایک چوٹی کا نام کوہ حور ہے جہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے وفات پائی تھی۔ پھر یہ بحیرہ قلزم میں جا کر تمام ہوگیا اور اسی طرح مغربی سلسلہ چلتا ہے جس کو جلیل کے پاس کوہ بتور اور آگے چل کر کوہ کرمل کہتے ہیں جس کے معنی اللہ کا باغ ہے۔ یہاں کی سرسبزی اور انواع و اقسام کے پھول ضرب المثل ہیں۔ اسی کی چوٹی پر جو سمندر کے قریب ہے الیاس (علیہ السلام) نے بعل کے پجاریوں کا مقابلہ کیا تھا۔ اس کے اور بتور پہاڑ کے بیچ سمندر سے لے کر دریائے یرون تک یزرائیل کی وادی کہلاتی ہے اس کی لمبائی چودہ کوس اور چوڑائی چھ کوس ہے اور سیدھا دکھن کی طرف چل کر اسرائیل یا افرائیم کے پہاڑ اور یہودیہ کے پہاڑ کہلاتے ہیں انہیں میں کوہ جرزین بھی ہے جس کی چوٹی پر بنی اسرائیل کے مقابلہ میں سامریوں نے دوسری ہیکل بنائی تھی اور اسی سلسلہ میں کوہ موریہ ہے جس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مسجد اقصیٰ یا ہیکل تعمیر کی اور کوہ صیحون بھی کہ جس پر یہ شہر یروشلم واقعہ ہے گویا موریہ اور صیحون اس ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں یہ شہر چار پہاڑوں پر آباد ہے۔ موریہ، صیحون، اکرا، بزیتہا۔ زمانہ قدیم میں سب کو موریہ کہتے تھے اس وجہ سے کہ وہاں ایک قوم اموری بستی تھی اور صیحون ان کا ایک بادشاہ گزرا ہے پھر اسی کے نام سے یہ پہاڑ نامزد ہوگیا۔ یہ شہر یروشلم کہ جس میں مسجد اقصیٰ یا ہیکل سلیمانی واقع تھی بحیرہ روم سے 32 میل کے فاصلہ پر سمندر کے سطح سے دوہزار پانچ سو اڑتیس فٹ 1 ؎ یعنی شام۔ 12 بلندی پر واقع ہے اور دریائے یرون کہ جہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اصطباغ لیا تھا جس کا پانی ہر سال ہزاروں عیسائی گنگاجلی کی طرح تبرکاً لے جاتے ہیں یروشلم سے اٹھارہ میل دور ہے اور شہر حبرون دکھن کی طرف دس بارہ میل اور سامریہ شمال کی طرف 36 میل اور دمشق سے یروشلم جنوب اور مغرب کے رخ ایک سو بیس میل پر ہے اور بغداد سے ساڑھے چار سو میل مغرب کے رخ میں۔ نابلس کہ جس کے قریب حضرت یعقوب (علیہ السلام) رہا کرتے تھے یروشلم سے شمال کی جانب 33 میل اور بندریافہ کہ جہاں سے ہیکل کے لیے لکڑیاں آیا کرتی تھیں یروشلم سے جنوب طرف باسٹھ میل اور شہر ناصرہ کہ جہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) مصر سے آ کے رہے تھے جس وجہ سے ان کی امت نصاریٰ کہلاتی ہے ستر میل اور بیت اللحم کہ جہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے تخمیناً چار میل اور مصر وہاں سے جنوب و مغرب میں تخمیناً دو سو ساٹھ میل ہے اور کوہ طور دو سو میل اور مدینہ منورہ تخمیناً چھ سو میل اور شہریریحو کہ جس کے پاس سے بنی اسرائیل یرون ندی کو دو حصہ کر کے اتر آئے تھے مشرق اور شمال کی طرف تخمیناً سولہ میل ہے اور مکفیلہ کے غار جہاں حضرت ابراہیم و اسحاق و یعقوب (علیہم السلام) کے مزار ہیں بیس میل۔ آج کل اس جگہ کو کہ جہاں یہ مزارات مقدسہ ہیں خلیل کہتے ہیں جو ایک عمدہ شہر آباد ہے۔ یہ ملک شام یا سریہ حضرت سلطان ترکی خلد اللہ ملکہ کے قبضہ میں ہے اس ملک میں مسلمان، یہودی، عیسائی، ارمنی رہتے ہیں بیشتر مسلمان ہیں اور تقریباً کل ملک کی مادری زبان سینکڑوں برسوں سے عربی ہے۔ زوار لوگ جو ہندوستان یا عرب سے جاتے ہیں تو سویز سے جہاز میں سوار ہو کر بحیرہ روم کی کسی بندرگاہ پر اتر جاتے ہیں وہاں سے گھوڑا گاڑی 1 ؎ میں سوار ہو کر ایک رات میں یروشلم پہنچ جاتے ہیں۔ اونٹ اور گھوڑے کی سواری ملتی ہے۔ اس شہر میں حضرت سلطان کی طرف سے ایک پاشا رہتا ہے۔ شہر یروشلم سے مشرق کی جانب تھوڑے سے فاصلہ پر زیتون کا پہاڑ ہے یہ وہی پہاڑ ہے کہ جہاں رات کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عبادت کیا کرتے تھے اور یہیں سے یہودی آپ کو گرفتار کر کے پلاطوس کے پاس لے گئے تھے۔ اس پہاڑ اور شہر کے درمیان ایک نالہ بہتا ہے کہ جس کو کدرون کہتے تھے، بارش کے ایام میں اس میں زیادہ پانی ہوتا ہے مگر گرمی میں خشک ہوجاتا ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں مغرب کے رخ شہر کے قریب ایک باغ تھا جس کو گت سمنی کہتے تھے اور اسی پہاڑ کے نیچے مشرق کی جانب بیت عینا اور بیت قاگا ود گاؤ آباد تھے۔ پادریوں کی الکتاب کے مقامات المعروف چھاپہ رومن مرزا پور 1860 ء صفحہ 15۔ 16 میں لکھا ہے کہ شہر یروشلم کا بانی ملک صدق تھا جس کا ذکر کتاب پیدائش کے 14 باب 18 درس میں یوں ہے کہ ملک صدق سالم کا بادشاہ تھا اور اکثر سمجھتے ہیں کہ یہی اس شہر کا اصلی نام ہے۔ آباد ہونے کے سو برس بعد اس کو یبوسیوں نے اپنے قبضہ میں کرلیا اور شہر پناہ کو بڑھایا اور کوہ صیحوں پر ایک قلعہ بھی تعمیر کیا، پہلا نام بدل کر یابوس نام رکھا۔ گمان غالب ہے کہ یہی نام اصلی نام کے ساتھ شامل کیا گیا یعنی یبوسلم یا فصاحت کے واسطے یروشلم جیسا کہ آج تک جاری ہے ایجاد ہوا۔ ایشوع کی کتاب کے 10 باب 13 آیت میں ہے کہ جب یشوع نے ملک کنعان پر حملہ کے وقت اس کے (یعنی یروشلم کے) بادشاہ کو پکڑا اور قتل کیا اس وقت سے دائود (علیہ السلام) کے زمانہ تک یہودی اور یبوسی دونوں ملے جلے رہتے تھے۔ پھر لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یشوع نے یروشلم بنیامین کے فرقے کو سپرد کیا لیکن بسبب اس کے کہ یہ شہر فرقہ یہوداہ کی عین سرحد پر تھا اور بنی یہوداہ نے دوبارہ اس کو محاصرہ کر کے لے لیا تھا اس واسطے یروشلم کبھی بنیامین اور کبھی یہوداہ کا کہلایا اور جب سے خدا نے یروشلم کو اپنی ہیکل کے لیے چن لیا تب سے وہ تمام بارہ فرقوں کا دارالسلطنت مقرر ہوا اور کسی خاص فرقے کا حصہ نہ کہلایا، ربی لوگ کہتے ہیں کہ شہر مذکور کی زمین تمام فرقوں کی زمین تھی یہاں تک کہ باشندوں میں سے بھی کوئی اپنے گھر کو اپنا نہ کہہ سکا اور عید کے ایام میں سب اپنے پردیسی بھائیوں کو بغیر کرایہ کے مکان میں ٹھہراتے تھے۔ تمام ملک کے یہودی یروشلم میں سال میں تین بار حاضر ہوتے تھے۔ عیدفصح میں یہ عید فرعون کے ظلم و قبضہ سے رہا ہونے کے یادگار میں 1 ؎ اب موٹر و موٹر لاری کے ذریعے جارہے ہیں سنا ہے کہ اب ریل بن گئی ہے۔ 12 منہ تھی جس میں قربانی کرتے اور فطیری روٹی کھاتے تھے۔ دوسری عید خیمہ، یہ مصر سے نکلنے کے بعد چالیس برس بیابان میں رہنے کی یادگاری میں کیا کرتے تھے، اس میں پتوں اور شاخوں کے جھونپڑے بنا کر سات روز میدان میں رہتے تھے۔ سوم عید پنتکوسٹ، یہ یونانی لفظ ہے جس کے معنی پچاسواں یہ عید مصر سے نکلنے کے بعد کوہ سینا پر شریعت پانے کی یادگاری میں مقرر ہوئی تھی۔ ان عیدوں میں ہزارہا بنی اسرائیل حاضر ہوتے تھے جس طرح اہل اسلام مکہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ الغرض یہ شہر اس وقت سے آباد ہے کہ جب بنی اسرائیل ملک مصر سے کوچ کر کے پھر اس ملک کنعان میں داخل ہوئے مگر حضرت دائود و سلیمان علیھما السلام کے عہد میں ان کا پایہ تخت ہونے کی وجہ سے نہایت رونق اور تجمل کی حالت میں تھا۔ اس کی شہر پناہ اور اس کے عمدہ برج اور پھاٹک حیرت انگیز اور عبرت خیز تھے لیکن دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کے عہد سے آگے ہی سے یہ جگہ متبرک اور مقدس سمجھتی جاتی تھی کیونکہ حسب اعتقاد اہل کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسی مقام پر اپنے بیٹے اسحاق کو قربانی کرنے کے لیے لائے تھے۔ اسی سرزمین پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خدا تعالیٰ سے خواب میں باتیں کی تھیں اور اسی لیے اس جگہ کا نام بیت ایل یعنی خدا کا گھر رکھا۔ یہی جگہ ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ کے حکم والہام سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مسجد (ہیکل) بنائی پھر یہی مسجد اور یہ ہی شہر ہزارہا انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ اور زیارت گاہ رہا۔ اسی کا قرب و جوار انبیاء کا مدفن اور مورد برکات ہے۔ الذی بارکنا حولہ۔ اہل کتاب اب تک اس کی وادی یہوشفات میں دفن ہونا موجب نجات خیال کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اس کی طرف منہ کر کے مدتوں نماز پڑھی ہے اور شب معراج میں اس جگہ تشریف لائے ہیں۔ یہ شہر مقدس اور یہ مسجد متبرک بارہا ظالم بادشاہوں کے ہاتھوں سے برباد و منہدم ہوئی اور پھر بنائی گئی چناچہ آگے چل کر آپ کو اس کی کیفیت بخوبی معلوم ہوگی مگر اب ہم ناظرین کو حال کے شہر اور مسجد کا ذکر سناتے ہیں۔ شہر یروسلم کا بیان : یروشلم جدید کی شہر پناہ کا گھیر جس کو 1534 ء میں سلطان سلیمان بن سلیم شاہ روم نے تعمیر کرایا تھا تخمیناً ڈھائی میل کا ہے۔ یوسفس مؤرخ کے دنوں میں کہ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قریب زمانہ کا ہے، چار میل کا گھیر تھا اور شہر تین دیواروں سے گھرا ہوا تھا جس میں سے ایک میں ساٹھ دوسرے میں چالیس نئے میں چھیاسٹھ برج بنائے گئے تھے۔ شہر جدید پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدیم بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے لیکن اس کے اطراف میں ایسی بھی زمین باہر پڑی نظر آتی ہے کہ جو قدیم زمانہ میں شہر میں داخل تھی۔ چناچہ نصف صیحوں کی پہاڑی شہر پناہ کے باہر ہے جو پہلے اندر تھی شہر حال کی چار دیواری بلند اور کنکریلے پتھروں سے ٹھوس بنی ہوئی ہے اور اس میں جابجا برج اور توپیں چڑھانے کے مورچے بنے ہوئے ہیں شہر کے سات درازے ہیں۔ دو شمال کی جانب ایک مغرب کی جانب اور ایک مشرق کی جانب ایک باب الحرم کہلاتا ہے اور دو جنوب کے رخ میں۔ شہر میں تین بڑی سڑکیں ہیں۔ ایک وہ جس کو باب الدمشق کہتے ہیں جو شمال و مغرب کی طرف جاتی ہے دوسرے سوق الکبیر جو مشرق مغرب جاتی ہے تیسرے غمخواروں کی سڑک اور یہ وہ رستہ ہے کہ جس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودی سولی دینے لے چلے تھے۔ ان کے سوا سات سڑکیں اور ہیں جو ان سے چھوٹی ہیں جن کے یہ نام ہیں، کوچہ مسلمین، کوچہ نصاری، کوچہ یہود، کوچہ ارمنی، کوچہ ظاہرہ، کوچہ مغربین، کوچہ باب حوت۔ پادری چارلس بٹل ایم اے کہتا ہے کہ آخر اگست 1867 ء میں جو لیفٹیننٹ وارن صاحب شہر مقدس کا حال دریافت کرنے گئے تھے انہوں نے اچھی طرح وہاں کا حال دریافت کیا ان کے بیان کے موجب شہر کی شہر پناہ طول میں مشرق کی طرح دو ہزار آٹھ سو فٹ اور شمال کی طرف تین ہزار آٹھ سو فٹ اور مغرب کی طرف دو ہزار تین اور جنوب سے تین ہزار تین سو پچاس فٹ ہے۔ اس جگہ بہت عمدہ عمارت بجز ہیکل (مسجد اقصیٰ ) اور مسیح کی قبر کے اور کوئی نہیں ہے ان کے پاس اور بھی مقامات ہیں کہ جو اوسط درجہ میں خیال کئے جاتے ہیں۔ الکتاب کے مقامات المعروف نامی کتاب میں اس شہر کے چھوٹے بڑے اکتیس مقامات گنوائے گئے (1) بیت اللحم کا پھاٹک، (2) دمشق پھاٹک، (3) افرائیم کا پھاٹک، (4) مقدس استیفان کا پھاٹک، (5) سنہرا پھاٹک یہ ہمیشہ بند رہتا ہے، (6) مسجد اقصیٰ کا پھاٹک، (7) غلیظ کا پھاٹک، (8) صیحون کا پھاٹک، (9) آرمینیوں کی خانقاہ (10) پیسنس کا قلعہ، (11) بنت سبع کا کنڈ، (12) حاجئی مستورہ کا کنڈ، (13) لاطینیوں کی خانقاہ، (14) کھنڈر مکان، (15) قبر کا گرجا، قبرستان، کلوری، (16) ہیرودیس کا محل، (17) مقدس انتا کی مسجد، (18) پلاطوس کا محل، (19) بیت حسدہ کا کند، (20) حرم شریف (الف) سلیمان کا تخت (ب) محمد (علیہ السلام) کا تخت جاہل مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس پر آنحضرت ﷺ قیامت میں عدالت کریں گے، (ج) صدر عیسیٰ کے منارہ کا دروازہ، (21) الصخرہ، (22) مسجد الاقصیٰ ، (23) چوک و بازار، (24) انناس کا محل، (25) یہود کا عبادت خانہ، (26) یروشلم کے حاکم کا محل، (27) قیافا کا محل، (28) دائود (علیہ السلام) کا مزار، (29) عام قبرستان، (30) بادشاہ کا کنڈ، (31) سلوام کا کنڈ، اس شہر میں تخمیناً تیس ہزار آدمی بستے ہیں جس میں زیادہ مسلمان ہیں، پھر یہود، پھر عیسائی اور ارمنی۔ مسلمان اکثر حرم شریف کے گردونواح میں رہتے ہیں اور عیسائی اپنی خانقاہوں اور گرجائوں کے آس پاس اور یہودی کوہ صیحون کے دامن میں اور اس کے آس پاس کے نشیب میں۔ اس شہر میں یہودی بیوہ عورتیں بہت زیادہ رہتی ہیں جو اپنی پرورش کا وسیلہ یروشلم کو سمجھتی ہیں۔ اس شہر میں دو خانقاہ بہت مشہور ہیں ایک لاطینی دوسری ارمنی شہر سے شمال و مغرب کی طرف اور لاطینی جنوب مغرب کی طرف۔ ارمنی خانقاہ میں ہزار آدمی رہ سکتے ہیں۔ آرمینیوں کا ایک گرجا بہت بلند اور کشادہ بنا ہوا ہے اور اس میں اسباب عبادت اس قدر اور ایسے قیمتی ہیں کہ دنیا بھر میں میسر نہیں آتے۔ کبھی کبھی ان دونوں قوموں میں علاوہ زبانی بحث کے لاٹھی سونٹے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ یروسلم کے جنوب میں سلوآم کا ایک تالاب ہے کہ جس کی گہرائی چوبیس فٹ ہے۔ یروسلم میں ملکہ انگلستان اور شاہ جرمن کے اتفاق سے ایک ایسے نئے گرجا کی تعمیر کا ارادہ ہوا تھا کہ جس میں انگلستانی کلیسا کے طور پر عبادت ہوا کرے اس کے لیے سلطان کی طرف سے زمین ملی اور بنیاد بھی ڈالی گئی مگر ارمنی اور یونانی اور لاطینیوں سے ہنوز وہ عمارت قائم نہیں ہونے پائی۔ یروسلم کے مشرق طرف ایک وادی ہے کہ جس کا طول دو یا ڈیڑھ میل ہوگا اس کو وادی یہوشفات کہتے ہیں جس کے معنی یہوداہ (خدا) کی عدالت کے ہیں۔ اسی بناء پر یہود اور عام عیسائیوں اور عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ قیامت کے روز اس جگہ پر خدا عدالت کرے گا۔ اسی لیے یہود یہاں دفن ہونا سبب نجات جانتے ہیں۔ اسی وادی کے پاس شہزادہ بی سلوم کا ستون اور کئی ایک مقبرے ہیں جن میں سے بعض بلند اور عالیشان اور بعض ٹوٹے پھوٹے ویران پڑے ہیں۔ یروسلم کے جنوب میں ایک وادی گیہنوم یعنی جہنم کہلاتی ہے۔ یوسیا بادشاہ کے عہد سے آگے یہودی یہاں مالک بت کی پرستش کرتے تھے۔ یہ بت پیتل کا تھا اور اس کا چہرہ بیل کا سا اور اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے گویا یہ اپنے عابدوں کو گود میں لینا چاہتا ہے۔ یہ بت پرست یہودی اس بت کو آگ سے نہایت گرم کر کے اپنے لڑکوں کو اس کی گود میں ڈالتے اور ان کے چلانے کی آواز دبانے کے لیے ڈھول بجاتے تھے۔ اس عہد میں ان ڈھولوں کے نام سے اس کو وادی توف (ڈھول) کہتے تھے۔ پھر بابل کی اسیری کے بعد یہود اس مقام اور اس بت پرستی سے نفرت کرنے لگے اور اس وادی کو خراب کرنے کے لیے تمام شہر کا کوڑا اور غلیظ وہاں پڑنے لگا جس کے جلانے کے لیے ہمیشہ آگ جلتی رہتی تھی۔ اس مناسبت سے اس کو جہنم کہنے لگے جس طرح فلسطینی ایک بت داجوں کی پرستش کرتے تھے جس کا مچھلی کا سا جسم اور انسان کے سے ہاتھ پائوں تھے اسی طرح موابی اس مالک کی پرستش کرتے تھے اور غالباً اس سے مراد زحل ستارہ لیتے تھے۔ باوجود سخت ممانعت کے بنی اسرائیل نے ان کی صحبت سے یہ بت پرستی اختیار کرلی تھی۔ قسنطین شاہ روم کی والدہ نے جب وہ یروسلم میں آئی مسیح کی قبر پر سے ایک بت جو اس پر قائم کیا گیا تھا اکھڑوا کر وہاں ایک جدید گرجا عالیشان تعمیر کیا جو آج تک مسیح کی قبر کے نام سے مشہور ہے اور جس قدر عیسائی یروشلم میں حج کو جاتے ہیں اس کی زیارت ضرور کرتے ہیں۔ اس میں گھستے ہی مجاور ایک بڑا پتھر دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کی لاش کو غسل دیا گیا تھا، اس سے تھوڑی دور آگے بڑھ کر ایک گنبد کے نیچے جو سولہ ستونوں پر مبنی ہے مسیح کی قبر بتاتے ہیں جس پر انہوں نے سنگ مرمر کا چھوٹا سا روضہ بنا رکھا ہے اس کے چھوٹے دروازہ سے ہو کر حاجی اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں جو چٹان میں کندہ ہے یہ مقام ساڑھے چھ فٹ مربع سے زیادہ نہ ہوگا۔ یہاں سنگ مرمر کا ایک صندوق ہے اسی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی لاش کا رکھا جانا قرار دیتے ہیں اور اس کی چھت میں بڑے بڑے عمدہ جھاڑ لٹکتے ہیں جو بادشاہوں کی نذر گزرائے ہوئے ہیں۔ اس مقام میں ایسی کشمکش کی راہ ہے کہ تین چار آدمی کے سوا اور کا گزر نہیں۔ اس گرجے میں یونانی، لاطینی، ارمنی عیسائی سب شریک ہیں اور ہر سال وقت مقرر پر مسیح کے مصلوب ہونے اور زندہ ہونے کا سوانگ بناتے ہیں اور لاش نکالتے اور بڑا ماتم کرتے ہیں۔ اہل اسلام وہاں کے کل مقدس مقاموں کو مانتے ہیں بجز اس گرجا کے کیونکہ ان کو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی مصلوبی سے انکار ہے بلکہ یہ مقبرہ یہود اس کر یوطی کا ہے جو ان کی جگہ دفن ہوا اور مسیح کے شبہہ میں سولی پر لٹکایا گیا۔ فصل دوم : اس شہر میں جو سب سے مقدس اور عمدہ اور متبرک مقام ہے وہ مسجد ہے کہ جس کو امیرالمومنین حضرت عمر ؓ نے تعمیر کیا تھا جو مسجد الصخرہ کے نام سے نامزد ہے جس وقت مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر کے اس کو لے لیا تو عیسائیوں کے بطریک یعنی امام سے مسجد کے لیے بہتر جگہ دریافت کی گئی اس نے سلیمان کی ہیکل کی اجاڑ جگہ کو دکھایا اور کہا کہ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہیکل بنائی تھی 1 ؎ اسی مقام پر حضرت عمر ؓ نے مسجد کی بنیاد ڈالی اور ایک متبرک عمارت بنائی اس مسجد کے احاطہ کو حرم شریف کہتے ہیں۔ زمانہ حرب صلیب سے وہاں کوئی عیسائی جانے نہیں پاتا۔ ڈاکٹر ریچرڈسن کہتا ہے کہ میں طبابت کے ذریعہ سے امام سے موافقت کر کے تین بار اس کے اندر گیا ہوں اس لیے وہ وہاں کا مفصل حال لکھتا ہے۔ حرم شریف لمبائی میں ایک ہزار چا سو ننانوے فٹ ہے یعنی مسجد اقصیٰ کی محراب نماز سے باب السلام تک اور عرض میں نو سو پچانوے فٹ ہے اس احاطہ میں نارنگی زیتون اور سرو کے متعدد درخت ہیں۔ اسی احاطہ کے درمیان ایک پختہ سنگ مرمر کا تخت ہے یا چبوترہ جو چار سو پچاس فٹ مربع ہوگا جس کی بلندی احاطہ کی سطح سے بارہ چودہ فٹ ہوگی اس پر چڑھنے کے واسطے چاروں طرف سے اچھی اور کشادہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ چناچہ مغرب کے رخ تین اور شمال کے رخ دو اور مشرق ایک اور جنوب کی سمت دو اور ہر ایک زینہ پر نہایت خوشنما محراب بنی ہوئی ہے اس کی کرسی بالکل سفید اور آسمانی رنگ سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے اس کے بعض پتھر بہت پرانے ہیں جن پر طرح بہ طرح کی صورتیں تراشی ہوئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی قدیم عمارت کے پتھر ہیں۔ اس تخت کے اردگرد بہت سے حجرے بنے ہوئے ہیں جن میں مؤذن اور خدام اور سامان مرمت رہتا ہے لیکن سب سے زیادہ حسین وہ مسجد ہے کہ جو 1 ؎ بطریک کی یہ بھی ایک چالاکی تھی کیونکہ ان کے اعتقاد میں مسجد اقصیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیشین گوئی سے منہدم ہوئی جس کی نسبت وہ مسیح (علیہ السلام) کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس کو پھر کوئی آباد نہ کرسکے گا وہ سمجھتا تھا کہ یہ مسلمانوں سے آباد نہ ہوگی اور اس قصد سے وہ خود برباد ہوجائیں گے مگر خدا نے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی معرفت خبر دے دی تھی کہ اس کو ایک قوم آباد کرے گی جو خدا کی آنکھوں میں مقبول اور برگزیدہ ہوگی اور وہی اس کے وارث اور متوالی رہیں گے اس خبر کے مطابق واقعہ ہوا اس عہد سے اب تک یہ مسجد مسلمانوں کے ہی قبضہ میں ہے اور رہے گی۔ ایک عارضی قبضہ چند سال کے لیے حرب الصلیب کے عیسائیوں کا ہوگیا تھا صداقت اسلام کی ایک اور بھی بین دلیل ہے۔ افسوس ہے کہ اب چند سال سے عیسائیوں کے قبضہ میں چلی گئی ہے امید ہے کہ پھر اس کے وارثوں کے قبضہ میں آجائے گی۔ اس تخت کے بیچوں بیچ ہے جس کو مسجد الصخرہ کہتے ہیں اس وجہ سے کہ اس کے اندر ایک پتھر لگا ہوا ہے جس کی نسبت خیال ہے کہ یہ پتھر اس وقت سے آسمان سے گرا ہے جب سے کہ پہلے پہل نبوت ہوئی جب سے یہ یہیں پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ سب اگلے نبی اسی پر بیٹھ کر نبوت کرتے تھے۔ یہ پھر اڑ کر جانے کو تھا کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے ہاتھ سے محمد ﷺ کے آنے تک اس کو روک دیا۔ پھر حضرت ﷺ نے اس کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھا (یہ روایات اسلام میں سند صحیح سے ثابت نہیں) یہ مسجد ہشت پہل ہے اور ہر ایک پہل ساٹھ فٹ کا ہے اس میں چار باب ہیں۔ باب الغربی، باب الشرقی، باب القبلہ، باب الجنۃ، ایک دروازہ پر سائبان پڑا ہوا ہے، برآمدہ کے طور پر اس کا پہلا درجہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اس کے پتھروں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہیکل کے پتھر ہیں سب دیواریں دلدار بنی ہوئی ہیں، ایک دیوار کے پتھر مربع دوسرے کے ہشت پہل اس کے سنگ مرمر کا رنگ سفید ہے مگر خوبصورتی کے لیے جابجا نیلاہٹ کی ہوئی ہے اس درجہ میں کوئی کھڑکی نہیں ہے مگر اوپر کے درجہ میں ہر ایک پہل میں ساٹھ ساٹھ اونچی کھڑکیاں ہیں اور سنگ مرمر کے بجائے تمام دیوار رنگین خشت پختہ سے بنی ہے جن پر چاروں طرف قرآن مجید کی آیات بخط جلی لکھی ہیں یہ سب عمارت ایسی خوبصورت بنی ہوئی ہے کہ جس کی نسبت ڈاکٹر موصوف کہتا ہے کہ مجھے اس کے دیکھنے سے ایسی خوشی ملی جو دوسری عمارت سے ہرگز نہیں ہوئی۔ مسجد مذکور میں صخرہ کے سوا چند اور تبرکات ہیں جن کو اہل اسلام متبرک جانتے ہیں چناچہ ایک اور بڑا پتھر ہے جس کی نسبت کہتے ہیں کہ محمد ﷺ تکیہ لگا کر بیٹھے تھے، سنگ مذکور بیچ سے ٹوٹا ہوا ہے۔ اور ایک صندوق ہے جس میں ایک سوراخ ہاتھ جانے کے قابل ہے۔ اس کے اندر قدم رسول اللہ ﷺ بتاتے ہیں۔ پھر ایک سبز پتھر چودہ تسو مربع ہے جس میں اٹھارہ سوراخ کیل کے لائق بنے ہوئے ہیں اس کی یہ خاصیت بتلاتے ہیں کہ ایک زمانہ گزر جانے کے بعد اس میں سے ایک کیل غائب ہوجاتی ہے چناچہ اس میں سے ساڑھے چودہ غائب ہوگئے ہیں ساڑھے تین باقی ہیں۔ کہتے ہیں ان کے غائب ہوجانے کے بعد دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ (یہ بھی اسلام میں سند صحیح سے ثابت نہیں، خیالات عامہ ہیں) یہ بھی کہتے ہیں کہ اس مقام پر سلیمان بن دائود (علیہما السلام) کا مزار ہے۔ مسجد مذکور کا گنبد نوے فٹ بلند ہے اور اس کا قطر چالیس فٹ اس کی چھت سیسے کے پتھروں کی بنی ہے جس پر سے تمام یروسلم دکھائی دیتا ہے انتہٰی ملخصاً ۔ یہ عمارت حضرت عمر ؓ کے عہد کی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بنی امیہ نے اس کو ازسرنو تعمیر کیا، پھر اور تعمیرات ہوتی رہیں حال کی عمارت سلاطین عثمانیہ سلطان سلیمان کی ہے۔ حال میں صحن مسجد میں سنگ مرمر کا فرش بنایا گیا ہے اور مسجد کے نیچے ایک تہ خانہ بھی ہے جو مسجد میں سے ایک کھڑکی میں سے شمع لے کر نیچے اترتے ہیں۔ نیچے جا کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بنیاد کے نشان معلوم ہوتے ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک اس مسجد کی زیارت اور وہاں جا کر نماز پڑھنا نہایت ثواب اور قبولیت کا کام ہے اس لیے سینکڑوں زوار جاتے ہیں۔ شہر میں حضرت سلطان خلد اللہ ملکہ کی طرف سے ہر قوم اور ہر ملک کے مسلمان زوار کے لیے ایک عمدہ مسافر خانہ بنا ہوا ہے جس کو وہاں تکیہ کہتے ہیں، وہاں کھانا پینا سب شیخ تکیہ کی معرفت سلطان کی طرف سے ملتا ہے۔ فصل سوم … ہیکل سلیمان کی کیا صورت و ہیئت تھی : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے لاکھوں بنی اسرائیل کو ملک شام میں وعدہ الٰہی کے بموجب لے جانے کے لیے نکلے اور وہ مہینے اور سوا مہینے کا راستہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور سرکشیوں سے چالیس برس کا سفر بن گیا۔ چناچہ قادس اور شمالی حصہ عرب کے ریگستان میں اس بیشمار بھیڑ کو لیے ٹکراتے پھرے یہاں تک کہ بجز چند آدمیوں کے موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) اور تمام نوجوان بنی اسرائیل جو مصر میں بیس برس کے عمر کے تھے رستہ ہی میں مر کھپ گئے پھر ان کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین یوشع بن نون نے ملک فلسطین فتح کیا اور بنی اسرائیل کنعان کے وارث ہوئے ان میں یوشع سے لے کر سائول یعنی طالوت تک سردار ہوتے تھے پھر ان کے بعد سے سلطنت اور بادشاہت قائم ہوئی۔ سائول کے بعد سب سے اول بادشاہ بنی اسرائیل کے حضرت دائود (علیہ السلام) ہیں۔ یہ بموجب قول یوسفس مؤرخ کے حضرت یشوع سے پانچ سو پندرہ برس بعد تخت نشین ہوئے تھے، ان کا پہلا اہم کام یہ تھا کہ انہوں نے یبوسی لوگوں کو جو کنعان کی اولاد اور شہر یروشلم میں رہتے تھے مغلوب کیا۔ دائود (علیہ السلام) نے یبوسیوں کو نکال کر شہر یروسلم کو ازسرنو بنایا اور اس کا نام دائود کا شہر رکھا اور دارالسلطنت قرار دیا۔ انہیں بیابانوں میں مارے مارے پھرنے کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خیمہ عبادت بنانے کا حکم دیا تھا اور اس کی سب ترکیب بتلائی کہ اتنا لمبا ہو اور اس کے ایسے درجے ہوں اور اس کی ایسی قنات ہو اور اس کے اندر صندوق شہادت رکھنے کا ایسا کمرہ ہو اور قربانی کرنے کا فلاں مقام ہو اور اس کے عود سوزاک اور دیگر آلات سنہری روپہلی اتنے اور ایسے ہوں اور اس کے کاہن یا امام فلاں اور ان کا ایسا لباس ہو اور خیمہ کے محافظ اور اس کے اٹھانے والا اسرائیل کا فلاں فرقہ اور فلاں لوگ ہوں جس کی مفصل کیفیت توریت میں موجود ہے جس کو ہم نے بخوف تطویل ترک کرنا مناسب جانا۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس مقام سے کوچ کر کے جس مقام پر جاتے تھے وہ خیمہ مع سازوسامان ساتھ جاتا تھا اور ایک جگہ اکھیڑ کر دوسری جگہ نصب کیا جاتا تھا اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر حضرت دائود (علیہ السلام) تک بنی اسرائیل کے لیے یہی کپڑے کی مسجد یا ہیکل رہی پھر جب یہ خیمہ یا مسکن بمقام سیلا استادہ تھا تو وہیں حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی ماں نے دعا مانگی تھی کہ جس سے سموئیل پیدا ہوئے، عیلی کاہن کے عہد میں۔ اسی زمانہ میں صندوق شہادت جس کو تابوت سکینہ کہتے ہیں، بنی اسرائیل کے ہاتھ سے ایک لڑائی میں فلسطیوں کے ہاتھ آگیا تھا پھر ساؤل کے عہد میں وہ خیمہ شہر نوب میں قائم ہوا پھر حضرت دائود (علیہ السلام) بادشاہ ہوئے تو انہوں نے اس وعدہ کے موجب جو خدا تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا تھا اس جگہ ایستادہ کیا کہ جو زمین خدا نے ہمیشہ سے اس کے لیے پسند کر رکھی تھی جس کا کتاب استثناء کے 12 باب اور 14 درس اور دیگر مقامات میں اشارہ ہے یعنی یروسلم میں کوہ صیحون پر جس جگہ کا نام حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیت ایل رکھا تھا اور ایک پتھر بھی گاڑ دیا تھا، اب خدا تعالیٰ کا منشا ہوا کہ میری عبادت گاہ پختہ بنے مگر حضرت دائود (علیہ السلام) کو دشمنوں کے قتال وجدال سے اس کی تعمیر کی مہلت نہ ملی گو سامان مہیا کیا تھا اس لیے مرتے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وصیت کی اور وہ سب سازوسامان بھی حوالہ کیا اور ہیکل کا نقشہ بھی دیا کہ جس کے مطابق سلیمان (علیہ السلام) نے ہیکل بنائی اور اس خیمہ کی عبادت گاہ کو پتھر اور لکڑی اور سونے چاندی کا بنا دیا اس کی پوری کیفیت اول کتاب السلاطین میں نہایت تشریح کے ساتھ مذکور ہے مگر ہم بھی ناظرین کے لیے یوسفس مؤرخ کی کتاب سے کسی قدر نقل کرتے ہیں وھوھذا۔ تاریخ یوسفس حصہ ہشتم باب سوم۔ (1) سلیمان نے اپنے تخت نشینی سے چار برس دو ماہ بعد ہیکل کا بنانا شروع کیا اور خروج (موسیٰ (علیہ السلام) ازمصر) سے پانچ سو بانوے برس بعد اور ابراہیم کے مسوپیٹو 1 ؎ میا سے نکل کر ملک کنعان میں آباد ہونے سے ایک ہزار بیس برس بعد اور طوفان نوح سے ایک ہزار چار سو چالیس برس بعد اور آدم کی پیدائش سے کہ سب کا باپ اور سب سے پہلا آدمی تھا ہیکل کے زمانہ تک تین ہزار ایک سو دس برس گزرے تھے اور شہر سور کے آباد ہونے سے دو سو چالیس برس بعد اور جیرام شاہ سور کے تخت نشین ہونے سے گیارہ برس بعد ہیکل کی تعمیر شروع ہوئی۔ (2) بادشاہ سلیمان نے بڑے بڑے پتھر اور نہایت مضبوط ہیکل کی نیو کے واسطے درست کرائے اور بڑی گہری زمین کھدوا کر ہیکل کی بنیاد رکھی تاکہ مدتوں قائم رہے۔ یہ عمارت سنگ مرمر سے تیار ہوئی تھی۔ ہیکل ساٹھ ہاتھ عرض اور ساٹھ ہاتھ طول 2 ؎ اور ساٹھ ہاتھ بلند تھی اور 1 ؎ ملک عراق کا یونانی میں نام ہے۔ 2 ؎ کتاب اول سلاطین کے 6 باب میں ہے۔ وہ گھر جو سلیمان نے خداوند کے لیے بنایا طول اس کا ساٹھ ہاتھ اور عرض بیس ہاتھ اور بلندی اس کی تیس ہاتھ تھی اور کتاب 2 تواریخ 3 باب 3۔ 4 درس میں یوں ہے طول ساٹھ اگلی انداز کے موافق اور عرض بیس ہاتھ اور سامنے کے اسارے کی لمبائی گھر کی چوڑائی اس کے اوپر ایک اور مکان بطور بالاخانہ کے بنا تھا اور اس طرح ہیکل کی بلندی ایک سو بیس ہاتھ ہوئی اور اس کا رخ مشرق کی طرف تھا اور ہیکل کے سامنے ایک برآمدہ بیس ہاتھ چوڑا اور بارہ ہاتھ لمبا اور ایک سو بیس ہاتھ اونچا بنایا اور ہیکل کے چاروں طرف تیس چھوٹے چھوٹے کمرے برابر بنائے اور ہر ایک کمرہ پانچ ہاتھ لمبا اور اسی قدر چوڑا تھا اور بیس ہاتھ اونچا اور یہ کمرے زیروبالا سہ منزلہ بنائے گئے اور ان کی بلندی ہیکل کی نصف بلندی تک پہنچی اور تمام ہیکل کی چھت سرو کے مصفا شہتیروں اور تختوں سے پاٹی گئی اور سونے کی چادروں سے چھت اور دیواروں کو ڈھانپ دیا کہ جس سے تمام ہیکل روشن ہوگئی اور ہیکل کی تعمیر ایسی حکمت اور درستی سے کی گئی تھی کہ کہیں جوڑ نہ معلوم ہوتا تھا اور بالاخانہ پر جانے کے لیے ایک زینہ دیوار کے متصل بنایا گیا اور بالاخانہ کے کمروں میں کھڑکیاں بنائیں۔ (3) اور بادشاہ نے ہیکل کو دو درجہ میں تقسیم کر کے اندر کے درجہ کو جو چوبیس ہاتھ عرض و طول میں یکساں بنایا اس کو نہانی مکان مقرر کیا اور دوسرا درجہ چوبیس ہاتھ عرض میں اور چالیس ہاتھ طول میں تھا ‘ اسے مقدس کمرہ قرار دیا اور اس میں سرو کی لکڑی کے دروازے لگائے اور سونے کی چادروں سے اسے منڈھ دیا اور اس پر قسم قسم کی تصویریں بنائیں اور ان کے آگے نیلے و ارغوانی و قرمزی رنگ کے باریک کتاں کے پردے بنائے اور ان کو لٹکا کر ان پر بھی عجیب و غریب نقش و نگار بنائے، پھر اس کے نہانی درجہ کے لیے دو کروبی 1 ؎ خالص سونے کے بنائے کہ وہ پانچ ہاتھ اونچے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے بازو پانچ ہاتھ لمبے پھیلے ہوئے تھے اور ایک کروبی کا بازو دیوار جنوبی سے ملا تھا اور دوسرے کروبی کا دوسرا بازو شمالی دیوار سے ملا تھا اور بیچ میں عہد کا صندوق رکھا اور ہیکل کے دروازے میں بڑے بڑے کواڑ لگائے اور ان پر سونے کی چادریں جڑوائیں اور کل ہیکل کو اندر اور باہر سے سونے کی چادروں سے منڈھ دیا تھا اور باہر کے دروازوں پر اندر کے دروازے کے مانند پردے تھے مگر برآمدہ پر پردہ نہ تھا۔ (4) سلیمان نے ایک کاریگر حیرام نامی ملک سوریہ سے بلایا کہ اس کے والدین اسرائیلی تھے۔ یہ شخص ہر کام میں ہوشیار تھا مگر سونے اور چاندی اور پیتل کا کام نہایت عمدہ کرتا تھا۔ اس نے ہیکل کا سب کام سلیمان کی مرضی کے موافق بنایا تھا اور دو ستون اٹھارہ ہاتھ بلند کہ جن کا محیط بارہ ہاتھ تھا اور ان کے سر پر پانچ ہاتھ اونچے سو سن کے درخت کی صورت بنائی اور ایک جالی کہ جس پر کھجور اور سو سن کے پھول بنائے تھے اور ان پر دو سو انار بنائے اور ان ستونوں میں سے ایک برآمدہ کی دائیں طرف رکھا گیا اس کا نام بوعر تھا۔ (5) سلیمان نے ایک کلاں 2 ؎ حوض نصف کرہ کی مانند پیتل کا ڈھلا ہوا بنوایا اس کا قطر دس ہاتھ کا تھا، اس کا دل چار انگشت اور اس کے نیچے پیتل کا ایک ستون تھا کہ جس کا قطر دس فٹ تھا اور چار طرف بارہ بیل ڈھلے ہوئے تھے، تین تین ان کی پشت پر یہ حوض تھا اس کو بحر کہتے تھے۔ (6) اور حوض کے لیے دس چو کونے ستون بنائے ان کی لمبائی پانچ ہاتھ، چوڑائی چار ہاتھ اور بلندی چھ ہاتھ تھی اور ان کے چاروں کونوں میں بھی چھوٹے چھوٹے ستون اور دو ستون کے درمیان ایک بیل تھا اور دو کے درمیان ایک بیل اور دو کے درمیان ایک شیر ببر اور دو کے درمیان عقاب اور چھوٹے ستونوں میں بھی چھوٹے قد کے جانور بنائے تھے اور ان دس ستون کے واسطے دس حوض بنائے تھے جن میں سے پانچ حوض ہیکل کے دائیں طرف اور پانچ بائیں طرف اور بڑا حوض سامنے تھا۔ اس میں کاہن لوگ اپنے ہاتھ پائوں دھو کر (یعنی وضو کر کے) کے موافق بیس ہاتھ اور اونچائی ایک سو بیس ہاتھ۔ ان کتابوں کو عیسائی الہامی کہتے ہیں۔ پھر ان کے اختلاف کی تطبیق کچھ انہیں کی سمجھ میں آتی ہوگی یوسفس کے عہد میں شاید ان کتابوں میں ایسا نہ ہو یا یوسفس کو یہ کتابیں نہ ملی ہوں گی یا وہ سمجھ نہ سکا ہوگا۔ 1 ؎ فرشتہ۔ 12 2 ؎ یعلمون لہ مایشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور سیات۔ الآیہ سورة سبا۔ قربان گاہ میں جاتے تھے اور حوضوں میں ان جانوروں کو دھوتے تھے کہ جن کو قربانی میں گزارنتے تھے۔ (7) ایک اور قربان گاہ پیتل کی بنائی سوختنی قربانی کے لیے کہ جس کا عرض بیس ہاتھ کا اور طول بھی بیس ہاتھ کا اور دس ہاتھ بلند تھی اور اس کے تصرف کے لیے دیگ اور چمچے اور دست پناہ وغیرہ، یہ سب چیزیں نہایت عمدہ پیتل سے بنائی تھیں اور اس نے دس ہزار میز دوسرے کاموں کے واسطے بنائیں کہ جن پر شیشیاں اور پیالیاں رکھی جاتی تھیں اور دس ہزار شمعدان جن میں سے ایک بڑا شمعدان رات دن ہیکل میں روشن رہتا تھا۔ یہ جنوب میں رکھا گیا اور وہ سونے کی میز کہ جس پر خدا کے نام کی روٹیاں رکھی جاتی تھیں شمال کی جانب اور سونے کی قربان گاہ ان کے درمیان رکھی اور باقی برتن اس مکان میں رکھے جو چالیس ہاتھ بلند تھا الخ۔ اور ہیکل کے چاروں طرف تین ہاتھ بلند ایک دیوار بنائی تاکہ ہر کوئی اس میں جانے نہ پائے کیونکہ وہ مکان متبرک تھا وہاں خاص پاک شدہ لوگ جاتے تھے۔ اور اس دیوار کے باہر ایک غار پٹوا کر زمین کو بلند کرا کے اس پر ایک دوسری ہیکل چھوٹی بہ نسبت اس بڑی کے تعمیر کرائی اور اس کے اندر بڑے بڑے کمرے بنائے، چار دروازے لگائے اور اس چھوٹی ہیکل کے سامنے دور تک دو رویہ مکانات کی قطار بنائی اور اس میں چاندی کا ملمع کیا۔ یہ ہیکل مع سازوسامان سات برس میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کی تعمیر میں سور کے پادشاہ حیرام نے لکڑیوں کی بہت مدد کی اور خود سلیمان 1 ؎ نے اس کام کے لیے تین ہزار آدمی مقرر کئے تھے کہ جو کوہ لبنان میں لکڑیاں چیرتے اور تراشتے اور یہاں بھیجتے تھے۔ ان کے علاوہ وہ غیر لوگ بھی تھے کہ جن کو دائود نے مقرر کیا تھا، ستر ہزار آدمی باربرداری کا کام اور اسی ہزار سنگ تراشی کا کام کرتے تھے اور تین ہزار ان سب کے محافظ تھے اور بادشاہ کا حکم تھا کہ سنگ تراش ہیکل کی نیو کے واسطے بڑے بڑے پتھر تراشیں اور ان کو وہیں درست کر کے شہر میں لائیں۔ سلیمان کی دعا : جب یہ ہیکل اور اس کا سب سازوسامان تیار ہوچکا تو حضرت سلیمان نے تمام بنی اسرائیل کو دور دراز سے جمع کیا اور ان کی دعوت کی اور بڑی دھوم دھام سے صندوق شہادت اندر رکھا، جب کاہن لوگ سب چیزیں بترتیب اندر رکھ کے باہر آئے تو ایک سیاہ ابر کا ٹکڑا کہ جس سے اندھیرا ہوگیا ہیکل کے اندر گیا جس سے لوگوں کو اس کی مقبولیت کا یقین ہوا تب سلیمان (علیہ السلام) نے سر سجدہ میں رکھ کر یہ مناجات کی کہ تو آسمان و زمین بروبحر کسی مکان میں سما نہیں سکتا، اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ اس مکان میں جس وقت بندے تیری عبادت کرنے آئیں، دعا مانگیں تو ان سب کی بندگی قبول کر اور ان کی دعائیں سن اور ان کی حاجات کو برلاگرچہ تو اپنے بندوں کی نگہبانی کرتا ہے جو تجھ سے ڈرتے ہیں تو ان کا زیادہ تر نگہبان اور ان پر بڑا مہربان ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا پھر قربانی بیشمار جانوروں کی گزرائی جن کو سب کے روبرو آسمان سے آگ اتر کر کھا گئی جس سے سب کو مقبول ہونے کا یقین ہوا پھر تمام لوگوں کو رخصت کیا وہ سب خوشیوں کے نعرے مارتے ہوئے اپنے اپنے شہروں اور گائوں اور گھروں میں چلے گئے۔ آج کے دن سے بھی زیادہ کوئی دن خوشی اوراقبال کا بنی اسرائیل کے لیے نہ ہوا ہوگا آج آفتاب اقبال و دولت نصف النہار پر تھا پھر زوال شروع ہوا۔ فصل چہارم… ہیکل کی بربادی : سلیمان (علیہ السلام) چالیس برس سلطنت کر کے چورانوے برس کی عمر میں جاں بحق ہوئے ان کے بعد بیٹار حبعام تخت نشین ہوا۔ یہ شخص اوباش، بدعقل اوباشوں کا دوست تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اقتدار سلطنت حاصل کر کے پورا بے 1 ؎ یوسفس مؤرخ اپنی کتاب کے حصہ ہشتم باب 6 میں کہتا ہے کہ سلیمان کے پاس ایسے بھی منتر تھے کہ جن سے دیو دفع ہوجاتے تھے پھر ان کے ایک منتر کا اثر اپنے مشاہدہ میں آنا بھی لکھتا ہے۔ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ جن اور دیو ان کے مسخر تھے اس بات کا استعجاب ان کو ہے کہ جو دیو اور جن کا صرف اپنے مشاہدہ میں نہ آنے سے انکار کرتے ہیں جس لیے تاریخی واقعات کی غلط توجیہیں کرنے پر مجبور ہوتے اس تقدیر پر جنوں سے کام لینا بھی کچھ بعید نہیں جیسا کہ قرآن مجید سے پایا جاتا ہے۔ 1 ؎ اپنا محل بابل میں تیار کرانے کے لیے۔ 12 منہ دین ہوگیا جس کا ثمرہ یہ ہوا کہ بارہ فرقوں میں سے صرف دو فرقے بنی اسرائیل کے اس کی حکومت میں رہ گئے اور دس کا ایک شخص یربعام نامی بادشاہ ہوگیا۔ سیساق کا حملہ : اس کے چند روز بعد سیساق شاہ مصر دو سورتھ اور ساٹھ ہزار سوار اور چار لاکھ پیادہ لے کر یروسلم پر چڑھ آیا۔ اگرچہ شہر کو ڈھایا یا جلایا نہیں نہ ہیکل کو گرایا مگر اس میں جس قدر سونے چاندی کا اسباب بےتعداد قیمت کا تھا سب لے گیا جس کے بعد رحبعام نے پیتل کا سامان بنایا۔ یہ پہلی مصیبت تھی جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد ہیکل اور یروسلم پر آئی۔ بار دوم : ربحعام سے یوسیا کے عہد تک جو تخمیناً چار سو برس کا زمانہ ہے، یروسلم میں متعدد بادشاہ گزرے اور ان میں بنی اسرائیل کی دوسری سلطنت میں دو ٹکڑے ہو کر دو سلطنت قائم ہوگئی تھیں باہم بہت کچھ جدال و قتال بھی ہوئے جس سے بنی اسرائیل کی سلطنت میں ضعف آگیا تھا اور ان میں بت پرست بادشاہ بھی ہوئے جن کی بےالتفاتی سے ہیکل خراب و خستہ اور بےمرمت پڑی رہی اور اسی عرصہ میں توریت بھی اور صندوق شہادت کے تبرکات بھی جاتے رہے مگر یوسیا نے پھر ہیکل کی مرمت کی اور اس کی مرمت میں بہت کچھ روپیہ صرف کیا۔ یہ بادشاہ دیندار تھا اس کے عہد میں مصر کے بادشاہ فرعون نیکوہ نے ملک آسور پر چڑھائی کی اس کا ایک صوبہ شاہ بابل نیوپلز بخت نصر کا باپ بھی تھا یوسیا کا ملک چونکہ بیچ میں حائل تھا، یہ شاہ مصر کا معارض ہوا آخر باہم جنگ ہوئی جس میں یوسیا زخمی ہو کر مرگیا (یہ یرمیاہ (علیہ السلام) کا زمانہ ہے) اس کے بعد اس کا بیٹا یہودآخذ یروسلم کے تخت پر بیٹھا۔ اس کی تخت نشینی کے تیسرے مہینے پھر وہی مصر کا بادشاہ یروسلم پر حملہ آور ہوا اور اس میں شہزادہ کو زنجیروں میں جکڑ کر مصر لے گیا اور یہ وہاں جاتے ہی مرگیا اور شہر یروسلم اور ہیکل پر بھی قدرے دست نظال دراز کیا اور اس کی جگہ یوسیا کے دوسرے بیٹے اِل لقیم کو تخت یروسلم پر بٹھا دیا اور اس کا نام بدل کر یہولقیم رکھا اور چار لاکھ چار ہزار تین سو اکیاون روپیہ سالیانہ باج گزاری کا مقرر کیا۔ یہ شہر یروسلم پر دوسری دفعہ کی مصیبت تھی مگر اب تک سلیمانی ہیکل اور شہر کے شاہی مکانات اور شہر پناہ بدستور قائم تھی جن کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ بارِسوم : اس واقعہ کے چند سال بعد بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ملک یہودیہ پر چڑھائی کی اور یروسلم کو فتح کر کے یہو لقیم کو اپنا باج گزار بنایا اور بہت کچھ مال و دولت لوٹا اور خاندان شاہی میں سے ایک گروہ کو اپنے محل کا خواجہ سرا بنا کرلے گیا۔ ان اسیروں میں حضرت دانیال پیغمبر (علیہ السلام) اور ان کے تین رفیق بھی تھے۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد یہولقیم نے بدعہدی کر کے شاہ بابل کی اطاعت سے انحراف کیا۔ شاہ بابل ان دنوں اپنی ماں کے ماتم اوردیگر علائق میں مبتلا تھا خود تو نہ آسکا لیکن اس نے یہودیہ کے آس پاس کے سرداروں کو جو سریانی اور موابی اور عمونی وغیرہ تھے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ان لوگوں نے چاروں طرف سے ملک پر تاخت و غارت گری کر کے گیارہ برس تک یہولقیم کا ناک میں دم کردیا آخر اس کو قتل کر کے یروشلم کے پھاٹک کے باہر پھینک دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا یکونیا یروسلم کے تخت پر بیٹھا اس کے تیسرے مہینے خود بخت نصر ایک جرار لشکر لے کر یروسلم پر چڑھ آیا۔ شہر کو فتح کر کے یکونیا اور اس کی ماں اور دیگر بیگموں اور شہر کے امیروں اور ہر قسم کے کاریگروں، لوہاروں اور سنگتراشوں 1 ؎ کو اور شاہی خزانہ اور ہیکل کے سب سونے کے برتنوں اور دیگر سامان کو لوٹ کرلے گیا اور یکونیا کے عزیزوں میں سے ایک شخص صدقیاہ کو حکومت دے گیا اور اس سے فرمانبرداری کا عہد لکھا لیا۔ بخت نصر کا واپس ہونا تھا کہ آس پاس کے سرداروں نے اپنی دوستی اور بخت نصر کی بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ایلچی بھیجنے شروع کئے۔ ادھر شاہ مصر نے ہمت دلائی آخر اپنی سلطنت کے نویں سال یہ بدعقل شہزادہ شاہ مصر کا اعلاناً معاہد ہوگیا اور شاہ بابل 1 ؎ اپنا محل بابل میں تیار کروانے کے لیے۔ 12 منہ سے کھلم کھلا انحراف ظاہر کردیا۔ بار چہارم : اس کے دو برس بعد بخت نصر بڑے بھاری لشکر کے ساتھ یروسلم کی طرف متوجہ ہوا۔ ادھر شاہ مصر نے بھی اپنی کمک صدقیاہ کے لیے بھیجی مگر اس خونخوار فوج کے سامنے کون ٹھہر سکتا تھا جو بنی اسرائیل کے اوباش اور فاسق اور مرتد بادشاہوں سے انتقام لینے کے لیے قہرالٰہی کا نمونہ تھی، آخر فتح کرلیا صدقیاہ روپوش ہو کر بھاگتا ہوا گرفتار ہوا اور شہر ربلہ میں قید کر کے بھیجا گیا، وہاں اس کے بیٹے قتل ہوئے اور اس کی آنکھیں پھوڑ کر زنجیریں پہنا کر بابل میں بھیجا گیا جہاں جا کر وہ جلد مرگیا۔ بخت نصر کے سپہ سالار نے یروسلم اور ہیکل کے سب مال و اسباب کو جمع کر کے باقی تمام شہر اور ہیکل میں آگ لگا دی اور سب کو جلا کر خاک کردیا اور ہیکل اور شہر کو بنیادوں تک اکھاڑ کر میدان بنا دیا اور ہزارہا مردوزن کو اسیر کر کے بابل میں پہنچا دیا اور ہیکل کے وہ برنجی ستون اور وہ حوض اور وہ ڈھلے ہوئے جالی دار پیتل کے سامان اور وہ بیل اور وہ کروبی جن کو زمانہ کے منتخب کاریگروں نے کس محنت سے بنایا تھا سب کو بابل روانہ کیا اور بیشتر کو توڑ پھوڑ دیا۔ توریت کو بھی جو ایک نقلی نسخہ تھا وہیں جلا دیا آج یہود کے اقبال کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہ ہیکل سلیمانی جس کی دنیا میں نظیر نہ تھی منہدم ہوگئی۔ شہر کے عمدہ مکانات اور بازار برباد ہوگئے۔ آج یہودیہ کا ملک اور کوہ صیحون بنی اسرائیل کو کس اشک حسرت کے ساتھ رخصت کرتے اور بابل کے سفاک سپاہیوں کے ہاتھ میں ان کی زنجیریں دیتے ہیں۔ انا اللہ واناالیہ راجعون یہ حادثہ عبرت خیز حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بقول اکثر مورخین پانچ سو چھیاسی برس پیشتر گزرا ہے یعنی تخمیناً چار سو پندرہ برس بعد تعمیر ہونے کے ہیکل برباد ہوئی ہے۔ حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) چونکہ صدقیاہ بدبخت کو اس پیش آنے والی مصیبت سے مطلع کر کے اس کی بدکاری اور بت پرستی سے نصیحت فرماتے تھے اس لیے ان کو صدقیاہ نے قید کردیا تھا اسی طرح اس سے پیشتر بھی یروسلم کے بدبخت بادشاہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل و قید کیا تھا۔ شاہ بابل کے ملازموں نے حضرت یرمیاہ کو قید سے رہائی دے کر ان کے ساتھ نیک سلوک کیا اور آزادی دی کہ جہاں چاہو رہا کرو، اب شہر بلکہ ملک اجاڑ پڑا ہے اور جو چند کنگال یہودی گردونواح میں باقی تھے جن کو کاشت و خدمت کے لیے رکھا تھا ان پر جدلیاہ بن اخی عام کو حاکم مقرر کر کے مصفاہ میں رہنے کا حکم دیا۔ غالباً وہ شخص کہ جس کا قصہ قرآن مجید میں ہے، قال انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا۔ یہ بھی حضرت یرمیاہ ہیں جو ہیکل اور یروسلم کی بربادی دیکھ کر دل میں کڑھتے اور روتے تھے۔ انہوں نے ہی نے حسرت سے یہ کہا تھا کہ یہ شہر اب کیونکر آباد ہوگا۔ خدا نے کرشمہ قدرت دکھانے کے لیے ان کی روح قبض کرلی اور ان کی سواری کا گدھا بھی مرگیا، اس پر سو برس کا عرصہ گزر گیا لیکن اس عرصہ میں بنی اسرائیل بابل سے رہا ہو کر پھر یہاں آئے اور دوبارہ ہیکل اور شہر تعمیر ہوگیا۔ اس کے بعد خدا نے یرمیاہ کو بھی زندہ کردیا اور ان سے پوچھا کہ کتنی دیر تک تم مرے پڑے رہے۔ انہوں نے کہا ایک دن یا کچھ کم پہر، خدا نے ان کے روبرو ان کے گدھے کو بھی زندہ کردیا اور فرمایا کہ تم پورے سو برس تک مرے رہے اور انہیں کے سامنے ان کی سواری کے گدھے کو بھی زندہ کیا اور فرمایا ہماری قدرت دیکھو کہ ہم نے اجڑے شہر کو کیسا آباد کردیا ؟ بعض لوگ اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ یرمیاہ سو گئے تھے اور خواب میں ان کو خدا تعالیٰ نے یہ کیفیت دکھائی تھی۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی مؤرخ بھی اس قصہ کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ یرمیاہ مصر چلے گئے تھے، وہیں مرے۔ ہیکل کی دوبارہ تعمیر : بابل میں ستر برس تک یہودی رہے اس عرصہ میں اپنے دینی دستورات بلکہ اکثر اپنی اصلی زبان سے بھی ناآشنا ہوگئے تھے جب شاہان بابل کا ایران کے بادشاہ خسرو کے ہاتھ سے خاتمہ ہوا تو مسیح سے تخمیناً پانچ سو برس پیشتر شاہ ایران کے حکم سے بیالیس ہزار یہودی جن میں یشوع سردار کاہن اور زوربابل بھی تھے پھر اپنے ملک یہودیہ کو روانہ ہوئے اور ان کو شہر اور ہیکل کی تعمیر کی اجازت بھی ملی اور ہیکل کا بچاکچھا اسباب بھی ملا مگر باقی یہودی بابل ہی میں رہے۔ حضرت حزقیل اور دانیال (علیہ السلام) یہیں فوت ہوگئے تھے۔ بنی اسرائیل نے آ کر تعمیر شروع کی مگر لوگوں کی غمازی سے کم بی سیسی نے روک دیا۔ نو برس تعمیر رکی رہی، پھر شاہ دارا کے حکم سے تعمیر شروع ہوگئی اور کئی برس میں ہیکل اسی جگہ اور اسی نمونہ پر تعمیر ہوئی۔ فرقہ سامری نے بھی شریک ہونا چاہا مگر یہود نے ان کی شرکت سے انکار کیا۔ سامری بھی یہودی تھے ان کو آسور کا بادشاہ شالمندز مسیح سے سات سو اکیس برس بیشتر اسیر کر کے لے گیا تھا اور وہاں ان کی نسل غیرقوموں سے مخلوط ہوگئی اور عرصہ کے بعد پھر یہ دوغلی قوم اپنے ملک سامریہ میں آ بسی۔ یہ لوگ بنی اسرائیل میں سے اس دوسری سلطنت کے لوگ ہیں جنہوں نے رحبعام کی ماتحتی میں ایک دوسری سلطنت قائم کی تھی تب سامریوں نے ایک کو لاوے کے فرقہ میں سے اپنا کاہن یعنی امام بنا کر ان کے مقابلے میں اپنے لیے کوہ جرزین پر ایک اور ہیکل بنائی 1 ؎۔ ع اپنا کعبہ جدا بنائیں گے ہم توریت میں جو عیبال پہاڑ پر معبد بنانے کا اشارہ ہے (استثنا 27 باب 4 درس) انہوں نے اس لفظ عیبال کو بدل کر جرزین بنایا اور یروسلم کے منکر ہوگئے اور ایک دوسرے کو تحریف توریت کا الزام دینے لگے اور یہ جھگڑا ان میں قرنوں تک باقی رہا۔ چناچہ ایک بار اسکندریہ کے یہودیوں اور سامریوں میں یہ مباحثہ پیش ہوا اور شاہ مصر کے روبرو ایک سو پچاس برس مسیح سے پیشتر سامریوں نے شکست کھائی۔ سامری توریت کے پانچوں حصوں کو تو مانتے ہیں باقی عہد عتیق اور عہدجدید میں سے اور کسی کتاب کو الہامی نہیں جانتے۔ یہ لوگ اب بھی شام میں موجود ہیں۔ الغرض ہیکل دوبارہ پھر اسی طور سے تعمیر ہوئی، زوربابل بن سلتائیل اور یوشع بن صدق اس کے مہتمم تھے اور حجی اور زکریا بن عیدو (علیہما السلام) مذہبی دستور کے موافق ہدایت کرتے جاتے تھے اور شاہ ایران کی طرف سے تعمیر کا خرچ اور لکڑی پتھر کی مدد ملتی تھی اور ان اضلاع کے صوبے نہایت سرگرمی سے فرمان شاہ کے بموجب مدد کرتے تھے۔ عرصہ کے بعد حضرت عزیر (علیہ السلام) 2 ؎ بھی مع بہت سے سازوسامان اور ایک جماعت کے آ کر شریک ہوئے اور حضرت عزیر نے اپنی یاد پر ان دونوں نبیوں کی مدد سے یہود کے لیے ایک کتاب بھی مرتب کی جس کو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توریت کہتے تھے اور نیز ان کے دین اور رسوم عبادت کا بھی انتظام کیا۔ دارا کے عہد میں سات برس کے اندر ہیکل بن کر تیار ہوئی اور جب بنی اسرائیل کے لوگ قربانی کرنے کو جمع ہوئے اور بہت سے لوگ دف لے کر خدا کی حمدوستائش گانے لگے تو نوعمر ہیکل کی خوشی میں نعرے مارتے اور پرانے لوگ قدیم ہیکل کو یاد کر کے زار زار روتے تھے۔ دارا کے بعد اس کا بیٹا حششاہ تخت نشین ہوا یہ بھی بنی اسرائیل پر بڑا مہربان تھا۔ اس کے مقرب حضرت نحمیا (علیہ السلام) تھے جو شہر سو سن 3 ؎ دارالسلطنت ایران میں رہتے تھے ان سے چند بنی اسرائیل نے بیان کیا کہ شہر پناہ نہ ہونے کی وجہ سے اطراف کے لوگ ہم کو لوٹتے ہیں۔ حضرت نحمیاہ نے بادشاہ سے اجازت اور پروانہ لیا اور خود بھی آئے اور شہر پناہ بھی بنوائی۔ (یہ یوسفس کا بیان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 1 ؎ وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علواکبیرا فاذا جاء وعد اولہما بعثنا علیکم عبادًا لنا اولی باس شدید فجاسوا خلال الدیار الآیہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مطلع کردیا تھا کہ تم دو بار سرکشی نہایت درجہ کی کرو گے تو ہم تم پر ایک زورآور قوم مسلط کریں گے اس میں بخت نصر کی طرف اشارہ ہے چناچہ بنی اسرائیل کی سرکشی اور فساد کا اس زمانہ میں انتہا نہ رہا تھا پس ان پر بخت نصر مسلط ہوا جس نے ان کو برباد کردیا اس کے بعد پھر بنی اسرائیل اپنے ملک میں آباد ہوئے اور ہیکل اور شہر آباد ہوا تو پھر دوبارہ سرکشی اور کفروبت پرستی کرنے لگے اس لیے دوبارہ بلائے عظیم ان پر نازل ہوئی جس میں اینتوکس یا طیطس شاہ روم کی چڑھائی کی طرف اشارہ ہے۔ 2 ؎ عزیر کو اہل کتاب عزرا کہتے ہیں حجی اور زکریا بھی اس عہد کے نبی تھے یہ وہ زکریا نہیں جو حضرت یحییٰ کے (جن کو یوحنا کہتے ہیں) باپ تھے 12۔ 3 ؎ جس کو آج کل شوشتر کہتے ہیں یہ شہر کیا نی بادشاہوں کا دارالسلطنت تھا۔ 12 منہ دارا وہ نہیں کہ جس کو سکندر رومی نے مغلوب کیا کیونکہ اس دارا کا کوئی بیٹا نہ تھا) اس کے بعد سے یروسلم اور اس کے باشندے شاہان ایران کے مطیع ہوگئے ان کی مستقل حکومت نہ تھی۔ سکندر رومی کے عہد تک سکندر فلپ نے یونان سے خروج کر کے مشرقی ملکوں پر حملہ کرنا شروع کیا اور آخر داراشاہ فارس کو شکست دے کر ملک فارس اپنے قبضہ میں کرلیا اور اس کے بعد ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ (یہ واقعہ حضرت مسیح سے تین سو تینتیس برس پہلے گزرا ہے) پھر شہر بابل میں آ کر عین شباب میں مرگیا۔ اس کے عہد میں یروشلم کے کاہنوں نے اس کی حکومت قبول کرلی تھی اسی لیے ہیکل اور یروشلم جدید پر کوئی نئی مصیبت نہیں آئی اور نیز یہود اب تک اپنے افعال قبیحہ پر نادم اور تائب بھی تھے کہ جس کی وجہ سے تازہ مصیبت میں گرفتار نہ ہوئے مگر اس کے بعد پھر بدکاری اور گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ بموجب ان احسنتم احسنتم لانفسکم و ان اساتم فلہا۔ اس کے بعد پھر موردبلا ہوئے۔ سکندر کے بعد اس کا تمام ملک اس کے سرداروں پر تقسیم ہوگیا 1 ؎۔ انٹی کو نس نے ایشیا پر سلوکس نے ملک بابل پر اور لسی ماخس نے پلس پانٹ پر اور کس ڈر نے مسڈون پر اور ٹولمی ابن لاگس نے ملک مصر پر قبضہ کیا (یوسفس) اس ٹولمی نے ملک یہودیا اور یروشلم پر بھی قبضہ کرلیا تھا اور یہودیوں کو اپنی رعیت بنایا اور ان کو دیندار سمجھ کر بہت کو عمدہ عمدہ عہدے بھی دیے اس لیے بہت سے یہود اس کی قدردانی سے ملک مصر میں چلے گئے اور ہزاروں اسکندریہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ پھر مصری بادشاہ کو یہودی کتابوں کے جمع کرنے اور عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کرانے کا شوق ہوا تو ایلی العزر یہودیوں کے سردار کاہن کے نام ایک خط لکھا اور چند افسر بہت سا ہدیہ دے کر بھیجے کہ آپ ہر فرقہ سے چند منتخب علماء میرے پاس بھیج دیجئے تاکہ وہ مجھے ترجمہ میں مدد دیں۔ کاہن نے بڑے شکریہ کے ساتھ جواب لکھا اور بہترّ یہودی عالم کتابیں دے کر ترجمہ کرنے کو بھیجے جنہوں نے شریعت کا عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ کو سپٹواجنٹ 2 ؎ کہتے ہیں جس کے معنی بہتر (72) کے ہیں۔ اس کے عہد میں یہودیوں نے بڑی عزت پائی تھی۔ اسی طرح ایشیاء کے بادشاہوں نے بھی یہود کی نہایت عزت و حرمت کی تھی چناچہ سلوکس نے ایشیا اور شام سر یا میں قلعے بنا کر یہودیوں کو ان کے سردار بنا دیا تھا اور اپنے دارالسلطنت انطاکیہ میں بھی ان کو بہت کچھ دخل دیا تھا۔ واضح ہو کہ سکندر کے بعد جب ملک کے ٹکڑے ہوگئے تو ایک شخص ایتوگونس نے حضرت مسیح سے تین سو برس پیشتر یعنی سکندر کی وفات کے تینتیس برس بعد شہر انتاکیہ (انطاکیہ) آباد کر کے اس کو اپنا دارالسلطنت ٹھہرایا۔ یہ یونانی سلطنت کہلاتی تھی اور اس خاندان کے بادشاہ اینتوکس کہلاتے تھے۔ ان کی اور مصر کے بادشاہوں اٹالمی خاندان کی ہمیشہ لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہودی بےچارے ان دونوں پتھروں میں پسا کرتے تھے۔
Top