Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کے لیے ٹھہرا دیا تھا کہ تم زمین پر دو بار فساد کرو گے اور بڑی ہی سرکشی کرو گے
یروشلم پر پانچواں حادثہ : آخر اینتوکس چہارم کا تسلط یروسلم پر ہوگیا جس نے کہانت کا عہدہ تیرہ لاکھ میں یسون یہودی کے ہاتھ فروخت کردیا۔ پھر اس سے واپس لے کر اس کے بھائی منلائوس کے ہاتھ چوبیس لاکھ پچھتر ہزار پر فروخت کر ڈالا۔ اینتوکس کی خبر وفات سن کر یسون اپنے بھائی پر حملہ آور ہوا اور اس کو قتل کردیا۔ چونکہ یہ بادشاہ ہنوز زندہ تھا، طیش میں آ کر حضرت مسیح سے ایک سو ستر برس پہلے یروسلم پر 1 ؎ سکندریہ کی سلطنت عظیم اس کے چاروں سرداروں میں یوں تقسیم ہوئی، سلوکس کو ایران و بابل اور چند صوبے مشرقی ملے کالس سانڈر کو مقدونیہ اور اس کے صوبجات انتگونس (اینتوکس) کو شام اور ایشیائِ کو چک کے اکثر صوبجات اور ٹالمی نے مصر اور اس کے اطراف پر قبضہ کیا۔ (دیباچہ رومن قرآن مطبوعہ الٰہ آباد 1842 ء) ۔ 12 2 ؎ یہ ترجمہ مسیح سے دو سو برس پہلے سکندریہ میں ہوا ارود تاریخ کلیسیا مطبوعہ 1870 ء حاشیہ صفحہ 98 مسیح سے 314 برس آگے اینتوکس نے یہودیہ کو ٹولمی شاہ مصر کے ہاتھ سے چھوڑا لیا تھا مگر مسیح سے 302 برس آگے پھر ٹولمی نے ملک یہودیہ کو لے لیا اور 205 برس پیشتر تک مصریوں ہی کے قبضہ میں رہا۔ یہ زمانہ یہود کے لیے بڑے امن کا تھا اسی عہد میں یہود نے پہلی کتابوں اور دیگر روایات کو جمع کیا۔ یہ توریت موجودہ و صحف انبیاء اسی عہد کی تالیف ہیں۔ اسی عہد میں سپٹواجنٹ ترجمہ یہی ہوا ہے۔ 12 منہ چڑھ آیا چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا اور چالیس ہزار کو قید کر کے لے گیا اور ہیکل کا اسباب جو چار کروڑ انسٹھ لاکھ ساٹھ ہزار کی مالیت کا تھا لوٹ کرلے گیا اور ہیکل کی نہایت بےعزتی کی اور ایک ظالم کو یروسلم کا حاکم مقرر کر گیا۔ پھر مسیح سے 179 برس پیشتر شاہ انطاکیہ نے مصر پر حملہ کیا لیکن یہود اس حملہ میں شاہ مصر کے طرفدار ہوگئے اور شاہ انطاکیہ شکست کھا کر واپس آیا تب اس نے اپنے سپہ سالار کو حکم دیا کہ یروشلم کو برباد کرے۔ چناچہ اس نے آ کر قتل عام کیا اور شہر میں آگ لگا دی اور شہر پناہ اور دیگر عمدہ مکانات کو گرا دیا (مگر ہیکل بچ رہی) پھر اینتوکس کو انطاکیہ پہنچ کر یہ خبط پیدا ہوا کہ سب لوگوں کو یونانیوں کے مذہب بت پرستی پر چلا دے چناچہ اس نے اپنے نائب اسینیوس کو یہودیوں پر حاکم مقرر کر کے بھیجا اور حکم دیا کہ جو مذہب بت پرستی نہ مانے تو اس کو قتل کر ڈالنا۔ حاکم نے یروسلم پہنچ کر چند بےدین یہودیوں کو اپنا شریک کر کے لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کیا اور تمام کتب یہود کو تلاش کر کے جلا دیا اور ہیکل میں چوپٹر کی مورت قائم کی اور جس نے اس حکم کی تعمیل نہ کی اس کو قتل کیا۔ اسمونی خاندان : اسمونی خاندان کا ایک بوڑھا کاہن مت تا تھیس اپنے پانچ بیٹوں یوحنا، شمعون، یہوداہ، ایلعاذر، یونتان کو لے کر اپنا دین بچانے کے لیے یروشلم سے بھاگ کر اپنے وطن اور شہر مودن میں آرہا۔ یہاں بھی اس کے تعاقب میں اینتوکس کے لوگ آئے، اس نے پانچوں بیٹوں اور بہت سے دین دار یہودیوں کو جمع کر کے جہاد کیا جس میں شاہی لوگ شکست کھا کر بھاگے۔ پھر اس نے بتوں کو توڑا اور بت پرستوں کو قتل کیا۔ مسیح سے ایک سو سڑسٹھ برس پیشتر۔ اس کے بعد اس کا بیٹا یہوداہ جس کا لقب مقابیس تھا اس کے قائم مقام ہوا۔ یہ وہی مقابیس ہے جس کی دو کتابیں مقابیس اول و مقابیس دوم عبرانی زبان میں ہیں اور یونانی اور سریانی و رومن کیتھولک عیسائی اب تک ان کو آسمانی کتابوں کے مجموعہ میں شمار کرتے ہیں۔ مقابیس نے یروشلم کو لیا اور کھنڈر شہر کی مرمت کی اور ہیکل کو بتوں سے پاک و صاف کیا۔ اینتوکس نے انتقام کا قصد کیا مگر وہ تھوڑے دنوں کے بعد بیمار ہو کر مرگیا 1 ؎ پھر مسیح سے ایک سو اکسٹھ برس پیشتر مقابیس ایک لڑائی میں شہید 2 ؎ ہوگئے۔ اس کے بعد ان کا بھائی یونتان قائم مقام ہوا اس نے بھی اپنے بھائی شمعون کی مدد سے دین یہود کا انتظام نہایت عمدگی سے کیا لیکن وہ بھی سر یا کے بادشاہ کے ہاتھ شہر پطولیمس میں مارا گیا اس کے بعد اس کا بھائی شمعون مسیح سے ایک سو چوالیس برس پہلے اس کا قائمقام ہوا اور اس نے بھی یہودیوں کو غیرقوموں کی حکومت سے آزاد کرانے میں بڑی کوشش کی لیکن یہ بھی اپنے داماد کے ہاتھ سے یرسیوشہر کے قلعہ میں جبکہ وہ کسی مہم سے واپس آرہا تھا دغا سے مارا گیا۔ اس کے بعد شمعون کا بیٹا یوحنا حاکم اور سردار کاہن ہوا اس نے چند یہودیہ کے صوبوں پر اپنا قبضہ کرلیا اور سامریوں کی ہیکل کو بھی غارت کردیا اور بہت سے یہودیوں کو انطا کی مذہب سے پھیرلیا اور رومیوں سے بھی ازسرنو پھر عہدوپیمان مستحکم کیا اس کے فوت ہونے کے بعد اس کا بیٹا ارسطو بولس اس کی گدی پر بیٹھا 3 ؎۔ 1 ؎ انہیں دنوں میں رومی سلطنت نے جس کا پایہ تخت شہر رومہ ملک اٹلی میں تھا بڑا زور پکڑا تھا۔ یہ سلطنت کمزوروں کی اعانت کیا کرتی تھی یہ سمجھ کر مقابیس نے وہاں اپنے ایلچی بھیجے اور انطاکیہ کے بادشاہوں سے محفوظ رہنے کے لیے اس نئی سلطنت سے اتحاد پیدا کیا۔ سلطنت رومی نے ڈیمٹریوس گورنر اینتوکس کو دھمکایا تو ڈیمٹریوس کی فوج نے یروسلم کو آگھیرا لیکن روم سے کچھ بھی مدد نہ آئی اور مقابیس کے ساتھی بھاگ گئے۔ مقابیس خود بڑے استقلال کے ساتھ لڑ کر شہید ہوگئے۔ 12 منہ۔ 2 ؎ مسیح سے ایک سو سات برس پہلے۔ 12 منہ 3 ؎ شاہان مصر کے عہد حکومت میں سردار کاہن یروشلم میں حاکم کے طور پر یہاں کا انتظام کرتے تھے اینتوکس شاہ سریانی نے جس کا دارالسلطنت انطاکیہ تھا اس نے اگلے زمانہ کی طرح پھر یہودیہ میں بادشاہت قائم کی۔ اسیری بابل کے بعد یہ اول شخص ہے کہ جو یہود کا بادشاہ کہلایا۔ اس نے یہودیوں کا ایک بڑا دفینہ برآمد کیا تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا سکندر جن نیوس تخت نشین ہوا۔ ستائیس برس حکومت کر کے مسیح سے اناسی برس پیشتر انتقال کر گیا ان دنوں میں دو یہودی بھائیوں میں عہدہ کہانت کی بابت جھگڑا پیدا ہوا اور ہر ایک نے اپنی عرضی پورمی شاہ روم کے پاس بھیجی جو آس پاس کے ملکوں کو فتح کرچکا تھا۔ یہ بادشاہ یروسلم پر چڑھ آیا اور تین مہینے کے محاصرہ کے بعد یروشلم کو فتح کرلیا اس لڑائی میں بارہ ہزار یہودی مارے گئے اور اپنی طرف سے ایک کو سردار کاہن مقرر کرلیا۔ اس وقت سے ملک یہودیہ روم کے بادشاہوں کی حکومت میں آگیا جن دنوں میں کہ رومی سرداران ملکوں کی فتوحات میں مصروف تھے۔ ایک شخص اودمی انٹی پیٹر نے رومیوں کو بڑی مدد دی تھی جس کے صلہ میں جیولس قیصر روم نے اس کے بیٹے اینٹی پیٹر کو ملک یہودیہ اور اس کے پاس کے ملکوں کا حاکم مقرر کردیا جس کے تحت میں یہود کا کاہن یعنی امام یروسلم کا حاکم بھی تھا۔ مسیح سے چالیس برس پیشتر انٹی پیٹر مذکور مرگیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ہیرودیس سوریا اور جلیل کا حاکم مقرر ہوا لیکن ان دنوں میں یہود کا کاہن اور حاکم انٹی گونس یہودی تھا اس نے ہیرودیس مذکور کی یہاں تک مخالفت کی کہ اس کو شہرروم میں بھاگ جانے کے سوا چارہ نہ ہوا۔ شاہ روم نے اس کی خاندانی خدمات کے لحاظ سے پھر اس کو یہودیوں کا حاکم بنا کر بھیجا۔ اس پر بھی اس کو کاہن مذکور سے تین برس تک لڑنا پڑا آخیر یروشلم کا محاصرہ کر کے اس کو فتح کرلیا اور مریمن یہودن سے شادی کر کے یہود کا بادشاہ بن گیا اس کی حکومت پینتیس برس تک رہی اسی کے اخیر عہد میں حضرت مسیح (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ (صحیح یہ ہے کہ اس کے بعد) ۔ ہیکل کی سہ بارہ تعمیر : اس نے یہود کے خوش کرنے کے واسطے ہیکل کو رفتہ رفتہ ازسرنو تعمیر کرانا شروع کیا اس طرح پر کہ جب تھوڑے سے ٹکڑے کو توڑ کر بنا چکتے تھے تب دوسرے ٹکڑے کو توڑتے تھے اس طرح پر تمام عمارت نئے سرے سے بہت خوبصورت اور خوشنما بن کر مسیح سے آٹھ برس آگے عبادت کے لیے تیار ہوگئی مگر اس کی تکمیل چھیالیس برس تک ہوتی رہی مسیح کی تیس برس کی عمر تک۔ اٹھارہ ہزار آدمی نو برس تک اس میں کام کرتے رہے اور جبکہ موریہ پہاڑی کی چوٹی اس کی وسعت کے لیے کافی نہ ہوئی تو پہاڑی کے چاروں طرف بڑا سنگین پشتہ باندھا گیا۔ یہ بہت بلند تھا خصوصاً دکھن کی طرف چھ سو فٹ کی بلندی تھی۔ احاطہ کے باہر والی دیوار اسی پشتہ پر بنی تھی جس کی بلندی 25 فٹ تھی اور آدھے میل کا گھیر تھا۔ اس کے اندر چاروں طرف دیوار کے پاس بہت خوشنما برآمدے بنے تھے۔ ان برآمدوں میں لوگ ٹہلتے اور انہیں میں صراف اور کبوتر فروش بیٹھتے تھے جو ہیکل کی نذرونیاز والوں کے لیے چیزیں فروخت کرتے تھے اور اسی جگہ ایک مکان تھا کہ جہاں بیٹھ کر یہودی معلم جو ربی کہلاتے تھے مسائل تعلیم کیا کرتے تھے اسی جگہ ربیوں کو مسیح نے لاجواب کیا تھا (لوقا 2 باب 6) پہلے عیسائی بھی یہاں جمع ہوا کرتے تھے (اعمال 2 باب 46) ۔ اس احاطہ کی دیوار میں نو پھاٹک تھے اور ان میں داخل ہونے کے لیے بڑے بڑے زینہ پشتہ پر بنے ہوئے تھے۔ یہ سب پھاٹک بڑے خوشنما تھے خصوصاً مشرق کی طرف کا پھاٹک جو زیتون کی پہاڑی کے سامنے تھا۔ یہ پھاٹک عمدہ پیتل کا تھا اس کی بلندی پینتیس ہاتھ تھی اور اس 219 تک ٹولمی چہارم اور پنجم سے کئی بار جنگ کی اس عہد میں یہود کو طرح طرح کی تکلیف پہنچی اخیر جنگ میں یہودی مصریوں کو چھوڑ کر شاہ سر یا کے طرفدار ہوگئے جس سے شاہ مذکور نے ہیکل اور شہر کی مرمت کی اور سالیانہ بھی مقرر کیا مگر اس کے جانشین نے اس کو موقوف کردیا اور ارادہ بد کیا پھر اس کے جانشین اینتوکس چہارم نے کہانت کا عہدہ فروخت کیا جس پر یہود نے بغاوت اختیار کی اور پھر اینتوکس نے یروشلم پر حملہ کر کے شہر کو غارت کیا اور ہیکل کا وہ سامان جو شاہان ایران و مصر سے ملا تھا لوٹ لیا اور شہر کو ویران کردیا۔ 12 منہ کے پاس کے برآمدہ کو سلیمان کا برآمدہ کہتے تھے۔ باہر والا احاطہ عام لوگوں کے لیے تھا اس کے اندر ایک اور احاطہ تھا کہ جہاں صرف یہودی عورتیں جاسکتی تھیں وہ بھی اس وقت جبکہ قربانیاں لاتی تھیں اس کے آگے اسرائیلیوں کا احاطہ تھا اور اس کے آگے لاویوں کا جہاں قربان گاہ اور پیتل کا حوض خاص ہیکل کے سامنے رکھا تھا۔ خاص ہیکل بہت بلند اور نہایت خوشنما تھی۔ اس کے سامنے ایک برآمدہ ڈیڑھ سو فٹ بلند اور اتنا ہی چوڑا تھا۔ ہیکل کے اندر دو دالان یا کمرے تھے۔ ایک جو قدوس کہلاتا تھا، ساٹھ فٹ لمبا اور اتنا ہی اونچا اور تیس فٹ چوڑا تھا اس میں نذر کی روٹیاں رکھنے کی میز اور بخور جلانے کی قربان گاہ اور سونے کے شمعدان رکھے ہوئے تھے۔ اس سے آگے دوسرا کمرہ قدس الاقدس کہلاتا تھا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور اتنا ہی لمبا اور اتنا ہی اونچا کمرہ تھا۔ پہلی ہیکل کے وقت اسی کمرہ میں عہد کا صندوق رہتا تھا کہ جس میں شریعت کی دو لوحیں اور من کا مرتبان اور ہارون (علیہ السلام) کا عصا تھا اس میں بجز سردار کاہن کے اور کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ وہ بھی سال میں ایک بار ان دونوں کمروں کے درمیان کتاں کا ایک باریک پردہ بڑا قیمتی پڑا رہتا تھا۔ خاص ہیکل کے چاروں طرف سہ منزلہ بہت سے کمرے کاہنوں کے رہنے کے لیے بنے تھے اور احاطہ میں بہت سی اسی قسم کی عمارات تھیں۔ یہ سب عمارات سنگ مرمر سے بنائی گئی تھیں (تفسیر پادری اسکاٹ) ۔ جو ہیکل کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد میں تھی وہ یہی تھی اسی کے کسی کمرہ میں حضرت مریم [ نے زکریا (علیہ السلام) کے پاس پرورش پائی تھی۔ اسی ہیکل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے حواری عبادت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ یہ ہیرودیس شہر یریحو میں مرگیا اس کے ظلم و ستم سے بنی اسرائیل سخت ناراض تھے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ہیرودیس ثانی اپنے باپ کا جانشین ہوا اسی کے خوف سے حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مصر کی طرف بھاگ گئے تھے اور اسی کے عہد میں اسی کے حکم سے حضرت یوحنا یعنی یحییٰ (علیہ السلام) کا سر مبارک اس کی جورو اور بیٹی کے کہنے سے کاٹ کر ایک طشت میں اس کے سامنے لایا گیا تھا۔ ہیرودیس اول کے تین بیٹے تھے اس لیے اس کے بعد اس کے ملک کے بھی تین حصہ ہوگئے۔ ملک یہودیہ اور ادومیہ اور سامریہ ارکلائوس کو ملا اور بیت عینا اور تراخونتیس وغیرہ فلیبوس کو گلیۃ اور پر یہ انطپ اس کو۔ اور سب کو ہیرودیس ہی کہتے تھے۔ یہ ارکلائوس اپنے باپ کی طرح بڑا ظالم اور سنگ دل تھا اسی لیے اس کی حکومت کے نو برس بعد اس کو اگستس قیصر روم نے بےدخل کر کے ملک گال (فرانس) میں بھیج دیا اور وہ وہیں جا کر مرگیا۔ انہیں دنوں میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ظہور ہوا اور جابجا انہوں نے وعظ و پند و معجزات دکھانے شروع کئے۔ گو یہودی انبیائِ سابقین کی پیشین گوئی سے منتظر تھے کہ کوئی اولوالعزم رسول پیدا ہونے والا ہے مگر اپنی بداقبالی اور شامت سے الٹے حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کے جانی دشمن ہوگئے۔ آخر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کر کے پلاطوس کے پاس لے گئے جو قیصر روم کی طرف سے تھا اس کے پاس الزام بغاوت لگا کر سولی دینے لے گئے تھے۔ اس نے ان کی خاطر سے ان کو سولی دینا چاہا اور خدا نے حضرت کو اوپر اٹھا لیا اور ان کی صورت میں کسی اور کو کردیا جو وہ سولی دیا گیا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد حواریوں پر بھی بڑا ظلم و ستم ہوتا رہا۔ نہ صرف یہودیوں کی طرف سے بلکہ شاہان روم کی طرف سے بھی۔ حضرت مسیح نے اثنائِ وعظ میں بارہا یہود کو ایک آسمانی بلا سے ڈرایا تھا کہ عنقریب تم کو آفت آنے والی ہے اور ہیکل اور شہر کو برباد کرنے والی ہے مگر وہ اس کا کب باور کرتے تھے 1 ؎؟ چناچہ حضرت مسیح کے بعد جبکہ ملک یہودیہ میں خاندان ہیرودیس کی بدنظمیوں کے سبب قیصر کی 1 ؎ یہود کی شان و شوکت رخصت ہونے کے بعد ان میں مذہب اور قومیت کا خون بھی باقی نہ رہا تھا۔ اپنی بیٹیوں کی طمع مال سے ان لوگوں سے شادی کردیتے تھے جن سے مذہباً سخت ممانعت تھی یعنی نامختوں اور بت پرست لوگوں سے اور ان پر فاتح قوموں کا یہاں تک اثر پڑگیا تھا کہ وہ اپنے نام بھی انہیں طرف سے ایک مستقل گورنر اس ملک میں قائم ہوا اور یروسلم میں رومی لشکر رہنے لگا یہودی ادھر تو رومیوں کی سخت حکومت سے بےدل تھے، ادھر کچھ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کے بادشاہوں اور ان کے اقبال کے افسانہ سن کر جوش اٹھتا تھا کہ کسی طرح رومیوں کی حکومت سے آزادی حاصل ہو، انبیاء کا فرمودہ اور اعمالِ بد کا نتیجہ کب ٹلتا ہے۔ یہ تدبیر الٹی ان کی ہلاکت کا باعث ہوگئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہود نے ملک میں بغاوت شروع کی اور آخرکار فوج یروسلم کو بھی محاصرہ کر کے قتل کر ڈالا اور بھی بہت سے رومی ان کے ہاتھ سے قتل ہوئے اور یروسلم میں یہود کا پھر عمل و دخل ہوگیا لیکن عیسائی اس فساد میں شریک نہ تھے بلکہ اسی لیے وہ وہاں سے مسیح کی خبر کے بموجب (لوقا 21 باب 21) باہر بھاگ گئے تھے سپاسیٹن رومی سردار ایک لشکر مہیب لے کر یروشلم پر چڑھ آیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا بہت دنوں تک باہم لڑائیاں ہوتی رہیں۔ رومی سردار نے بارہا اطاعت کے پیغام بھی بھیجے مگر یہود نے نہ مانا اس عرصہ میں طیطوس اس لشکر کا سپہ سالار ہو کر آیا اور پھر جب وہ قیصر ہوگیا تو اس کی جگہ شہر کا محاصرہ اس کے بیٹے طیطس نے اپنے ذمہ لے لیا۔ یروسلم اور ہیکل پر چھٹا حادثہ : شہر کا سخت محاصرہ کیا اور یوسفس مورخ کو کئی بار یہود کے پاس بھیجا کہ بغاوت سے باز آؤ اور شہر میرے حوالہ کر دو تاکہ تم امن میں رہو مگر یہود کو اپنی شہر پناہ میں گھمنڈ اور نافرمانی کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی مدد پر بڑا بھروسہ تھا، نہ مانا اور حتی المقدور دل توڑ کر مقابلہ کیا۔ آخر غلہ نہ ہونے کی وجہ سے مردار خوری کی نوبت پہنچی اور آپس میں بھی فساد پڑگیا۔ رومی لشکر شہر میں گھس پڑا اور جو سامنے آیا اس کو قتل کیا۔ مردو عورت چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہ تھی اور شہر میں آگ لگا دی۔ رومی سپہ سالار نے بہت چاہا کہ ہیکل نہ جلنے پائے مگر اس ہلڑ میں کون سنتا تھا خصوصاً جبکہ چھ ہزار یہودی اس میں پناہ گزیں تھے آخر وہاں بھی آگ کے شعلے اٹھنے لگے اور ہر طرف سے آگ بھڑکنے لگی اور ہر جانب شہر میں خون کی دھاریں بہنے لگیں، شہر کی بنیادیں تک اکھاڑ دی گئیں اور ہیکل کی بھی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ شہر اور ہیکل پر ہل چلا دیا گیا اور ترجمہ سپٹواجنٹ بھی ساتھ ہی جل گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کو طیطس شہر رومیہ میں لے گیا تھا (مفتاح الکتاب صفحہ 21) اس حادثہ میں تخمیناً گیارہ لاکھ بنی اسرائیل قتل ہوئے اور لاکھ کے قریب غلام بنائے گئے۔ (اس میں کسی قدر مبالغہ ہے) ۔ اس حادثہ سے پہلے چند آثار عجیبہ بھی ظہور میں آئے تھے۔ (1) ایک ستارہ تلوار کی صورت شہر کے اوپر نمودار ہوا۔ (2) ایک دم دار ستارہ تمام سال دکھائی دیتا رہا۔ (عید فصح کی شب میں قربان گاہ کے پاس آدھے گھنٹے تک ایسی روشنی چمکتی رہی کہ گویا دن ہوگیا) ۔ (3) ہیکل کا شرقی درازہ جو پیتل کا تھا اور بیس آدمیوں سے بہ مشکل بند ہوتا تھا، ایک رات آپ سے آپ کھل گیا۔ (4) عید فصح کے تھوڑے دنوں بعد غروب آفتاب کے بعد بادلوں میں لڑائی کی گاڑیوں اور ہتھیار بند سپاہیوں کی شکل نمودار ہوتی رہی دیر تک (رومن تفسیر اسکاٹ صفحہ 87) ۔ یہ حادثہ مؤرخین کے نزدیک سن ستر عیسوی میں ہوا یعنی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے صعود کے چالیس برس 1 ؎ بعد اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے رکھنے لگے تھے عبرانی زبان کی جگہ سریانی ‘ شاہان انطاکیہ کے عہد حکومت اور یونانی شاہان اٹالیہ کے عہد میں اور رومی جس کو لاطینی بھی کہتے ہیں شاہان رومہ کے عہد میں ما یہ فخر ہوگئے تھے اور کوئی بھی ان میں قومی نشان دھلی لباس سے لے کر عادات تک بلکہ مذہب تک باقی نہ رہ گیا تھا جو کوئی ان کو کسی طرف لے جانا چاہتا تھا تو وہ اس پر چلنے کو تیار تھے۔ مقابیس وغیرہ حامیان قوم نے بہت کچھ کوشش کی کہ کہیں پھر اس قوم کے دن پھریں مگر ان میں تو کوئی حس و ادراک قومی باقی نہ رہا تھا۔ وہ سب کوششیں بیکار گئیں مسلمان بھی یہود کے واقعہ کو چاہیے کہ بچشم عبرت دیکھیں۔ 1 ؎ مفتاح التورایخ میں ہے ص 5 سن عیسوی کا رواج حضرت مسیح کے پیدا ہونے کے چار سال سات روز بعد سے ہے حضرت نے تیس برس کی عمر میں دعوت دین کی یعنی 26 عیسوی میں اور 36 برس کی عمر میں پلاطوس کے ہاتھ سے جمعہ کے روز 3 اپریل 33 ء میں وفات پائی اس روز یہود کی عید فصح کا دن تھا انتہٰی۔ اس کے بموجب 70 ء تک صعود مسیح سے چالیس برس نہیں گزر سکتے بلکہ تین کم چالیس پھر عیسائی مؤرخ چارلس جانے کیا سمجھ کر کہتے ہیں اور تیس بھی جو بتلاتے ہیں صریح غلطی کرتے ہیں۔ فافھم۔ 12 منہ کے حواریوں میں سے صرف یوحنا شہر افسس میں زندہ تھے۔ (ہندی تاریخ کلیسا صفحہ 27۔ 28 ) اس کے بعد بھی یہود کی شرارت کم نہ ہوئی چناچہ اس حادثہ کے چونسٹھ برس بعد آدریاں قیصر روم نے یہود پر سخت تشدد کرنا شروع کیا اور حکم دیا کہ جو کوئی ختنہ کرے گا قتل ہوگا۔ اسی دن سے عیسائیوں نے بھی توریت و حواریوں کو بلکہ کلیسیا یروسلم کو بالائے طاق رکھ کر پولوس کے کہنے سے رسم ختنہ کو ترک کیا تاکہ یہودیوں کے شبہ میں مارے نہ جائیں۔ پھر اس قیصر نے یروسلم پر اور ہیکل کی بنیادوں پر دوبارہ ہل چلوائے اور اس شہر کا نام بدل کر اپنے خاندان کے نام سے دوسرا نام ایلیہ رکھا۔ یہ پادشاہ 138 ء میں فوت ہوا۔ اس کے بعد روم میں اور بھی بادشاہ ہوئے جو اکثر مذہب عیسائی بلکہ یہودی دونوں کے سخت دشمن تھے اور ان کے ہاتھ سے عیسائیوں کو وہ وہ تکالیف پہنچیں کہ جن کا بیان نہیں ہوسکتا۔ آخر 337 ء میں قسطنطین اول قیصر روم جو بڑا ظالم اور سنگدل تھا اپنے ملک کے استحکام کے لیے عیسائی ہوا اس نے اور پھر اس کے بعد قسطنطین ثانی نے لوگوں کو زبردستی عیسائی بنانا شروع کیا لیکن اس کے بیٹے کا جانشیں جیولین قیصر عیسائی مذہب کے برخلاف ہوگیا اور اس نے صرف مسیح کی اس پیشین گوئی کی تکذیب کرنے کے لیے جو انجیل لوقا کے 12 باب 24 درس میں ہے یروسلم میں ہیکل کی تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اس لیے اس نے کاریگر بھیجے جب مزدور ہیکل کی بنیاد کھودنے لگے تو زمین سے آگ کے ایسے شعلے نکلے کہ کوئی مزدور نیو 1 ؎ نہ کھود سکا گرچہ بارہا قصد کیا مگر ہیکل کی تعمیر پر قادر نہ ہوئے۔ یہ ماجرا سن چار سو عیسوی سے کچھ پہلے کا ہے اس کے بعد پھر اور بھی قیاصرہ 2 ؎ گزرے ہیں لیکن کسی نے ہیکل کو تعمیر نہ کیا۔ الغرض طیطس کے عہد سے لیکر حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد تک گو یروشلم آباد ہوا اور عیسائیوں نے وہاں اپنے معبد بنائے، یہودی بھی اس میں رہنے لگے مگر ہیکل اس عرصہ تک جو تخمیناً چھ سو سال کا ہوتا ہے ویسی ہی اجاڑ پڑی رہی کچھ بنیادوں کے نشان باقی تھے اور کچھ نہ تھا۔ ہیکل کی تعمیر چوتھی بار : پھر حضرت عمر ؓ نے اس کو ازسرنو تعمیر کیا جس کی تفصیل یہ ہے، گرچہ ہمارے مؤرخین واقدی (رح) وغیرہ نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ہم مخالفوں کے سکوت کے لیے عیسائی مؤرخوں سے ہی نقل کرتے ہیں۔ وھوھذا۔ فصل 5 : حضرت ابوبکر ؓ نے خلیفہ ہو کر ایک لشکر جمع کیا اور 632 ء میں ملک شام کے لینے کا ارادہ کیا اور یزید بن ابی سفیان ؓ کو امیر لشکر بنا کر اور بہت سی نصیحتیں کر کے روانہ کیا۔ ہریکلیس 3 ؎ (ہرقل) نے اپنی رعیت کو لڑائی کے لیے بھڑکایا مگر کچھ کارگر نہ ہوا۔ یزید کے پاس 1 ؎ مسیح کا قول تھا کہ جب تک غیر قوموں کا وقت پورا نہ ہو یروسلم غیر قوموں سے روندی جائے گی الخ اس درس کا مطلب عیسائیوں نے یہ سمجھا ہے کہ بیگانہ قوم ہیکل یا یروشلم کو تعمیر نہ کرسکے گی چناچہ جیولیس قیصر چونکہ غیر تھا یعنی بت پرست و کافر وہ آباد نہ کرسکا۔ اب ہم اس کے یہ معنی تسلیم کر کے کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ نے اس کو تعمیر کیا تو وہ غیرقوم نہ ہوئے بلکہ اللہ کے مقبول۔ یہی ایک دلیل اسلام کی منجانب اللہ ہونے پر کافی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عیسائی اللہ کی قوم نہیں یعنی پسندیدہ جماعت نہیں کس لیے کہ اسی ہوس پر کئی سو برس تک عیسائیوں نے جمع ہو کر بیت المقدس لینے کا قصد کیا مگر بجز ایک عارضی قبضہ کے ان کا قبضہ نہ ہوا برخلاف اس کے کہ آج ساڑھے بارہ سو برس سے زیادہ ہوئے مسلمان نہ صرف یروسلم بلکہ اس کل ملک کے مالک ہیں کہ جس کا وعدہ خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کی نسل کے لیے ابد تک کیا تھا۔ آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد سے آگے روم کے قیصروں نے پھر یروسلم کی عمدہ شہر پناہ اور اس میں برج اور خندق بنائے جس کا محاصرہ آ کر خلافت عمر ؓ میں ابوعبیدہ ؓ نے کیا اور چار مہینے کے محاصرہ کے بعد حضرت عمر ؓ کے آنے پر شہر مسلمانوں کے حوالہ کیا گیا۔ 12 منہ 2 ؎ یعنی درین قیصر نے 130 ء میں شہر کی آبادی شروع کی پھر 403 ء میں کو ئن یودا کشید نے شہر پناہ بنائی مگر ہیکل ایسی ہی خراب عہد حضرت عمر ؓ تک پڑی رہی ہاں اس کے متصل قسطنطین کے گرجے بنے ہوتے تھے۔ 3 ؎ ان قیصروں کے عہد میں پھر ایران کی سلطنت بڑے زور کے ساتھ قائم ہوگئی تھی۔ ایرانیوں اور قیصروں کی باہم لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ کبھی یہ غالب کبھی سے متواتر خلیفہ کے پاس فتحیابی کی خبریں آتی تھیں ادھر ایک اور لشکر تسخیر بیت المقدس کے لیے تیار کیا، آخر شہر بصرہ کو فتح کیا۔ اس کے چار دن بعد قوم سراسن (اہل اسلام) دمشق کی دیواروں تلے آپہنچے۔ یہ شہر شام کا قدیم تخت گاہ ہے، اہل اسلام سے مقابلہ ہوا۔ سراسین کی وہ فوجیں جو شام اور بیت المقدس کی فتح کے لیے پھیل گئیں تھیں، ایزاناڈن کے میدان میں جمع ہوئیں، یونان کے ستر ہزار عمدہ سپاہی ان کے مقابلے کو آئے۔ خالد ؓ نے صلح کے پیغاموں کو اس شرط پر کہ عرب اپنے وطن کو پھرجائیں منظور نہ کیا اور اپنے لشکر کو ترغیب دے کر مقابلہ پر آمادہ کیا۔ طرفین میں مقابلہ ہوا، یونانی حملہ کی تاب نہ لا کر بھاگ گئے، بہت سے عیسائی مارے گئے باقی تتربتر ہوگئے اور جو بچے تھے وہ قیصریہ واینٹی لوک اور دمشق کو بھاگ گئے۔ اہل اسلام نے سونے چاندی کی صلیبوں اور ان کے عمدہ ہتھیاروں سے اپنے تئیں آراستہ کیا۔ اس جنگ میں پچاس ہزار عیسائی مارے گئے اور چار سو ستر مسلمان شہید ہوئے۔ یونانیوں کے سپاہ گری کے فن سے واقف ہونے کی وجہ سے محاصرہ نے طول کھینچا جب مسلمانوں نے رومیوں پر سخت محاصرہ کیا اور غلہ اور گھانس بند کر کے ان کو تنگ کیا تو انہوں نے سو ایلچی ابوعبیدہ ؓ کے پاس بھیجے، چونکہ ابوعبیدہ نرم دل اور نیک نیت تھے اور اہل یونان کو اس امیر کی آدمیت اور خلق پر اعتماد تھا اس لیے صلح ہوگئی اور یہ قرار پایا کہ جو باہر جانا چاہیں چلے جائیں اور یہاں کا امیر خلیفہ کو محصول دیا کرے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے دمشق فتح ہونے سے پہلے ماہ جولائی 634 ء میں وفات پائی اور مرنے سے پہلے وصیت کی کہ میرے بعد عمر کو خلیفہ کرنا۔ عمر ؓ نے اس عہدہ سے انکار کیا تھا کہ مجھے اس کی آرزو نہیں مگر ابوبکر صدیق ؓ کے فرمانے سے قبول کیا۔ حضرت عمر ؓ نے خلافت کے بعد خالد ؓ کو معزول کر کے ان کی جگہ ابوعبیدہ ؓ کو سردار کیا۔ خالد بن ولید سیف اللہ ؓ نے کہا، میں جانتا ہوں کہ عمر ؓ مجھ سے محبت نہیں رکھتے لیکن وہ میرے آقا ہیں، ان کا تابعدار ہوں۔ میں پہلے کی طرح ہر کام میں تندہی کروں گا اور ممکن نہیں کہ میں جانفشانی میں جو خدا کی راہ میں کرتا تھا قصور کروں۔ اب میں ان واقعات فتحِ بلاد شام کو مختصراً بیان کرتا ہوں۔ لشکر اسلام نے شہر ایما یعنی المس 1 ؎ اور ہیلوپولس یعنی بعلبک کو 635 ء میں فتح کیا۔ ندی یرموک یعنی ہر ومیکس پر جو بحیرہ تبریس (تبریا جھیل) میں گرتی ہے اس کے کناروں پر شاہ استنبول کے طرف داروں کا اسی ہزار لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کو جمع ہوا اور اپنی سپاہ گری سے ڈرایا۔ لوگوں نے خلیفہ کے پاس اس امر کو مطلع کرنے کو قاصد بھیجے۔ خلیفہ نے آٹھ ہزار کی جمعیت اور بھیجی۔ ابوعبیدہ ؓ نے خالد ؓ کو فوج کے تمام اختیارات دے دیے۔ خالد نے لوگوں کو کہا کہ بہشت تمہارے آگے ہے اور شیطان اور دوزخ پیچھے اور ابوعبیدہ ؓ نے فرمایا زخم اور تکلیف میں تم اور دشمن دونوں برابر ہیں لیکن انعام اور خوشی ان کو نصیب نہیں (فانہم یالمون کماتالمون و ترجون من اللہ ما لایرجون) اس کہنے سے بہادران اسلام کے دل پھر تروتازہ ہوگئے اور اپنے سے بہت زیادہ لشکر کے ساتھ جنگ شروع کردی۔ رومی سواروں کے حملوں سے قریب تھا کہ مسلمان بھاگ اٹھیں مگر قوم حمیر کی عورتوں کی لعنت و ملامت سے جو پچھلی صف میں کھڑی تھیں، پھر عرب کو حمیت آئی، پھر تو رومیوں کو تلواروں کی دھاروں پر لیا، بہت سے رومی مارے گئے، بہت سے دریا میں ڈوب مرے، باقی پہاڑوں اور جنگلوں وہ اور قیصروں کی سلطنت عرب کے کناروں سے لے کر انگلستان تک پھیل گئی تھی۔ اخیر میں قیصروں کی سلطنت کے دو حصہ ہوگئے تھے۔ روم غربی جس کا پایہ تخت شہر روم تھا جو ملک اٹلی میں ہے جس کو ایک بار مغربی جاہل قوموں نے فتح بھی کرلیا تھا دوسرا روم شرقی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں 612 ء میں ایران کے بادشاہ خسرو نے یروسلم کو فتح کیا اور انیس ہزار کو قتل کر کے عیسائیوں کے گرجوں کو گرا دیا پھر اس کے چند برس بعد روم کے ہر کلیوں (ہرقل) نے خسرو کو شکست دے کر اپنا قبضہ کیا اسی کی بابت قرآن میں الم غلبت الروم الخ آیا ہے پھر اس کے نو برس بعد حضرت عمر ؓ نے اس کو فتح کیا۔ ادھر ایران کی سلطنت تمام ممالک شرقیہ پر حاوی تھی گویا اس عہد میں یہ دو ہی سلطنتیں تھیں جن کو مسلمانوں نے چند عرصہ میں لے لیا۔ 12 1 ؎ حمص۔ میں جا چھپے۔ یہ مژدہ خلیفہ کے پاس گیا۔ بیت المقدس کا محاصرہ : چونکہ اب حلب اور یروسلم اور اینٹی 1 ؎ لوک کا نگہبان بجز اس مغلوب لشکر کے اور کوئی نہ تھا اس لیے خلیفہ کے حکم سے بیت المقدس کا محاصرہ کیا گیا۔ جب پانچ ہزار مسلمانوں نے حملہ کیا اور کامیاب نہ ہوئے تو ابوعبیدہ ؓ نے اپنے تمام لشکر کے ساتھ اس شہر کو گھیر لیا اور ایلیہ یعنی یروشلم کے بڑے بڑے سرداروں کو یہ خط لکھا : صحت اور خوشی ان لوگوں کو ہے جو راہ راست پر چلتے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ تم سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لاؤ اور جب تم ایمان لاؤ گے تو ہمیں حرام ہے کہ تمہیں ماریں یا تمہارے بال بچوں کو ہاتھ لگائیں اور اگر تم ایمان نہیں لاتے تو خراج دو اور ہماری حمایت میں رہنا اختیار کرو اور جو اس کو بھی نہیں مانو گے تو میں تمہارے مقابلہ میں ایسے لوگ لائوں گا جو اللہ کی راہ میں شہید ہونے کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں، تمہارے شراب پینے اور سور کھانے سے (یعنی جس طرح تم شراب اور سور کو عزیز رکھتے ہو وہ شہید ہونے کو اس سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں) اور ہم بغیر فتح کے یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔ شدت سرما میں مسلمان چار مہینے تک شہر کو گھیرے رہے آخر پادری سوف رومینس نے صلح کی شرط کو منظور کیا اور کہا کہ یہ پاک جگہ ہے، اس کو میں خلیفہ کے سوا اور کسی کے سپرد نہیں کروں گا۔ مسلمانوں نے خلیفہ کو لکھا کہ شہر کا دینا آپ کے آنے پر موقوف کیا۔ آخر حضرت علی ؓ کے مشورہ سے خلیفہ کا جانا ہی قرار پایا۔ ان کا سفر باوجودیکہ دنیا کے بڑے مقاصد کے حاصل کرنے کے لیے تھا مگر سادگی اور پاسداری مذہب اور حقیر سمجھنے اسباب و سامان دنیا پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ قدرے بیان کرنا مناسب ہے۔ حضرت عمر ؓ کا سفر کس توکل سے ہوتا ہے : میں اوکلی صاحب کے بیان کے موافق لکھتا ہوں جو صاف صاف ہے۔ خلیفہ نے اول مسجد میں نماز پڑھی اور بعد زیارت کرنے مزار رسول مقبول ﷺ کے حضرت علی ؓ کو اپنی جگہ مقرر کیا اور چند رفیقوں کے ساتھ باہر نکلے جو تھوڑی سی دور سے الٹے پھر آئے۔ ایک سرخ رنگ کے اونٹ پر سوار ہوئے اور دو تھیلے ساتھ لئے، ایک میں جو کے ستو دوسرے میں کھجوریں تھیں اور کاٹھ کا طباق اونٹ کے پیچھے باندھ لیا اور پانی کی مشک آگے رکھ لی۔ جس جگہ رات کو اترتے وہاں صبح کی نماز پڑھ کر چلتے اور ہمراہیوں کو مخاطب کر کے خدا کی حمدوثناء کرتے کہ اس نے ہم کو راہ راست پر چلایا اور گمراہی سے بچایا اور باہم محبت دی اور مخالفوں پر غالب کیا، تم اس کا شکر کرو۔ جو شکر کرتا ہے وہ خدا کی نعمتیں زیادہ پاتا ہے۔ پھر طباق ستوئوں سے بھر کر بڑی فیاضی کے ساتھ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کھاتے۔ اسی سفر میں ایک مسلمان کا مقدمہ پیش ہوا جس نے دو بہنوں سے شادی کر رکھی تھی۔ آپ نے ایک کے ترک کرنے کا حکم دیا پھر ایک شخص حریر پہنے ہوئے پیش کیا گیا، اس کو عیاشی کے لباس سے منع کیا اور کئی ایک باجگزاروں کو دھوپ میں بیٹھا دیکھا، ان پر رحم فرما کر رہائی دی اور رحمدلی اور سلہکاری کی۔ عالموں کو تاکید کی جب شہر کے قریب پہنچے نعرہ اللہ اکبر بلند کیا گیا اور ایک موٹی اون کے خیمہ میں زمین پر بیٹھ گئے۔ رئیس قوم (نصارٰی) نے اپنے سرداروں سے کہا ان لوگوں سے بغیر مدد آسمانی مقابلہ کرنا بےفائدہ ہے، ان کے رسول نے حکم دیا ہے کہ حلم و حیا و تابعداری کو عمل میں لائیں اور ان اوصاف سے ان کی ترقی ہوگی۔ تھوڑے دنوں میں سب قانون پر ان کی شرع کو غلبہ ہوگا اور ان کی حکومت مشرق سے مغرب تک پھیل جائے گی 2 ؎۔ ان کے بعد شرائطِ صلح منظور ہوگئیں اور شہر کے دروازے کھول دیے گئے۔ خلیفہ اور رئیس نصارٰی باتیں کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے اور عبادت گاہ سلیمان پر خلیفہ کے حکم سے ایک نہایت عمدہ مسجد تعمیر کرائی گئی۔ خلیفہ دس روز مقام کر کے وہاں سے مدینہ واپس آئے۔ (ملخصاً ازسیرالاسلام) یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہو کر طبع ہوئی ہے۔ 1 ؎ انطاکیہ 2 ؎ بیت المقدس پر عیسائیوں کے حملے کو جو کروسیہ کہلاتے ہیں۔ فصل ششم : حضرت عمر ؓ کی بنوائی ہوئی مسجد مدتوں تک قائم رہی اور ملک شام اور شہر یروشلم بھی اس دن سے آج تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔ اتنی مدت اس ارض مقدسہ پر نہ تو بنی اسرائیل کی حکومت رہی نہ کسی اور کی۔ خلفائِ اربعہ ؓ کے بعد خاص ملک شام میں شہر دمشق امیر معاویہ ؓ کا پایہ تخت قرار پایا اور عرصہ تک یکے بعد دیگرے بنی امیہ کے بادشاہ ہوتے رہے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اولاد میں سلطنت آئی۔ خلفاء عباسیہ مامون رشید، ہارون رشید وغیرہ نے اپنے عہد میں یورپ کے اور ملک بھی ماتحت کرلیے تھے، ان کے عہد میں شہر بغداد دارالسلطنت تھا۔ ایران، عرب، مصر، شام و دیگر سب ان کے ماتحت تھے۔ 297 ہجری میں ملک مصر میں ایک شخص مہدی 1 ؎ نے خلفائِ عباسیہ کے برخلاف اپنی خلافت قائم کی تھی۔ یہ مہدی اپنے آپ کو امام حسین ؓ کی اولاد میں شمار کرتا تھا اور یکے بعد دیگرے ان کے خاندان میں بھی چودہ خلیفہ قائم ہوئے۔ ان کی سلطنت پانچ سو سڑسٹھ ہجری تک رہی۔ ان کا اخیر خلیفہ عاضدلدین اللہ ابو محمد عبداللہ تھا۔ اس دولت علویہ کا خاتمہ سلطان صلاح الدین یوسف ابن ایوب کے ہاتھ سے ہوا جو ان کے ہاں آ کر وزیر ہوا تھا۔ سلطان مذکور اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ سلطان نورالدین محمود شاہ شام کی طرف سے جو متعلقین سلاطین سلجوقیہ میں سے تھا یہاں آیا تھا اور اپنے آپ کو خلفائِ عباسیہ کا ماتحت شمار کرتا تھا۔ خلفائِ عباسیہ کے عہد میں بخارا اور خراسان و ایران وغیرہ بلاد میں نئے نئے بادشاہ قہار پیدا ہوگئے تھے جو اپنے آپ کو برائے نام خلفائِ عباسیہ کا ماتحت سمجھتے تھے اور ان کے ہاں سے خطاب اور سند حاصل کرنے کے لیے نذریں اور تحائف بھیجا کرتے تھے۔ منجملہ ان کے ایک دولت سامانی بخارا میں بڑے زوروشور کے ساتھ تھی جن کے متعلقین میں سے سبکتگین اور اس کا بیٹا سلطان محمود بھی ہے جس نے ہندوستان کو فتح کیا۔ ترکوں کے حوصلہ متواتر فتوحات سے بڑھ گئے تو ان میں سے اقبال مند لوگ بھی ظاہر ہونے لگے چناچہ ان میں سے ایک شخص وقاق ترکوں کا سپہ سالار تھا اس کا بیٹا سلجوق سلطان یغبوشاہ ترکستان کا سپہ سالار معتوب ہو کر نواحی جند میں آرہا اور کافر ترکوں سے جہاد کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے ارسلان، موسیٰ ، میکائیل بھی اسی طرح جہاد کرتے رہے، میکائیل شہید ہوگیا، اس نے یغبوطغرل بک جغرہ بک دائود چار جوانمرد بیٹے چھوڑے۔ دائود اور طغرل بغراخاں شاہ ترکستان کے ہاں ملتجی ہوئے۔ اس نے دغا کی اس سے بھاگ کر یہ پھر جند میں آرہے۔ یہاں تلک کہ دولت سامانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور ایلک خاں بخارا کا بادشاہ ہوا۔ اس کے مصاحبوں میں ارسلان بن سلجوق داخل ہوگیا یہاں تک کہ جب سلطان محمود نے ایلک خاں کو بھگایا تو اس کی رفاقت میں ارسلان بھی بھاگا تھا۔ ارسلان کی جماعت آذربائیجان تک پہنچی، ادھر طغرل آس پاس کے بادشاہوں سے لڑنے بھڑنے لگا۔ اس کے ہاتھ سے مسعود بن محمود نے شکستیں پائیں اور آخر کو ملک خوارزم کے بادشاہ بن بیٹھے۔ 434 ء ہجری میں پھر رفتہ رفتہ ان کی سلطنت زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ ملک شام اور ایشیائِ کو چک پر بھی اس کا تسلط ہوگیا، قسطنطنیہ میں اس کا خطبہ پڑھا گیا اور اس نے اپنے اقارب میں کسی کو شام کا کسی کو دیگر صوبجات کا حاکم اور بادشاہ مقرر کردیا۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ مصر میں المستنصر علوی خلیفہ ہے اور بغداد میں القائم باللہ عباسی ہے۔ ایران میں شاہان بنی بویہ تھے جو خلفائِ بغداد پر قابض ہوگئے تھے۔ انہیں کے عہد میں یہ خاندان تمام ہوا۔ طغرل خلیفہ بغداد کا نائب گنا جاتا تھا، طغرل لاولد مرگیا اس کے بعد 455 ہجری میں اس کی جگہ اس کا بھتیجا الپ ارسلان بن دائود بن سلجوق وارث سلطنت ہوا۔ اس نے بھی بڑی بڑی فتحیں پائیں اور اس کے وزیر نظام الملک نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا۔ 465 ہجری میں الپ ارسلان مرگیا اور ملک شاہ اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا اس کے بعد اس کا بیٹا سلطان سنجر ہوا اور قائم کی جگہ اس کا پوتا مقتدی بامر اللہ ہوا۔ 467 ہجری میں الغرض سلجوقی خاندان 1 ؎ اس کا نام ابوالقاسم محمد ابن عبداللہ ہے۔ اس نے قیروان کو لے لیا اور مہدیہ شہر بسایا، اس کے معتقد اس کو مہدی سمجھتے تھے اس کے مقابلے میں ایک بکتی ملا ابویزید بھی اٹھا تھا۔ اس کو یہ لوگ دجال کہتے تھے مگر خلفائِ عباسیہ ان کو غلام اور یہودی نسل سے کہتے تھے۔ 12 منہ۔ کے متعدد بادشاہ ہوگئے تھے جن میں باہم لڑائیاں بھی ہوا کرتی تھیں اور شام کا ملک خصوصاً بیت المقدس کبھی خلفائِ مصر کے نوابوں کے قبضہ میں آجاتا تھا، کبھی خلفائے عباسیہ کے برائے نام مطیعون شاہان سلجوقیہ کے قبضہ میں رہتا تھا۔ مسلمانوں کی اس باہمی خونخوار لڑائیوں اور طوائف الملوکی نے عیسائیوں خصوصاً فرنگستان (یورپ کے) بادشاہوں کے دلوں میں مسلمانوں سے لڑنے اور بیت المقدس کے لینے کا حوصہ پیدا کردیا اس کی ابتداء یوں ہوئی۔ حرب الصلیب… یروسلم پر پہلا حملہ : بیت المقدس کے حج کو ہر طرف کے عیسائی جوق در جوق آیا کرتے تھے۔ ان میں ایک شخص پیٹر نامی انمیس صوبہ پکارڈی ملک فرانس کا رہنے والا بھی آیا جو کوتاہ قد حقیر صورت تھا۔ شاید اس نے وہاں مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ تکلیف پائی تھی۔ وہاں کے بڑے پادری سے شکایت کر کے یہ کہا کہ تم شاہان یونان سے مدد کیوں نہیں مانگتے، اس نے کہا وہ عیش و غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان سے کیا ہوسکتا ہے۔ پیٹر نے کہا تو میں شاہان یورپ کو آمادہ کرتا ہوں۔ پیٹر وہاں سے چلا اور اربن ثانی اس زمانہ کے پوپ سے ملا۔ پوپ نے وعدہ کیا کہ میں مجلس عام میں اس کی تحریک کروں گا مگر اتنے عرصہ میں تم منادی کرتے پھرو۔ حضرت مجنونانہ صورت بنا کر ایک گدھے پر سوار ہو کر اور بہادری سے صلیب لے کر تمام ممالک فرانس اور اطالیہ میں منادی کرتے پھرنے لگے۔ شاہراہوں، گرجاگھروں میں جہاں کہیں وعظ کرتے زواروں کی تکالیف بیان کرتے۔ لوگ سن کر رو دیتے۔ اس پر حضرت واعظ کی ہچکیاں اور آہیں اور لمبے لمبے آنسو اور حضرت عیسیٰ اور مریم ( علیہ السلام) کی دہائی دینا اور بھی غضب کرتا تھا۔ آخر ملک فرانس میں نومبر 1095 ء میں ایک مجلس جمع ہوئی جس میں بہت سے نامور سردار اور مشہور امیر بھی آئے۔ آٹھ روز مجلس رہی لوگ پہلے ہی سے بھرے ہوئے تھے ادھر اس جہاد 1 ؎ کا ثواب سنتے ہی چیخ اٹھے کہ ہاں یہی مرضی خدا ہے، ہاں یہی مرضی خدا ہے۔ پیٹر کے ساتھ ایک انبوہ کثیر جمع ہوگیا جس میں رئوساء اور شہزادے بھی تھے۔ اس لشکر کا سرخ لباس اور صلیب نشان تھا۔ یہ لشکر کہ جس کی تعداد لاکھ سے زیادہ تھی اور جوق در جوق لوگ ان میں شامل ہوتے گئے ہنوز ملک شام میں پہنچنے نہ پایا تھا کہ سلطان سلیمان نے مار کر ان کے چیتھڑے اڑا ڈالے۔ لاکھوں آدمیوں کی ہڈیوں کا ڈھیر اس جنگ کی یادگاری میں لگا دیا مگر ایک دوسرا لشکر اور بھی تیار ہوا تھا جس کا سپہ سالار فرانسیسی شہزادہ مسمی گا ڈفری توالوں تھا اس لشکر نے جا کر یروسلم کا محاصرہ کیا۔ آخر فرنگی رسالے اور پلٹنیں شہر میں گھس آئے اور گلی کوچوں میں مسلمانوں کے زن و فرزند کو تہ تیغ کرنا شروع کیا۔ صرف مسجد مقدس میں جو کئی ہزار مسلمان پناہ گزیں تھے قتل کئے گئے۔ ہرچند مسلمان رو رو کر امان امان پکارتے تھے مگر ان دیندار عیسائیوں کی رحمدلی کب امان دیتی تھی ؟ آخر صلیب کا نشان اڑنے لگا۔ یہ واقعہ ایک ہزار ننانوے 2 ؎ عیسوی میں ہوا اگرچہ تخمیناً ستر ہزار مسلمان تو شہید ہوئے مگر بےچارے یہودی بھی اپنی عبادت گاہوں میں قتل کئے گئے۔ گا ڈفری اول ہی سال میں مرگیا مگر تخمیناً نوے برس تک نہ صرف بیت المقدس پر بلکہ آس پاس کے ملکوں پر بھی عیسائیوں کا قبضہ رہا۔ واضح ہو کہ 463 ہجری میں یوسف بن آبق خوارزمی نے جو ملک شاہ بن الپ ارسلان کا امیر تھا ملک شام میں جا کر شہر رملہ اور بیت المقدس کو مستنصر خلیفہ مصر کے نواب سے چھین لیا تھا، پھر 487 ھ میں خلیفہ مصر نے ارتق کے بیٹوں ایلغازی اور سقمان سے چھین لیا۔ پھر اس جنگ تک مصریوں کے پاس رہا ابوالفداء سلیمان جس نے پیٹر کے لشکر کو تہ تیغ کیا تھا، قطومش سلجوقی کا بیٹا ہے جو قوینہ و دیگر بلاد روم کا بادشاہ تھا وہ 477 ہجری میں اپنے چچازاد بھائی سلطان تاج الدولہ تنش بن الپ ارسلان کی جنگ میں مارا گیا (ابوالفداء) اس حادثہ کے دنوں میں مستظہرباللہ عباسی خلیفہ بغداد تھا اور سلجوقیوں میں سے سلطان محمد ابن ملک شاہ بڑی شان و شوکت سے ملک اپنے بھائیوں سے فتح کرتا پھرتا 1 ؎ بیت المقدس پر عیسائیوں کے حملے جو کروسید کہلاتے ہیں۔ 2 ؎ ابو الفدارس کو 490 ھ کا واقعہ بتلاتے ہیں۔ 12 منہ تھا۔ دوبارہ حملہ : اول جنگ کے تخمیناً اڑتالیس برس بعد جب عیسائیوں نے یہ سنا کہ فرات کے اس طرف جو عیسائیوں نے ایک بڑا قلعہ مسلمانوں کے روکنے کے لیے بنایا تھا اس کو زنگی امیر موصل نے لے لیا تو ان کے دلوں میں پھر جہاد کی آگ کا شعلہ بھڑکا اور اب پیٹر کی جگہ برناڈ منادی کرنے لگا۔ آخر اس نے لوئیس ہفتم شاہ فرانس اور کان رڈ جرمنی کو معتقد کرلیا۔ یہ دونوں بادشاہ تین لاکھ لشکر لے کر ہنگری کے راستہ قسطنطنیہ پہنچے۔ منوئیل شاہ قسطنطنیہ کی بدسلوکی سے ان کی طاقت گھٹ گئی۔ آخر کیدوشیا کے پہاڑوں میں انہوں نے سخت ہزیمت مسلمانوں سے اٹھائی اور بڑی بڑی مصیبتیں اٹھا کر واپس آئے۔ تیسرا حملہ : 581 ہجری میں سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ان عیسائیوں کے مقابلہ کا ارادہ کیا جو نوے برس تک ان ممالک پر حاکم اور مسلط تھے۔ اول طبریہ پر ہفتہ کے روز پانچویں ربیع الاول کو لڑائی ہوئی، عیسائیوں نے شکست کھائی جس میں فرنگستان کا ایک بادشاہ اور ایک گرجستان کا عیسائی بادشاہ گرفتار ہوا، اس کے بعد شہر عکہ کا محاصرہ کیا، اس کو بھی فتح کیا۔ پھر بیروت اور قساریہ اور صفوریہ اور رملہ بیت لحم وغیرہ شہروں کو فتح کرتا ہوا خاص بیت المقدس کی شہر پناہ کا بھی آ کر محاصرہ کرلیا۔ سرنگیں لگا دیں اور شہر پناہ کو اکھیڑ کر پھینک دیا۔ فرنگیوں نے امن چاہا کہا جس طرح تم نے اس کو زور شمشیر فتح کیا تھا میں بھی اس کو اسی طرح فتح کروں گا۔ پھر فرنگیوں نے ایلچی بھیجا کہ ہم بہت ہیں تم تھوڑے امن دو ورنہ مرتا کیا نہ کرتا ہم دل توڑ کر لڑیں گے۔ سلطان نے فرمایا ایک شرط پر امن دیتا ہوں وہ یہ کہ ہر ایک مرد تم میں سے دس دس دینار (اشرفی) اور ہر ایک عورت پانچ دینار اور بچہ دو دینار دے تو شہر سے باہر چلا جائے ورنہ قید ہوگا۔ چناچہ فرنگیوں نے اس شرط کو منظور کیا اور بروز پنجشنبہ 27 رجب کو بادشاہ شہر میں داخل ہوا اور سلطانی لوگوں نے عیسائیوں سے دروازوں پر جزیہ وصول کرنا شروع کیا۔ اشرفیوں کے ڈھیر لگ گئے، ادھر ہر فصیل پر اسلام کا جھنڈا کھڑا کردیا گیا تھا۔ عیسائیوں نے الصخرہ کے قبہ پر ایک صلیب سونے کی کھڑی کردی تھی۔ مسلمانوں نے نعرہ اللہ اکبر بلند کر کے اس کو جب اکھیڑ کر پھینکا تو عجب خوشی کا شوروغل تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا اور عیسائیوں میں رونے پیٹنے کا غل تھا۔ شہر فتح کر کے سلطان نے پھر مسجد کو اسی طور سے تعمیر کرا دیا اور جانب غربی میں جو ایک کمرہ بنایا تھا اس کو گرا دیا۔ نورالدین محمود بن زنگی نے ایک منبر حلب میں اس نیت سے بنوایا تھا کہ اس کو بیت المقدس میں رکھوں گا۔ سلطان نے اس کو منگا کر مسجد میں رکھا، اس بادشاہ نے عیسائیوں کا نہ صرف بیت المقدس اور ملک شام سے استیصال کیا بلکہ حوالی مصر سے بھی۔ جب یورپ میں یہ خبر پہنچی تو پھر جوش پیدا ہوا اور انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اول اور فرانس کا فلپ اگستس ‘ جرمن کا فریڈرک بڑی خونخوار فوجیں لے کر بیت المقدس پر چڑھ آئے مگر یروسلم میں جانا نصیب نہ ہوا صرف عکا میں گئے کہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ کا صلاح الدین نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ طرفین میں بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں آخر سب پسپا ہو کر بھاگے اور تھوڑے دنوں کے بعد عکہ بھی سلطان نے فتح کرلیا۔ اس جنگ میں صلاح الدین نے وہ فیاضی کی ہے کہ آج تک کوئی اپنے مقابل کے ساتھ نہ کرے گا۔ وہ یہ کہ یورپ کے بادشاہ اور ان کے لشکری جو بیمار ہوگئے تھے ان کے لیے برف اور انار اور دیگر سامان ضروری بھیجا۔ یہ کہا کہ تندرست ہو کر مجھ سے لڑو۔ کہیں تمہارے دلوں میں ارمان باقی نہ رہ جائے۔ آخر سب شکست کھا کر پریشان ہو کر اپنے ملکوں میں واپس گئے۔ اسی سال شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر بڑے زوروشور سے حملہ کیا تھا۔ صلاح الدین غازی کے مرنے کے بعد پھر عیسائیوں دینداروں کے دلوں میں جہاد کے ثواب نے جوش مارا۔ چوتھا حملہ : سن گیارہ سو پچانوے سے لے کر ستانوے عیسوی تک اس لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ ششم ہنری نے اپنے لشکر کے تین حصہ کر کے ارض مقدسہ کی طرف روانہ کئے اور سب نے جمع ہو کر بڑا زور لگایا مگر صلاح الدین کے جانشینوں سے شکست کھا کر نہایت بدحواسی کے ساتھ پسپا ہوئے۔ پانچواں حملہ : 1198 ء سے لے کر 1304 ء میں اور ہوا پاپا انوسنٹ نے جہاد کے احکام بھیجے اور فولک پادری نے وعظ سے ترغیب دی۔ وینس کے رئیس سے جہاز کرایہ کئے مگر جب اس کی اجرت نہ دے سکے تو اس نے ان سے اس کے عوض میں شہر ضارا فتح کرا دینا چاہا چناچہ فتح کرا دیا۔ اس کے بعد قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ سے الجھ پڑے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا سب زور یہیں ختم ہوگیا اور واپس چلے آئے۔ 1212 ء میں ملک فرانس میں اسٹیفن نامی ایک چرواہے کا لڑکا بھی وعظ اور الہام اور تائید غیب کا مدعی ہو کر غل مچاتے پھرنے لگا۔ اس کے وعظ سے تیس ہزار لڑکے بارہ بارہ برس کے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کو آمادہ ہوگئے اور نعرے مارتے ہوئے بیت المقدس کی طرف چلے جو رستہ میں کچھ ڈوب گئے اور کچھ غلام بنا کر فروخت کئے گئے۔ اسی طرح جرمن میں سے بھی لڑکوں کے دو لشکر چلے تھے جو راستہ ہی میں مفقودالخبر ہوئے۔ چھٹا حملہ : 1227 ء میں اور ہوا۔ پوپ گرگوری کے حکم سے فریڈرک دوم فوج لے کر نکلا۔ اس نے سلطان ملک کامل کو یاربنا کر دس برس کے لیے یہ شرط لکھوائی کہ یافہ سے لے کر تلمیس تک کافریڈرک مالک رہے مگر پادری اس سے ناخوش ہوگئے اس لیے بیچارہ بہت جلد اٹلی واپس چلا آیا۔ ساتواں حملہ : فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم نے پھر کیا۔ اس نے ڈمیٹا 1 ؎ کا محاصرہ کرلیا تھا مگر انجام کار 1250 ء میں مسلمانوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوا جو چار لاکھ سکہ طلائی دے کر چھوٹا اور چار برس عاقر میں پڑا رہا، لاچار ہو کر فرانس میں آیا۔ آٹھواں آخری حملہ : فرانس کے بادشاہ اور انگلستان کے بادشاہ اڈورڈاول نے کیا۔ 1270 ء میں مصر اور حبش فتح کرنے کے لیے لوئیس تو حبش ہی میں مرگیا اور اڈورڈعاقر تک آیا۔ ناصرہ کے مسلمانوں کو نہایت بےرحمی کے ساتھ قتل کیا مگر عاقر میں زخم کھا کر پچھلے پائوں انگلستان بھاگ آیا۔ یہ شہر عاقر جو عیسائیوں کا مرکز ہوگیا تھا اس کو سلطان خلیل نے آگھیرا۔ آخر فتح کر کے ساٹھ ہزار عیسائیوں کو قتل کیا باقی کو غلام بنا لیا۔ واضح ہو کہ مسلمان ان دنوں باہمی قتال وجدال میں مصروف تھے جس لیے عیسائیوں کو چڑھائی کی جرأت ہوئی اور تخمیناً دو سو برس تک باربار حملہ کرتے رہے وہ بھی ایک ایک نہیں بلکہ کئی کئی بادشاہ متفق ہو کر خصوصاً صلاح الدین کے بعد مشرقی جانب سے تاتاری کافروں چنگیز خانیوں کے وہ زورشور تھے کہ الامان الامان ! ادھر مغرب کی طرف سے عیسائی بادشاہ زور آزمائی کرتے تھے۔ ایسے موقع پر اسلامیوں کا نیست و نابود اور یہود کی طرح مبتذل ہوجانا قرین قیاس تھا مگر یہ اسی وعدہ الٰہی کا اثر ہے کہ ان زلزلوں کے بعد پھر اسلام نے کروٹ لی، ادھر چنگیز خاں کے پوتے کے بعد اس کی نسل میں اسلام آیا، ادھر سلاطین عثمانیہ کا ستارہ بلند ہوا جس نے یورپ کو نیچا دکھایا اور ان کے دلوں سے حملوں کی ہوس نکال دی۔ للہ الحمد۔ صلاح الدین کے قبضہ کے بعد سے پھر بیت المقدس مسلمانوں کے ہی قبضہ میں ہے۔ آج کل گو عیسائیوں کا پھر اقبال نصف النہار پر ہے اور صنعت و حرفت اور عیاری و ہوشیاری میں بھی طاق ہیں، آلات و حرب و ضرب میں بھی ضرب المثل ہیں اور سب کے دلوں میں بیت المقدس لینے کا ارمان بھی ہے باوجودیکہ مسلمان ان سب باتوں میں ان سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر پھر بھی بیت المقدس اس کے حقیقی وارثوں اہل اسلام ہی کے قبضہ میں ہے۔ یہ بھی ایک قدرت کا کرشمہ اور اسلام کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ 1 ؎ گرچہ 1213 ہجری ماہ رمضان میں چند دن کے لیے فرانس کے بادشاہ نپولین نے بھی قبضہ کرلیا تھا مگر آخر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ جغرافیہ فرہاد 12۔ صفحہ 209
Top