Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 99
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ
وَتَرَكْنَا
: اور ہم چھوڑ دیں گے
بَعْضَهُمْ
: ان کے بعض
يَوْمَئِذٍ
: اس دن
يَّمُوْجُ
: ریلا مارتے
فِيْ بَعْضٍ
: بعض (دوسرے) کے اندر
وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ
: اور پھونکا جائے گا صور
فَجَمَعْنٰهُمْ
: پھر ہم انہیں جمع کرینگے
جَمْعًا
: سب کو
اور اس روز ہم نے ان کو ایسا کر چھوڑا کہ ایک دوسرے پر دھکا پیل کرتا تھا اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کرلیں گے
ترکیب : بعضہم مفعول اول ترکنا بمعنی جعلنا کا یموج جملہ مفعول ثانی وترکنا جملہ مستانفہ ہے یومئذ یموج سے متعلق سے۔ کانوا معطوف ہے کانت اعینہم پر حیزصلہ میں داخل ہے معطوف اور معطوف علیہ کا مجموعہ صلہ ہے الذین کا یہ موصول اپنے صلہ سے مل کر الکافرون کی صفت یا نعت ہے۔ تفسیر : یہ تتمہ ہے ذوالقرنین کے قصہ کا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس روز یعنی وقت موعود پر جبکہ دیوار ٹوٹے گی اور قوم یاجوج و ماجوج اس میں سے ادھر کے ملکوں میں آئے گی تو یہ اژدھام ہوگا کہ دھکم دھکا ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ٹڈی دل کی طرح امڈے چلے آئیں گے آ کر زمین میں فساد کریں گے، قتل کریں گے، کھیتیاں اجاڑیں گے، چونکہ دیوار کا ٹوٹنا یاجوج و ماجوج کا باہر آ کر فساد کرنا بلحاظ زمانہ ذوالقرنین کے ہزاروں سینکڑوں برس کے بعد ہوگا اور یہ زمانہ اس زمانہ کے خیال سے یقینا قیامت کے قریب ہے اس لیے اس مناسبت سے حشر کا مسئلہ شروع ہوا۔ ونفح فی الصور صور پھونکا جائے گا، دنیا نیست و نابود ہوجائے گی، پھر دوسری بار صور پھونکے گا جس سے ہر شخص زندہ ہوگا۔ وعرضنا جہنم الخ اس روز کافروں کے سامنے جہنم کو لا کھڑا کریں گے تاکہ وہ اس میں ڈالے جائیں، وہ کافر کون لوگ ہیں ؟ آپ ہی بتاتا ہے الذین الخ وہ کہ جن کی آنکھوں پر دنیا میں پردے پڑے ہوئے تھے کہ خدا کی نشانیوں اور آیات قدرت کو دیکھ کر اس کو یاد نہیں کرتے تھے اور جب خود یہ بات حاصل نہ تھی تو ان کے وعظ و نصیحت کو بھی نہیں سنتے تھے۔ وترکنا الخ کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں انہیں معنی کی تائید سورة انبیاء کی اس آیت سے ہوتی ہے حتی اذا فتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھول دیں گے تو وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔ پھر واقترب الوعدالحق سے حشر کا برپا ہونا بیان فرماتا ہے جیسا کہ یہاں عرضنا سے فرمایا مگر بعض مفسرین یومئذ سے مراد وہ دن لیتے ہیں کہ جس روز دیوار قائم ہوئی تھی اور ترکنا ماضی کے صیغہ کو اپنے اصلی معنوں پر رکھتے ہیں ان کے نزدیک اس کے یہ معنی ہوئے کہ جس روز دیوار قائم ہوگئی تو یاجوج ماجوج وہیں ایک دوسرے پر باہر آنے کے لیے گرتے پڑتے اور اژدھام کرتے رہ گئے کہ ایک دوسرے پر دیوار کی طرف آنے کے لیے گرا پڑتا تھا جیسا کہ اژدھام میں ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ ویسئلونک عن ذی القرنین الخ جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ قریش 1 ؎ نے احبار یہود کے کہنے سے آنحضرت ﷺ سے چند باتیں بطور امتحان کے پوچھیں تھیں منجملہ ان کے ایک یہ بات بھی ہے۔ اس بات کو محدثین نے صحیح سند سے ثابت کردیا ہے اور قرآن مجید کے الفاظ بھی اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ بھی شبہ نہ کرنا چاہیے کہ ذی القرنین کا قصہ یہود میں متعارف تھا۔ اب خواہ وہ ان کے طالموت میں ہو خواہ کمرا میں جو ان کی کتاب مقدس کی شرح یا تفسیر ہے یا ان کی ان روایات میں جو زبانی یکے بعد دیگرے ان کے ہاں متوارث چلی آتی تھیں ہرچہ باشد مگر وہ ذی القرنین کے قصہ سے واقفیت رکھتے تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ اس قصہ کو ہر ایک نہیں بتلا سکتا اور اسی غرض سے بطور امتحان کے آنحضرت ﷺ سے پوچھا تھا۔ قرآن مجید نے صرف یہی بتلایا کہ وہ ایک ایسا بادشاہ تھا کہ جس کو ہم نے زمین پر زورآور کیا تھا، اس کو ہر ایک طرح کے اسباب عطا کئے تھے۔ پھر اس نے مغرب کے رخ سفر کیا اور وہاں تک پہنچا کہ جہاں تک اس کو آفتاب سیاہ اور گدلے چشمہ میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوا۔ پھر وہاں سے لوٹ کر مشرق کی طرف رجوع کیا اور آخر ایک ایسی قوم پر پہنچا کہ جن پر آفتاب بغیر کسی حجاب کے طلوع کرتا تھا۔ پھر وہاں سے اس نے ایک اور سفر کیا (جو غالباً سمت ِ شمالی میں تھا اور 1 ؎ چناچہ ابن حریر نے بسند ابن اسحاق عکرمہ سے روایت کی ہے کہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں قریش نے نصربن حارث عقبہ بن ابی معیط کو مدینہ میں احبار یہود کے پاس بھیجا تاکہ ان سے پوچھ کر بطور امتحان کے آنحضرت ﷺ سے سوال کریں چناچہ انہوں نے یہ تین سوال تعلیم کئے اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ان میں سے دو کا بھی جواب دے گا تو جانیو کہ برحق ہے۔ اول اصحاب کہف کا حال پوچھو پھر اس بادشاہ کا جو مشرق و مغرب تک فتح کرتا ہوا چلا گیا تھا یعنی ذوالقرنین کا پھر روح سے سوال کرو۔ 12 منہ۔ قرائن سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے) اور ایک ایسی قوم تک پہنچے کہ جو ان کی زبان نہ سمجھ سکتے تھے (بغیر ترجمان کے) ان لوگوں نے ذوالقرنین سے کسی خاص خراج دینے پر یہ درخواست کی کہ یاجوج و ماجوج مفسد لوگ ہیں، ہمارے ملک پر شورش برپا کیا کرتے ہیں۔ آپ ان کا رستہ بند کر دیجئے۔ ذوالقرنین نے خراج لینے سے انکار تو کیا اور لوہے کے تختے ان سے مانگے کہ جن سے دو پہاڑوں کے درمیان کوئی درہ تھا اس کو بند کردیا اور دیوار چن کر اس کو گرم کیا اور پگھلا ہوا تانبا یا سیسہ اس پر ڈال کر ایسا مستحکم کردیا کہ جس پر نہ وہ چڑھ سکتے تھے، نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے۔ نہ قرآن مجید میں اس بات کا ذکر ہے کہ ذی القرنین کس ملک کا بادشاہ تھا اور کس عہد میں تھا ؟ اور نہ یہ بات بتلائی کہ اس کو ذی القرنین کیوں کہتے تھے۔ نہ اس بات کا ذکر ہے کہ ذی القرنین مشرق و مغرب میں انتہٰی تک پہنچ گئے تھے نہ یہ بات بتلائی گئی ہے کہ وہ قوم کہ جس نے سد یعنی دیوار بنانے کی درخواست کی تھی کون تھی اور کہاں تھی ؟ نہ یہ بتلایا کہ یاجوج و ماجوج کون قوم تھی اور کہاں رہتی تھی اور اب بھی ہے کہ نہیں اور ہے تو کہاں ہے اور وہ کیسی قوم ہے، ان کے قد کیسے ہیں اور وہ مردم خور ہیں یا نہیں ؟ اور نہ دیوار کا موقع بتلایا کہ وہ کس جگہ بنی ہے اور اب بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ سب باتیں سوال سے زائد تھیں اس لیے ان سے اعراض کر کے اصل قصہ بتلایا جو ان کی غرض سے تعلق رکھتا تھا اور انبیاء (علیہم السلام) اور وحی کا مقصد اصلی بھی یہی تھا۔ تفصیل وار قصے کہانی بیان کرنا مؤرخوں کا کام ہے۔ اب ان باتوں میں علمائِ اسلام نے غور کرنا شروع کیا اور جہاں تک ہوسکا، ان کا پتا نکالا اور ان باتوں کے دریافت کرنے میں انہوں نے کہیں قرآن مجید کے اشاروں سے کہیں روایات سلف سے کہیں مورخین اہل کتاب و اہل اسلام و دیگر تواریخ سے اور ہر زمانہ کے اہل تحقیق اور اہل جغرافیہ سے مدد لی اور یہی وجہ ہے کہ ان باتوں کے ٹھیک ٹھیک دریافت کرنے میں ان سے باہم اختلافات بھی ظہور میں آئے اور کچھ عجب نہیں کہ ان سے کسی موقع پر اصلی بات رہ گئی ہو اور بعض نے اس کو ٹھیک سمجھا ہو اور ایسی باتوں میں کہ جہاں نہ کوئی نص قطعی رہنمائی کرتی ہو نہ کوئی اس وقت کی صحیح تاریخ ملتی ہو اختلاف ہونا ایک معمولی بات ہے، نہ ان امور مبحوثہ کا ان کی تحقیق کے موافق ہر ہر بات میں صحیح مان لینا فرض و واجب ہے، نہ ان پر کوئی وجہ انکار ہے۔ سب سے پہلی بات کہ ذوالقرنین کون تھا اور کہاں کا تھا اور کب تھا ؟ اس کا ثبوت اس سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ یہ دیوار کس نے بنائی ؟ پس جو اس کا بنانے والا تھا وہی شخص ذو القرنین ہے کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔ اب ہم اس کو اس سد کی تلاش کرنی پڑی کہ کہاں ہے ؟ ہمارے سامنے حال کے بھی متعدد جغرافیہ اور کرہ زمین کے صحیح نقشے دھرے ہیں جو سرکاری مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، ان میں کسی جگہ یاجوج و ماجوج قوم کا ذکر تک نہیں اور یہ ممکن ہے کیونکہ حال کے جغرافیوں میں قوموں اور ملکوں کے وہی نام ذکر کئے جاتے ہیں جو آج کل متعارف ہیں اور ایسا بہت واقع ہوا ہے کہ زمانہ کے گزرنے سے ملکوں اور شہروں اور قوموں کے اور ہی نام ہوگئے، پہلے نام بدل گئے، ہوسکتا ہے کہ یاجوج و ماجوج کو آج کل کسی اور نام سے تعبیر کرتے ہوں اس لیے یاجوج ماجوج کا نام نہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ نہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کوئی قوم نہیں یا پہلے تھی اب بالکل نیست و نابود ہوگئی اسی طرح اس سد کا بھی ذکر نہیں اور یہ بھی قرین قیاس ہے کس لیے کہ جغرافیوں اور نقشوں میں شہروں اور پہاڑوں اور بڑے بڑے نشانوں کو ذکر کیا کرتے ہیں اور یہ دیوار جیسا کہ اہل اسلام کے مؤرخ کہتے ہیں صرف تخمیناً ڈیڑھ گز کی ایک مرتفع اور مستحکم دیوار دو پہاڑوں کے درمیان ہے اس سے بھی بڑی بڑی صدہا چیزیں مذکور نہیں ہوتیں۔ اب ہم کو مسلمانوں کے قدیم جغرافیہ دیکھنے چاہییں کہ جنہوں نے بطلیموس کے جغرافیہ کو لے کر اس کے ساتھ اپنے سفرنامہ اور اپنے دیکھے ہوئے مقامات کو بھی نہایت تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے اور گویا حال کے جغرافیوں کی انہیں پر تقسیم اقالیم و جزائر و ممالک وغیرہ امور میں بنیاد ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آج کل سامان سفر جیسے مہیا ہیں اور جس آسان طریقہ سے ہر ایک ملک کی خبر دریافت ہوسکتی ہے پہلے یہ بات نہ تھی اور اسی لیے حال میں اس فن میں بہت کچھ چھان بین کی گئی مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوسری تیسری صدی میں جبکہ مسلمانوں کے فتوحات مشرق و مغرب تک پھیل گئے تھے اور وہ باوجود صعوبت سفر کے اندلس اور جبل الطارق سے لے کر چین کے کناروں تک ایسے امور کی تحقیقات کے لیے سفر کیا کرتے تھے اور پھر ہر ایک سیاح نہایت صحت و احتیاط کے ساتھ ان مقامات وبلادو ممالک کے احوال قلمبند کیا کرتا تھا چناچہ اس قسم کے بہت سے جغرافیہ اب تک موجود ہیں جن میں سے اکثر کو اہل فرنگستان نے طبع بھی کیا ہے ان میں سے میرے پاس اس وقت یہ کتابیں موجود ہیں جن سے ایشیاء اور افریقہ کے ملکوں کا اور ان کے شہروں اور مشہور مقاموں کا بڑی تشریح کے ساتھ حال معلوم ہوسکتا ہے۔ (1) کتاب المسالک و الممالک تالیف ابی القاسم بن حوقل مطبوعہ لیڈن مطبع بریل 1873 ء (2) الآثار الباقیہ عن القرون الخالیۃ تالیف ابوریحان محمد بن احمد بیرونی خوارزمی مطبوعہ جرمن 1878 ء بیرون سندھ میں کوئی قریہ یا شہر تھا شاید اب بھی ہو۔ یہ شخص بڑا حکیم و منجم سلطان محمود غزنوی کے عہد میں تھا۔ (3) نزہۃ المشتاق فی ذکر الابصار والاقطار والبلدان والجزروالمدائن والآفاق اس کا مصنف علوی ادریسی چھٹی صدی ہجری میں تھا۔ یہ جغرافیہ یونانی اور اس کے جغرافیوں سے ملخص کر کے جزیرہ صقالیہ کے عیسائی بادشاہ کے لیے تصنیف کیا تھا۔ (4) مراصد الاطلاع علے اسماء الامنکۃ والبقاع تالیف یاقوت حموی مطبوعہ فرانس۔ (5) کتاب البلدان تالیف ابی بکر احمد بن محمد الہمدانی المعروف بابن الفقیۃ مطبوعہ لیڈن بمطبع بریل 1302 ہجری۔ (6) احسن التقسیم فی معرفۃ الاقالیم تالیف شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر البناء الشامی المقدسی المعروف بالبشاری مطبوعہ لیڈن بمطبع بریل 1877 ء۔ اس کا مصنف شہاب الدین غوری سے بھی پہلے تھا۔ (7) مسالک الممالک تالیف ابی اسحاق ابراہیم بن محمد الفارسی الاصطخری المعروف بال کرنی مطبوعہ مطبع بریل واقع شہر لیڈن 1870 ء۔ (8) تقویم البلدان تالیف السلطان عمادالدین اسماعیل بن الملک الافضل یعنی ابوالفداء مطبوعہ پیرس 1840 ء۔ (9) مقدمہ ابن خلدون یہ شخص جو آٹھویں صدی میں گزرا ہے، بڑا حکیم تھا اس نے اپنے جغرافیہ میں حکیم بطلیموس کے جغرافیہ سے لیا ہے جو حضرت مسیح سے تھوڑے دنوں بعد گزرا ہے اور نیز زجار ابن مسعودی وحوقلی و قدری و ابن اسحاق منجم و نزہۃ المشتاق سے بھی لیا ہے اوراقلیم کا اس صحت و خوبی کے ساتھ حال بیان کیا ہے جو آج کل کے جغرافیوں سے سر موتفاوت نہیں رکھتا صرف ناموں کا فرق ہے۔ اوّل دیوار : اس نے اپنے مقدمہ میں تین جگہ اس دیوار کا ذکر کیا ہے، صفحہ 71 میں کہتا ہے وفی الجزء التاسع من ھذالاقلیم والخامس فی الجانب منہ بلاد خفشاخ دہم قفچق یجوزھا جبل قوقیا حین ینعطف من شمالہ عندالبحر المحیط ویذھب فی وسط الی الجنوب بانحراف الی الشرق فیخرج فی الجزء التاسع من الاقلیم السادس ویمرمعترضاً فیہ۔ و فی وسط ھناک سدیاجوج و ماجوج وقد ذکرناہ وفی النافیۃ الشرقیۃ من ھذا الجز ارض یاجوج وراء جبل قوقیا علی البحر قلیلۃ العرض مستطلیلۃ احاطت بہ من شرقہ و شمالہ انتہٰی کہ اس اقلیم کے نویں حصہ میں ایک گوشہ میں خفشاخ کے بلاد ہیں کہ جن کو خفچاق کہتے ہیں کہ جن پر سے قوقیا پہاڑ گزرتا ہے جبکہ وہ بحرمحیط کے پاس سے ہو کر شمال کی طرف مڑتا ہے قدرے شرق کو مائل ہو کر تب وہ پہاڑاقلیم سادس کے نویں حصہ تک نکل جاتا ہے اور یہیں سے وہ موڑ کھا کر نکلتا ہے اور اسی جگہ اس کے وسط میں یاجوج و ماجوج والی دیوار ہے کہ جس کو ہم ذکر کرچکے ہیں اور اس حصہ کے شرقی کنارہ میں یاجوج کا ملک ہے جبل قوقیا کے پرے سمندر کے رخ مستطیل ٹکڑا ہے۔ قوقیا غالباً کوہ الطای کو کہتے ہیں اور اسی کے موڑ میں ایک جگہ وہ دیوار ہے اور کوہ طنی کے پرلی طرف منچولیا اور منگولیا مغلوں کی قومیں ہیں جن کو یاجوج سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ لوگ سخت خونخوار درندے اور سفاک کافر تھے، جن کا پیشہ شکار ہے پہلے زمانوں میں یہ لوگ ادھر تو چین کے ملک پر تاخت و تاراج کیا کرتے تھے جن کے روکنے کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً 335 برس پیشتر فغفور چین نے دیوار بنائی تھی جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے۔ یہ مستحکم دیوار کہ جس کی پوری کیفیت تاریخ چین سے معلوم ہوتی ہے اب تک موجود ہے جو عجائبِ روزگار میں شمار کی جاتی ہے، ادھر یہ سفاک قوم اس پہاڑ کے درہ میں سے گزر کر ترکستان پر تاخت و تاراج کرنے آیا کرتی تھی۔ اب ہم یہ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں اس قسم کی دیواریں کئی جگہ ہیں۔ (1) ملک چین کے شمالی حصہ میں ایک دیوار ہے جس کو دیوار چین کہتے ہیں جس کو بقول مورخین چی وانگٹی فغفور چین نے بنایا تھا۔ دیوار دوم : دوسری وہ دیوار جو جبل الطی کے کسی درہ کو بند کئے ہوئے ہے جس کا ابن خلدون نے بھی ذکر کیا ہے اور اسی کو اکثر مؤرخین اسلام سد یاجوج کہتے ہیں جس کی تحقیق خلفائِ عباسیہ کے عہد میں کی گئی تھی چناچہ ابوریحاں بیرونی اپنی کتاب آثارباقیہ مطبوعہ جرمن 1878 ء کے صفحہ 41 میں لکھتے ہیں، فاما الروم المبنی بین السدین فان ظاہر القصۃ فی القرآن لانیص علیٰ موضعہ من الارض و قد نطقت الکتب المشملۃ علی ذکر البلاد دالمدن کجغرافیا و کتب المسالک والممالک علی ان ھذا الامۃ اعنی یاجوج و ماجوج ھم صنف من الاتراک المشرقیۃ الساکنۃ فی مبادی الاقالیم الخامس والسادس و مع ہذا حکی محمد بن جریر الطبری فی کتاب التاریخ ان صاحب آذربیجان ایام فتحھا وجہ انساناالیہ من ناحیۃ الخرز فشاہدہ ووصفہ ببناء باسق سام اسودراء خندق وثیق منیع۔ وحکی عبداللہ بن خرداذبۃ عن الترجمان بباب الخلیفۃ ان المعتصم رای فی المنام ان ھذا الروم قدفتح فوجّہ نجمسین نقرًا الیہ لیعانیوہ فسلکو امن طریق باب الابواب واللان والخزر حتی بلغوا الیہ دشاہدوہ معمولا من لبن حدید ومشدد ابالنحاس المذاب وعلیہ باب مقفل و حفطہ من اہل البلدان القریۃ منہا وانھم رجعوافاخرجھم الدلیل الی البقاع المحاذیۃ لسمرقند انتہٰی۔ ” کہ اس دیوار کا قرآن نے کوئی موقع و محل نہیں بتلایا کہ کس جگہ ہے ؟ ہاں کتب تواریخ و جغرافیہ میں تو ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں میں سے ایک قوم کا نام ہے جو اقلیم خامس وسادس کے مشرق میں رہتے ہیں اور محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں بھی لکھا ہے کہ والی آذربائیجان نے جب اس ملک کو فتح کیا تو کسی کو اس دیوار کو دیکھنے بھیجا جو بحیرہ خزر کی راہ سے دیکھنے گیا اور دیکھ کر آیا اور ابن خرداذبہ نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ معتصم نے خواب میں اس دیوار کو ٹوٹا ہوا دیکھا تب اس کی تحقیق کے لیے پچاس آدمیوں کو روانہ کیا۔ باب الابواب اور لان اور خرز کی راہ سے گئے اور اس کو دیکھ کر آئے اور بیان کیا کہ ایک دیوار مستحکم ہے جو لوہے کے تختوں یا اینٹوں سے بنائی گئی ہے، نہایت بلندو مستحکم اور اس میں دروازہ بھی ہے جس پر قفل لگا ہوا ہے۔ پھر جو اس جماعت کو راہبر نے وہاں سے نکالا تو سمرقند کے محاذی آ نکلے۔ “ کتاب احسن القیم فی معرفت الاقالیم میں اسی بات کو بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے مگر معتصم کی جگہ واثق باللہ عباسی خلیفہ کا معاملہ بتلایا ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ واثق نے اس جماعت کا افسر محمد بن موسیٰ خوارزمی منجم کو بنایا تھا اور سامان سفر بہت کچھ دیا تھا اور بادشاہوں کے نام نامے بھی لکھ دیے تھے۔ پھر یہ جماعت طرخان کے ملک سے ہو کر اس مقام پر پہنچی کہ جہاں یہ دیوار ہے۔ آ کر انہوں نے سب تفصیل بیان کی۔ ڈیڑھ سو گز کا دو پہاڑوں میں ایک گھاٹا ہے جس کو دوپائے چن کر (کہ جن کا عرض پندرہ پندرہ گز ہے جو لوہے کی اینٹوں سے بنے ہیں اور پھر پگھلے ہوئے تانبہ سے ان کی درزیں ملائی گئی ہیں) ایک مستحکم دروازہ بنا کر بڑے مستحکم آہنی کو اڑوں سے بند کردیا ہے۔ اور اسی کتاب کے صفحہ 34 میں شہر صغانیاں کی مسافت یوں بیان کرتا ہے کہ یہاں سے شوبان تک دو دن کا رستہ ہے پھر اندیاں تک ایک روز کا پھر واشجرو تک ایک روز کا اور وہاں سے ایلاق ایک روز کا اور وہاں سے دربند ایک روز اور یہاں سے چائوگاں ایک روز کا انتہٰی غالباً دربند ایک دوسری عمارت ہے جو آذربائیجان کی طرف موجود ہے۔ کتاب المسالک والممالک تالیف ابی القاسم بن حوقل کے صفحہ 399 میں ترمذ اور بخارا کی مسافت یوں بیان کی ہے کہ ترمذ سے قراجون ایک مرحلہ اور وہاں سے میاں کا ں ایک مرحلہ اور وہاں سے مائیرغ ایک مرحلہ اور وہاں سے نسف ایک مرحلہ اور وہاں سے سونج ایک مرحلہ اور وہاں سے دید کی ایک مرحلہ اور وہاں سے کندک ایک مرحلہ ایک وہاں سے باب الحدید ایک مرحلہ۔ اس کے علاوہ تاریخ تیموری میں تیمور بادشاہ کا اس باب الحدید تک ایک جنگ میں پہنچنا مذکور ہے اور اس کے بعد اور سیاحوں نے بھی اس پہاڑ میں اس دربند کا معائنہ کیا ہے اور یہ بات نقشہ سے بھی صاف ظاہر ہے کہ جبل الطی منگولیا اور منچوریا میں حائل ہے اور اس کا انہیں حدود میں ایک موڑ معلوم ہوتا ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ میں ایک درہ کشادہ تھا جس کو ذی القرنین نے بند کردیا جو اب تک موجود ہے اور ٹھیک ٹھیک یہی وہ سد ہے کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے پھر اسی کتاب کا مصنف صفحہ 367 میں شہر سمرقند کی بابت لکھتا ہے۔ ویز عم الناس ان تبعاً بنی مدین تھا وان ذی القرنین تم بعض بنائھا ورایت علی بابہا الکبیر صحیفۃ من حدید وعلیھا کتابۃ زعم اھلھما انھا الحمیریۃ وانھم یتوارثون علم ذلک انتہٰی کہ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تبع نے شہر سمرقند کو آباد کیا اور اس کی بعض عمارات کو ذی القرنین نے تمام کیا اور میں نے اس کے بڑے دروازہ پر لوہے کی تختی دیکھی کہ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ حمیریہ خط میں ہے (جو شاہان حمیریہ والیان یمن کا خط تھا) اور یہ بات وہ اپنے باپ دادا سے سنتے چلے آتے ہیں اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ذی القرنین حمیری بادشاہ تھا اور اس نے اس نواح میں عملداری بھی کی ہے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جبل الطئی کا یہ درہ بھی بند کیا تھا کہ جس کو سدِّذی القرنین کہتے ہیں اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کس لیے کہ شاہان یمن مصر پر بھی عملداری کرچکے ہیں جو گلہ بانوں کی عملداری کے نام سے مشہور ہے اور ان کے آثار قدیمہ جیسا کہ قصر غمدان وغیرہ یمن میں یادگار تھے اور اب بھی ہیں جو ان کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ پھر کیا تعجب ہے کہ مشرق و شمال میں بھی ان کے فتوحات ہوئے ہوں۔ دیوار سوم : تیسری دیوار یا ایک نہایت مستحکم بنا ہے جو غیرقوموں کے روکنے کے لیے ملک آذربائیجان کے سرے پر بحیرہ طبرستان کے کنارہ جبل قبق کے گھاٹ بند کرنے کے لیے بنا لی گئی تھی۔ مراصد الاطلاع کے صفحہ 111 میں ہے وباب الابواب فھودربندء، دربند شیرواں وباب الابواب مدینۃ علی البحر، بحرطبرستان و بحرالخزرالخ وسمیت باب الابواب لانھا افواہ شعاب فی جبل القبق فیھا حصون کثیرۃ ولھا حائط بناہ انوشیروان بالصخروالرصاص وعلاھاثلثما تہ ذرائع وجعل علیہ ابواباً من حدید لان، الخرز کانت تغیر فی سلطان فارس حتی تبلغ ہمدان والموصل فبناہ لیمنعھم الخروج منہ انتہیٰ باب الابواب دربند بحرخرز پر ایک شہر ہے اور اس کو باب الابواب اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں جبل قبق کی بہت سی گھاٹیاں ہیں جہاں بہت سے قلعے ہیں اور وہاں ایک دیوار ہے جو پتھر اور سیسے سے بنائی گئی ہے جس کی بلندی تین سو گز ہے اور جس میں لوہے کے دروازے ہیں اور اس کو انوشیرواں نے اس لیے بنایا تھا کہ قوم خرز اس کے ملک میں آ کر ہمدان اور موصل تک غارتگری کرتی تھی ان کے روکنے کے لیے اس کو بنایا تھا۔ کتاب البلدان کا مصنف ابن الفقۃ اس دیوار کا کئی جگہ ذکر کرتا ہے۔ ایک جگہ کہتا ہے، صفحہ 288، وبنی الحائط بینہ وبین الخزر بالصخروالرصاف وعرضہ ثلثماتہ ذراع حتی الحقہ برئوس الجبال تم قادہ فی البحروجعل علیہ ابواب حدید۔ پھر صفحہ 298 میں کہتا ہے، الباب الابواب حائط بناہ انوشیرواں وان طرفامنہ فی البحر الخ وسبعۃ فراسخ الیٰ موضع اشب وجبل وعرلایتھیا سلو کہ وھو مبنی بالحجارۃ المنقورۃ المربعۃ ینقل لحجر الواحد منہا خمسون رجلا وقد ثقبت ھذہ الحجارۃ وانقد بعضھا الی بعض بالمسامیروجعل فی ھذہ السبعۃ الفراسخ سبعۃ مسالک الخ وغلق علی کل مسلک باب وعرض السورنی اعلاہ مایسیرعلیہ عشرون فارسالاتیزاحموں انتہیٰ کہ خزر کے روکنے کے لیے پتھر اور سیسے کی نوشیرواں نے ایک دیوار بنائی کہ جس کا عرض تین سو گز ہے جس کو پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچا دیا اور اس کا ایک سرا دریا میں ملا دیا۔ اس کی لمبائی سات فرسخ ہے، ہر ایک فرسخ پر ایک آہنی دروازہ لگا دیا ہے اور یہ دیوار گھڑے ہوئے مربع پتھروں سے بنی ہوئی ہے کہ سوراخ کر کے ایک پتھر کو دوسرے سے میخ کردیا ہے۔ ان میں سے ایک ایک پتھر ایسا بڑا ہے کہ پچاس آدمی بھی اس کو اکھیڑ نہیں سکتے اور اوپر جا کر اس کی اتنی چوڑان ہے کہ جس پر بلامزاحمت بیس سوار چلے جائیں۔ اور ایک جگہ یہاں کے قلعوں کو قباداکبر کی تعمیر بتایا ہے۔ یہ دیوار بھی اب تک قائم ہے اور بیضاوی وغیرہ بعض علمائِ اسلام نے اسی کو وہ دیوار بتلایا ہے کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے۔ دیوار چہارم : دیوار تبت کے شمالی پہاڑوں میں بمقام راست بنائی گئی ہے اس کی نسبت نزھۃ المشتاق میں یہ لکھا ہے والراست اقصیٰ خراسان من ذالک الوجہ وھی مدینۃ بین جبلین کان ھنامدخل للترک الی الغارۃ فاغلق الفضل بن یحییٰ بن خالد بن برمک ھناک بابا۔ کہ یہ شہر راست جو دو پہاڑوں کے درمیان میں ہے اس سمت سے خراسان کا اخیر کنارہ ہے یہاں ایک رستہ ہے جہاں سے ترک دھاوا کیا کرتے تھے اس کو فضل بن یحییٰ برمکی نے دروازہ لگا کر بند کردیا۔ یہ دیوار بالاتفاق وہ دیوار نہیں کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے کیونکہ یہ نزول قرآن کے بعد بنائی گئی ہے۔ دیوار پنجم : بحرِشامی یا بحر روم کا مشرقی کنارہ جو شام سے ملا ہوا ہے اس میں چند جزائر ہیں ایشیائِ کو چک سے ملتے ہوئے جن میں سے ایک جزیرہ روڈس ہے اور ایک جزیرہ پلونس ہے کہ جس کو ہزار میل کے دورے سے دریا گھیرے ہوئے ہے اس کا خشکی کی طرف ایک رستہ ہے چھ میل کے فاصلہ کا۔ اس کو کسی قیصرروم نے دیوار بنا کر بند کردیا ہے۔ چناچہ نزھۃ المشتاق میں لکھتا ہے، الجزاء الرابع من الاقلیم الرابع تضمن قطعۃ من البحر الشامی فیھا اعداد جزائر من جزائر الرمانیۃ وجزیرۃ بلیونس جزیرۃ یحیط بھا البحر الف میل ولیس لھا منفذالی البرالافم ضیق مقدارہ ستۃ امیال وقدکان احدالقیاصرۃ من الروم بنی علیہ سورا طولہ ھذہ المسافۃ وھی ستۃ امیال انتہیٰ ۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ دیوار اب بھی قائم ہے کہ نہیں مگر یہ بھی بالاتفاق وہ دیوار نہیں کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ اور نہ وہ دیوار مراد ہوسکتی ہے کہ جس کو بعض علماء نے ملک اندلس کے پہاڑوں میں بتلایا ہے۔ اب صرف اوّل و دوم و سوم دیوار میں کلام ہے۔ اخبار علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ مطبوعہ 7 جون 1890 ء میں ہمارے کسی نامور معاصر نے ایک مضمون طبع کیا ہے جس کی سرخی یا عنوان ازالۃ الغین عن قصۃ ذی القرنین ہے، اس میں امام فخررازی (رح) پر بہت کچھ لے دے کی ہے۔ اول تو ذی القرنین کی وجہ تسمیہ میں جو امام صاحب نے لوگوں کے چند اقوال نقل کئے تھے حالانکہ نہ ان کی صحت کا ذمہ کرلیا تھا نہ ان کو اپنا قول بتلایا تھا مگر معزز معاصر نے امام صاحب جیسے جلیل القدر شخص پر اعتراض جما کر شہرت حاصل کرنے کی غرض سے سب کو امام صاحب کی طرف منسوب کر کے قہقہہ اڑایا ہے۔ اس کے بعد امام صاحب نے ذی القرنین کے بارے میں جو لوگوں کے قول نقل کئے ہیں کہ کسی نے سکندر بن فیلقوس مراد لیا ہے اور کسی نے کوئی حمیری بادشاہ بتلایا ہے وہاں بھی آپ سکندر رومی کا ذی القرنین قرار دینا امام صاحب ہی کا عقیدہ سمجھ گئے اور ابوریحان بیرونی کا جو امام صاحب نے قول نقل کیا تھا کہ وہ حمیری بادشاہ مراد لیتے ہیں، وہاں اس کی بھی تغلیط کردی نہ جس پر کوئی دلیل لائے نہ برہان۔ پھر عموماً مفسرین پر عتاب فرمایا ہے اور ان کو غلطی میں پڑنے کا الزام دے کر ازخود سد کے پتے سے ذی القرنین کی تعیین کرنی شروع کی ہے۔ پھر جب آپ نے ادھر ادھر دیکھا اور آپ کو بجز دیوار چین کے اور کسی دیوار کا پتا نہ لگا تو اسی کو وہ دیوار قرار دیا کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے اور جب تاریخ چین کو دیکھا تو اس دیوار کا بانی چی وانگٹی فغفور کو پایا اسی لیے اس کو ذی القرنین قرار دیا اور قرنین سے اس کے دو زمانے مراد لیے، ایک اسباب و سامان جمع کرنے کا دوسرا فتوحات کا اور اس کا مغربی سفر برہما اور ملایا تک پہنچنا اور غربی سمت میں خلیج بنگالہ میں آفتاب کو چشمہ سیاہ میں ڈوبتے پانا قرار دیا اور ایمان لانا جو قرآن مجید میں مذکور ہے (کہ ذی القرنین نے کہا تھا جو ایمان لائے گا اور اچھے کام کرے گا اس کو اچھا بدلہ ملے گا) اس کے معنی فرمانبرداری کرنا بتلایا اور مشرقی سفرگاہ چین کا مشرقی کنارہ مانا۔ یہ تو سب کچھ کیا مگر بین الصدفین کی کچھ توجہہ نہ بن سکی گوساویٰ کی توجیہ کردی کہ سیدھا پن مراد ہے نہ کہ دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں تک بلند ہونا۔ کس لیے کہ قرآن مجید کی عبارت سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیوار دو پہاڑوں کے درمیان تھی جو بیشتر پہاڑوں کی گھاٹیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ دیوار چین تو تخمیناً پندرہ سو میل تک ہے اور پہاڑوں میں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور میدانوں میں اور دریائوں پر بنتی چلی گئی ہے اور وہ دیوار تو صرف دو پہاڑوں کے درمیان بنی تھی جیسا کہ معلوم ہوا کاش ہمارا معاصر یوں کہتا کہ ذی القرنین نے سب سے اول دو پہاڑوں کے درمیان اس دیوار کو چن کر ایک دربند کردیا تھا پھر فغفور چین نے ادھر ادھر سے دیوار کو اور بڑھا کر پندرہ سو میل لمبا کردیا تھا تب تو ایک وجہ معقول ہوسکتی تھی اور یہ بھی سہی مگر اس پر بھی ایک تاریخی خدشہ باقی رہتا وہ یہ کہ اگلے زمانہ میں بسبب دشوار گزاری رستوں کے آس پاس کے ملکوں کا تو حال معلوم ہوتا رہتا تھا، دوردراز کے ملک جیسا کہ اہل عرب و اہل شام سے چین ہے، ہمیشہ حیز خفا اور پردہ لاعلمی میں رہتا تھا پھر یہود کو چیوانگٹی فغفور کا قصہ کس سبب سے معلوم ہوا اور جبکہ وہ باخدا اور موحد نہ تھا تو ذی القرنین یا اس کے ہم معنی لفظوں سے اس کا تذکرہ ان کی زبانوں پر جاری ہونے کی کیا وجہ ؟ اس کے علاوہ قرآن مجید کے متعدد لفظوں سے ذی القرنین کا باخدا ہونا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس کا یہ کہنا کہ جو ایمان لائے گا اور نیک کام کرے گا اس کو اچھا بدلہ ملے گا، اب عام ہے کہ یہ شخص نبی ہو یا اس کا پیرومرد باخدا جو اس کی شہرت کا قرنوں تک باعث ہوا۔ دوسری دیوار کی نسبت جمہور اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ یہی وہ دیوار ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے چناچہ تفسیر کبیر اور دیگر تفاسیر میں موجود ہے اور اس کا بانی کوئی فغفور چین نہیں۔ اہل تاریخ سب متفق ہیں کہ یہ دیوار کسی حمیری بادشاہ نے بنائی تھی پس ثابت ہوا کہ ذی القرنین حمیری بادشاہ تھا۔ سکندر رومی جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے اس کے سوا ایک اور بھی وجہ ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذی القرنین عرب کا رہنے والا تھا وہ یہ کہ ذی القرنین عربی لفظ ہے اور ذو کے ساتھ زمانہ قدیم میں اکثر یمن کے بادشاہ ملقب ہوا کرتے تھے جیسا کہ ذی نواس، ذوالنون، ذورعین، ذویزن، ذوجدن اسی طرح ذوالقرنین بھی ہے۔ ابوریحان بیرونی اس کا نام ابوکرب بن عیربن افریقس حمیری بتلاتے ہیں اور اپنی سند میں اسعد یمانی کے یہ اشعار لاتے ہیں۔ قدکان ذوالقرنین جدمسلما ملکاً علافی الارض غیرمفند بلغ المشارق والمغارب یبتغی اسباب امرمن حکیم مرشد ابوالفداء اپنی تاریخ کی چوتھی فصل میں ابن سعید مغربی سے نقل کرتے ہیں کہ اول قحطان بن عابر ملک یمن میں آ کر بادشاہ ہوا اس کے بعد اس کا بیٹا یشحب کہ جس کو سباء کہتے ہیں اسی نے شہر سباء بنایا اور مآرب کی زمین میں ملک کو شاداب کرنے کے لیے پختہ بند بندھوایا اس کے بعد اس کا بیٹا حمیر بادشاہ ہوا، اس نے ثمود کو یمن سے نکال دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اثل بادشاہ ہوا، اس کے بعد اس کا بیٹا السکسک پھر اس کا بیٹا یعفر، پھر حمیر کے خاندان میں سے ذوالراس عامر بادشاہ ہوگیا مگر یعفر کے بیٹے نعمان نے پھر غلبہ پایا اور اس کے بعد اس کا بیٹا الشمح بادشاہ ہوا اور اس خاندان کی سلطنت اسی پر تمام ہوگئی اور شداد بن عاد بن الماطاطہ بن سبا بادشاہ ہوا جو بڑا جبار بادشاہ تھا اس کے بعد اس کا بھائی لقمان بن عاد اور اس کے بعد دوسرا بھائی ذوسد بادشاہ ہوا، اس کے بعد اس کا بیٹا حارث الرائس بادشاہ ہوا۔ یہی تبع اول ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا صعب بادشاہ ہوا یہی ذوالقرنین ہے کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا ذوالمنار ابرہہ بادشاہ ہوا، اس کے بعد اس کا بیٹا افریقس اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاغار اس کے بعد اس کا بھائی شرجیل اس کے بعد اس کا بیٹا الہداد بادشاہ ہوا، اس کے بعد اس کی بیٹی بلقیس بادشاہ ہوئی جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئی تھی انتہٰی ملخصاً ۔ قرن، عربی زبان میں سینگ کو بھی کہتے ہیں اور زمانہ کو بھی جس کا تثینہ قرنین ہے ذوالقرنین کے معنی دوسینگ یا دو زمانہ والا قرآن مجید اور احادیث میں اس بادشاہ کو ذوالقرنین کہنے کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی، البتہ علماء نے لفظوں کے معنی پر خیال کر کے متعدد وجہ بیان فرمائی ہیں اب یہ کچھ ضرور نہیں کہ وہ سب صحیح ہوں یا سب غلط منجملہ ان کے ایک ہے کہ اس کے تاج پر دونوں طرف کلغیاں لگی رہتی تھیں۔ عام بادشاہوں کے تاج پر ایک ہوتی ہے ان کے دو تھیں اس لیے اسی لقب سے شہرت پا گئے جو ان کی شہنشاہی اور فتوحات کثیرہ پر دلالت کرتا ہے یا یہ کہو کہ اس کو دو زمانے پیش آئے، ایک فتوحات کا دوسرا ان پر قابض و مسلط ہو کر حکمرانی کرنے کا۔ یہ بات بھی ہر بادشاہ کو نصیب نہیں ہوتی۔ سکندر فیلقوس نے فتوحات کے بعد کچھ زمانہ نہیں پایا، ہندوستان سے مراجعت کرتے وقت 33 برس کی عمر میں بابل میں مرگیا۔ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ قریش نے خواہ ازخود خواہ یہود کے کہنے سے آنحضرت ﷺ سے ذوالقرنین کا حال بطور امتحان کے دریافت کیا تھا جیسا کہ فرماتا ہے ویسئلونک عن ذی القرنین اس کے جواب میں فرماتا ہے قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا کہ ہم اس کا تجھ سے کچھ حال بیان کرتے ہیں پھر اس کا حال بیان کرتا ہے انامکنالہ فی الارض وآتیناہ من کل شیئٍ سببا کہ اس کو ہر ایک قسم کے اسباب اور قوت دی تھی فاتبع سببًا حتی اذابلغ مغرب الشمس و جدھا تغرب فی عین حمیۃ ووجدعندھا قوما کہ اس نے سامان و ساز سفر درست کر کے سفر کیا اور فتح کرتا ہوا وہاں تک پہنچا کہ جہاں آفتاب غروب کرتا ہے سو اس کو ایک سیاہ یا گرم چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا اور وہاں ایک قوم بھی اس کو ملی۔ مغرب الشمس کے یہ معنی نہیں کہ زمین پر کوئی آفتاب غروب ہونے کی جگہ ہے اور وہاں کوئی سیاہ دلدل یا گرم چشمہ ہے کہ جہاں آفتاب غروب ہوا کرتا ہے کس لیے کہ آفتاب چوتھے آسمان پر ہے اور زمین گول ہے، ہر وقت آفاق بعیدہ کے لحاظ سے اس کا طلوع و غروب ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اب دن ہے ان کے مقابلہ میں رات ہے کہیں اب نصف النہار ہے تو دوسری جگہ غروب کا وقت معلوم ہوتا ہے علی ہذا القیاس اور جو کسی نے یہ معنی سمجھے ہوں تو یہ اس کی غلطی ہے نہ کلام اللہ کی بلکہ یہ کلام محاورہ اور عرف عام کے دستور پر صادر ہوا ہے دیکھو ہمارے محاورہ میں نہایت دور دراز کے مشرقی اور مغربی ملکوں کے لحاظ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں بادشاہ کی وہاں تک سلطنت ہے کہ جہاں سے آفتاب طلوع کرتا ہے اور جہاں غروب ہوتا ہے یعنی مشرق میں دور دراز تک کہ جہاں ان کے افق کا دائرہ سطح ارض کو مس کرتا ہے اور اسی طرح مغرب میں بہت دور دراز تک یہ معنی ہیں مغرب الشمس اور مطلع الشمس کے اور امام رازی وغیرہ محققین نے یہ مراد لیا ہے اپنی تفاسیر میں پھر ذوالقرنین جب مغرب کے رخ بہت دور تک پہنچا کہ جہاں بجز سمندر کے اور کوئی آبادی نہ تھی تو آفتاب ان کو اس میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوا اور سب کو یوں ہی معلوم ہوا کرتا ہے جنہوں نے جہاز پر سفر کیا ہے یا جن کے مغرب میں سمندر ہے وہ ہر روز اس بات کا معائنہ کرتے ہیں۔ مغربی سفر : قرآن مجید نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ وہ مغرب میں کہاں تک پہنچے تھے اور وہاں ان کو کون قوم ملی تھی ؟ اب اس کی تعیین و تحقیق جو کچھ ہوگی تاریخ سے ہوگی، عرب کے تمام غربی کنارہ کو بلکہ تمام جنوب اور قدرے شمال کو بحر عرب اور قلزم احاطہ کئے ہوئے ہے اگر یہ مراد نہ لیا جائے کیونکہ یہ ان سے بہت کچھ دور نہیں تو قلزم کو عبور کر کے ملک مصر اور بربر کو طے کرتے ہوئے بحراعظم تک پہنچنا مراد لیا جائے گا اور وہیں وہ قوم ملی تھی جس کی بابت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام یا کسی نبی کی معرفت ذوالقرنین سے یہ فرمایا تھا قلنا یاذوالقرنین اماان تعذب واماان تتخذفیہم حسنا کہ تجھ کو ان کے بارے میں اختیار ہے خواہ سلوک کر خواہ ان کو سزا دے جس کے جواب میں ذوالقرنین نے عرض کیا قال امامن ظلم فسوف نعذبہ ثم یروالی ربہ فیعذبہ عذابانکرا۔ وامامن امن وعمل صالحًا فلہ جزاء الحسنٰی و سنقول لہ من امرنا یسرا، کہ ظالموں کو ہم سزا دیں گے اور وہ اپنے رب کے ہاں جا کر بھی سزا پائیں گے اور ایمانداروں، نیک پختوں کو خدا کے ہاں بھی اچھا بدلہ ملے گا اور ہم بھی اس کو آسان بات کہیں گے یعنی اس پر رعایت و مروت کریں گے ثم اتبع سببًا۔ دوسرا سفر : پھر سازوسامان مہیا کیا یہ ان کا دوسرا، سفر مشرقی ہے ہر سفر پر خدا تعالیٰ ثم اتبع سببًا کا اطلاق کرتا ہے حتی اذابلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لہم من دونہا سترا کہ مشرق میں وہاں تک پہنچے کہ جہاں سے آفتاب طلوع کرتا ہے اور وہاں اس کو ایک ایسی قوم ملی کہ جن پر آفتاب کے لیے کوئی آڑ نہ تھی۔ مطلع الشمس کے وہی معنی ہیں جو مغرب الشمس کے تحت ہم بیان کر آئے ہیں۔ یہاں بھی قرآن مجید میں کچھ بیان نہیں کہ مشرق میں کس ملک تک ذوالقرنین پہنچا تھا ؟ غالباً چین کا اخیر ہوگا کہ جہاں سمندر کے سوا اور کوئی چیز آفتاب کے لیے حائل نہیں یا ہندوستان کا اخیر مراد ہوگا، بحرچین تک کہ آفتاب سمندر سے طلوع کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور کوئی پہاڑ یا ملک درمیان میں حائل نہیں، اس کے بعد اس بیان کی صداقت قائم کرنے کے لیے فرماتا ہے کذالک وقداحطنا بمالدیہ خبرا کہ اس کا حال ہم کو خوب معلوم ہے اور صحیح بیان یوں ہی ہے۔ تیسرا سفر : ثم اتبع سبباً پھر سازوسامان سفر مہیا کیا یہ تیسرا سفر ہے اس کی کوئی سمت بیان نہیں کی غالباً یہ شمالی ملک کا سفر ہے کس لیے کہ آبادی کا اکثر حصہ اسی طرف ہے جنوب میں بحریابعض جزائر ہیں۔ حتی اذابلغ السدین وجدمن دونہما قومالایکادون یفقہون قولا کہ فتح کرتے ہوئے دو پہاڑوں کے درہ تک پہنچا اور ان کے پرلی طرف ایک ایسی قوم ملی کہ جوابات نہ سمجھ سکتے تھے ان کی زبان بالکل غیر تھی۔ یہ تاتار اور چینی تاتار کا پہاڑ ہے اسی کو جبل الطائی کہتے ہیں یہ پہاڑ تاتار اور چینی تاتار کے درمیان سے گزرا ہے اور منگولیا اور منچوریا کے درمیان حدفاصل ہے پھر اس کی ایک شاخ مغرب کے رخ سینکڑوں کوسوں تک تاتار کو جنوبی و شمالی حصہ میں تقسیم کرتی ہوئی چلی گئی ہے اور ایک شاخ مشرق و شمال کو ہوتی ہوئی سائبیریا کو گھیرتی ہوئی بحراعظم تک جا ملی ہے۔ چینی تاتار کے لوگ اس پہاڑ کے اس درہ میں گزر کر کہ جس کو ذوالقرنین نے بند کیا تھا، تاتاریوں کے ملک پر تاخت و تاراج کیا کرتے تھے، انہوں نے ذوالقرنین سے کہا ان یاجوج و ماجوج مفسدون فی الارض فہل نجعل لک خرجا علی ان تجعل بیننا سدا کہ یاجوج و ماجوج چینی تاتار کے لوگ زمین میں آ کر فساد کیا کرتے ہیں، آپ اگر ہمارے اور ان کے درمیان دیوار بنا دیں تو ہم آپ کے لیے اس پر خراج مقرر کردیں، قال مامکنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم وبینہم ردما، اتونی زبر الحدید۔ ط ذوالقرنین نے کہا خدا کا دیا میرے پاس سب کچھ ہے تم صرف مجھے مدد دو اور لوہے کے ٹکڑے لاؤ کہ تمہارے اور ان کے درمیان دیوار بنا دوں۔ اب اس سے عام ہے کہ لوہے کے ٹکڑوں سے وہ دیوار چنی تھی یا پتھروں سے لوہے کی ان میں میخیں لگائی تھیں بہرطور دیوار چن کر دونوں پہاڑوں کے سرے تک لے گئے تو پھر اس کو آگ سے گرم کر کے اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا یا یوں کہو ان درزوں میں پلا کر سب کو ایک ذات کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حتی اذاساوٰی بین الصدفین قال انفخوا۔ حتی اذاجعلہ نارًا قال اتونی افرغ علیہ قطرا۔ یہ درہ اس مضبوطی سے بند ہوا فما اسطاعوا ان یظہروہ و ما ستطاعوالہ نقبا کہ نہ بلندی کی وجہ سے اس پر چڑھ سکتے تھے نہ اس میں لوہے اور تانبے کے لگانے سے نقب لگا سکتے تھے۔ جب یہ دیوار تیار ہوئی تو ذوالقرنین نے ان لوگوں کو مخاطب کر کے یہ کہا قال ھذارحمۃ من ربی کہ یہ تم پر ایک انعامِ الٰہی ہے اس نعمت پر تم کو خدا تعالیٰ کا شکریہ کرنا چاہیے۔ یہ نعمت عرصہ دراز تک باقی رہے گی مگر فاذاجاء وعدہ ربی جعلہ دکا وکان وعدہ ربی حقا۔ جب میرے رب کا وعدہ یعنی اس کے گرنے کا وقت آئے گا تو یہ دیوار ٹوٹ جائے گی۔ میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نبی یا کوئی باخدا آدمی تھے جن کو بطور الہام کے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ایک وقت معین پر یہ دیوار ٹوٹے گی اس کا ذوالقرنین سے وعدہ خدا نے کرلیا تھا۔ اس وعدہ کا کوئی خاص وقت یہاں بیان نہیں ہوا کہ کب یہ دیوار ٹوٹے گی ؟ علمائِ اسلام احادیث سے استدلال کر کے کہتے ہیں کہ یہ دیوار قریب قیامت کے ٹوٹ جائے گی اور یہ تاتار اور چینی قومیں کہ جن کو یاجوج و ماجوج کہا ہے شام وغیرہ ملکوں پر حملہ آور ہوں گے اور آ کر ان ملکوں میں سخت فساد برپا کریں گے۔ پھر خدا تعالیٰ کی ایک بلائِ آسمانی سے سب ہلاک ہوجائیں۔ احادیث صحیحہ میں یہ مضمون ہے اور نیز کتاب حزقیل (علیہ السلام) کی 38، 39 فصل میں لکھا ہے کہ یاجوج و ماجوج شمال کی طرف بیشمار تعداد کے ساتھ حملہ آور ہوں گے (شام کے ملک پر) اور لوگوں کو مغلوب و مقتول کر کے یہ کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم نے ہلاک کردیا اب آسمان والوں کو بھی زیر کرنا چاہیے اس لیے آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے اور وہ تیر ان کے گمان کو صحیح کرنے کے لیے خون آلود ہو کر گریں گے، آخر خدا کی بھیجی ہوئی بلا سے یہ سب ہلاک ہوں گے کہ ان کی لاشوں سے زمین بھر جائے گی اور لوگ سات برس تک ان کے تیروکمان کا ایندھن جلائیں گے۔ یہ پیشین گوئی اب تک ظاہر نہیں ہوئی بلاشک قرب قیامت میں ظاہر ہوگی۔ گو خلیفہ واثق باللہ کے خواب کے موافق جو اس نے دیکھا تھا کہ دیوار ٹوٹ گئی ان تاتاریوں نے بسر کردگی چنگیز خاں و ہلاکو خاں شام اور ایران وغیرہ ملکوں پر حملہ کیا اور لاکھوں آدمیوں کو تہ تیغ کیا اور ملک میں زلزلہ ڈال دیا، کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہ رہی اور اسی وجہ سے بعض علماء نے اس واقعہ کو یاجوج و ماجوج کا واقعہ کہا ہے مگر دراصل یہ اور واقعہ تھا جو آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئی 1 ؎ کے مطابق ہوا اور خروجِ 1 ؎ ترمذی نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا لاتقوم الساعۃ حتی تقاتلواقوما لغالھم الشعر ولاتقوم الساعۃ تقاتلوا قوماً کان یاجوج و ماجوج کا ایک اور واقعہ ہے جو ہوگا۔ اب ہم یاجوج و ماجوج پر بحث کرتے ہیں کہ وہ کون قوم ہے اور کیسی ہے ؟ باتفاق محققین یہ دونوں عجمی نام ہیں، دو قوموں کے کہ جو یافث بن نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے فقیل انہما من الترک وقیل یاجوج من الترک وماجوج من الجیل والدیلم کہ بعض کہتے ہیں یاجوج و ماجوج دونوں ترکوں کے قبیلہ ہیں، بعض کہتے ہیں یاجوج ترکوں میں سے ہیں اور ماجوج جیل اور دیلم سے۔ بیضاوی اور المسعود و دیگر مفسرین ان کو یافث کی نسل سے کہتے ہیں، مطلب ایک ہی ہے کتاب المسالک والممالک میں چین کا حال بیان کر کے لکھتا ہے یکون یاجوج و ماجوج ماورائھم الی البحر المحیط کہ چین سے متصل بحراعظم کے کنارہ کنارہ یاجوج ماجوج قوم ہے۔ جبل الطائے کے پرلی طرف منچوریا منگولیا، کو ریا چین سے ملے ہوئے ہیں، دریا کی حد تک وہ ان سب کو یاجوج و ماجوج بتلاتا ہے۔ انہیں کے روکنے کے لیے فغفور چین نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے دیوار چین بنائی تھی اور انہیں کے لیے ذوالقرنین نے اس درہ کو بند کردیا تھا اور ایک جگہ لکھتا ہے و اما یاجوج فہم فی ناحیۃ الشمال اذاقطعت مابین الکیماکیۃ الخ اور اسی کے مطابق اور قدیم جغرافیہ والوں نے بھی بیان کیا ہے جس سے منچوریا اور منگولیا کے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دیوبھوت نہیں ہمارے جیسے آدمی ہیں، ہاں کسی زمانہ میں وحشی درندے، سفاک جاہل کافر ضرور تھے اور کچھ اب بھی ہیں، جغرافیہ جامِ جم میں جو انگریزی کتابوں کا ترجمہ ہے مرزا فرہاد نے ایسا ہی لکھا ہے۔ اس تقدیر پر منگول ومن جیوا جو چینی تاتار کے باشندے ہیں انہیں کو اگلے زمانہ میں یاجوج و ماجوج کہتے تھے اور یاجوج و ماجوج کے لفظ کو منگول ومن جیوا کرلیا یا اس کے برعکس ہوا اور صدیوں کے بعد الفاظ میں اس قسم کے تغیرات ہوجاتے ہیں کہ جس کا اصل پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ انگریزی میں یعقوب کا جیکب اور اسکند کا اسکنر اور یوسف کا جوزف بن گیا اور اسی طرح یونانی الفاظ کا عربی میں آ کر ایسا ہی حال ہوا اور زبانوں کے الفاظ کو قیاس کرلینا چاہیے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ یہ یاجوج و ماجوج عربی نہیں بلکہ عجمی لفظ ہیں اب نہیں کہہ سکتے کہ کس ملک کے لفظ ہیں اور عربی میں آ کر ان میں کیا تغیر ہوا اور پہلے یہ اپنی اصلی زبان میں کیا تھے اور اب وہاں یہ کس طرح پر ہیں ؟ توریت کتاب پیدائش کے دسویں باب میں یوں آیا ہے (2) یافث کے بیٹے یہ ہیں جمر اور ماجوج اور مادی اور یونان اور توبل اور مسک اور تیر اس اس یاجوج کی بابت ہمارا معزز معاصر لکھتا ہے کہ یہ ماکوک سے معرب ہوا جس کو عبرانی میں ماغوغ کہتے تھے اور آگے چل کر یہ ثابت کیا ہے کہ گا میگاگ جس کا یاجوج ماجوج بنایا ہے ایک ہی قوم پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا ہو مگر اس کی دلیل بیان نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یاجوج ماجوج ابتداء میں کسی شخص کے نام تھے پھر ان کی اولاد پر مستعمل ہونے لگے۔ کتاب حزقیل کی 38 باب میں یوں آیا ہے اور خداوند کا کلام مجھ کو پہنچا اور اس نے کہا، اے آدم زاد تو جوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبال کا سردار ہے، اپنا منہ کر اور اس کے برخلاف نبوت کر۔ یہاں جوج کو یاجوج کی سرزمین کا رہنے والا اور روش اور مسک اور توبال قوموں کا سردار کہا۔ بظاہر یاجوج اس ملک اور اس قوم کو کہا جو یاجوج بن یافث کی اولاد سے ہیں اور جو انہیں بلادشمالیہ میں رہتے تھے جن کو آج کل تاتار اور چینی تاتار و ترکستان کہتے ہیں اور انہیں کی نسل کے لوگوں سے یہ ملک آباد ہیں اور جوج یعنی یاجوج ان میں سے کسی خاص فرقے کا نام تھا جو روس و توبال اور مسک قوموں کا ان دنوں میں حاکم ہوگا۔ وجوھھم المجان المطرقۃ اور پھر ترمذی کہتے ہیں ہذاحدیث حسن صحیح یعنی قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم اے مسلمانو ! ایک ایسی قوم سے نہ لڑو گے کہ جن کی بالوں کی جوتیاں ہوں گی اور ایسی قوم سے نہ لڑو گے کہ جن کے چہرے ڈھالوں کے جیسے چوڑے چکلے ہوں گے یعنی قیامت سے پیشتر تم کو ایسی قوموں سے لڑنے کا اتفاق ضرور ہوگا اور اس قوم کے سے مراد اتراک اور تاتاری لوگ ہیں مگر بعض علماء کہتے ہیں وہی یاجوج و ماجوج ہیں جو چنگیز خاں اور اس کے بیٹے کے عہد میں خروج کر آئے تھے، والعلم عندہ ہو۔ منہ 12۔ یہاں سے بعض صاحبوں کا یہ خیال کرلینا کہ جوج سے انگریز اور یاجوج سے روسی لوگ مراد ہیں محض غلط ہے، نہ اس کی کوئی سند ہے نہ اس کا کوئی عاقل قائل ہے۔ سوال : بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج ہر روز اس دیوار کو توڑا اور ڈھایا کرتے ہیں، جب شام ہوجاتی تو کہتے ہیں کل ڈھائیں گے، ذرا سی رہ گئی مگر ان کے انشاء اللہ نہ کہنے سے پھر صبح کو خدا تعالیٰ اس دیوار کو ویسا ہی کردیتا ہے، پھر جب اس کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ کہیں گے، پھر اس کو توڑ کر باہر نکل آئیں گے اور لوگ ان سے بھاگ جائیں گے الخ۔ اس حدیث کو ترمذی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج وقت معہود سے پہلے ان ملکوں میں نہیں آسکتے اور جس قوم کو تم نے یاجوج و ماجوج بتلایا وہ ان ملکوں میں بارہا حملہ کرکے آئے ہیں اور اب بھی وہاں کے لوگ آتے ہیں اور ان کے قریب چین کی عملداری ہے اور روس کی مملکت بھی ہے۔ جواب : قرآن مجید سے صرف اسی گھاٹے کا بند کرنا ثابت ہوتا ہے جس کو ذوالقرنین نے بند کیا تھا، نہ یہ کہ ان کے چاروں طرف کے رستے بند کردیے تھے۔ پھر یہ ممکن ہے کہ اور دور دراز کے رستوں سے اس قوم کے لوگ ان ملکوں میں آتے جاتے ہوں گے مگر اس عہد میں بجز اس رستہ کے اور کوئی آسان رستہ ان کے ہاتھ میں نہ ہوگا۔ خصوصاً ان لوگوں پر حملہ آوری کے لیے کہ جن کے کہنے سے ذوالقرنین نے دیوار چنی تھی اور جو لوگ یاجوج و ماجوج چنگیز خانیوں کو کہتے ہیں ان کے نزدیک دیوار ٹوٹنے کا وقت کئی سو برس آگے آچکا اور بہ نسبت اگلے زمانہ کے وہ بھی قیامت کے قریب ہے، قرب قیامت سے مراد نفح صور سے متصل زمانہ نہیں اور ان کا اس دیوار پر نہ چڑھنا نہ نقب لگانا اس زمانہ تک تھا نہ ہمیشہ کے لیے یہ ہزاروں برس کا واقعہ ہے۔ صدیوں تک وہ دیوار ان کے خروج کو مانع رہی اب یہ کیا ضرور ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہی مانع رہے قرآن میں کوئی بھی لفظ ایسا نہیں جو اس مطلب پر دلالت کرتا ہو۔ احادیث خبر آحاد ہیں جن کے ثبوت میں بھی یقین کامل نہیں۔ اہل کتاب کی کتابیں قابل احتجاج نہیں ہاں یہود میں یاجوج و ماجوج اور دیوار کی بابت عجائب افسانے مشہور تھے جن کو بعض خوش اعتقاد مسلمانوں نے بھی روایت کردیا۔ چناچہ معالم التنزیل میں وہب ؓ و غیرہما کے چند اقوال یاجوج و ماجوج کی نسبت منقول ہیں کہ وہ ایک کان بچھا کر ایک اوڑھ کر سوتے ہیں اور ان میں سے کسی کا قد سو گز سے زیادہ ہے اور ان کے درندوں کی طرح چکل اور کچلیاں ہیں وغیرہ غیرہ۔ یہ سب وہی روایات ہیں جو اہل کتاب سے لے کر قرآن مجید سے چسپاں کی گئی ہیں۔ تیسری دیوار جو باب الابواب کے پاس ہے جس کا ہم بیان کر آئے ہیں بعض مفسروں نے اسی کو وہ دیوارِ ذی القرنین قرار دیا ہے کہ جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے جیسا کہ بیضاوی نے لکھا ہے وقیل بآذربیجان الخ کہ بعض نے اس کو آذربیجان اور آرمینیہ کے پہاڑوں میں بتلایا ہے اور یہ بالاتفاق ہے کہ اس دیوار کا بنانے والا ایران کا کوئی بڑا جلیل القدر بادشاہ ہے پھر کوئی اس کا نام نوشیروان بتلاتا ہے کوئی قباد کہتا ہے اگر نوشیرواں ہے تو یہ اخیر نوشیرواں نہیں بلکہ پہلے بادشاہوں میں سے ہو کوئی ہوگا کیخسرو و کیقیاد کہ جس کی سلطنت بھی مشرق و مغرب میں بہت دور تک پہنچی تھی اور اس نے بڑی بڑی مستحکم عمارتیں بھی بنائی تھیں جیسا کہ تاریخ شاہان ایران سے ظاہر ہے اس قول کے مطابق تو یہی بادشاہ ذوالقرنین قرار پاتا ہے اور اس کی سند بھی کتاب دانیال (علیہ السلام) کے آٹھویں باب سے ملتی ہے۔ اس کتاب کے 8 باب میں لکھا ہے بیلشفر بادشاہ (بخت نصر کے بیٹے) کی سلطنت کے تیسرے سال میں مجھے ہاں مجھ دانی ایل کو ایک رؤیا نظر آئی بعد اس کے جو شروع میں مجھے نظر آئی تھی اور میں نے عالم رؤیا میں دیکھا اور جس وقت میں نے دیکھا ایسا معلوم ہوا کہ میں سو سن 1 ؎ 1 ؎ یہ شہر شوستر کا قدیم نام ہے یہ شہر اگلے زمانوں میں شاہان کیا نیہ کا پایہ تخت رہ چکا ہے جو دارا کہ حضرت دانیال (علیہ السلام) کے عہد میں تھا اور جس کے ہاں حضرت مامور ہوگئے تھے اور جن سے بابل شہر سے بخت نصر بادشاہ کلدانی کی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا اسی شہر میں تھا۔ حضرت دانیال بخت نصر کی قید میں بابل پہنچے تھے پھر بخت نصر اور اس کے بیٹے کے درمیان میں آپ کو بڑی عزت دی گئی تھی انہیں کے روبرو بابل کی سلطنت کا خاتمہ ہو کر شاہان ایران کا غلبہ ہوا اور انہیں کو دو سینگ کا مینڈھا آپ خواب میں دیکھتے ہیں۔ 12 منہ کے قصر میں تھا جو صوبہ عیلام میں ہے پھر میں نے رؤیت کے عالم میں دیکھا کہ میں اولائی کے ندی کے کنارے پر ہوں تب میں نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے آگے ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ تھے اور دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا میں نے اس مینڈھے کو دیکھا کہ پچھم اتر دکھن طرف سینگ مارتا تھا یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا۔ وہ جو چاہتا تھا سو کرتا تھا یہاں تک کہ وہ بہت بڑا ہوگیا اور میں اس سوچ میں تھا کہ دیکھا ایک بکرا پچھم کی طرف سے آ کے تمام روئے زمین پر ایسا پھرا کہ زمین کو بھی نہ چھوڑا اور اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے بیچوں بیچ ایک عجیب طرح کا سینگ تھا اور وہ اس سینگ والے مینڈھے پر بڑے زور سے دوڑ پڑا اور اس کو مارا اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور اس کو زمین پردے مارا اور لتھاڑ ڈالا اور کوئی اس کو نہ چھڑا سکا پھر وہ بکرا نہایت بڑا ہوا جب پرزور ہوا تو اس کا سینگ ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ اور چار سینگ نکلے۔ جب میں دانی ایل یہ خواب دیکھ چکا تو اس کی تعبیر کی فکر میں تھا۔ پھر میں نے اپنے سامنے کوئی شخص کھڑا دیکھا اور ایک آواز آئی کہ اے جبرئیل اس کو رؤیا کے معنی سمجھا دے۔ اس نے میرے پاس آ کر کہا اے آدم زاد سمجھ کیونکہ یہ رؤیت آخری زمانہ میں انجام ہوگی وہ مینڈھا کہ جس کے دو سینگ تھے وہ مادہ اور فارس کے بادشاہ ہیں اور وہ بکرا یونان کا بادشاہ اور اس کے چار سینگ سو یہ چار سلاطین ہیں جو اس قوم کے درمیان برپا ہوں گے انتہٰی ملخصاً ۔ اس بنا پر ذوالقرنین فارس کے بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ ہے، قباد وغیرہ جو دو سینگ والے سے یہود میں مشہور تھا جس کا ترجمہ عربی میں ذوالقرنین ہوا اور وہ بکرا ایک سینگ والا سکندر فیلقوس یونانی بادشاہ ہے جس نے اس دو سینگ والے مینڈھے یعنی ایران کے اس بادشاہ کو جو اس کے عہد میں تھا (دارا جو انہیں بادشاہوں کے ذیل میں باعتبار حشمت و وسعت و غلبہ کے دو سینگ والا مینڈھا تھا) لتاڑا اور اس کی سلطنت چھین لی اور پھر سکندر کے بعد اس کے چار سرداروں میں اس کا ملک تقسیم ہوا اور یہ چاروں ایک ایک حصہ ملک کے بادشاہ ہوگئے۔ دانیال (علیہ السلام) کے کئی سو برس بعد یہ واقعہ ہوا۔ حضرت دانیال (علیہ السلام) کا یہ خواب کتاب دانیال میں یہود کے ہاں ایک معما سا چلا آتا تھا جس کے معنی یا تعبیر وہی جانتے تھے اس لیے انہوں نے قریش کو بطور امتحان کے آنحضرت صلی اللہ علیہوسلمک سے ذوالقرنین کے حال سے سوال کرنے کو کہا کہ وہ ذوالقرنین کو کوئی بادشاہ بتلاتے ہیں یا کوئی جانور دو سینگ والا ؟ کیونکہ بظاہر لفظوں میں پورا ابہام ہے مگر آنحضرت ﷺ نے بموجب وحی متلو اس کا ان آیات میں پورا حال بیان کردیا اور اس کی دیوار بنانے اور قوم خزر کے روکنے کا تذکرہ بھی کیا جو یاجوج و ماجوج کی قوم میں سے تھے اور شاہ فارس کے ملک میں آ کر فتور برپا کیا کرتے تھے۔ اس خواب کے مطابق بھی سکندر رومی ذوالقرنین نہیں ہوسکتا، عوام میں جو سکندر ذوالقرنین مشہور ہوگیا ہے اس غلطی کا باعث بعض مؤرخوں کی لاعلمی اور پھر سکندر نامہ میں مولانا نظامی (رح) کی غلطی ہے۔ بعض لوگوں نے ایرانی بادشاہوں میں سے ذوالقرنین فریدوں کو قرار دیا جیسا کہ تفسیر ابوالسعود و تاریخ ابوالفداء میں مذکور ہے مگر جمہور محققین کا اسی پر اتفاق ہے کہ ذوالقرنین تبع حمیری ہے اور وہ دیوار جو اس نے بنائی وہی ہے جو جبل الطای میں واقع ہے نہ دربند اور یاجوج و ماجوج وہی تاتاری اور چینی تاتار کے لوگ ہیں کہ جن کے بزرگوں کے روکنے کے لیے ذوالقرنین نے دیوار بنائی تھی اور یہی قومیں اخیر زمانہ میں ملکوں میں یورش کریں گی یا کر چکیں۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے ذوالقرنین کے قصہ کی تحقیق کہ جس میں توہمات باطلہ اور داستان گوئی کو کچھ بھی دخل نہیں اور جس پر حال کے جغرافیہ اور تاریخوں کے بموجب کوئی خدشہ نہیں پڑتا نہ کوئی شبہ باقی رہتا ہے اور جو محققین کے اقوال سے لی گئی محض اپنی رائے سے تاریخی واقعات میں زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے گئے ہیں جیسا کہ ہمارے بعض معاصرین کی عادت ہے۔ باایں ہمہ اگر ہماری اس تحقیق میں کوئی غلطی ہو تو مجھے اس پر کچھ بھی اصرار نہیں۔
Top