Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 28
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے ہارون 3 ؎ کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں ہی بدکار تھی۔
1 ؎ ہارون سے حضرت ہارون موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی مراد نہیں کیونکہ مریم میں اور ان میں سینکڑوں برسوں کا فاصلہ ہے۔ یہ ان کی بہن نہیں ہوسکتی بلکہ ان کے نام پر کوئی دوسرا ہارون تھا جو مریم کا رشتہ کا بھائی تھا جس کی نیک بختی بنی اسرائیل میں مشہور تھی یعنی تم ایسے شریف اور نیک خاندان کی ہو کر یہ کیا کر بیٹھیں اور اگر ہارون مراد ہوں تو اخت کے معنی بہن کے ہیں بلکہ ابن اخت اخ عرب میں نسبت کے لیے بھی مستعمل ہوتے ہیں ابن اللیل چاند کو ابن السبیل مسافر کو اخ العرب عربی کو کہتے ہیں یعنی تاروں والی چونکہ عہدہ امانت حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں چلا آتا تھا اور حضرت مریم [ بھی اس مقدس و معزز خاندان میں سے تھیں اس لیے ان کو اخت ہارون کہہ کر مولود سعید پر ملامت کی۔ حقانی 12۔ (3) یا اخت ہارون اخت کے حقیقی معنی بہن کے ہیں لیکن یہاں یہ مراد نہیں بلکہ کلام عرب میں اخ اور اخت اور ابن سے مواقع میں محض نسبت کے لیے آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں یا اخا العرب یا اخاہمدان ” اے واحد امنہم یعنی اے عرب والے اے قبیلہ ہمدان والے “ نہ یہ کہ اے عرب اور ہمدان کے بھائی اسی طرح مسافر کے لیے ابن السبیل اور چاند کے لیے ابن الیل آتا ہے وغیرہ چونکہ حضرت مریم ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے تھیں اس لیے ان کو شرمندہ کرنے کے لیے ان کے جد اعلیٰ ہارون کی طرف منسوب کر کے کلام کیا کہ اے ایسے بزرگ کی اولاد تجھے ایسا کرنا تھا بعض کہتے ہیں کہ مریم کے حقیقی بھائی کا نام بھی ہارون تھا جو بڑے نیک مرد تھے۔ ایک پادری نے اخت کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر ہارون اور مریم میں فاصلہ دراز خیال کر کے اعتراض جڑ دیا کہ قرآن میں غلطی ہے۔ فہم سلیم اسی کو کہتے ہیں۔
Top