Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ : تو مریم نے اشارہ کیا اِلَيْهِ : اس کی طرف قَالُوْا : وہ بولے كَيْفَ نُكَلِّمُ : کیسے ہم بات کریں مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں صَبِيًّا : بچہ
تب مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا وہ کہنے لگے ہم گود کے بچے سے کیونکر بات چیت کرسکتے ہیں
3 ؎ حضرت مریم [ کا خود کلام نہ کرنا گود کے بچہ کی طرف اشارہ کرنا کہ یہ خود اپنا حال بیان کر دے گا اپنی برأت کا اظہار مقصود تھا کس لیے کہ حرامی بچہ میں یہ کمال و کرامت کہاں کہ وہ کلام کرے اور کلام بھی ایسا پر معنی اور بلند مرتبہ کہ میں خدا کا بندہ ہوں خدا نہیں کیونکہ آنے والا حال خدا نے ان پر منکشف کردیا تھا کہ میرے معتقدوں میں سے بہت لوگ مجھے ابن اللہ یا خدا کہیں گے اس میں ضمناً نصاریٰ پر تعریض بھی ہے کہ وہ تو اپنے کو خدا کا بندہ کہتے تھے تم ان کو ابن اللہ اور خدا کہتے ہو یہ کیا اتباع عیسیٰ ہے۔ دوم یہ کہ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا گو اس وقت نہ کتاب انجیل ملی تھی نہ نبوت مگر یقینا ہونے والی چیز کو ہوئی سمجھنا اپنے وثوق کا اظہار ہے چناچہ انہیں انجیل بھی ملی اور نبی بھی ہوئے۔ سوم یہ کہ گواہی یہود اب تم مجھ پر اور میری ماں پر لعنت کر رہے ہو مگر بجائے ان کے مجھے خدا نے بابرکت کیا ہے جہاں کہیں کیوں نہ ہوں دنیا میں بھی اور آسمان پر جانے کے بعد بھی۔ چہارم جامہ بشریت سے باہر نہیں ہوں مجھ پر بھی خدا کے احکام فرض ہیں اور میں ان کی بسروچشم تعمیل کرنے والا ہوں اس لیے اپنی ماں کا تابعدار ہوں سرکش اور نافرمان نہیں جیسا کہ حرامی بچہ ہوتے ہیں اور میری ہر حالت پر خدا کی امان ہے پیدا ہونے ‘ مرنے ‘ زندہ ہونے میں اور مجھے خدا نے نماز اور خیرات کا مؤکد حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔ 12 منہ تفسیر : آخر جب مریم جوان ہوگئیں تو ایک بار ان کو خوبصورت آدمی کی شکل میں خدا کا فرشتہ (جبرئیل علیہ السلام) نظر آیا، مریم گھبرائیں اور کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا ترس ہے۔ فرشتہ نے کہا میں انسان نہیں خدا کا فرستادہ ہوں اس لیے آیا ہوں کہ تجھ کو پاک فرزند دوں۔ مریم [ نے کہا یہ کیونکر ہوگا میرا اب تک کسی سے نکاح نہیں ہوا اور نہ میں حرام کار ہوں۔ فرشتہ نے کہا خدا یوں ہی اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کرسکتا ہے تب فرشتہ نے ان کے کرتے کے گریبان میں دم کردیا یعنی پھونک دیا۔ اس کے بعد سے ان کو حمل معلوم ہونے لگا۔ مریم ( علیہ السلام) لوگوں سے گوشہ اور کنارہ کے مکان میں جا رہیں (غالباً یوسف کے ساتھ وہاں سے بیت اللحم میں آرہی ہوں گی جو وہاں سے کئی میل کے فاصلہ پر ایک گائوں تھا جو آج کل شہر ہے یا اپنی خالہ کے گھر آرہی ہوں گی اور ان کی خالہ کو بھی حمل تھا چھ مہینے کا جس سے یحییٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے) پس جب خاص جنے کا وقت آیا اور درد لگے تو ایک افتادہ مکان میں آئیں جہاں ایک کھجور کا درخت تھا اور پانی نہ تھا اور ولادت کے وقت ان چیزوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ادھر تنہائی ادھر درد ادھر ہر قسم کی بےسروسامانی نہ کھانا نہ پانی۔ ایسی حالت میں انسان کا مقتضائے طبعی ہے کہ گھبرا گئیں اور کہنے لگیں کہ کاش میں اس دن سے پیشتر مرچکتی اور نیست و نابود ہوگئی ہوتی کہ لوگ نام و نشان بھی بھول جاتے۔ ایسے سخت وقتوں میں خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دستگیری کیا کرتا ہے پس ان کے پائیں 1 ؎ سے فرشتے نے آواز دی کہ کچھ غم نہ کرو دیکھو تمہارے پائوں کی طرف خدا نے چشمہ جاری کردیا جس قدر پانی درکار ہو لو اور اس کھجور کے درخت کو ہلاؤ تروتازہ کھجوریں اس میں سے جھڑیں گی اور جو کوئی شخص تمہیں کچھ کہے تو اشارہ سے کہہ دینا کہ میں کلام نہیں کرسکتی روزہ نذر مانا 2 ؎ ہے۔ پس پاک ہونے کے بعد ختنہ کے لیے شریعت موسوی کے موافق مریم عیسیٰ کو بیت المقدس میں لائیں فاتت بہ قومہا تحملہ یہاں ان پر لوگوں کا ہنگامہ ہوا اور طعن وتشنیع شروع ہوئی کہ تیرے ماں باپ ایسے نہ تھے تو یہ حرام کار کہاں سے پیدا ہوئے ؟ سچ بتا یہ بچہ کس کا ہے ؟ مریم نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا کہ خود اسی سے دریافت کرلو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم بچہ سے کیونکر بات چیت کرسکتے ہیں۔ اتنے میں حضرت مسیح (علیہ السلام) گود میں سے آپ بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (سب سے پہلے یہ جملہ یوں کہا کہ ان کے بغیر باپ کے پیدا ہونے اور عجائبِ معجزات دکھانے سے لوگ ان کو کہیں خدا کا بیٹا نہ سمجھ لیں جیسا کہ نصارٰی سمجھ بیٹھے) مجھ کو کتاب دی ہے یعنی انجیل گو اس وقت تک نہ 2 ؎ اگر روزہ میں یہ نذر مانا ہو کہ کسی سے کلام نہ کروں گا اس عہد میں اس نذر کا پورا کرنا ضرور تھا اس لیے مریم نے یہ عذر کیا اور غرض یہ تھی کہ لوگوں کو آپ جواب دینا نہ پڑے خود لڑکا ہی جواب دے دے تاکہ اس کا اعجازو کرامت معلوم ہو۔ 12 منہ ملی تھی بلکہ تیس برس کی عمر میں جبکہ نبی ہوئے اور اسی طرح نبوت بھی جب ہی ملی اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کی وصیت بھی اسی وقت ہوسکتی ہے لیکن یہ سب باتیں ہونے والی تھیں اور عالم غیب میں قرار پا چکی تھیں گو ظہور اس وقت تک نہ ہوا تھا لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معلوم کرایا گیا تھا اس لیے ان سب باتوں کو بلفظ ماضی اس طفولیت کے وقت میں بیان فرمایا۔ شیرخواری کی حالت میں اپنی ماں کی برأت کے لیے مسیح نے ایک ہی بار کلام کیا تھا پھر نہیں کیا بلکہ پھر اس وقت بولے جب اور لڑکے بولا کرتے ہیں جب لوگوں نے یہ کلام سنا تو حیرت میں رہ گئے اور اس لیے مریم [ پر زنا کی سزا جو قتل تھی قائم نہ کی ورنہ سزا سے بری رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر اس بات کو یہود نے مخفی کردیا تاکہ لوگ ان کے معتقد نہ ہوں اور حضرت زکریا (علیہ السلام) پاکدامن پر بہتان دھر دیا۔ تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مریم [ کا چچازاد بھائی ایک شخص یوسف نامی تھا جو حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کو یہود اور ہیرو دوس کے خوف سے مصر لے گیا تھا اور اس کے مرنے تک وہ وہیں رہے پھر ہیرودوس کے مرنے کے 1 ؎ بعد آ کر ناصرہ گائوں میں رہے اسی لیے ان کے متبعین کو نصاریٰ کہتے ہیں اور پھر وعظ و پند میں مصروف ہوئے اور معجزات دکھانے شروع کئے۔ لوگ جوق جوق ان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ آخر یہود کو حسد ہوا اس عہد کے حاکم کو بدگمان کر کے ان کو گرفتار کرایا کہ یہ قیصر سے باغی ہے، قید کر کے سولی دینے لے چلے مگر خدا نے ان کو زندہ وسالم اوپر اٹھا لیا اور ان کی شکل میں ایک کو انہیں میں سے کردیا جس کو سولی دی گئی ان کے بعد حضرت مریم [ کا انتقال ہوا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ان کے روبرو ہی ہیرو دوس کے ہاتھ سے شہید ہوچکے تھے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور مریم ( علیہ السلام) کے قصہ کو تمام کر کے فرماتا ہے ذلک عیسیٰ بن مریم الخ کہ اصل حقیقت عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) کی یہ ہے۔ سچا واقعہ جس میں وہ جھگڑتے ہیں یہ ہے نہ وہ جو کہ یہود کہنے لگے کہ معاذاللہ وہ زنا سے پیدا ہوئے تھے اور مکار و فریبی تھے نہ وہ جو کہ عیسائی کہنے لگے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے خدا ان کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔ یہود کا قول تو ازحد بدیہی البطلان تھا ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی اس لیے عیسائیوں کے قول کو باطل کرتا ہے ماکان اللہ ان یتخذمن ولد سبحانہ الخ کہ خدا کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنا دے وہ اس سے پاک ہے اذا قضٰی امرا فانما یقول لہ کن فیکون بیٹا ان کے لیے ہوتا ہے جن کو احتیاج ہے اور اس کے حکم میں تو ہر چیز ہے کن کہتے ہی ہوجاتی ہے اسی طرح بغیر سبب ظاہری یعنی باپ کے بغیر عیسیٰ کو پیدا کردیا خود عیسیٰ نے کہہ دیا انی عبداللہ الخ وان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذا صراط مستقیم کہ اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پالنے والا ہے اسی کی عبادت کرو سیدھا رستہ یہی ہے نہ یہ کہ مجھے خدا یا اس کا بیٹا سمجھو۔ ابحاث : (1) زکریا (علیہ السلام) کا قصہ انجیل لوقا میں موجود ہے ہاں قرآن مجید میں تین روز تک اور انجیل مذکور میں ایک روز تک گونگا رہنا مذکور ہے اور مریم کے قصہ میں اس قدر تفاوت ہے کہ مریم کا ان کی والدہ کی طرف سے خدا کی نذر میں چڑھایا جانا اور زکریا ( علیہ السلام) کی نگرانی میں پرورش پانا اور اسی طرح تولد مسیح (علیہ السلام) کے وقت خرمے کے درخت کا تروتازہ ہونا اور چشمہ جاری ہونا اور پھر شیرخوارگی میں مسیح ( علیہ السلام) کا کلام کرنا ان کی اناجیل اربعہ میں موجود نہیں قرآن میں ہے البتہ ان کی اور اناجیل میں ہے جیسا کہ انجیل طفولیت وغیرہ اور اسی طرح رضاعت کے زمانہ میں یحییٰ کا کلام کرنا انجیل میں ہے قرآن مجید میں نہیں سو یہ کچھ اختلاف ایسا نہیں کہ جس سے ایک کو غلط ایک کو صحیح کہنے کی نوبت پہنچی خود چاروں انجیلوں میں اس قسم کی کمی زیادتیاں ہیں ایک میں ہے کہ مجوسی ستارہ کے اشارہ سے مسیح پاس آئے دوسری میں نہیں علیٰ ہذا القیاس۔ اور جو اختلاف ہے بھی تو اس میں قرآن مجید کا ہی عقلاً و نقلاً اعتبار ہونا چاہیے نہ ان کی کتب محرفہ کا۔ (2) تمام اہل اسلام اور تمام عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت (علیہ السلام) بغیر باپ کے محض قدرت کاملہ سے پیدا ہوئے تھے 1 ؎ تخمیناً بارہ برس کی عمر میں مسیح ( علیہ السلام) مصر سے واپس آئے۔ 12 منہ۔ برخلاف یہود کے کہ وہ ان کو انسان کے نطفہ سے بطور عادت پیدا ہونا کہتے ہیں اور معاذاللہ ناجائز تولد قرار دیتے ہیں مگر آج کل برائے نام مسلمانوں کا ایک گروہ جو اس زمانہ میں علوم حسیہ کی ترقی اور علوم روحانیہ کے مفقود ہوجانے اور حسن باطن اور نور قلبی کے مٹ جانے سے پیدا ہوا ہے وہ فریق قدم بہ قدم حکمائے یورپ کے چلتا اور قرآن و احادیث کو ان کے خیالات کے مطابق کرتا ہے۔ غلط تاویلات کے ذریعہ سے وہ بھی یہود کی طرح بطور عادت انسان کے نطفہ سے پیدا ہونا کہتا ہے کیونکہ خوارق عادت امور ان کے نزدیک محال ہیں۔ اس بات کے امکان پر دلائل لانے کی یہاں گنجائش نہیں مقدمہ تفسیر میں بیان ہوچکے اب ہم قرآن مجید کے وہ الفاظ بتاتے ہیں جو اسی بات پر دلالت کرتے ہیں : اول ان آیات میں فتمثل لہابشراسویا سے لے کر قال کذلک قال ربک ھو علی ھین تک صاف صاف کہہ رہا ہے کہ مریم کو فرشتہ کے کہنے سے کہ تجھ کو فرزند دینے آیا ہوں تعجب آیا اس لیے کہ نہ وہ حرام کار تھیں نہ کسی سے نکاح ہوا تھا اس پر فرشتہ کا یہ کہنا کہ تیرا رب یوں ہی کرسکتا ہے اور یہ اس پر کچھ مشکل بات نہیں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تولد بغیر باپ کے ہوا ہے۔ دوم ولنجعلہ آیۃ للناس بھی اسی کی تصریح کرتا ہے کس لیے کہ تولد مسیح اگر معمولی طور سے ہوتا پھر خواہ اس میں لوگوں کے لیے کتنے ہی برکات کیوں نہ ہوتے جیسا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے تولد میں اس پر آیۃ کا اطلاق نہیں ہوتا کس لیے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بجز آیات قرآنیہ کے اور چیزوں پر لفظ آیۃ کا اطلاق ہوا ہے تو انہیں پر ہوا ہے کہ جہاں کوئی بات اس کی قدرت کی بابت عادت واسباب ظاہری بغیر پائی گئی ہو جیسا کہ اصحاب کہف پر اور صالح (علیہ السلام) کے ناقہ پر وغیر ہما۔ سوم ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم الایۃ میں اس امر کی صاف تصریح ہے کیونکہ آدم ( علیہ السلام) کے ساتھ مسیح (علیہ السلام) کو تشبیہ دینا اور اگر اس بات میں نہیں کہ جس طرح وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اسی طرح یہ بھی تو پھر اور کون سی خصوصیت آدم کے ساتھ مسیح کو ہے ؟ اور نیز اس آیت کا نزول انہی کے دفع خیال کے لیے ہے جو مسیح کو بغیر باپ کے پیدا ہونے سے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ اسی قصے میں اور کتنی ایک باتیں خارق عادت مذکور ہیں جیسا کہ کھجور خشک سے ترخرموں کا پیدا ہونا ‘ پانی کا چشمہ نمودار ہونا ‘ مسیح کا گود میں کلام کرنا ‘ جس کی بابت یہود نے کہا تھا کہ ہم گود کے بچہ سے کیونکر بات کرسکتے ہیں ؟ اور فرشتہ کا مجسم ہو کر مریم کو نظر آنا۔ پھر یہاں بھی شاید تاویل باطل کریں گے اسی طرح عیسائیوں کی اناجیل اربعہ میں بھی اس امر کی صاف تصریح ہے حالانکہ ماوّل صاحب اپنی کتاب تبین 1 ؎ الکلام میں اناجیل مذکور کو غیرمحرف اور کلام الٰہی مان چکے ہیں۔ انجیل متی کے اول باب میں 18 درس سے لے کر آخر تک اس کی تصریح ہے جس کا ایک جملہ یہ ہے کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھے آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ پھر انجیل لوقا کے اول باب میں 26 درس سے لے کر کئی جملوں تک قرآن مجید کے موافق مریم کو فرشتہ سے حمل ہونا اور مسیح کا بغیر باپ کے پیدا ہونا مذکور ہے۔ پھر نہیں معلوم کہ ماوّل صاحب کس سند سے انکار کرتے ہیں اور آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں ؟
Top