Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 38
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَسْمِعْ : سنیں گے بِهِمْ : کیا کچھ وَاَبْصِرْ : اور دیکھیں گے يَوْمَ : جس دن يَاْتُوْنَنَا : وہ ہمارے سامنے آئیں گے لٰكِنِ : لیکن الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) الْيَوْمَ : آج کے دن فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
جس روز کہ وہ ہمارے پاس حاضر ہوں گے اس دن تو کیا ہی سنتے دیکھتے ہوں گے لیکن ظالم آج تو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
ترکیب : اسمع بہم وابصر معناً دونوں تعجب کے صیغہ لفظاً امر کے صیغہ ہیں بمعنی ما اسمعھم و ما ابصرھم بہم موضع رفع میں ہے کقولک احسن بزید ای احسن زید لفظوں میں امر اور معنی ً خبر ہے ای حسن زید، ویمکن ان یقال انہ امرلکل احد بان یحسن بزید والباء زائدۃ۔ یوم ظرف والعامل فیہ اسمع وابصر۔ اذا قضٰی یا یوم الحسرۃ سے بدل یا حسرت کا ظرف۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا فاختلف الاحزاب کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں قومیں مختلف ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہوا کہ یہود کچھ کہتے ہیں، نصاریٰ کچھ اور پھر باہم نصاریٰ کے فرقوں میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے اور تھا جن کی نسبت فرماتا ہے فویل للذین کفروامن مشہد یوم عظیم کہ منکروں کو بڑے دن کی حضوری اور اس کی شدت سے خرابی ہے بڑا دن قیامت کا دن ہے یعنی اس دن کا سامنا ہونا ہے اور اس دن میں بڑی مصیبت ہے ان کے اختلاف کا ثمرہ اس روز ظاہر ہوجائے گا۔ اسمع الخ میں یوم عظیم کی کچھ کیفیت بیان کی کہ جس روز یہ کافر ہمارے پاس آئیں گے اس روز ان کی بینائی اور شنوائی عجب ہوگی یعنی جس طرح آج اندھے اور بہرے ہیں نہ باطن کی آنکھوں سے حق دیکھتے ہیں نہ کسی سے سنتے ہیں اس روز یہ حال نہ ہوگا بلکہ خوب آنکھیں کھلی جائیں گی، کان بھی کھل جائیں گے یہی مضمون سورة ق میں بھی آیا ہے لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم الحدید۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان غافلوں کو حسرت کے دن سے مطلع کر دو تاکہ خوف کریں۔ پھر یوم الحسرت کی کچھ اور تشریح فرماتا ہے۔ اذا قضی الامر و ھم فی غفلۃ وھم لایؤمنون کہ یکایک ان کے لیے عذاب کا حکم دیا جائے گا اور وہ دنیا میں غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ بظاہر یوم الحسرت قیامت کا دن ہے کیونکہ جنہوں نے دنیا میں نیکی نہ کی ہوگی وہاں ان کی حسرت کا کیا ٹھکانا ہے مگر آیت کو عام رکھا جائے تو اور بھی تخویف پیدا ہوتی ہے یعنی حسرت کا دن عام ہے قیامت کے دن کو بھی شامل ہے اور موت کے دن کو بھی کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ایمان و حسنات سے بیخبر ہے ادھر یکایک اس کی موت کا حکم ہوجائے اس کا کام تمام ہوجائے اب اس کو ساتھ لے جانے کے لیے توشہ آخرت حاصل کرنے کی مہلت کہاں پس اس دن سے زیادہ بھی اس کی حسرت کا دن اور کوئی کیا ہوگا ؟ یہ مضمون بھی قرآن مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین اور احادیث میں بھی وارد ہے کہ انسان اپنی آرزوئوں کے پورا کرنے میں لگا ہوا ہوتا ہے کہ یکایک اجل آجاتی ہے۔ حسرت و ارمان دنیا کی جگہ دل میں آخرت کے لیے کوتاہی کرنے کی حسرتیں ساتھ ہوجاتیں ہیں۔ دنیا میں جو کچھ مال و زر زمین و باغات اس نے بڑی محنت سے حاصل کئے تھے وہ سب یہیں پڑے رہ گئے ان سب کا اللہ ہی وارث اور اخیر مالک رہے گا اور سب ایک روز خدا تعالیٰ کے پاس حاضر ہوجائیں گے۔ انانحن نرث الارض ومن علیہا والینا یرجعون کا یہی مطلب ہے۔ واللہ اعلم۔
Top