Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ
اَفَرَءَيْتَ : پس کیا تونے دیکھا الَّذِيْ : وہ جس نے كَفَرَ : انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہمارے حکموں کا وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاُوْتَيَنَّ : میں ضرور دیا جاؤں گا مَالًا : مال وَّوَلَدًا : اور اولاد
بھلا تم نے اس کو بھی دیکھا کہ جو ہماری آیتوں کا منکر ہوگیا اور کہتا ہے کہ مجھے ضرور مال اور اولاد ملے گی
تفسیر : پہلے فرمایا تھا کہ ان بزرگواروں کے بعد ناخلف پیدا ہوئے اب یہاں ایک ناخلف کی کیفیت بیان فرماتا ہے جس کو افرایت سے شروع کرتا ہے جس کی بابت بخاری، مسلم وغیرہما نے روایت کیا ہے کہ خباب بن ارت ؓ کہتے ہیں کہ میں عاص بن وائل سہمی کے پاس تقاضے کے لیے گیا اس نے کہا تو محمد ﷺ کا منکر ہوجائے تو تیرا قرضہ دے دوں میں نے کہا ہرگز نہ ہوگا یہاں تک کہ تو مر کر بھی جی اٹھے۔ اس نے کہا میں مر کر جب زندہ ہوں گا تو وہاں بھی میرے پاس مال و اسباب ہوگا وہاں تجھ کو دے دوں گا اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ جو یہ کہتا ہے کیا اس کو علم غیب ہے یا خدا سے اس نے عہد لے لیا ہے۔ سو یہ ہرگز نہیں۔ ہم اس کے گناہ لکھتے جاتے ہیں اور دنیا کا مال و اسباب چھوڑ کر تنہا ہمارے پاس حاضر ہوگا اور جس طرح یہاں اس کو مال پر مال دیا جاتا ہے اس کی ناشکری میں عذاب پر عذاب دیا جائے گا اور اس افزائشِ اولاد و مال کو بتوں اور غیر اللہ کی پرستش کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس لیے آخرت کی بھلائی کی بھی ان سے امید رکھتے ہیں اور وہاں کی عزت کے ان سے جویاں ہیں۔ کلا یہ ان کا غلط خیال ہے جس طرح دنیا میں غیر خدا کوئی بھی عالم پر تصرف نہیں کرسکتا اسی طرح اس عالم میں عزت دنیا تو درکنار ان کے وہ فرضی معبود ان کی عبادت ہی کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تمہیں نہیں جانتے بلکہ ان کے مخالف بن جائیں گے۔ یہ محض شیطانی خیالات ہیں جو ان مشرکوں کے دلوں میں شیطان ڈالتے ہیں اور ان کو بت پرستی کی طرف اکساتے رہتے ہیں۔ اس نمک حرامی کی سزا کا ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اے نبی ! اس کی جلدی نہ کیجئے اور وہ جزاء و سزا کا اصلی وقت قیامت ہے۔ اب قیامت کا اجمالی حال بیان فرمایا جاتا ہے کہ پرہیزگار جوق در جوق خدا کی طرف انعام و اکرام کے لیے بلائے جائیں گے اور خدا کے مجرم اس کے سوا دوسروں کو پوجنے والے اس کی حکم عدولی کرنے والے جوق در جوق جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے اور وہاں کوئی بھی کسی کے لیے سفارش کرنے میں لب کشائی نہ کرسکے گا مگر وہی کہ جس کے لیے خدا کے ہاں اقرار ہوچکا ہے حضرات انبیاء ‘ اولیاء ‘ صلحاء لیکن وہ بھی کس کے لیے صرف انہیں کے لیے جنہوں نے دنیا میں خدا پرستی و ایمان کے سبب اپنے خدا کے پاس عہد مغفرت قائم کرا لیا ہے۔ وقالو اتخذ الرحمن ولدا سے اور دیگر ناخلفوں کا بیان فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے لیے بیٹا ثابت کرتے ہیں جیسا کہ نصاریٰ وغیرہ۔ فرماتا ہے یہ بڑی سخت بات ہے کہ جس سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے کیونکہ یہ اس کی شان ہی نہیں کہ وہ کسی کو بھی بیٹا بنائے۔ یہ اس کے تقدس اور وجوب وجود کے سراسرخلاف ہے کس لیے کہ آسمان و زمین کی سب مخلوق اس کے آگے غلاموں کی طرح دست بستہ ہے پھر اس کو بیٹا بنا کر اپنا پشت و پناہ بنانا فضول ہے۔ اس پر عتاب کرتا ہے کہ ہم نے ان سب کو شمار کر رکھا ہے مجرم ہماری نگاہوں میں ہیں۔ دربار قیامت میں ہر ایک تن تنہا حاضر ہوگا اولاد و مال اور ان کے معبود کوئی بھی ساتھ نہ ہوگا۔ اس کے بعد ایمان و اعمال صالحہ کی خوبی بیان فرماتا ہے ان الذین امنوا کہ ایمانداروں، نیکوکاروں میں خدا باہمی محبت پیدا کرے گا۔ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے محبت رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا کس لیے کہ جس کا مقصد خدائے واحد ہے برخلاف بت پرستوں بدکاروں کے کہ ان کے اغراض مخالف ہیں۔ اس لیے وہاں بھی ان میں محبت حقیقی نہ ہوگی۔ ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اس کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ خدا ان لوگوں سے محبت کرے گا اور مشرکوں کو بنظر قہر دیکھے گا اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ ان کی محبت مخلوق کے دل میں ڈالے گا۔ اہل مکہ کہتے تھے کہ عربی میں کیوں قرآن اترا اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ ان جھگڑالوں کو سمجھایا جائے اگر عربی زبان نہ ہوتی تو عرب کچھ بھی نہ سمجھتے۔ اس کے بعد ان کے غرور حشم پر تازیانہ مارتا ہے کہ ہم نے ان سے بھی بڑھ بڑھ کر قومیں غارت کردی ہیں بھلا ان کا کوئی بھی نام و نشان باقی ہے۔
Top