Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
اور کیا (یہ نہیں کہا) کہ جب انہوں نے کوئی عہد باندھا تو انہیں میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ کر) پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر تو اس کا اعتبار ہی نہیں کرتے تھے
ترکیب : او وائو عطف کے لیے اور ہمزہ استفہام انکاری کے لیے ہے اور یہ عطف کلام مقدم کے لیے ہے یعنی افکلما جاء کم بعض کہتے ہیں واو زائدہ ہے بعض کہتے ہیں یہ او ہے واو کو متحرک کردیا۔ عہدا مفعول مطلق من غیر لفظ مذکور اور ممکن ہے کہ مفعول بہ ہو نبذہ الخ جملہ جواب کلما اسی طرح لما جاء جملہ شرط مصدق صفت رسول نبذ فعل فریق الخ فاعل کتب اللہ مفعول وراء ظرف یہ سب جملہ جواب شرط کانہم الخ موضع حال میں ہے۔ تفسیر : یعنی یہ عذر کہ اس قرآن کو جبرئیل لائے ہیں اس لیے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے، بےہودہ عذر ہے کس لیے کہ فی نفسہ اس کی آیات واضح اور روشن ہیں ان میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کو عقل سلیم نہ مانے۔ پس اس کا انکار کرنا نافرمانوں کا کام ہے کہ جن کی عادت ہمیشہ سے نافرمانی چلی آتی ہے کس لیے کہ ان یہود نے جب کوئی عہد خدا سے رسول کی معرفت باندھا یا لوگوں سے عہد کیا ہے تو ان میں سے ایک فریق نے جھٹ اس کو توڑ دیا اور ہلکا سمجھ کر پھینک دیا اور ایک فریق کی کیا خصوصیت ہے بلکہ ان میں سے اکثر کا تو اس پر اعتبار ہی نہ تھا نہ اس پر ایمان تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اب جو ان کے پاس خدا کا وہ رسول آیا (محمد) کہ جو تورات و زبور و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور جس کی خبر تورات میں ہے تو ان اہل کتاب نے اس کتاب پر بھی عمل نہ کیا بلکہ اس کو پس پشت ڈال دیا کہ گویا اس سے خبر ہی نہیں ہے۔ وراء ظہورھم سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل کتاب نے کتاب الٰہی یعنی تورات کو سچ مچ پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا تھا بلکہ اس سے مراد بےالتفاتی ہے۔ یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوتا تو کہتے ہیں اس نے اس کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔
Top