Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے (یہ) کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کیا کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
ترکیب : اذا حرف شرط قیل فعل مجہول لہم متعلق قیل کے لاتفسدوا فی الارض مفعول مالم یسم فاعلہ ہوا قیل کا۔ یہ دونوں مل کر شرط ہوئے اور قالوا فعل۔ انمانحن مصلحون جملہ اس کا مفعول فعل اپنے فاعل ضمیر ھم اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ خبر یہ ہو کر جواب ہوا شرط کا شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہو کر معطوف ہوا یکذبون یا یقول پر ان مشبہ بفعل ھم اس کا اسم اور ھم المفسدون مبتداء خبر بن کر اس کی خبر۔ ولکن کلمہ استدراک اس کا مابعد لایشعرون جملہ استدراکیہ۔ الا حرف تنبیہ جو صدر جملہ پر تنبیہ مخاطب کے لیے آتا ہے۔ یہ جملہ خبر یہ مستانفہ ہے جواب میں ان کے قول کے۔ تفسیر : یعنی مرض قلب ان پر یہاں تک غالب آگیا ہے کہ ان کو نیک و بد میں تمیز نہیں۔ کس لیے کہ جب کوئی مومن یا رسول خود خدائے تعالیٰ ان سے یہ فرماتا ہے کہ تم ملک میں فساد نہ ڈالو، یعنی گناہ اور چغل خوری اور غمازی نہ کیا کرو تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم تو بھلائی کرتے ہیں وہ اس غمازی اور گناہ کو بھلائی سمجھ گئے۔ خدا فرماتا ہے کہ دیکھو یہی لوگ مفسد ہیں مگر بےشعور ہیں کہ ان کو اپنے فساد اور صلاح میں تمیز نہیں۔ معاذ اللہ جب انسان اپنے عیب کو عیب نہیں سمجھتا تو بڑی خرابی میں پڑتا ہے اور صدہا آدمی دنیا میں ایسے اندھے ہیں کہ ان کو حقیقت امر معلوم نہیں ؎ چشم باز و گوش باز و ایں ذکا خیرہ ام از چشم بندی خدا ایک عالم اس جہل مرکب میں گرفتار ہے۔ کوئی خدا کا تقرب سمجھ کر بتوں کو پوجتا ہے ‘ کوئی توحید سمجھ کر تثلیث کی دلدل میں گرفتار ہے، کوئی بامید سلطنت آگ کی دھونی رمائے بیٹھا ہے۔ کوئی ہوس خام کو دل میں پختہ کرکے دریا کے کنارے آسن جمائے بیٹھا ہے۔ ہزاروں لوگ گنگا میں غوطہ لگا کر گناہوں سے پاکی سمجھ کر دور دراز سے آتے اور مشقت اٹھاتے ہیں۔ اہل دنیاشب و روز میں دین بیع و شراء میں غرق ہیں، نہ مرنے کی مہلت اور نہ جینے کی فرصت۔ صدہا دنیا پرست حکام کی خوشامد اور ترقی مناصب میں شب و روز گرم اور اسی کو فوز کبیر اور مقصد اصلی سمجھتے ہیں۔ الغرض ؎ ہر کس بہ خیال خویش خبطے دارد لیکن جب اس طرف سے آنکھ بند ہوگی اور اس عالم کی چیزیں دکھائی دیں گی تو حسرت و افسوس ہوگا۔ اللہم ارنا حقائق الاشیاء کماھی۔ متعلقات : فساد : کسی شے کا اعتدال سے باہر ہونا اور جو نفع کہ اس سے متصور ہے اس کے قابل نہ رہنا۔ اس کی نقیض صلاح ہے یعنی جس طرح فساد میں بگڑنا ہے ویسا ہی صلاح کے معنی میں سنورنا معتبر ہے۔ اس جگہ فساد سے مراد بقول ابن عباس و حسن و قتادہ معاصی ہیں کیونکہ جب دنیا میں گناہ گاری، چوری، قتل، زنا، فتنہ انگیزی، شرک و کفر کی اشاعت ہوتی ہے تو انتظام عالم میں خلل آجاتا ہے اور قیل کے فاعل یعنی کہنے والے اس جگہ مومن یا رسول یا خدا تعالیٰ ہے نہ کفار و اشرار۔ 1 ؎ نکات : جس طرح منافقین نے بزعم فاسد اپنے فساد کو صلاح بنایا اور انما نحن مصلحون میں صلاح کا انحصار اپنے ہی نفس پر کیا تھا اسی طرح اس کی رد میں لفظ الا اور انہم ھم المفسدون کلمہ انحصار فرمایا کہ بلاشک یہی مفسد ہیں تاکہ کلام مقتضی حال کے مطابق ہوجائے۔ یہ ان منافقوں کی دوسری حرکت ناشائستہ تھی۔ اب تیسری حرکت ناشائستہ یہ ہے :
Top