Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ
: اور جب
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الْبَيْتَ
: خانہ کعبہ
مَثَابَةً
: اجتماع کی جگہ
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لئے
وَاَمْنًا
: اور امن کی جگہ
وَاتَّخِذُوْا
: اور تم بناؤ
مِنْ
: سے
مَقَامِ
: مقام
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
مُصَلًّى
: نماز کی جگہ
وَعَهِدْنَا
: اور ہم نے حکم دیا
اِلٰى
: کو
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
وَاِسْمَاعِيلَ
: اور اسماعیل
اَنْ طَهِّرَا
: کہ پاک رکھیں
بَيْتِيَ
: وہ میرا گھر
لِلطَّائِفِينَ
: طواف کرنے والوں کیلئے
وَالْعَاكِفِينَ
: اور اعتکاف کرنے والے
وَالرُّکَعِ
: اور رکوع کرنے والے
السُّجُوْدِ
: اور سجدہ کرنے والے
اور جبکہ ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے مرجع اور امن کی جگہ بنایا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔
ترکیب : واذ معمول ہے عامل محذوف کا البیت مفعول اول جعلنا کا مثابۃ مفعول ثانی وامنا اس پر معطوف اتخذوا امر حاضر معروف انتم فاعل من بمعنی فی یجوزان یکون للتبعیض ویجوزان یکون زائدۃ مصلی ظرف مفعول ہے اتخذ و اکا وعہدنا فعل بافاعل الی ابراھیم و اسماعیل متعلق ہے عہدنا سے ان طہرا الخ میں ان مفسرہ ہے بمعنی ای اس تقدیر پر یہ عہد کی تفسیر ہے اور ممکن ہے کہ مصدریہ ہو ای بان رکع راکع کی جمع اور السجود ساجد کی۔ تفسیر : پہلی آیت میں اس بات کا ذکر تھا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کئی باتوں میں آزمایا تو پورا پایا چونکہ اور باتوں کو اہل کتاب بھی تسلیم کرتے تھے مگر منجملہ ان کے ایک بڑی بھاری بات کعبہ کی تعمیر اور اس کا حج مقرر کرنا تھا اس کے اہل کتاب منکر تھے اور حج کو ایک لغو حرکت جانتے تھے کہ یہ صرف عرب کے جاہلوں کا طریقہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ نہیں اور نہ اس کعبہ کو ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا ہے نہ حاجیوں اور طواف کرنے والوں کے لیے مقرر کیا ہے سو اس کو جہت عبادت اور قبلہ بنانا بھی رسم مشرکین ہے۔ محمد ﷺ مشرکین کی رسم کو حبِّ ملک اور حبِّ قوم سے نباہ رہے ہیں اور اس لیے دل سے چاہ رہے ہیں۔ پس ان آیات میں خدا تعالیٰ ان کے اس خیال باطل کو رد کرتا ہے کہ خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے ثواب حاصل ہونے کی جگہ اور مرجع اور امن کی جگہ ہمیں نے بنایا ہے ہم حکم دیتے ہیں کہ سب لوگ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کو مصلیٰ بنائیں یعنی وہاں نماز پڑھیں اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے پہلوٹھے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو بڑی تاکید سے یہ کہا تھا کہ تم میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کے لیے پاک اور صاف رکھیو۔ یعنی یہ بھی منجملہ ان باتوں کے ہے کہ جن میں ابراہیم (علیہ السلام) آزمائے گئے تھے۔ اس میں مشرکین عرب پر بھی تعریض ہے کہ تم باوجود یکہ ملت ابراہیمی کی پابندی کا دعویٰ کرتے ہو اور خانہ کعبہ کی تعظیم بھی کرتے ہو مگر تم ملت ابراہیمی کے خلاف ہو۔ کس لیے کہ ابراہیم کو ہم نے جو اس گھر کے بنانے کا حکم دیا تھا تو نماز و طواف و اعتکاف و عبادتِ الٰہی کے لیے حکم دیا تھا نہ یہ کہ اس میں بت رکھ کر اس کی پرستش کی جائے اور تعظیم میں بھی تم پورے نہیں کیونکہ یہ جگہ جائے امن ہے۔ تم مسلمانوں کو یہاں امن سے آنے نہیں دیتے اور نیز پاک رکھنے کا حکم دیا تھا تم نے بت رکھ کر ناپاک بنا رکھا ہے۔ اس مقام پر چند تحقیقات قابل غور ہیں : تحقیق اول مثابۃ ثاب ثیوب مثابۃ سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کرنا یا رجوع کی جگہ عرب بولتے ہیں ثاب الماء جبکہ وہ پھر نہر میں آ کر مجتمع ہوجائے اور اسی سے ثواب ہے یعنی نیکی کرنے والے کی نیکی لوٹ کر آتی ہے کیونکہ وہ اس کا اجر پاتا ہے۔ اس مقام پر مثابۃ ظرف ہے ت زائد ہے جیسا کہ مقام و مقامۃ میں یہ قول فراء اور زجاج کا ہے اور قفال کہتا ہے کہ ت مبالغہ کے لیے ہے جیسا کہ نسابۃ اور علامۃ میں مثابۃ کے معنی مرجع کے ہیں کہ خدا نے اہل ایمان کے دل میں خانہ کعبہ کا شوق جذب مقناطیسی کی طرح ڈال دیا ہے۔ اس لیے لاکھوں آدمی دور دراز سے وہاں آتے ہیں اور یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا اثر ہے فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم مگر یہاں آ کر ثواب آخرت نصیب ہوتا ہے اس لیے اس لفظ کے معنی ثواب پانے کی جگہ کے ہیں البیت سے مراد خانہ کعبہ ہے (2) واتخذوا کو نافع اور ابن عامر نے بفتح خاء بلفظ ماضی پڑھا ہے اس کا عطف جعلنا پر قرار دیا ہے یعنی لوگوں نے مقام ابراہیم کو مصلی بنایا اور جمہور بلفظ امر پڑھتے ہیں۔ مقام ظرف کا صیغہ ہے یعنی کھڑے ہونے کی جگہ۔ مقام ابراہیم بقول ابن عباس ؓ وہ پتھر ہے کہ جس پر چڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کعبہ کی دیواریں چنتے تھے اور جوں جوں دیواریں بلند ہوتی جاتی تھیں وہ پتھر بھی بلند ہوتا جاتا تھا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نیچے سے پتھر اور گارا دیتے اور یہ دعا کرتے جاتے تھے ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم (تفسیر کبیر) اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پائوں کا نشان بھی تھا جو لوگوں کے کثرت سے ہاتھ پھیرنے سے اب بخوبی معلوم نہیں ہوتا۔ بیہقی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ یہ پتھر جناب رسول خدا ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں کعبہ سے متصل تھا حضرت عمر ؓ کے عہد میں جو سیلاب آیا کہ جس کو ام نہشل کہتے ہیں یہ پتھر بہہ گیا اور حضرت عمر ؓ نے اس کو منگا کر کعبہ کے پاس ایک جگہ رکھ دیا اور اس کے ارد گرد پتھروں کی دیوار چن دی۔ چناچہ اب تک وہ پتھر وہی ہے اور اس کے گردا گرد جالیاں بنی ہوئی ہیں اس تقدیر پر آیت کے یہ معنی ہیں کہ اس پتھر کو نماز کی جگہ بنائو، اس لیے امام اعظم اور امام شافعی وغیرہما علماء یہ فرماتے ہیں کہ طواف کعبہ کے بعد دو رکعت نماز اس پتھر کے سامنے پڑھنی چاہییں کہ یہ بمنزلہ امام کے آگے ہو اور جو ازدھام ہو تو اس کے متصل پڑھ لے۔ چناچہ صحیح مسلم وغیرہ کتب حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے کعبہ کا طواف کرکے مقام ابراہیم کی طرف قصد کیا اور اس کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھ کر یہ آیت پڑھی واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی اور کتب صحاح ستہ میں یہ بھی ہے کہ اس امر پر حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے استدعا کی تھی سو یہ آیت نازل ہوئی چونکہ یہ پتھر متبرک ہے اس لیے ایسے مقامات پر یا اس کے متصل عبادتِ الٰہی کرنا باعث قبولیت ہے یہ دو رکعت امام اعظم کے نزدیک واجب ہیں اور امام شافعی سنت یا فرض کہتے ہیں مگر استحباب مؤکد میں سب کا اجماع ہے۔ ( تفسیر عزیزی) مجاہد وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم سے مراد کل حرم ہے اور مصلی بنانے سے مراد دعا کرنا ہے کچھ اس پتھر کی خصوصیت نہیں۔ (3) یہ جگہ خدا کی تجلیات اور برکات کا مظہر ہے ایسے مقامات کی محبت اور عظمت اسی کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں پڑجاتی ہے علاوہ اس کے کبھی غیرت الٰہی ایسے مقامات مقدسہ کی گستاخی کرنے والے کو سزا بھی دے دیتی ہے کہ جس سے لوگوں کے دلوں میں ہیبت پیدا ہوجاتی ہے چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک بلکہ اب تک لوگوں نے بارہا ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے اساف اور نائلہ دو مرد و عورت تھے انہوں نے اس جگہ حرکت بیجا کی، اس کی شامت سے پتھر ہوگئے چناچہ زمانہ جاہلیت میں ان کی صورت مسخ شدہ کعبہ کے دروازہ پر عبرت کے لیے کھڑی کر رکھی تھی اسی طرح ابرہہ ہاتھی لے کر کعبہ کو گرانے آیا معہ لشکر ہلاک ہوا۔ ان وجوہ سے عرب مشرکین بھی اس گھر کی تعظیم کرتے تھے اور ایام حج میں کوئی کسی کو مارتا لوٹتا نہ تھا بلکہ شہر مکہ کی بھی عزت و حرمت کرتے تھے۔ اس لیے اس جگہ کو خدا نے امن کی جگہ فرمایا اور مثابۃ کے بعد امنا کا لفظ آیا کیونکہ جو زیارت گاہ ہے تو وہاں امن بھی ضرور ہے۔ (4) اگرچہ دنیا کے سب گھر خدا کی ملک ہیں اور وہ گھر اور مکان سے پاک ہے مگر اس وجہ سے کہ یہ گھر خاص اس کی عبادت کے لیے بنایا گیا اور اس کے حکم سے اس کا دربار اور محل تجلیات قرار پایا تو اپنی طرف مضاف کرکے بیتی یعنی میرا گھر فرمایا۔ کعبہ کی اصلیت : واضح ہو کہ خدا نے انسان میں دو قوتیں ودیعت رکھی ہیں۔ ایک عقل دوسرے شوق و محبت۔ یہ دونوں قوتیں اس کے لیے بمنزلہ دو پائوں کے ہیں جو اس کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں نہ تنہا عقل کافی ہے نہ تنہا شوق۔ طریق انبیاء اور طریق حکما میں یہی فرق تو ہے کہ حکماء صرف عقل کے پابند ہیں انبیاء عقل کے ساتھ شوق سے بھی کام لیتے ہیں جو منازل عقل سے سالہا سال میں طے نہیں ہوتے ان کو شوق یا عشق دم بھر میں طے کرا دیتا ہے۔ نبی آخر الزماں (علیہ السلام) کے مذہب میں جس قدر عقل کو معتبر رکھا ہے (اس لیے کوئی حکم شرعی خلاف عقل نہیں بخلاف اور ادیان کے) اسی طرح عشق پر بھی مدار رکھا ہے اگر آپ بغور دیکھیں گے تو ہر عبادت اسلامیہ کو دونوں جزوں سے مرکب پائیں گے۔ نماز میں اس کی ثناء و صفت ‘ سوال استعانت عقل کے متعلق ہیں اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا دست بستہ کھڑا ہونا، شوق کے متعلق ہے اسی طرح حج میں اس کی ثناء و صفت دعا و استغفار عقل کے متعلق ہے۔ عاشقانہ ہیئت بنا کے جس کو احرام کہتے ہیں اس کے گھر کے ارد گرد قربان ہونا منٰی اور عرفات وغیرہا مقامات میں باآواز بلند لبیک پکارنا سب حضرت عشق کا جلوہ ہے۔ مگر کلام اس میں ہے کہ اس مکان کو حج و جہت نماز کے لیے کیوں مخصوص کیا، سو اس کی چند وجوہ ہیں : وجہ اول : یہ ہے کہ یہ مسجد ان بزرگواروں کے ہاتھ سے خدا نے تعمیر کرائی ہے جو تمام بنی آدم اور کل موحدین کے پیشوا ہیں یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ پس جو یہاں آسکے اس کو ضرور ہے کہ آ کر خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس سے دعا و استغفار کرے کیونکہ ایسے معابد کا مشاہدہ ان بزرگوں کے وقایع گزشتہ کی یادگاری کے لیے بڑا بھاری وسیلہ ہے اور ان واقعات کا دل پر نقش حجر ہونا ان کی پیروی کرنے کا سبب ہے۔ بالخصوص جبکہ ہزارہا آدمیوں کا مجمع ہو اور اگر وہاں نہیں آسکے تو حتیٰ المقدور اس طرف منہ کرکے ہی عبادت کرے کیونکہ عبادت کے وقت اس طرف منہ کرنا بھی اس معبد اور ان بزرگوں کے خلوص کو یاد دلاتا ہے جس سے نفس کو عبادت کی طرف کامل توجہ ہوتی ہے۔ وجہ دوم : ہر جگہ کی ایک خاصیت ہوتی ہے دیکھئے جس جگہ خدا کے نافرمانوں کا مجمع ہوتا ہے وہاں مدتوں تک قہر کے آثار نمایاں رہتے ہیں اور فرمانبرداروں کی جگہ میں آثار رحمت نمایاں رہتے ہیں۔ اسی لیے جنگ تبوک میں جب نبی ﷺ اور صحابہ کا ان بستیوں کے پاس سے گزر ہوا کہ جن کو خدا نے برباد کردیا تھا تو فرمایا کہ یہاں سے جلدی نکل چلو پس جس جگہ اس کے مقدس لوگوں نے اس پر جان فدا کی ہو اور وہاں اس کی تجلیات اور نزول برکات کا بھی از حد ظہور ہو چناچہ تورات سفر استثناء کے 33 باب میں یہ ہے خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا اور فاران مکہ کو کہتے ہیں جیسا کہ تورات سفر پیدائش کے بائیسویں باب میں اسماعیل (علیہ السلام) کی نسبت یہ لکھا ہے اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر انداز ہوگیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور یہ متفق علیہ ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) مکہ میں رہتے تھے۔ پس جب فاران مکہ ہے اور وہاں خداوند تعالیٰ جلوہ گر ہوا تو خدا کے طالبوں اور اس کے عاشق صادقوں پر لازم ہے کہ ایک بار تو ہیئت عاشقانہ بنا کر اس کے دربار میں باریاب ہوں اور جو وہاں نہ جاسکیں تو وہ اپنا شوق ظاہر کریں اس تجلی گاہ کی طرف بوقت عبادت منہ کریں تاکہ انوار و برکات کا حصہ پاویں۔ وجہ سوم : کعبہ چونکہ اسلام کا مبداء ہے اور ملت اسلامیہ کا حیز طبعی اور ہر چیز کا اپنے مبداء اور حیز طبعی کی طرف میلان طبعی امر ہے (ارضی چیزیں خود بخود اوپر سے نیچے آیا کرتی ہیں) پس اسلام کو ادھر رجوع کرنا ضرور ہوا منجملہ اور دینیاتِ کے حج اور نماز اسلام کے رکن ظاہر ہیں۔ بخلاف روزہ اور کلمہ کہنے اور زکوٰۃ دینے کے اور زیادہ تر ہر مذہب سے امتیاز انہی دو باتوں سے ہوتی ہے۔ اسی لیے ان دونوں چیزوں کا کعبہ کی طرف رجوع ہونا ضرور ہوا مگر چونکہ پانچ وقت نماز کعبہ کے پاس پڑھنا نہایت مشکل امر تھا اس لیے اس میں حتی المقدور اس کی طرف منہ کرنا ہی کافی سمجھا گیا اور حج چونکہ عمر میں ایک بار ہوتا ہے تو یہ بغیر کعبہ کے جائز قرار نہ دیا گیا۔ تحقیق پانچویں کعبہ تاریخ میں : بیہقی نے شعب الایمان میں اور ارزقی نے وہب بن منبہ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے زمین پر آئے تو وحشت تنہائی سے گھبرا کر عرض کی کہ بار خدایا اس جگہ نہ کوئی مسقف مکان ہے نہ مل کر عبادت کرنے کا سامان۔ وہاں سے حکم ہوا تو ہماری عبادت کے لیے ایک گھر بنا کہ یہ سب گھروں سے اول گھر ہو۔ کس لیے کہ اس کے بعد تو تیری اولاد بہت سے مکانات بنائے گی۔ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا کس جگہ ؟ جبرئیل نے کعبہ کی جگہ بتائی۔ آدم (علیہ السلام) نے پتھروں کی بنیاد زمین تک چنی اس پر ایک خیمہ نورانی (جو ملائِ اعلیٰ میں ملائکہ کا طواف گاہ ہے اور جس کو بیت المعمور کہتے ہیں) رکھا۔ پس آدم (علیہ السلام) وہاں طواف کرتے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ طوفان نوح میں وہ سب مفقود ہوگیا اور ایک سرخ ٹیلہ سا بعد طوفان کے باقی رہا لیکن اچھے لوگ وہاں آ کر اکثر عبادت اور دعا کرتے تھے تو آثار قبولیت پاتے تھے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عرب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے ملنے آئے تو انہوں نے اسی بنیاد پر بحکم الٰہی اس مکان کو بنایا اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ طوفان نوح کے بعد جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد پھیلی تو مسیح سے تخمیناً دو ہزار دو سو سنتالیس برس پیشتر شہر بابل اور اس کے برج کی بنیاد ڈالی گئی یہ شہر ملک عراق میں دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان دوآب میں بقول بعض فرات کے کنارہ پر تھا اور اس کے قریب دریائے دجلہ کے کنارہ پر شہر نینوا تھا جہاں کہ حضرت یونس (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ اس شہر کو نینوس بادشاہ نے آباد کیا تھا یہ بھی بابل کی طرح بڑا شہر تھا پچیس فرسخ کے دور میں اس کی شہر پناہ تھی۔ اسی طرح بابل تھا اس کی شہر پناہ تیس گز چوڑی اور سو گز بلند تھی بخت نصر بھی اسی شہر کا بادشاہ تھا۔ ان لوگوں کو کلدانی اور کسدی بھی کہتے ہیں۔ طوفان کے بعد یہیں سے مختلف زبانیں پیدا ہوئی ہیں اور یہاں کے لوگوں میں بڑے علوم و فنون تھے مگر اب یہ شہر بالکل اجاڑ ہے سیاحوں کو بجز ٹیلوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آج کل یورپ کی کمپنیوں نے بااجازت حضرت سلطان کھود کر عجائبِ آثار قدیمہ برآمد کئے ہیں جو یورپ کے عجائب خانوں میں رکھے جا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تارح کے بیٹے ہیں جن کو آزر بھی کہتے ہیں اور آزرناحور کے بیٹے ہیں اور ناحور ساروغ کے، جن کو سروج کہتے ہیں اور سروج رعو کے بیٹے ہیں اور رعوفاتع کے جن کو فلجم کہتے ہیں اور فلج عابر (عبر کے) اور عابر شالح (سلح) کے اور شالح ارفحشذ (ارفکسد) کے اور یہ سام کے بیٹے ہیں اور سام حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں (تورات سفر پیدائش باب 11) مگر صحیح یہ ہے کہ شالح کا باپ قینان اور قینان کا باپ ارفحشذ ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) قصبہ اہواز میں پیدا ہوئے تھے جو عراق میں ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ خاص بابل میں پیدا ہوئے تھے والعلم عند اللہ۔ کلدانی لوگ عموماً مذہب صابی رکھتے تھے، بت پرست تھے وہ لوگ آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو بھی پوجتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ابتدائے عمر سے ابراہیم (علیہ السلام) کو نور نبوت سے منور کیا تھا۔ انہوں نے بت پرستی اور ستارہ پرستی سے انکار کیا کہ یہ نہ کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ یہ قابل پرستش نہیں، اسی طرح ستارے طلوع و غروب کرتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہ متغیر اور مخلوق ہیں نہ خالق۔ اس امر میں بہت کچھ جھگڑے ہوتے رہے آخرالامر نمرود نے جو شاہ ضحاک کی طرف سے عراق کا حاکم تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ مستقل بادشاہ تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلتی آگ میں ڈال دیا لیکن وہ فضل خدا سے صحیح سلامت آگ سے نکل آئے پھر تو چند آدمی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ یہاں سے ہجرت کر جائو۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بی بی سارہ اور اپنے بھتیجے لوط بن حاران کو لے کر ملک فلسطین میں آئے اور حران میں ٹھہرے پھر جب قحط پڑا تو وہاں سے مصر گئے۔ مصر کے بادشاہ نے جو سارہ کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اس کو اپنے پاس بلایا مگر جب قصد کیا تو خدا نے اس کو شل کردیا۔ آخر اس نے سارہ کو مع سازوسامان ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بھیج دیا اور ان کے ساتھ اپنے خواصوں میں سے ایک نوجوان عورت ہاجرہ بھی دی۔ ابراہیم (علیہ السلام) وہاں سے لوٹ کر پھر ملک فلسطین میں آئے۔ حبرون کے پاس مقام کیا، سارہ کے اولاد نہ ہوئی تھی اس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہاجرہ کے پاس جائو، شاید اس سے میرا گھر آباد ہو۔ پس جب ہاجرہ حاملہ ہوئیں تو رشک سے سارہ نے اس پر سختی کی۔ ہاجرہ بھاگ کر اور جگہ چلی گئیں وہاں فرشتے نے ظاہر ہو کر اس کو بشارت دی کہ غم نہ کر تو ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل (علیہ السلام) رکھنا۔ تو ہاجرہ نے اسماعیل (علیہ السلام) کو جنا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اس وقت چھیاسی برس کی تھی پھر ننانوے برس کی عمر میں ابراہیم (علیہ السلام) نے بحکم الٰہی اپنا اور اپنے تمام نوکروں کا اور اسماعیل (علیہ السلام) کا کہ اس وقت ان کی عمر تیرہ برس کی تھی ختنہ کیا اور سو برس کی عمر میں خود سارہ کے پیٹ سے بھی ایک لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام اسحاق رکھا اور ان کے دودھ بڑھنے کی شادی میں کسی بات پر خفا ہو کر سارا نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ لونڈی اور اس کا بیٹا میرے بیٹے کے ساتھ ہرگز وارث نہ ہوگا اس کو اور اس کی ماں کو کسی جنگل میں چھوڑ آ، مگر یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) کو نہایت بری معلوم ہوئی۔ خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اس بات سے برا نہ مان۔ آخر الامر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کو لے کر منزل بہ منزل اس جگہ پہنچے کہ جہاں اب کعبہ ہے جس جگہ اب چاہ زمزم ہے وہاں ایک درخت تھا وہاں ہاجرہ اور اسماعیل (علیہ السلام) کو بٹھا دیا اور ایک مشک پانی کی بھر کر اور کچھ کھجوریں اور روٹیاں ان کے پاس رکھ کر چلے مگر دل اس صدمہ سے چور چور تھا، مجبور آنکھوں میں آنسو اور دل میں آہ و نالہ لے کر واپس پھرے اور جب ان کی نظر سے غائب ہوگئے تو ایک جگہ ٹھہر کر گریہ وزاری کے ساتھ خدا سے یہ دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی ذرع عندبیتک المحرم الخ ” کہ اے الٰہی میں نے تیرے گھر کے پاس کہ جہاں کھیتی نہیں اپنی اولاد کو آباد کیا تاکہ تیری عبادت کریں پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر اور ان کو ہر طرح کے سامان خوردونوش بہم پہنچا اور اب جو کچھ میرے دل کا حال ہے تجھ کو خوب معلوم ہے۔ اس وقت وہاں نہ آبادی تھی نہ پانی، نہ کوئی سبزہ و ترکاری بلکہ دو خشک پہاڑوں میں چٹیل میدان تھا۔ حضرت ہاجرہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی تھیں کہ الٰہی اگر تیرے حکم سے میں اس بیابان میں ڈالی گئی ہوں تو مجھ ضعیفہ اور بیکس کا تو ہی والی ہے۔ (روایات صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اس وقت شیر خوار بچہ تھے) پس ابراہیم (علیہ السلام) تو چلے آئے ادھر جب تک مشک میں پانی رہا تو یہ ہاجرہ اس کو پی کر اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں پس جب پانی ختم ہوچکا اور پیاس کا سخت غلبہ ہوا اور بچہ پیاس کے مارے زمین پر مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا تو ہاجرہ بیقرار ہو کر پانی کی تلاش میں اٹھیں اور قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی کہ جس کو صفا کہتے ہیں اس پر پانی دیکھنے کو چڑھیں کہ لڑکا نظر سے غائب نہ ہو وہاں ادھر ادھر بہت کچھ دیکھا کچھ نظر نہ آیا۔ مایوس ہو کر وہاں سے اتریں اور اس کے محاذی دوسری پہاڑی مروہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور رستہ میں یہ خیال آیا کہ مبادا کوئی درندہ آ کر میرے بچہ کو نہ لے جائے۔ اس خیال سے کہ اس میدان کے نشیب میں کہ جس کو بطن الوادی کہتے ہیں جلدی جلدی دوڑناشروع کیا اور دامن اٹھا کر تیزی سے چلیں جبکہ نشیب سے کہ جو اس پہاڑ کے نیچے تھا نکل کر ہموار جگہ پر آئیں تو دوڑنا موقوف کیا، کس لیے کہ اس جگہ سے لڑکا نظر آتا تھا پس جب مروہ پر پہنچیں تو اسی قدر بلندی پر چڑھ کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا مگر کچھ نظر نہ آیا پھر صفا کی طرف متوجہ ہوئیں اور اسی نشیب میں پھر اسی طرح دوڑ کر چلیں۔ اسی طرح صفا سے مروہ تک سات بار اس بیقراری کے ساتھ آمدورفت کا اتفاق ہوا۔ اس مقام پر حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حج میں جو صفا مروہ پر سات بار سعی کرنے کا حکم ہے اس لیے ہے کہ لوگ ہاجرہ کی بیکسی اور اضطراب اور خدا کی فریاد رسی کو یاد کریں اور اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے آگے ایسی حالت بیچارگی میں پیش کریں کہ رحمت نازل ہو۔ یہ ظاہر ہے کہ بےکسوں کی صورت بنانی اور ان کی طرح گریہ وزاری کرنی بھی نزول رحمت کا باعث ہے۔ اس لیے بوقت مصائب استسقا وغیرہ میں امرا اور بادشاہوں کا فقیرانہ حالت بنا کر دعا کرنا باعث حل مشکلات ہوتا ہے اور یہ تمام خدا پرست قوموں کا دستور ہے اس پر طعن کرنا عقل کا قصور ہے۔ آخر مروہ پر آواز آئی کہ کچھ اندیشہ نہ کر پھر یہی آواز سنی تو لوٹ کر بچہ کے پاس آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بچہ کے پاس سے ایک پانی کا چشمہ جاری ہے۔ زمین میں سے پانی خود بخود نکل رہا ہے۔ ہاجرہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اس پانی کے ارد گرد مٹی اور پتھروں سے آڑ بنا کر حوض کی طرح اس کو جمع کرلیا اور اپنی مشک کو بھر لیا کہ مبادا یہ پانی تمام نہ ہوجائے اور ہم پھر پیاسے مرنے لگیں۔ (آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا ہاجرہ پر رحم کرے اگر وہ اس وقت بند نہ لگاتیں تو زمزم جاری چشمہ ہوجاتا) اس کے بعد فرشتے نے ان کو تسلی دی کہ تم خاطر جمع رکھو یہاں خانہ خدا ہے اس کو یہ لڑکا جوان ہو کر باپ کے ساتھ تعمیر کرے گا اور اس جگہ رہنے والوں کو خدا ضایع نہیں کرتا۔ اس جگہ ایک ٹیلا تھا اس کے آس پاس برساتی پانی کے نالے بہا کرتے تھے۔ اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ تنہا وہاں رہنے لگے۔ اتفاقاً قوم جرہم کا ایک قافلہ ملک یمن سے ادھر آ نکلا۔ دور سے دیکھتا ہے کہ ایک جگہ بہت سے پرند اڑ رہے ہیں آپس میں کہنے لگے کہ جہاں یہ جانور اڑ رہے ہیں یہاں ضرور پانی ہوگا ہم کئی بار ادھر سے آئے گئے ہیں پہلے تو کبھی یہ بات دیکھی نہ تھی۔ ایک شخص کو بھیجا، دیکھتا ہے کہ ایک عورت اور اس کا بچہ بیٹھا ہے اور پانی کا چشمہ زمین سے جاری ہے۔ قافلہ وہاں آیا اور ہاجرہ سے وہاں رہنے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے تنہائی سے بچنے کے لیے ان کے رہنے کو غنیمت جانا مگر یہ شرط کی کہ اس پانی میں تمہارا کوئی حق اور حصہ نہ ہوگا۔ انہوں نے اس شرط کو تسلیم کرلیا اور وہیں رہنے لگے اور اب ایک چھوٹا سا گائوں بس گیا اور کچھ لوگ اور بھی آرہے۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے عربی زبان سیکھی اور نوعمری میں اپنی لیاقت اور کرامت موروثی کو لوگوں کے دل میں تہ نشین کردیا کہ جس سے وہاں کے سردار نے نہایت آرزو سے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا۔ اس عرصہ میں ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ اس زمانے میں سارہ کے ہاں اسحاق جو پیدا ہوئے بڑے ہوئے تو ان کا کچھ رشک کم ہوا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کی اجازت سے اسماعیل (علیہ السلام) کے دیکھنے کو عرب میں آئے اور شرط یہ تھی کہ اسماعیل (علیہ السلام) کے گھر میں شب باش نہ ہوں۔ پس جب آئے اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی والدہ انتقال کر گئیں اور وہ باہر شکار کو گئے ہیں کیونکہ ان کی یہی گزر اوقات تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) کے گھر پر آئے، ان کی بیوی سے حال پوچھا اس نے اثنائے کلام میں تنگی معاش کا بھی ذکر کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ سمجھ کر کہ اب اور ٹھہرتا ہوں تو شب باش ہونا پڑے گا وہاں سے واپس آئے اور چلتے ہوئے یہ کہہ آئے کہ اپنے خاوند سے میرا سلام کہہ دیجیو اور کہنا کہ تمہارے گھر کا سرد اچھا نہیں اس کو بدل دو ۔ جب شام کو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آئے تو حال معلوم ہوا۔ سمجھ گئے کہ میرے والد ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ عورت نے پیغام ادا کیا انہوں نے فی الفور اس عورت کو چھوڑ دیا اور دوسری عورت سے نکاح کیا۔ دوبارہ پھر اسی شرط پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے ملنے کو آئے۔ دوسری بیوی نے نہایت خاطر تواضع کی، معاش کے بارے میں شکر گزاری کی اور ان سے کہا کہ حضرت آپ ٹھہریئے۔ انہوں نے عذر کیا اور چلتے وقت یہ کہا کہ اپنے خاوند سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ سرد اچھا ہے اس کو رہنے دو ۔ شام کو اسماعیل (علیہ السلام) آئے تو معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور اس معماء کے معنی بتلائے کہ تجھ کو میں ہمیشہ رکھوں گا۔ تیسری بار کچھ عرصہ تک رہنے کی اجازت لے کر پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آئے اور گھر میں ٹھہرے اور اسماعیل (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ باپ بیٹے گلے لگ کر بڑی دیر تک روتے رہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) سے کہا کہ خدا نے مجھ کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا اگر تو مجھ کو مدد دے تو بہتر۔ انہوں نے عرض کیا بسر و چشم۔ پس ابراہیم (علیہ السلام) کو تعین اس جگہ کی معلوم نہ تھی۔ خدا کی طرف سے ایک ابر اسی مقدار کا کہ جس قدر تعمیر کعبہ مقصود الٰہی تھی نمودار ہوا اور وہ ایک جگہ پر ٹھہر گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی مقدار پر کعبہ بنایا۔ یعنی ایک لمبا چوکھونٹا مکان بنایا جس کا چوڑان مشرقی جانب سے یعنی حجر اسود سے رکن یمانی تک بیس گز تھا اور مغربی جانب رکن یمانی سے لے کر رکن غربی تک بائیس گز اور طول میں شمالی دیوار حجر اسود سے رکن شامی تک تینتیس گز لمبی اور جنوبی دیوار رکن غربی سے لے کر رکن یمانی تک اکتیس گز تھی۔ سب ہئیت مجموعی بشکل مستطیل مگر نہ عرض کے دونوں سرے برابر نہ طول کی دونوں دیواریں برابر تھیں اور بلندی اس مکان کی نو گز تھی اور دروازے کی کچھ کرسی نہ تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کرتے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پتھر اور گارا دیتے جاتے تھے اور یہ پتھر کہ جس کو مقام ابراہیم کہتے ہیں بطور پاڑ کے تھا اور اس پر چڑھ کر چنتے تھے اور یہ شکل تھی۔ واضح ہو کہ رکن خانہ کعبہ کے گوشوں کا نام ہے اس چوکھونٹے مکان کے چار گوشے ہیں اور ہر ایک گوشہ یا گوشے یا کونے کا ایک نام ہے جنوب و مشرق کے رخ باہر کی جانب دو ڈیڑھ گز بلندی پر ایک کونے میں ایک سیاہ پتھر مدور توے کے برابر لگا ہوا ہے اس کو حجر اسود کہتے ہیں اور جنوب و غرب میں بلندیِ قد آدم پر ایک سرخی نما پتھر کا ٹکڑا ہے اس کو رکن یمانی کہتے ہیں اور شرقی و شمالی کونے کا نام رکن شامی ہے اس لیے کہ بجانب ملک شام ہے اور دوسرے کو غربی کہتے ہیں جب ایک مدت بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا مکان پہاڑی نالہ کے سبب سے گرگیا تو بنی جرہم نے پھر اس کو اسی طور سے تعمیر کیا پھر ایک عرصہ کے بعد یہ عمارت گر گئی تو عمالیق نے اس کو پھر تعمیر کیا (عمالیق بنی حمیر کا ایک قبیلہ تھا) اس کے بعد جب یہ عمارت بھی ٹوٹ پھوٹ گئی تو قصی بن کلاب نے اس کو بنایا اور اس کی چھت لکڑیوں سے پاٹ دی اور اس پر غلاف سیاہ ڈال دیا۔ یہ عمارت مدت تک رہی یہاں تک کہ نبی علیہ الصلوٰۃ کی عمر دس بارہ برس کی ہوگی کہ ایک عورت نے پر دئہ کعبہ کے پاس بخور روشن کرنا چاہا تو پردہ میں آگ لگ گئی اور تمام عمارت جل گئی پھر قریش نے چاہا کہ اس عمارت کو پھر تعمیر کریں۔ ان دنوں میں قحط سالی تھی قریش نے کعبہ تو بنایا مگر کئی تصرف اس میں کردیے اول یہ کہ حطیم کی جانب سے کئی گز زمین چھوڑ کر کعبہ کی دیوار غربی اٹھائی۔ دوم یہ کہ دروازے کی چوکھٹ تخمیناً دو گز اونچی کرکے لگائی تاکہ ان کی مرضی کے بغیر ہر شخص کعبہ میں اچھی طرح نہ داخل ہو سکے۔ سوم یہ کہ کعبہ کے اندر لکڑی کے ستونوں کی دو صف قائم کیں ہر ہر صف میں تین تین ستون تھے چناچہ جب مکہ کو آنحضرت ﷺ نے فتح کیا اور کعبہ کے اندر جا کر نماز پڑھی تو انہی ستونوں کے بیچ میں پڑھی تھی۔ چہارم یہ کہ دیواروں کو دو چند بلند کردیا۔ پنجم یہ کہ رکن شامی کے قریب کعبہ کی چھت پر چڑھنے کے لیے زینہ بھی بنایا جب نبی ﷺ مدینے سے مکہ معظمہ میں غلبہ و شوکت کے ساتھ تشریف لائے تو جس قدر اہل مکہ نے کعبہ کے اندر اور اس کے آس پاس ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور دیگر اشخاص کی مورتیں رکھ چھوڑی تھیں سب کو نکال کر پھینک دیا اور توڑ دیا۔ یہ بت ہمیشہ سے نہ تھے بلکہ عمرو بن لحی کے عہد سے جو آنحضرت ﷺ سے تخمیناً تین سو سال پیشتر تھا اور اس وقت کعبہ بنائے قریش پر قائم تھا۔ ایک بات رہ گئی وہ یہ کہ جب قریش کعبہ کی تعمیر کرچکے اور حجر اسود کو لگانا چاہا تو باہم اختلاف ہوا۔ ہر شخص کہتا تھا کہ میں اس کو اپنے ہاتھ سے قائم کروں سب نے متفق ہو کر یہ امر آنحضرت ﷺ کے سپرد کیا۔ آپ ﷺ نے کہا کہ اس کو ایک چادر پر رکھ لو اور اس کو ہر رئیس ہاتھ سے اٹھاوے چناچہ سب اس بات پر بڑے راضی ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک بار عائشہ ؓ سے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کعبہ کو پھر قدیم بنیاد ابراہیم پر بنائوں اور دروازہ زمین سے ملا دوں اور دو دروازے رکھوں۔ ایک سے لوگ داخل ہوا کریں دوسرے سے خارج، اس عرصہ میں آنحضرت ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے پھر عبداللہ بن زبیر ؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے یہ حدیث اپنی خالہ عائشہ ؓ سے سنی تو حضرت کے ارادہ کو پورا کردیا۔ یعنی بدستور قدیم کعبہ کو از سرِ نو بنایا اور دو دروازے رکھے۔ ستائیسویں رجب سنہ چونسٹھ ہجری میں اس تعمیر سے فراغت پائی۔ اس کے تھوڑے دنوں کے بعد بنی امیہ کا دور دورہ ہوگیا اور حجاج بن یوسف نائب عبدالملک بن مروان کو تعمیر عبداللہ بن زبیر ناپسند ہوئی کعبہ کو گرا کر پھر بنیاد قریش پر بنایا اور صرف ایک دروازہ مشرقی جانب میں رکھا اور اندر سے قد آدم بھرت کرکے اونچا دروازہ لگایا اور ایک ٹکڑا طولانی جانب میں سے اسی طرح باہر رکھا کہ جس کو حطیم کہتے ہیں یہ تعمیر 74 ہجری میں ہوئی (بعض کہتے ہیں کہ حجاج نے کل کو نہیں گرایا بلکہ عبداللہ بن زبیر کے تصرفات میں تصرف کیا تھا) پھر بنی عباس کے عہد میں ہاروں رشید نے قصد کیا کہ بنائے عبداللہ بن زبیر پر کعبہ کو بنائے مگر علماء نے منع کیا کہ بار بار بنانا اور گرانا کھیل ہوجائے گا۔ بنائے حجاج سلطان مرادبن احمد خان سلطان قسطنطنیہ کے عہد تک قائم رہی اور شاہان اسلام اسی عمارت کی مرمت کرتے رہے مگر یہ عمارت جب بہت کہنہ ہوگئی تو سنہ ایک ہزار چالیس ہجری میں سلطان مراد نے کعبہ کی تعمیر کا ارادہ کیا اور سوا اس کونے کے جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے سب کو گرا کر پھر نئے سرے سے بنیاد حجاج کے موافق اسی طور سے کعبہ کو بنایا اور اندر سنگ مر مر کا فرش بچھایا اور اندر کی دیواروں میں بھی اکثر سنگ مر مر لگا ہوا ہے اور کسی عمدہ لکڑی کے دو صف ستونوں کے ہیں ایک ایک صف میں تین تین ستون ہیں اور اندر سے چھت پر نفیس مخملی چھت گیری ہے اور اوپر سے گچ ہے اور باہر کی دیواریں سنگ خارا سے چونے میں چنی ہوئی ہیں۔ ان کی لپائی نہیں ہوئی ہے مگر نہایت نفیس ریشمی سیاہ پردہ تمام کعبہ پر پڑا رہتا ہے جس پر بخط ثلث کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہوتا ہے اور نصف طول سے اوپر کئی بالشت چوڑا پٹکا کا رچوبی حرف سے لکھا ہوا ہے اس میں سلطان وقت کا نام بھی ہوتا ہے یہ پردہ ہزارہا روپیہ کی تیاری سے مصر میں بنتا ہے اور ہر سال بڑے تجمل کے ساتھ آتا ہے جو دیکھنے سے متعلق ہے اور سال گزشتہ کا پردہ شریف مکہ اور دیگر اراکین کو مل جاتا ہے ان سے اہل اسلام تبرکاً لاتے ہیں۔ کعبہ کا وہ ٹکڑا کہ جو تعمیر میں قریش نے چھوڑ دیا تھا اب تک چھٹا ہوا ہے اور ایک قوسی شکل سے سنگ مرمر کی دیوار تخمیناً گز بھر اونچی بطور نمونہ بنیاد قدیم پر بنی ہوئی ہے اور اس کو لوگ حطیم کہتے ہیں۔ یہ تھوڑی سی جگہ ہے اسی طرف کعبہ کا سنہری پرنالہ پڑتا ہے کہ جس کو میزاب کہتے ہیں یہاں انسان کی دعا اکثر قبول ہوتی ہے اور اس میں ایک سر ہے کہ جس کے بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں چونکہ زمین اکثر بلند ہوجایا کرتی ہے بالخصوص آبادیوں میں جس لیے سو دو سو سال بعد بہت سی کرسی دینے کی ضرورت پڑتی ہے مگر کعبہ کو اب تک اسی قدیم زمانہ کی زمین پر قائم رکھا ہے۔ کعبہ کے آس پاس دس بارہ قدم کے فاصلہ تک ہموار زمین ہے اس پر بھی سنگ مر مر کا فرش ہے اس کو مطاف کہتے ہیں یعنی اس فرش پر لوگ کعبہ کے ارد گرد طواف کرتے ہیں اور اس کے اخیر میں بیشمار ہانڈیوں کا حلقہ ہے وہ رات کو روشن کی جاتی ہیں اس کے بعد چوطرفہ بڑا صحن کشادہ ہے اور اس میں سیاہ کنکریوں کا فرش ہے مگر یہ زمین گائودم ہے یعنی جوں جوں یہ صحن پھیلتا جاتا ہے اتنا ہی اونچا ہوتا جاتا ہے پھر اس کے اخیر میں چوطرفہ کئی کئی درجہ کے دالان بنے ہوئے ہیں جن کے سنگ مر مر کے ستون ہیں اور اوپر چھوٹے چھوٹے قبہ بنے ہوئے ہیں پھر ان دالانوں کے باہر کی دیواریں اور دروازے بازار کی طرف بھی ہیں مگر باہر کے دروازہ سے جو اندر کی طرف دیکھو تو تمام حرم ایک حوض یا تالاب سا پستی میں معلوم ہوتا ہے اس تمام عمارت کو حرم کعبہ کہتے ہیں۔ یہ لاکھوں روپیہ کی عمارت سب سلطان مراد کی بنائی ہوئی ہے مع خانہ کعبہ کے جو لوگ اس عمارت کعبہ کو عمارت حجاج سمجھ گئے ہیں وہ تاریخ کعبہ سے بیخبر ہیں۔ اب ہم کعبہ کے ان مقامات مشہورہ کو بیان کرتے ہیں کہ جن کے جاننے سے بہت سے مسائلِ شریعہ موقوف ہیں۔ (1) میقات : وہ مقامات ہیں کہ جب کوئی باہر سے وہاں آوے اور مکہ میں حج وغیرہ کے لیے آنا چاہے 1 ؎ (شافعی) یا اس کی بھی قید نہیں بلکہ کسی کام کے لیے آئے (ابو حنیفہ 1 ؎) تو بغیر احرام باندھے نہ آئے یہ اس لیے کہ بیت اللہ کی تعظیم و عظمت مدنظر رہے کیونکہ جب دنیا کے بادشاہوں کے دربار میں بغیر عجز و انکسار و آداب نہیں آسکتا تو وہ تو اللہ جل جلالہ کا دربار عام ہے وہاں کے آداب ضرور ملحوظ ہونے چاہئیں اور وہ مقامات یہ ہیں۔ ذوالحلیفہ ان کے لیے جو مدینہ کی طرف سے مکہ میں آنا چاہیں عام ہے کہ اہل مدینہ ہوں یا نہ ہوں یہ مقام مدینہ سے مکہ کی طرف دو فرسخ پر ہے۔ حجفہ (کہ جو ذوالحلیفہ کے محاذی ہے) ان کے لیے جو شام کے رستہ سے آنا چاہیں قرن نجد کے رستہ پر ہے ان کے لیے کہ جو اس رستہ سے آنا چاہیں۔ یلملم یمن کے رستہ پر ہے یہ سمندر کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جو لوگ کہ ہندوستان یا ایران سے عدن ہو کر جدہ میں جاتے ہیں تو جدہ یا عدن کے بیچ میں یہ پہاڑی مشرقی کنارہ پر دکھائی دیتی ہے ان کو بھی وہیں سے احرام باندھنا پڑتا ہے جیسا کہ اہل یمن کے لیے ذات عرق۔ یہ ایک جگہ مکہ سے دو منزل کے فاصلہ پر ہے یہ اہل عراق کے لیے ہے اور جو اس راستہ سے آویں ان مقامات کی تصریح نبی ﷺ نے بالہامِ الٰہی فرمائی ہے عن جابرعن رسول اللہ ﷺ قال مہل اھل المدینۃ من ذی الحلیفۃ و الطریق الآخر الحجفۃ و لاھل الشام الحجفۃ۔ (بخاری) و مہل اھل العراق من ذات عرق و مہل اھل النجد قرن و مہل اھل الیمن یلملم رواہ مسلم۔ مہل یعنی تلبیہ کہنے اور احرام باندھے کی جگہ۔ (2) حرم مکہ شہر مکہ کے چوطرفہ کئی کئی میل تک کی جگہ کا نام ہے۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں صرف ٹیلوں کے نشان تھے۔ اب سلاطین نے اس کے ہر حدود پر مینار اور دروازے بنا دیے ہیں۔ جدہ کی طرف بھی مکہ سے کئی میل کے فاصلہ پر ایک بڑا دروازہ بنا ہوا ہے اسی طرح مدینہ کے رستہ میں بمقام تنعیم دروازے بنے ہوئے ہیں ان حدوں کو پیغمبر علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مقرر کیا ہے کہ ان کے اندر نہ کوئی 1 ؎ امام شافعی کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن عباس قال وقت رسول اللہ ﷺ لاہل المدینۃ ذا الحلیفہ الخ فمن لہن ولمن اتی علیھن بلن کان یرید الحج والعمرۃ رواہ البخاری و مسلم کہ جو ان مقامات سے گزر کر مکہ میں حج وعمرہ کے لیے جائے امام اعظم کی دلیل یہ حدیث ہے لا یجاوز احد المیقات الا محرما کہ ان مقامات سے بغیر احرام باندھے کوئی تجاوز نہ کرے اس میں حج وغیرہ کی قید نہیں۔ لمعات 12 منہ۔ شکار کھیلے نہ کوئی کسی کو قتل کرے، نہ لکڑی کاٹے نہ گھاس اکھاڑے۔ یہ امور تعظیم بیت اللہ کے لیے ہیں۔ ایام جاہلیت میں بھی عرب ادب کرتے تھے ان حدود کے باہر جو زمین ہے اس کو حل کہتے ہیں کہ یہاں یہ امور حلال ہیں اور کعبہ اور اس کے ارد گرد جتنے مکانات ہیں ان کو حرم کعبہ کہتے ہیں جو مسجد کا حکم رکھتا ہے یعنی کوئی ناپاک مرد اور عورت اس میں داخل نہ ہونا چاہیے نہ اس حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ (3) حجر اسود : یعنی سیاہ پتھر، یہ گول پتھر تخمیناً دو ڈیڑھ فٹ کے دور میں ہے اس کا رنگ نہایت سیاہ ہے اس کو عقیق سیاہ تصور کرنا چاہیے۔ یہ کعبہ کے شرقی و جنوبی گوشہ میں باہر کی جانب گز بھر کی بلندی سے چاندی کے حلقہ میں جڑا ہوا ہے۔ خدا جانے کسی صدمہ سے اس کے کئی ٹکڑے ہوگئے تھے جن کو ملا کر ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ اس پتھر کو نہ کوئی مسلمان پوجتا ہے نہ اس کو حاجت روا سمجھتا ہے مگر اس لیے کہ یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم کیا ہوا ہے اس لیے اس کو مقدس سمجھتے ہیں اور چونکہ جناب خاتم النبین ﷺ نے اس کو ان بزرگوں کی یادگار سمجھ کر محبت سے بوسہ دیا تھا جیسا کہ جب ہم اپنے محبوب کی کسی چیز کو پاتے ہیں تو چومتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں اور چومنا اور آنکھوں سے لگانا دراصل اس شخص کی محبت و عظمت کا اظہار ہے کہ جس کی یہ نشانی ہے بالخصوص طواف کے وقت حج وعمرہ میں کہ جو نہایت دنیا سے نفرت اور خدا اور اس کے برگزیدوں سے محبت کا وقت ہوتا ہے اس لیے تمام اہل اسلام میں اسی غرض سے طواف کے وقت بالخصوص ایام حج میں اس کا بوسہ دینا دستور ہوگیا اور ازدھام کی وجہ سے بوسہ نہ دے تو اشارہ ہی کر دے یہ دستور ایک عمدہ طریقہ اور اچھی سنت ہے کیونکہ اس میں نبی (علیہ السلام) کا اتباع اور اس کے بزرگوں کے ساتھ محبت اور اس کے طریقہ کو دل سے پسند کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ ایسی حالت میں خدا تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی کی امید بھی بجا ہے جس کا ثمرہ بندے کے گناہوں کی معافی ہے وہ جو اس بارے میں احادیث صحیحہ وارد ہیں وہ سب برحق ہیں۔ ان پر اعتراض کرنا حماقت اور تعصب جاہلانہ ہے۔ عقل سلیم کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں یہ اور بات ہے کہ کوئی بیوقوف اس کو بت پرستی سمجھے یا خدائے غیر محسوس کا اس کو نشان حسی قرار دے کر برگزیدوں پر اعتراض کرے۔ (4) زمزم : یہ وہی چشمہ ہے جس کو خدا نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے لیے اپنی قدرت کاملہ سے ظاہر کیا تھا۔ یہ چشمہ چند مدت کے بعد خشک ہوگیا لیکن اس کے انعام کی یادگاری اور تبرک کے لیے پھر اسی مقام پر کنواں کھودا گیا۔ یہ کنواں حوادث دہر سے کئی بار کھلا بند ہوا مگر اب اس زمانہ میں نہایت عمدہ کنواں کعبہ کے متصل حرم میں بنا ہوا ہے اس پر سنگ مر مر کا قبہ ہے اور ارد گرد جالیاں ہیں۔ ایک دروازہ ہے اس میں سے جا کر لوگ پانی بھرتے ہیں۔ شب و روز پانی کھنچتا ہے مگر ٹوٹتا نہیں۔ یہ پانی ذرا کھاری ہے مگر شہر مکہ میں عام استعمال کے لیے نہر زبیدہ کا پانی استعمال میں آتا ہے۔ یہ نہر زبیدہ ہارون رشید بادشاہ کی بیوی نے بنائی تھی کہیں دور سے اس کا پانی آ کر مکہ میں بڑے بڑے حوضوں کو بھرتا اور ایک عالم کو سیراب کرتا ہے۔ یہ بہت چھوٹی نہر ہے ہمیشہ جاری ہے۔ اہل اسلام زمزم کے پانی کو اسی علاقہ سے متبرک سمجھتے ہیں بخلاف عیسائیوں اور ہنود کے وہ دریائے گنگ و جمن و یرون میں غوطہ لگانے اور بپتسمہ پانے کو معافی گناہ کے لیے صابن سمجھتے ہیں۔ (5) مقام ابراہیم : بقول جمہور وہ پتھر ہے کہ جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر کعبہ چنا تھا، اس پر نشان قدم بھی ہیں اور بقول بعض تمام حرم مسجد۔ (6) صفا : حرم کے متصل جنوب و شرق میں ایک پہاڑی ہے اب اس کے اوپر اور ارد گرد آبادی ہوگئی ہے اور چند سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں۔ (7) مروہ : یہ اس کے مقابلے میں حرم سے شرق و شمال کی جانب چھوٹی سی پہاڑی ہے اب یہاں بھی آبادی ہے اور ان دونوں پہاڑیوں کے بیچ میں جس جگہ کہ حضرت ہاجرہ دوڑ کر چلی تھیں اور پہلے وہاں جنگل اور کنکر تھے اب نہایت عمدہ بازار ہے اور اس دوڑ کر چلنے کی جگہ دو منارہ سبز بنا دیے گئے ہیں جن کو میلین اخضرین کہتے ہیں۔ (8) منیٰ : شہر مکہ دو پہاڑیوں کے بیچ میں بسا ہے پھر یہی سلسلہ پہاڑوں کا مشرق و شمال کی طرف دور تک چلا گیا۔ مکہ سے تین میل پر اسی سلسلہ کے میدان میں یہ مقام ہے یہاں اب بہت سے مکانات تعمیر ہوگئے ہیں۔ ایام حج میں تین روز تمام لوگ یہیں رہتے ہیں۔ اسی جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبح کرنے کا قصد کیا تھا اور یہیں شیطان نے مجسم دکھائی دے کر ان کو تین جگہ بہکانا چاہا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پر کنکریاں ماریں تھیں اب تینوں مقامات پر نشان کے لیے تین چھوٹے چھوٹے مینارے بنا دیے ہیں ان کو جمرات کہتے ہیں۔ ایک کو جمرئہ اولی، دسرے کو جمرئہ وسطیٰ ، تیسرے کو جمرہ عقبیٰ ۔ اب ایام حج میں مسلمان بھی دستور ابراہیم کو جاری رکھنے کے لیے ان کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں تاکہ اس حالت کو یاد کرکے ہمیشہ نفس کے مقہور کرنے کا عہد کیا جاوے اور اسی مقام پر لوگ حج میں عرفات سے لوٹ کر دسویں تاریخ احرام کھولتے اور قربانیاں کرتے ہیں۔ (9) مزدلفہ : یہ اسی مشرقی و شمالی سمت میں منٰی سے دو تین میل آگے بڑھ کر ایک میدان ہے، پھر اس سے میل آگے عرفات ہے۔ عرفات سے لوٹتے وقت شب کو یہاں ٹھہرتے ہیں۔ (10) عرفات : اسی سمت میں آگے بڑھ کر ایک لمبا چوڑا پہاڑوں کے بیچ میں میدان ہے۔ نویں ذوالحجہ کو یہاں سب حاجی آتے ہیں اور غروب آفتاب تک اسی میدان میں خیموں اور غیر خیموں میں رہتے ہیں۔ یہاں دعا مانگتے ہیں اور شام کے وقت امام ایک پہاڑی پر چڑھ کر خطبہ پڑھتا ہے جس میں خدا کی توحید و تقدیس اور گناہوں سے معافی اور اس کی حمد و ثنا اور احکامِ حج کا بیان ہوتا ہے۔ دن غروب ہوتے ہی یہاں سے تمام خلق خدا چل پڑتی ہے اور مغرب و عشاء کی نماز لوٹ کر مزدلفہ میں پڑھتے ہیں اور پھر صبح کو یہاں سے اٹھ کر منٰی میں آ کر قربانی کرتے ہیں۔ شیعہ دسویں کو بھی عرفات میں رہتے ہیں۔ آگے چل کر ہم اسرار و احکامِ حج بیان کریں گے اب ان آیات کی تفسیر کرتے ہیں کہ جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل کا تعمیر کعبہ کرنا مذکور ہے :
Top