Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات حاصل کئے تب (خدا نے) آدم کو معاف کردیا بیشک وہ معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔
ربط : اس کے بعد خدا تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کی گریہ وزاری اور توبہ معاف ہونا فرماتا ہے : ترکیب : تلقی فعل آدم فاعل کلمات مفعول بہ من ربہ کائنۃ کے متعلق ہو کر صفت کلمات کی مگر جب کہ اس کو مقدم کردیا گیا تو حال کی صورت میں منسوب المحل ہوا۔ فتاب فعل ضمیر ھو راجع رب کی طرف فاعل علیہ متعلق تاب کے ہے۔ انہ ھو ضمیر متصل کی تاکید التواب 1 ؎ کیونکہ خدا خود فرماتا ہے ولم تجد لہ عزما الرحیم صفت و موصوف خبر۔ تفسیر : جب آدم جنت سے نکالے گئے تو مدت تک زمین پر بحالت پریشانی اپنے گناہ پر روتے رہے آخر خدا تعالیٰ کو اپنے بندہ کی آہ زاری و ندامت پر بیقراری پر رحم آیا ؎ اے خوشا چشمے کہ آں گریان اوست وے ہمایوں دل کہ آں بریان اوست در پئے ہر گریہ آخر خندہ ایست مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست اور یہ کلمات آدم کے دل میں القا کئے گئے۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ جب انہوں نے ان کلمات سے دعا کرنی شروع کی تو خدا کو رحم آیا۔ آدم کا گناہ معاف کردیا کس لیے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ بعض احادیث میں کچھ اور کلمات اور آدم کی گریہ وزاری کے دیگر حالات بھی مرقوم ہیں۔ متعلقات : التلقی ملنا کسی چیز کا پانا، حاصل کرنا، یہ کلمات آدم کو بطور الہام کے عطا ہوئے تھے۔ عام ہے کہ فرشتے نے آ کر کہے تھے یا دل میں القا ہوا تھا۔ التوبہ رجوع کرنا لیکن جب یہ لفظ بندہ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو لفظ الی کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ تبت الیک اور تاب الی اللہ جس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ گناہ چھوڑ کر غفلت سے منہ موڑ کر بندہ خدا کی طرف رجوع ہوا۔ بندہ کو تائب اور تواب کہیں گے۔ انہ یحب التوابین، مگر اس قدر فرق ہے کہ غفلت چھوڑ کر بندہ جب اس کی طرف رجوع ہوتا ہے تو اس کو آئب کہتے ہیں اور اواب بھی۔ توبہ تین چیزوں سے مرکب ہے۔ علم معصیت کہ گناہ کو برا اور جرم اور باعث خرابی دنیا و آخرت جانے تاکہ دل میں بیقراری پیدا ہو اور ندامت دل میں آئے۔ ترک فی الحال یعنی اسی وقت اس کام کو چھوڑ دے۔ عزم مستقبل یعنی آیندہ کے لیے دل میں مصمم ارادہ کرلے کہ میں اس کام کو ہرگز نہ کروں گا اور جو کچھ حقوق الٰہی یا حقوق عباد ہیں ان کے ادا کرنے کا بھی قصد کرے۔ پس جب ان شرائط سے بندہ توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بندے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ احادیث صحیحہ اور آیات قرآنیہ اور کلام انبیاء میں جس قدر توبہ کی تاکید اور فضائل و اوصاف مذکور ہیں ان کی اس مختصر میں گنجائش نہیں۔ چناچہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب بندہ گناہ کرکے مقر اور تائب ہوتا ہے تو خدا اس کے گناہ معاف کرتا ہے۔ (رواہ البخاری و مسلم) اور جب توبہ کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں تو بلفظ علیٰ کا استعمال آتا ہے تاب اللہ علیہ تاب علیہ بولتے ہیں جس کے معنی یہ کہ خدا نے رحمت کے ساتھ بندہ کی طرف رجوع کیا یعنی معاف کردیا اور اس کے عذاب سے درگزرا اس لیے خدا کو صرف توّاب کہتے ہیں نہ تائب۔ الٰہی تیری رحمت اور مغفرت پر بڑا بھروسہ ہے۔ فائدہ : خدا نے آدم کا توبہ کرنا بیان فرمایا حوا کا توبہ کرنا ذکر نہ کیا اس لیے کہ عورت احکام میں تابع ہے مرد کے۔ اور اسی لیے قرآن میں اکثر مرد مخاطب ہیں۔ اب اس کے بعد خدائے تعالیٰ بنی آدم کے زمین پر پھیلنے کا اور ان کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کا حکم الٰہی لے کر آنے کا مجملاً ذکر کرکے اس تمام قصہ کا نتیجہ نکالتا ہے :
Top