Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
وہی لوگ اپنے خدا کے رستہ پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
ترکیب : اُوْلٰئِکَ مبتدا اور عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَبّْہْمْ ثابت کے متعلق ہو کر اس کی خبر، مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا، واؤ حرف عطف۔ اُولٰٓئِکَ مبتدا اور ھم المفلحون اس کی خبر ھم مبتدا المفلحون خبر دونوں مل کر اولٰٓئِکَ کی خبر ہوئے۔ یہ مبتدا اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر معطوف ہوا۔ تفسیر : پہلے کہا تھا کہ قرآن ھدی للمتقین پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ اس کے بعد پرہیز گاروں کے اوصاف بیان کردیے کہ وہ ایسے ایسے اوصاف حمیدہ رکھنے والے ہیں اور یہ اوصاف قرآن سے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ طرح طرح کے پراثر بیانوں سے قرآن نے انسان کو ان اوصاف کا مشتاق کردیا ہے اور جس میں یہ اوصاف ہوتے ہیں وہ ہدایت پر ہوتا ہے۔ یہ بدیہی بات ہے پس ھدی للمتقین ایک دعویٰ تھا اس کا ثبوت تقویٰ کے معنیٰ بیان کرکے کردیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن سے پرہیز گاری حاصل ہوتی ہے اور پرہیز گاری خدا کی ہدایت ہے یہاں تک سعادت کا بیان تمام ہوا اور کلام مدلل ہوگیا کہ قرآن سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ پھر ہدایت کا ثمرہ اولٰٓئِکَ ھم المفلحون سے بیان فرما دیا کہ جس کو ہدایت خدا کی نصیب ہوتی ہے وہ فلاح دارین پاتا ہے۔ نکات : (1) پہلے الذین کے مقابلہ میں اولئک علی ھدی من ربہم لایا گیا اور جس طرح دوسرا الذین اس کا تتمہ تھا اسی طرح اس کے مقابلہ میں تتمہ کے طور پر اولئک ھم المفلحون ذکر کیا تاکہ بالآخرۃ ھم یوقنون کی جزا وہاں کی فلاح سن کر سامع کا دل بشاش ہوجائے۔ (2) جس طرح بالآخرۃ ھم یوقنون میں ایمانداری کا ان پر حصر کیا تھا اس کے بعد فلاح کا بھی ھم ضمیر مقدم کرکے ان ہی پر حصر کردیا جس سے معلوم ہوا کہ فلاح بھی ان ہی کا حصہ ہے کہ جو ایسے لوگ اور ان اوصاف سے متصف ہیں اور جو ایسے نہیں ہیں وہ کیسی ہی ریاضت کریں چونکہ راہ راست پر نہیں کبھی فلاح کو نہ پہنچیں گے۔ پس جو راستے کہ اسلام کے مقابلے میں ہیں اور اس کے برخلاف ہیں ان سے کبھی مقصود حاصل نہ ہوگا خواہ کوئی کیسی ہی مشقت اٹھائے اس لیے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام اور راستہ چونکہ صراط مستقیم نہیں ان سے وصول الی المطلوب بھی نہیں ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی کیں رہ کہ تو میروی بہ ترکستان ست (3) اس بات کے بتلانے کو (کہ اہل تقویٰ کو کامل ہدایت نصیب ہے اور وہ ہدایت خدا کی طرف کی ہے) لفظ علٰی بولا گیا تاکہ استعلا اور تمکین پر دلالت کرے اور پھر ہدی کو من ربہّم کے ساتھ مقیّد کیا تاکہ خدا کی طرف سے ہدایت کا ہونا پایا جاوے اور پھر اولئک اسم اشارہ لا کر اور خبر کو معرفہ بنا کر اور بیچ میں ھم فصل ذکر کرکے یہ بتلا دیا کہ یہ ہدایت اور فلاح متقین کا حصہ خاص ہے کہ جن میں اوصاف مذکورہ پائے جاتے ہیں۔ فائدہ : خوارج اور معتزلہ وغیرہ کہ جو کبیرہ کیا بلکہ صغیرہ سے بھی ابدی جہنم کا مستحق بناتے ہیں۔ (عیسائیوں کا بھی اسی کے قریب عقیدہ ہے) اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ جنس فلاح کا موصوفین مذکورین پر حصر کردیا ہے۔ پس جو نماز نہ پڑھے گا ‘ زکوٰۃ نہ دے گا خارج از ایمان ہو کر ہمیشہ جہنم میں جاوے گا، بعض ظاہری بھی ان کے شریک ہیں۔ ان کا جمہور اہل اسلام کی طرف سے یہ جواب ہے کہ فلاح سے مراد بذریعہ الف لام فلاح کامل ہے۔ پس جو ان اوصاف سے متصف نہ ہوگا تو اس کو فلاح کامل نصیب نہ ہوگی، نہ یہ کہ مطلقاً فلاح سے محروم ہوگا کیونکہ انتفائِ فلاح کامل (یعنی مقید) سے انتفائِ فلاح مطلق لازم نہیں آتا۔ علاوہ اس کے قرآن و احادیث کے متعدد مواضع سے گناہ گار ان اسلام کا فلاح پانا جنت میں جانا ثابت ہے۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے اہل سعادت کا حال اور مآل بیان فرمایا تو ضرور ہوا کہ اہل شقاوت کا بھی حال و مآل بیان کیا جاوے تاکہ بحکم تعرف الاشیاء باضدادھا سعادت کا مقام خوب سمجھ میں آجاوے، سو اہل شقاوت دو طرح کے ہیں، ایک وہ کہ جو ظاہراً و باطناً حق کے مخالف ہیں ان کو زبان شرع میں کافر کہتے ہیں۔ دوم وہ کہ جو بظاہر موافق اور باطن میں حق کے سخت مخالف ہیں ان کو منافق کہتے ہیں چونکہ مومنون سے پوری مضادت (یعنی ظاہراً و باطناً مخالفت) کفار سے ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ پہلے کفار کا حال بیان فرماتا ہے۔
Top