Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
فَرَقْنَا
: ہم نے پھاڑ دیا
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْبَحْرَ
: دریا
فَاَنْجَيْنَاكُمْ
: پھر تمہیں بچا لیا
وَاَغْرَقْنَا
: اور ہم نے ڈبو دیا
آلَ فِرْعَوْنَ
: آل فرعون
وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
: اور تم دیکھ رہے تھے
اور اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا پس تم کو تو بچا لیا اور تمہارے دیکھتے دیکھتے فرعونیوں کو ڈبو دیا۔
ترکیب : فرقنا فعل بافاعل بکم موضع نصب میں مفعول ثانی ہے اور البحر مفعول اول ہے اور ب بمعنی لام ہے فانجیناکم جملہ فعلیہ معطوف علیہ واغرقنا الخ جملہ فعلیہ معطوف وانتم تنظرون حال ہے اغرقنا سے۔ تفسیر : انعام سوم : یہ تیسرا انعام ہے جو خروج مصر کے بعد بنی اسرائیل پر خدا نے کیا تھا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو فرعونیوں کی قید سے چھڑا کر کنعان کی طرف روانہ ہوئے تو فرعون اور اس کے لشکر نے قلزم کے پاس تعاقب کرکے بنی اسرائیل کو آلیا اب پیچھے تو فرعون اور اس کا خونخوار لشکر جس کی ہیبت نے بنی اسرائیل کو ہوش باختہ کردیا اور سامنے سمندر، نہ آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے پھر سکتے ہیں۔ اس وقت بنی اسرائیل کی عجب ہوشربا حالت تھی مگر خدا نے اپنا فضل کیا۔ بنی اسرائیل کے لیے دریا میں خشک رستہ کردیا۔ دونوں طرف پانی کی دیواریں بن کر کھڑی ہوگئیں۔ جب بنی اسرائیل سوکھے پار اتر گئے ان کے پیچھے جو فرعون کا لشکر نکلنے لگا تو پانی مل گیا۔ سب ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب مرے۔ بنی اسرائیل یہ تماشا پرلے کنارے پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ادھر اپنا ایسی خوفناک حالت سے نجات پانا، دوسرے اپنے دشمن کو جس کی تباہی کا خیال بھی نہ جاتا تھا مع سازو سامان غرق ہوتے دیکھنا کیسی خوشی اور کیسا انعامِ الٰہی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر ملک شام کی طرف چلے تو بحیرئہ قلزم کی طرف راہ پڑ لیے ان کے پیچھے فرعون بھی مورو ملخ کی طرح لشکر لے کر گرفتار کرنے پہنچا۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ اب ہم کیا کریں، سامنے سمندر کی ایک شاخ ہے کہ جس کو قلزم کہتے ہیں اور پیچھے فرعون کا لشکر چلا آتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جناب باری میں التجا کی، حکم ہوا کہ اپنے عصا کو دریا پر مار اس کی وجہ سے یہ معجزہ ظہور میں آیا کہ سمندر پھٹ گیا اور جس طرح پہاڑ میں گھاٹیاں ہوتی ہیں اسی طرح پانی کے بستہ ہونے سے خدا نے گھاٹیاں کردیں جن میں سے بنی اسرائیل بخوبی مع اپنے جانوروں اور اسباب کے نکل گئے اور چونکہ پانی ایک لطیف جسم ہے اس کی گھاٹیوں میں سے ایک طرف کا آدمی دوسری طرف کو نظر آتا تھا۔ فرعون نے ان کے پیچھے اسی راستہ سے عبور کرنا چاہا تو پھر سمندر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اور اس کا سارا لشکر ڈوب مرا اور پرلے کنارے پر بنی اسرائیل کھڑے ہوئے فرعونیوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے تھے۔ متعلقات : اصل آل کی اہل ہے کس لیے کہ اس کی تصغیر اہیل آتی ہے اس کے معنی گھر والے کے ہیں جن کو عرف میں کنبہ کہتے ہیں یا خاندان ہاں اس قدر فرق ہے کہ لفظ آل کا اطلاق اس خاندان پر آتا ہے کہ جن کو دینی یا دنیاوی عزت و شرف حاصل ہو اور کبھی اس لفظ سے مطیع و مطبّع بھی مراد ہوا کرتے ہیں اول تقدیر پر آل نبی حضرت ﷺ کا کنبہ بیٹی نواسے، چچا اور بیویں وغیرہم، دوسری تقدیر پر تمام صحابہ مراد ہوتے ہیں اور کبھی یہ لفظ زائد آتا ہے۔ آل فلاں میں وہ فلاں ہی مراد ہوا کرتا ہے۔ ہم بیشتر ابتدا سے انتہا تک مختصر طور پر حضرت موسیٰ 1 ؎ (علیہ السلام) کی تاریخ 1 ؎ بیان کرتے ہیں اور تورات اور قرآن کو مدنظر رکھتے ہیں تاکہ ہر واقعہ خوب بہ ترتیب وقوع سمجھ میں آجائے۔ تاریخ بنی اسرائیل : موسیٰ مصر میں عمران کے گھر میں (جو قہات کا بیٹا لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) کا پوتا تھا) حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تخمیناً پندرہ سو اکہتر برس پیشتر منوچہر شاہ ایران کے زمانہ میں پیدا ہوئے اس زمانے میں فرعون نے بنی اسرائیل پر سختیاں کر رکھی تھیں بڑے سخت کام لیتا اور بیگار میں رکھتا تھا اور یہ عام حکم تھا۔ کہ جو ان کے خاندان میں بیٹا پیدا ہو اس کو قتل کر ڈالو لڑکی کو جیتی رہنے دو کیونکہ اس کو بنی اسرائیل کی کثرت سے خوف تھا یہ ان کو مٹانا چاہتا تھا یہ لوگ اپنی مصیبت پر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر آہ وزاری کرتے اور درد سے روتے تھے مگر اس موذی کو رحم نہ آتا تھا لیکن خدائے ارحم الراحمین کو رحم آیا۔ اس نے اس کے پنجے سے چھڑانے کے لیے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا جب یہ پیدا ہوئے تو کئی مہینے تک ان کی والدہ ماجدہ نے ان کو چھپا کر رکھا جب دیکھا کہ راز فاش ہوا جاتا ہے کوئی دم فرعونی جلاد آتے اور اس معصوم بچے کو ذبح کرتے ہیں تو باالہامِ الٰہی یہ تدبیر سوچی اس کو کسی صندوق میں کہ جس میں پانی اثر نہ کرے ڈال کر دریائے نیل میں چھوڑ دیجئے۔ جہاں اس کی تقدیر ہوگی چلا جائے گا پس ایک صندوق میں چوطرفہ رال لگا کر اور خوب مضبوط کر کے اس چاند سی صورت کو چھپا دیا اور خدا کے نام پر دریا میں ڈال دیا۔ ڈال تو دیا مگر دل کا اللہ ہی مالک تھا۔ زار زار روتی اور یہ کہتی تھی ؎ میروی و میرود جانم بتو خوش برو فاللہ خیرٌ حافظا 1 ؎ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کو بیس سورتوں میں کہیں رجال اور کہیں تفصیل سے بیان فرمایا ہے سورة بقر۔ نساء۔ مائدہ۔ انعام۔ اعراف۔ یونس۔ ہود بنی اسرائیل۔ کہف۔ مریم۔ طہ۔ مومنین۔ شعرا۔ نمل۔ قصص۔ صافات۔ مومن۔ زخرف۔ دخان۔ نازعات۔ بعض واقعات توریت میں ہیں قرآن نے ان کو بیان نہیں کیا بعض قرآن میں ہیں توریت میں نہیں اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں گو مصنف تورات ابتدا سے انتہا تک بہ ترتیب قصہ لکھتا ہے۔ مگر عادتاً ہر مورخ سے سینکڑوں واقعات اس شخص کے کہ جس کی تاریخ وہ لکھتا ہے رہ جایا کرتے ہیں پس اگر وہ کسی دوسری جگہ ہوں یا ان کو کوئی اور بیان نہ کرے تو وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا اور قرآن کی غرض تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ نصیحت و عبرت مقصود ہے۔ 12 منہ مگر اپنی بیٹی سے یہ کہہ دیا کہ کنارے کنارے تو بھی دیکھتی جا کہ صندوق کہاں جاتا ہے۔ وہ صندوق کے ساتھ اس طرح جاتی تھی کہ کوئی نہ جانے کہ یہ اسی صندوق کے ساتھ ہے۔ وہ صندوق جب فرعون کے محل کے پاس بہ کر آیا تو اس کی بیوی آسیہ نے کہ جو بڑی خدا ترس اور پاکباز عورت تھی دیکھا کہ ایک صندوق بہا چلا آتا ہے اس کے ساتھ اس کی بیٹی اور خواصیں بھی تھیں۔ جب اس امر عجیب کے دریافت کی طالب ہوئیں حکم دیا کہ صندوق نکالا جاوے۔ نکال کر کھولا گیا تو اس میں کیا دیکھتی ہیں کہ ایک چاند سی صورت کا بچہ بسور رہا ہے اور ہاتھ پائوں مارتا ہے اور انگوٹھے چوستا جاتا ہے۔ یہ دیکھتے ہی سب کا دل بھر آیا۔ خدا کی قدرت دیکھئے، وہ دشمنوں کے گھر میں پرورش کراتا ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اس کو بیٹا بنا لو اور اباجان کو بھی اس کی خبر کر دو ۔ فرعون کی بیوی نے بچہ دکھایا اور اپنا مطلب ظاہر کیا مگر موذی نے کہا غالباً یہ کسی کنعانی کا بچہ ہے ہمارے خوف سے دریا میں ڈال دیا ہے اس کو قتل کر ڈالو۔ فرعون کی بیوی اوپر گر پڑی اور کہا کہ اس کو نہ مارو، اس کو بیٹا بنا لو شاید یہ کسی وقت کام آئے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے انا کی تلاش ہوئی۔ دو ایک انائیں آئیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی کا بھی دودھ نہ پیا۔ اس کے رونے سے سب بےچین ہوگئے تب موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے جو فرعون کی بیوی اور بیٹی کے پاس آیا جایا کرتی تھی کہا میں تم کو ایک ایسی انا بتائوں کہ جو اس کو نہایت دردمندی اور خیرخواہی سے دودھ پلائے اور اپنے گھر میں لے جا کر پرورش کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں لا ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا حال سنئے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ہر ایک چیز کو دیکھ کر زار زار روتی اور اس کی صورت یاد کر کے دل میں دھواں اٹھتا تھا قریب تھا کہ چیخیں۔ مار مار کر روئے اور یہ راز کھل جائے مگر خدا نے اس کے دل کو صبر دیا اور وعدہ کیا کہ رنج نہ کر ہم اس کو پھر تیرے پاس پہونچا ویں گے۔ اتنے میں پھر بیٹی دوڑی آئی کہا اماں جان مبارک ہو بھائی کو فرعون کی بیوی نے بیٹا بنا دیا چلو تم کو دودھ پلانے کو بلاتے ہیں۔ وہ خوشی کے مارے جامہ میں نہ سماتی تھی وہاں جا کر بیٹے کو دیکھ کر دل بیتاب قابو سے نکل چلا تھا مگر سنبھالا اور اس کو دودھ پلایا۔ فرعون کی بیوی نے اس کی تنخواہ اور مصارف پرورش مقرر کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کو دے دیا پس ایک مدت موسیٰ ایوان شاہی میں پرورش پاتے اور شہزادے کہلاتے رہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) خوب جوان ہوگئے تو فرعون کی زیادتیوں اور اپنی قوم کی پریشانی دیکھ کر نہایت غمگین رہتے تھے۔ آخرش ایک روز بازار میں ایک قبطی کسی بنی اسرائیل کو کار بیگار پر سخت مار رہا تھا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سامنے سے آتے دیکھ کر پکارا اور دہائی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ارے کیوں مارتا ہے۔ اس پر اس نے نہ مانا تو موسیٰ نے اس کو مکا مارا اور وہ اتفاقاً مرگیا۔ موسیٰ اور اس اسرائیلی نے اس کو ریتے میں دبا دیا۔ اگلے روز حسب اتفاق جب موسیٰ (علیہ السلام) بازار میں گئے تو اسی اسرائیلی کو پھر کسی قبطی سے لڑتے دیکھا۔ پھر اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر چلانا اور دہائی دینا شروع کیا۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے خفا ہو کر فرمایا کہ تو بڑا بےہودہ ہے اور اس کے دشمن کو ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ یہ احمق اسرائیلی یہ سمجھ کر کہ مجھے مارتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگا لو صاحب جس طرح کل ایک شخص کو قتل کرچکے ہیں آج اسی طرح مجھ کو بھی مارا چاہتے ہیں۔ اے موسیٰ تو بڑا سرکش اور مفسد ہوا چاہتا ہے۔ اس سے وہ راز فاش ہوگیا۔ آخر فرعون کے دربار میں بھی خبر پہونچی کہ لیجیے وہ موسیٰ کہ جس کو تم نے فرزند بنایا ہے آخر اپنی قوم کا حامی بنا اور ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا۔ ہرچند بعض وجوہ سے فرعون پہلے ہی سے موسیٰ (علیہ السلام) سے بدگمان تھا مگر اب تو جوش میں آ کر قتل کا حکم دے دیا۔ کسی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اس راز سے مطلع کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اول ہی قتل سے ہراساں تھے اب تو بہت ڈر گئے اور مصر سے مشرق کی طرف بھاگ کر چلے گئے۔ بحرِقلزم کے پاس مدین ایک شہر تھا وہاں پہونچے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے یہ کہہ رہے تھے کہ الٰہی میں تیرا بندہ فقیر ہوں کچھ مجھ کو عطا کر۔ وہاں ایک کنواں تھا۔ دیکھا کہ چرواہے چرس کھینچ کر اپنی بکریوں اور جانوروں کو پانی پلاتے ہیں اور دو لڑکیاں آنکھیں نیچی کئے کھڑی ہیں۔ ان سے موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں پلاتیں۔ وہ بولیں کہ ہمارے والد بوڑھے ہیں ہم سے چرس کھنچ نہیں سکتا۔ جب یہ پلا کر چلے جاتے ہیں تو بچا بچایا پانی ہم بھی اپنی بکریوں کو پلا لیتے ہیں۔ موسیٰ کو رحم آیا۔ بفضل الٰہی شہ زور جوان تھے جس ڈول کو کئی شخص مل کر کھینچتے تھے اکیلے نے کھینچ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا اور پھر نیچی نگاہ کر کے درخت کے سایہ میں آبیٹھے۔ ان لڑکیوں نے جا کر اپنے بوڑھے باپ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے موسیٰ (علیہ السلام) کا حال بیان کیا۔ اس نے اپنی ایک بیٹی کو بھیجا کہ جاؤ اس مسافر کو بلا لائو۔ وہ آئی اور نہایت شرم سے یہ کہا کہ چلئے آپ کو ہمارے اباجان بلاتے ہیں تاکہ آپ کو اس پانی پلانے کا بدلہ دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے اور سب قصہ بیان فرمایا۔ انہوں نے سن کر فرمایا کہ بیٹا کچھ خوف نہ کر تو ظالموں کے پنجہ سے بچ گیا۔ ان میں سے ایک بولی کہ اباجان آپ ان کو نوکر رکھ لیں۔ کس لیے کہ آپ کو قوی اور امانت دار آدمی درکار ہے۔ شعیب نے (کہ جس کو تیرو 1 ؎ بھی کہتے ہیں) کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک کا تمہارے ساتھ نکاح کر دوں بشرطیکہ تم ہمارے ہاں آٹھ برس تک رہو اور دس پورے کر دو تو تمہاری مہربانی اور خدا چاہے تو میں تم کو کوئی تکلیف نہ دوں گا۔ تم مجھ کو بہت اچھا پاؤ گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ بہتر مگر جب میں ان دو مدتوں میں سے کوئی پوری کر دوں تو پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا اس کا گواہ ہے۔ آخر موسیٰ (علیہ السلام) کا ان میں سے ایک کے ساتھ کہ جس کا نام صفورا تھا نکاح ہوگیا اور مدت مقررہ تک اپنے خسر کی بکریاں چراتے رہے۔ اس عرصہ میں ان کے ایک بیٹا بھی پیدا ہوا کہ جس کا نام جیرسوم تھا ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) کو وطن کا خیال آیا۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو لے کر چلے، سردی کا موسم تھا، شب میں بیوی کو سردی محسوس ہوئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور 2 ؎ کی طرف آگ کا شعلہ سا دیکھا۔ موسیٰ نے بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں جا کر آگ لاتا ہوں۔ جب وہاں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک درخت آگ کا شعلہ بن رہا تھا مگر جلتا نہیں۔ اس پر خدائے تعالیٰ کی تجلی تھی وہ درحقیقت آگ نہ تھی۔ جب موسیٰ اس کے پاس آئے تو اس پاک درخت میں سے آواز آئی کہ جو اس آگ کے پاس اور جو اس کے اندر ہے وہ مبارک ہے۔ اے موسیٰ میں اللہ رب العالمین ہوں۔ میں تیرا خدا ہوں۔ تو جوتا اتار دے۔ کس لیے کہ یہ جگہ مقدس ہے (درخت نہیں بولا تھا اور نہ وہ آواز حروف و صوت کے ساتھ تھی دراصل وہاں تجلی ذاتی ہو کر اس حالت میں موسیٰ (علیہ السلام) خدا سے ہم کلام ہوئے) اے موسیٰ میں نے بنی اسرائیل کی آواز دردناک سنی اور ان کی آہ وزاری پر مجھ کو رحم آیا تو ان کے پاس جا اور فرعون سے کہہ تو ان کو ان کے ملک میں جانے دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا الٰہی میری کون سنے گا۔ فرعون مجھ کو کب مانے گا۔ خدائے تعالیٰ نے فرمایا تیرے داہنے ہاتھ میں یہ کیا ہے۔ عرض کیا میرا عصا ہے جس سے میں بکریاں ہانکتا ہوں اور بہت سے کام لیتا ہوں۔ فرمایا اس کو زمین پر تو ڈال۔ موسیٰ نے ڈال دیا۔ ڈالتے ہی سانپ بن کر پھن پھنانے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کے بھاگے۔ خدا نے فرمایا کہ مت ڈر تجھ کو اس سے کچھ خوف نہیں۔ رسول میرے پاس خوف نہیں کھاتے تو اس کو پکڑ لے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ لگایا وہ وہیں عصا بن گیا۔ پھر فرمایا اپنا ہاتھ کرتے کے گریبان میں ڈال کر باہر کو لاؤ وہ باہر لائے تو نہایت سفید 3 ؎ اور روشن ہو کر چمکنے لگا۔ کہا پھر اس کو گریبان میں ڈال۔ ڈال کر نکالا تو پھر اصلی حالت پر آگیا۔ خدا نے فرمایا جا میں نے تجھ کو یہ دو معجزے دیے۔ تو فرعون اور بنی اسرائیل کو دکھائیو تاکہ وہ تیری تصدیق کریں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الٰہی مجھ سے ایک فرعونی مارا گیا میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ کو اس کے قصاص میں نہ مار ڈالیں۔ دوم میری زبان میں لکنت ہے میں اچھی طرح بات نہیں کرسکتا۔ میرے ساتھ میرے بھائی کو مقرر کر وہ مجھ سے فصیح ہے۔ خدا نے فرمایا تیرے بھائی کو تیرا قوت بازو بنائیں گے اور ہم تم کو غلبہ دیں گے۔ تمہارے پاس کوئی آنے نہیں پائے گا۔ جاؤ تم کو اور تمہارے تابعداروں کو میں غالب کروں گا وہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) چلے۔ رستہ میں ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) جو ان کی پیشوائی کو کھڑے تھے، 1 ؎ عبرانی محاورہ ہے۔ 12 2 ؎ یہ جگہ کہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آ کر رہے تھے ملک عرب کے شمالی و مغربی کنارے میں واقع ہے کیونکہ ملک عرب و مصر کے بیچ میں بحیرئہ قلزم فاصل ہے اس کے مشرق کی جانب عرب کا پرلا کنارہ ملک مصر سے اور عرب ہی میں ملک مدین اور کوہ طور اور کوہ حویرب ہے چناچہ جب مصر سے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو ادھر سے گزرے تھے۔ 3 ؎ ید بیضا اسی کو کہتے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھا۔ 12 منہ ملے۔ بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دونوں معجزے دکھائے خدا تعالیٰ کا پیغام بشارت التیام سنایا سب سن کر سجدے میں گر پڑے۔ نہایت خوش ہوئے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) بڑی کوشش کر کے فرعون کے پاس گئے اور کہا ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لائے ہیں، آپ مانیے اور خداوند عالم سے ڈر کر راہ راست پر آیئے اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دیجئے ان بیکسوں کو تکلیف نہ دیجئے۔ فرعون نے کہا خداوند عالم کون ہے ؟ میں اس کو نہیں جانتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا وہ ہے کہ جس نے آسمان و زمین ہر چیز کو پیدا کیا۔ فرعون کو تعجب ہوا اور اپنے درباریوں سے کہا ذرا اپنے رسول کی بات تو سنیے کیا محال بات کہتے ہیں۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بلکہ تم سب کا اور تمہارے سب باپ دادوں کا رب ہے۔ یہ سن کر فرعون نے کہا یہ دیوانہ ہے۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بلکہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کا رب ہے۔ اس پر فرعون نے نہایت ناراض ہو کر یہ کہا کہ اگر تو نے میرے سوائے کسی اور کو خدا کہا تو حبس دوام کر دوں گا اور درباریوں سے کہا دیکھو میرے سوائے اور بھی کوئی تمہارا خدا ہے۔ اے ہامان پکی اینٹوں کا ایک بڑا اونچا برج بنائیں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں گا کہ وہ ہے کہاں۔ اور میں تو اس کو سرے سے جھوٹا اور جادو کا مارا ہوا ہی جانتا ہوں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر یہ کہنے لگا کہ تو وہی ہے نا کہ جو مدت تک میری روٹیاں کھا کر بڑا ہوا اور میرے ہاں رہا اور پھر وہ کام کرکے یہاں سے بھاگا کہ جس کو تو خود جانتا ہے۔ میں تجھ پر اے ذلیل ایمان لائوں اور تیری قوم ہمیشہ سے ہماری غلامی کرتی رہی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ کیا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔ خیر اچھا اگر میں آپ کو کوئی معجزہ دکھائوں تب بھی آپ تصدیق کریں گے۔ اس نے کہا وہ معجزہ کیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا کو ڈال دیا پھر وہ اژدہا بن کر فرعون کی طرف لپکا۔ فرعون اور تمام ارکان دولت پریشان ہو کر بھاگنے لگے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا پھر وہ عصا ہوگیا۔ فرعون اور اس کے مصاحب پھر بدستور بیٹھے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکالا تو آفتاب کی طرح چمکنے لگا۔ پھر ڈالا تو بدستور سابق ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعون نے اپنے اہلکاروں اور امیروں سے مخاطب ہو کر کہا یہ بڑا جادوگر ہے اس حیلہ سے چاہتا ہے کہ تم کو اس ملک سے باہر کر دے تمہاری کیا صلاح ہے۔ انہوں نے کہا آپ بھی اپنے ملک کے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کیجئے اور ایک روز مقرر کرکے مقابلہ کرا دیجئے اور ان کو بھی ایسا ہی کرشمہ دکھا دیجئے۔ تب فرعون نے ہر ایک شہر میں اشتہار بھیج دیا اور جادگروں کو بلایا وہ سب روز مقررہ پر جمع ہوئے اور حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) بھی مقابلہ میں آئے اور ایک خلق خدا تماشائیوں کی جمع ہوئی۔ جادوگروں نے فرعون سے عرض کیا کہ اگر ہم غالب آجائیں تو آپ ہم کو کیا انعام دیں گے اس نے کہا تم کو اپنا مقرب بنائوں گا۔ تب جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا آپ پہلے کچھ کرشمہ دکھائیے گا یا ہم دکھائیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پہلے تم ہی کچھ دکھائو۔ جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں اور جو کچھ اسباب طلسم تھا فرعون کا نام لے کر زمین پر ڈال دیا۔ ہر طرف سے سانپ ہی سانپ دکھائی دینے لگے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی جھجکے۔ خدا تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ کیا دیکھتا ہے تو بھی اپنے عصا کو ڈال دے وہ ڈالتے ہی اژدہا بن گیا اور ان کے سانپوں کو لقمہ کر گیا۔ تمام تماشائی اور فرعون ڈر کے مارے تربھر ہوگئے اور ایک غل مچ گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لی اور وہ پھر عصا 1 ؎ ہوگیا۔ جادوگروں نے جب دیکھا کہ یہ کام جادو کی طاقت سے بڑھ کر ہے، وہ خدا سے دل میں ڈر گئے اور سجدہ میں زمین پر گر گئے اور کہنے لگے ہم رب العالمین پر کہ جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے ایمان لائے۔ فرعون کو اس معاملہ سے بڑی خجالت ہوئی۔ غصہ میں آ کر جادوگروں سے کہا تم میری اجازت سے پیشتر کیوں ایمان لائے ؟ بیشک یہ (موسیٰ علیہ السلام) جادو میں تمہارا استاد ہے تم نے باہم اتفاق کرکے یہ مکر بنایا ہے تاکہ یہاں کے باشندوں کو باہر 1 ؎ رسیوں اور عصا کا سانپ بن جانا خلاف عقل بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر ہزارہا اسرار قدرت ایسے ہیں کہ جن کے اسباب خفیہ تک عقول عام کو رسائی نہیں۔ اس لیے حیرت خیز معلوم ہوتے ہیں انکار کی کوئی بات نہیں۔ لطف یہ ہے کہ جیسا ساحروں کا فعل تھا ان کے مقابلہ میں اسی قسم کا مگر ان سے بڑھ کر قوت روحانیہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کام کیا اور یہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی غرض سے تھا۔ 12 منہ نکال دو اب دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ تمہارا ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پائوں کاٹ کر درختوں پر لٹکاتا ہوں تاکہ تم کو معلوم ہو کہ ہم میں سے کون زیادہ اور دائمی عذاب کرسکتا ہے وہ بولے کچھ پروا نہیں۔ آخر ہم کو اس کے پاس جانا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس وجہ سے کہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے گناہ معاف کر دے گا اور ہم تجھ کو اس سے کہ جس نے تم کو پیدا کیا اور جس نے ہم کو اپنی نشانیاں دکھائیں عزیز نہیں جانتے ہیں۔ فرعون نے ان ایمان داروں کو بڑی تکلیف سے قتل کیا مگر وہ بڑی ثابت قدمی سے قائم رہے اور یہ دعا کرتے تھے الٰہی ہم کو صبر دے اور ایمان سے ہمارا خاتمہ کیجیو۔ اس کے بعدفرعون نے غصہ میں آ کر اور بھی بنی اسرائیل کو تکلیفیں دینی شروع کیں۔ پہلے تو اینٹوں کے لیے بھس بھی ملتا تھا اب تو یہ بھی موقوف کیا اور کہا جاؤ تم خود کہیں سے بھس تلاش کرکے لاؤ اور اسی قدر اینٹیں بنا کر دو ۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ ! ہم کو تو تیرے آنے سے پیشتر ہی بہت کچھ ایذائیں دی جاتی تھیں اب تو اور بھی مصیبت میں پڑگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا صبر کرو، ملک اللہ کا ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور انجام کار خدا ترس فلاح پاتے ہیں۔ عنقریب تمہارا رب تم کو وہ زمین عطا کرے گا کہ جس میں برکت ہے اور طرح طرح کے میوے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر فرعون سے کہا کہ دیکھ بنی اسرائیل کو جانے دے اور ان کو تکلیف نہ دے ورنہ خدا تعالیٰ مصر کے پانی کو خون کر دے گا تو اور تیری رعیت بڑی تکلیف پاوے گی۔ اس نے نہ مانا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون سے فرمایا کہ دریائے نیل پر اور ہر ایک نہر اور تالاب پر عصا مار انہوں نے مارا تو وہ سب پانی خون ہوگیا اور دریا کی مچھلیاں مرگئیں اور سات روز تک یہی تکلیف رہی مگر اس سنگدل پر اثر نہ ہوا اور اس کے بعد پھر بحکم خدا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو پیغام بھیجا کہ دیکھ اب بھی بنی اسرائیل کو چھوڑ دے خدا پر ایمان لاؤ ورنہ خدا مینڈکوں کی مصیبت تم پر بھیجے گا اس نے اس کو بھی نہ مانا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ دریا اور نہروں اور تالابوں پر اپنا عصا مار۔ انہوں نے مارا تو بیشمار مینڈک چڑھ آئے اور مصر کی زمین چھپا دی۔ کھانے، پانی، بستر پر ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک دکھائی دیتے تھے۔ فرعون نے تنگ ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بلا کر منت کی کہ خدا تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اس بلا کو دفع کرے اگر ایسا ہوا تو میں بنی اسرائیل کو جانے دوں گا اور خدا پر ایمان لائوں گا۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی وہ سب مرگئے اور ان کے تودے لگا دیے گئے اور زمین سڑ گئی۔ جب فرعون کو مہلت ملی تو پھر برگشتہ ہوگیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے بخکم خدا ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اپنا عصا زمین پر مار۔ انہوں نے مارا تمام جگہ جوئیں ہی جوئیں ہوگئیں۔ سب لوگ عاجز آگئے مگر اس سنگدل نے پھر بھی نہ مانا۔ پھر خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ کل صبح فرعون دریا پر آئے گا تو رستہ میں اس سے مل کر یہ کہہ کہ خدا فرماتا ہے میرے بندوں کو چھوڑ دے ورنہ میں تیرے ملک پر مچھروں کو مسلط کروں گا اور سوائے زمین جشن کے کہ جہاں بنی اسرائیل رہتے ہیں سب تکلیف پائیں گے۔ اس نے نہ مانا اور خدا نے یوں کیا جس سے فرعون اور اس کے گھر والے اور تمام اہل مصر چیخ اٹھے۔ تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ اچھا باہر جا کر کیا کرو گے جس لیے تم باہر جانا چاہتے ہو یعنی قربانی سو تم اپنے خدا کے لیے یہیں کرلو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ نہیں ہوسکتا کس لیے کہ اہل مصر گائے اور بیل کو پوجتے ہیں اگر ہم اسی جگہ ان کی اپنے خدا کے لیے قربانی کریں گے تو وہ ہم پر پتھراؤ کر ڈالیں گے ہم تین دن کی راہ بیابان میں جا کر جس طرح خدا فرماتا ہے قربانی کریں گے۔ تب فرعون نے کہا اچھا یوں ہی سہی مگر بہت دور نہ جانا اور میرے لیے اپنے خدا سے دعا کرو کہ وہ اس بلا کو ٹالے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی وہ سب دفع ہوگئے۔ فرعون مہلت پا کر پھر پھر گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم الٰہی پھر فرعون سے درخواست کی اور کہا اگر نہ مانے گا تو خدا تعالیٰ تمہارے مواشی میں موت بھیجے گا چناچہ اس نے نہ مانا تو خدا نے ایسی مری بھیجی کہ مصریوں کے تمام جانور مرگئے۔ گھوڑا، گدھا، اونٹ، بیل، کچھ نہ بچا، مگر بنی اسرائیل کا ایک جانور بھی نہ مرا، اس پر بھی فرعون نہ مانا پھر خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بھٹی کی تھوڑی سی راکھ لے کر آسمان کی طرف اڑا دو ۔ انہوں نے اڑا دی جس سے ملک مصر میں تمام آدمیوں اور جانوروں کے بدن پر پھوڑے پھنسیاں اس کثرت سے پیدا ہوئیں کہ الامان، مگر پھر بھی فرعون نے نہ مانا۔ پھر خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ فرعون سے جا کر کہہ کہ وہ تجھے رستہ میں ملے گا کہ بنی اسرائیل کا خدا تجھ کو فرماتا ہے تو ایمان لا اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دے ورنہ میں سخت وبا بھیجوں گا تو اب تک اپنے تکبر سے باز نہیں آتا۔ دیکھ کل میں بڑے بڑے اولے برسائوں گا کہ آج تک ابتدائے مصر سے کبھی نہیں برسے۔ اے موسیٰ ! تو اپنے لوگوں کو خبر کر دے میدان میں جو کچھ ان کا مال اور جانور ہیں ان کو گھر میں لے آئیں پس وہ لائے اور فرعون کے نوکروں میں سے جو خدا سے ڈرتے تھے وہ بھی لائے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم الٰہی اپنا عصا آسمان کی طرف اٹھایا تو ابر نمودار ہوا اور ہیبت ناک کڑک اور بجلی نمودار ہوئی اور ایسے بڑے بڑے اولے پڑے کہ جس سے چرند پرند، انسان، حیوان، درخت اور کھیتی سب کا ستیاناس ہوگیا مگر جشن میں اولے نہ پڑے تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بلا کر کہا بیشک میں نے گناہ کیا، خدا عادل ہے تم دعا کرو کہ پھر اس طرح نہ گرجے نہ اولے برسیں تب میں تمہیں جانے دوں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی وہ بلا دفع ہوگئی۔ مگر فرعون سرکش ہوگیا۔ پھر خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ فرعون کو کہہ کہ دیکھ اب بھی باز آ اور میرے بندوں کو جانے دے اور میرے آگے عاجزی کر ورنہ میں تمام مملکت مصر میں ٹڈیاں بھیجوں گا کہ جو کچھ اولوں سے باقی رہ گیا ہے اس کو بھی چاٹ جائیں گی۔ جب وہ یہ کہہ کر وہاں سے نکلے تو قال رجل من آل فرعون۔ فرعون کی قوم اور نوکروں میں سے بعض لوگوں نے فرعون کو سمجھایا کہ جانے دیجئے دیکھئے مصر اجڑ گیا بالخصوص ایک دیندار نے کہ جو اپنا ایمان مخفی رکھتا تھا یہ کہا کہ تم ایسے شخص کو (کہ جس کے بہت سے معجزات دیکھ چکے ہو اس گناہ پر) قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ خدا کو اپنا رب کہتا ہے۔ صاحبو ! اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا وبال اس پر پڑے گا ورنہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بلاتم پر نازل ہوگی اور آج تم کو خدا نے ملک اور زور دے رکھا ہے۔ اگر تم پر کوئی عذاب الٰہی نازل ہوگیا تو مجھ کو کوئی اس کا رفع کرنے والا بھی نہیں دکھائی دیتا۔ فرعون نے کہا کہ جو کچھ میری رائے میں آتا ہے وہی صواب ہے اور میں تم کو بھلائی کا راستہ بتاتا ہوں اس دیندار نے کہا کہ مجھ کو تو اس قوم کی بربادی دکھلائی دے رہی ہے جس طرح کہ عاد وثمود اور قوم نوح وغیرہم تباہ برباد ہوگئے تم بھی برباد ہو گے اور خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا اور مجھ کو ایک شدنی بربادی کا خوف ہے جس دن کہ تم پس پا ہو کر بھاگو گے پھر کوئی خدا کے ہاتھ سے بچانے والا نہیں اور تمہاری سمجھ میں میری نصیحت نہیں آتی کس لیے کہ جن کو خدا برباد کرنا چاہتا ہے تو پھر ان کو کوئی ہدایت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح فرعون کی بیوی بھی دیندار فرعون کی حرکات سے نالاں تھی آخر اس نے یہ دعا کی کہ الٰہی مجھ کو فرعون اور اس کی تکلیف سے نجات دے اور اپنے پاس بلا کر جنت میں رکھ، چناچہ خدا نے اس کی دعا قبول کی۔ القصہ فرعون نے کہا کہ اچھا مرد چلے جائیں اور جا کر قربانیاں کریں اور سب کچھ یہیں رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یوں نہیں بلکہ سب کچھ لے کر جائیں گے۔ اس پر فرعون خفا ہوا اور دھکے کر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو دربار سے نکلوا دیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم خدا اپنا عصا اٹھایا تو خدا نے تمام دن اور تمام رات پروا آندھی چلائی۔ اگلے روز صبح ہوتے ہی بیشمار ٹڈیاں آئیں اور تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا اور تمام ملک مصر میں کسی درخت پر اور میدان کی گھاس میں سبزی نہ چھوڑی۔ تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو جلد بلایا اور کہا میں تمہارے خدا کا اور تمہارا گناہ گار ہوں سو میں نیت کرتا ہوں کہ اس مرتبہ میرا گناہ بخشوا دو اور اپنے خدا سے دعا کرو کہ اس بلا سے نجات دے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اور تمام ملک میں ایک ٹڈی نہ رہی لیکن فرعون پھر سرکش ہوگیا۔ پھر خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف لمبا کر تاکہ ملک مصر میں تاریکی ہو ایسی تاریکی کہ ایک کو دوسرا نظر نہ آئے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا کیا اور تین روز تک روئے زمین پر سخت اندھیرا رہا تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ تم اور تمہارے بچے جاویں اور گلے اور گائے بھینسیں سب یہیں رہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ منظور نہیں بلکہ ایک جانور بھی نہ چھوڑا جائے گا۔ اس پر فرعون بہت خفا ہوا اور کہا میرے سامنے سے چلا جا پھر کبھی مجھے منہ نہ دکھانا ورنہ مارا جائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بہتر اب میں تیرا منہ نہ دیکھوں گا۔ پھر خدا تعالیٰ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰ العالمین آپ نے تو فرعون اور اس کی قوم کو وہ مال اور زینت دنیا میں دے رکھی ہے کہ جس سے وہ اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ الٰہی ان کے مال کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں پر سخت صدمہ پہنچا۔ یہ بغیر اس بات کے کہ کوئی عذاب الیم دیکھیں ہرگز ایمان نہ لاویں گے خدا نے فرمایا تمہاری دعا مقبول ہوئی۔ اس نے بہت سے معجزے دیکھے اور ایمان نہ لایا دیکھو میں اب ان پر ایک ایسی بلا نازل کرتا ہوں کہ جس سے کلیجہ تھام کر رہ جائیں اور اس کے بعد خود بخود تمہیں یہاں سے نکالیں مگر تم اس مہینے کی دسویں تاریخ اپنے گھروں کو قبلہ 1 ؎ بنائو اور فی گھر ایک بکرا بےعیب لے کر چودھویں تک رکھ چھوڑ اور شام کو اس کو ذبح کرکے خدا کے نام پر بھون کر کھا جانا۔ یہ تمہاری عبادت اور عید فسح ہے اور اس بکرے کے خون سے دروازوں پر نشان کر دیجئو اور اس سے پیشتر ہر ایک شخص اور ہر ایک عورت اپنے ہمسایہ سے چاندی اور سونے کے برتن اور زیور عاریتاً لیوے اور میں مصریوں کی آنکھوں میں تمہیں عزیز کروں گا۔ وہ تمہیں دیویں گی پس اس رات کو خدا تعالیٰ کا فرشتہ مصر میں گزرے گا جس کا گھر قبلہ نہ ہوگا یعنی عید فسح کا نشان خون نہ ہوگا اس گھر میں ہر ایک انسان اور حیوان کا پہلوٹھا مرے گا۔ چناچہ سب بنی اسرائیل نے ایسا کیا اور آدھی رات کو خدا کا فرشتہ ملک الموت مصر میں آیا جس سے امیر سے لے کر فقیر اور انسان سے لے کر حیوان تک سب کا پہلا بچہ مرگیا اور مصر میں گھر گھر ایک سخت ماتم برپا ہوگیا کہ نہ ایسا کبھی ہوا تھا اور نہ ہوگا۔ تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو رات ہی کو بلایا اور کہا کہ اٹھو اور میرے لوگوں میں سے نکل جائو اور تمام بنی اسرائیل جائیں اور اپنے گلہ اور مویشی بھی لے جائیں اور اپنے خدا کی قربانیاں کریں اور میرے لیے بھی برکت چاہیں۔ یہ سمجھ کر کہ اگر یہ یہاں سے نہ جاویں گے تو ہم سب مرجاویں گے۔ ان لوگوں کے نکالنے میں بڑی سختی کرتے تھے اس لیے ان لوگوں نے آٹا گندھا ہوا پیشتر اس سے کہ وہ خمیر ہو آٹے کو لگنوں سمیت کپڑوں میں باندھ کر اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ اگلی آیت میں
Top