Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 52
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر عَفَوْنَا : ہم نے معاف کردیا عَنْكُمْ : تم سے مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ذَٰلِکَ : یہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر اس کے بعد بھی ہم نے تم کو معاف کردیا تاکہ تم شکر کرو
بقیہ پچھلی آیت میں پائو گے پس موسیٰ نے کہا الٰہی میں اور میرا بھائی تیری بندگی کو حاضر ہیں اور باقی اس فاسق قوم سے مجھ کو کچھ سروکار نہیں ہم کو ان سے جدائی نصیب کر۔ تب قہرالٰہی نمودار ہوا اور یہ فرمایا کہ مجھے اپنی حیات کی قسم جس طرح اس قوم نے باوجودیکہ ہزارہا معجزات دیکھ چکے ہیں میری نافرمانی کی میں ان کو اس بیابان میں ہلاک کر دوں گا۔ وقت خروج سے جس کی 20 برس کی عمر تھی یا اس سے اوپر ان میں سوائے کالب اور یوشع کے کوئی بھی ملک کنعان میں نہیں پہنچا۔ وہ تمام لوگ چالیس برس تک فاران کے جنگل میں مقام اور کوچ کرتے رہے تخمیناً بیس بار کوچ کیا کئی کئی برس ایک جگہ گزار دیے جب یہ سب مرچکے تو نئی نسل بنی اسرائیل نے ملک کنعان کا رخ کیا۔ تورات سفر عدد کے 16 باب میں یہ قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص قارح کہ جس کو قارون بھی کہتے ہیں موسیٰ کا قرابتی تھا یعنی چچازاد بھائی تھا قہات کا اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمْ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِ وَ آتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوْزْ اِنَّ مُفَاتِحَہٗ لَتُنْوا بْالْعُصْبَۃِ خدا نے اس قدر اس کو مال و دولت دیا تھا کہ چند قوی آدمی اس کی کنجیاں اٹھایا کرتے تھے۔ اس کو موسیٰ ( علیہ السلام) پر رشک آیا اور بہت سے بنی اسرائیل کے سرداروں کو موسیٰ کے مقابلہ میں اٹھایا موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس کو بلایا وہ نہ آیا آخر یہ ہوا کہ وہ بڑے تجمل کے ساتھ اپنی قوم کے روبرو جماعت کے خیمہ کے پاس آیا۔ پس غصب الٰہی بھڑکا جو ان کے نیچے کی زمین تھی پھٹی اور زمین نے اپنا منہ کھولا اور انہیں اور ان کے گھروں اور ان سب آدمیوں کو جو قارح کے تھے اور ان کے سب مال کو نگل گئی (32 درس) فخرج علیٰ قومہ فی زینتہا الآیۃ فخسفنابہ وبدارہ الارض الآیۃ اس واقعہ عبرت خیز سے تمام لوگ ڈر گئے اور جو اس کے مال و جاہ کی حسرت کرتے تھے حذر کر گئے اس کے بعد پھر بنی اسرائیل نے موسیٰ کی شکایت کی اور ان کے مارنے کا الزام لگایا تو ان پر وبا آئی جس میں چودہ ہزار بنی اسرائیل مرگئے اور پھر موسیٰ کی دعا سے دور ہوئی۔ تورات سفر عدد کے 19 ویں باب میں یہ قصہ بھی ہے کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک گائے کو ذبح کرو (بعد حجت بسیار قرار پایا کہ) وہ سرخ رنگ بےداغ بےعیب ہو جس پر جوا نہ رکھا گیا ہو۔ (2) اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفَرَآئُ فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّا النَّاظِرْیْنَ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّاذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَاتَسْقِی الْحَرْثَ الآیۃ مگر تورات میں صرف یہ ہے اس گائے کے ذبح کرنے سے یہ مقصود تھا کہ جلا کر راکھ کریں اور دستور بنی اسرائیل کے موافق یہ راکھ خیمہ گاہ کے باہر دھری جاوے کہ جو بنی اسرائیل پر کاہن یعنی امام چھڑکتا تھا اور قرآن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس گائے کا ایک ٹکڑا لے کر اس میت کے بدن پر مارا جائے کہ جس کو اس کے وارثوں نے قتل کیا تھا اور قاتل کا پتا نہ ملتا تھا کہ یہ شخص زندہ ہو کر قاتل کو بتا دے چناچہ ایسا ہوا۔ یہ اختلاف قلیل ہے غالباً مشائخِ یہود کے سہو سے ظہور میں آیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل نے قاوس میں قیام کیا۔ ہارون کی بہن مریم کا یہیں انتقال ہوا۔ چونکہ یہاں پانی نہ ملتا تھا اس لیے پھر بنی اسرائیل نے غل مچایا اور کفر بکنا شروع کیا۔ تب خدا نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو فرمایا کہ اس چٹان کو جو ان کے سامنے ہے اپنا عصا مار۔ چناچہ انہوں نے عصا مارا پانی چٹان سے نکلا کہ سب نے پیا اور ان کے چارپائے بھی سیراب ہوگئے لیکن خدا تعالیٰ ان سے سخت ناراض ہوا۔ پھر موسیٰ ( علیہ السلام) نے ادوم کے بادشاہ پاس ایلچی بھیجا کہ آپ کے ملک میں سے ہمارا راستہ ہے ہم راہ راست چلے جائیں گے تمہاری گھاس اور باغوں اور کھیتوں کو ہرگز نہ چھوئیں گے اور جو کچھ لیں گے تو قیمتاً لیں گے مگر اس نے منظور نہ کیا۔ تب ساری جماعت بنی اسرائیل کوہ طور پر آئی اور اس کے ملک کو چھوڑ دیا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم آیا کہ اس پہاڑ پر ہارون کا انتقال ہوگا تو اس کے کپڑے اس کے بیٹے الیعذر کو پہنا دے چناچہ ہارون نے پہاڑ کی چوٹی پر رحلت کی اور بنی اسرائیل نے تیس روز تک ماتم کیا۔ خروج کے چالیسویں سال بنی اسرائیل ملک ادوم کے کنارے کنارے سفر کرتے ہوئے ملک کنعان کے قریب پہنچے تو وہاں کے بادشاہ عرادؔ نے جس کا پایہ تخت دکھن کی طرف تھا یہ سنا تو آمادئہ جنگ ہوا اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو گرفتار کر کے لے گیا۔ بنی اسرائیل نے خدا سے عاجزی کرکے منت مانی اور اس سے پھر لڑائی کی تو کنعانیوں کو گرفتار کرلیا اور ان کی بستیوں کو نابود کردیا۔ وہاں سے کوچ کرتے کرتے مواب میں پہنچے اور وہاں حسبون کے رہنے والے سیحون نام بادشاہ سے کہلا بھیجا کہ ہم کو اپنے ملک کی سرحد سے گزر جانے دے مگر اس نے نہ مانا۔ لڑائی ہوئی بنی اسرائیل نے فتح پائی اور حسبون اور اس کے گرد و نواح کے سب شہر قبضہ میں آئے (اس وقت ملک شام میں طوائف الملوکی تھی چھوٹے چھوٹے رئیس تھے) وہاں سے بنی اسرائیل یعزیر کو فتح کرتے ہوئے بسن میں پہنچے وہاں بمقام اداراعی وہاں کے بادشاہ عوج سے سخت مقابلہ ہوا اور اس کا قد لمبا ہوگا جو یہود میں مشہور ہوا اور پھر قارون کے مال اور رستم کی شجاعت حاتم کی سخاوت کی طرح عام میں شہرت ہوگئی اور قصہ گویوں نے مبالغہ کرنے شروع کردیے۔ انجام کار بنی اسرائیل نے اس کو مع زن و فرزند قتل کرکے اس کا ملک لے لیا اور اب بنی اسرائیل پھیلتے چلے یہاں سے بڑھ کر نہر یرون کے پاس شہر یریحو کے مقابلہ میں جس کو اریحا بھی کہتے ہیں مقام کیا وہاں کے بادشاہ بلقؔ بن صفوان کو بڑا خوف پیدا ہوا اور تمام موابی ڈر گئے اور اس نے شہر فتور میں بلعم بن عور کے پاس جو اس زمانہ میں ایک بڑا بابرکت شخص مشہور تھا پیغام بھیجا کہ مصر سے ایک قوم مور و ملخ کی مانند آئی ہے اور سب ملکوں پر پھیلتی جاتی ہے آپ آیئے اور ان کے حق میں بددعا کیجئے۔ خیر وہ بڑی حیل و حجت کے بعد آئے مگر رستہ میں ان کی سواری کا خچر بیٹھ گیا۔ بہت مارا پیٹا مگر نہ اٹھا۔ پھر خدا نے خچر کا منہ کھول دیا اس نے کہا تو مجھ کو کیوں مارتا ہے خدا کا حکم نہیں تو فرشتہ کو نہیں دیکھتا جو مانع آرہا ہے۔ الغرض بلعم بادشاہ پاس آئے اور بددعا کرنے سے عذر کیا مگر بادشاہ نے نہ مانا بددعا کی جگہ دعا منہ سے نکلتی تھی آخر بادشاہ ناراض ہوا۔ بلعم واپس پھر گیا آخر بنی اسرائیل سے مقابلہ کرکے شکست فاش پائی اس ملک پر بنی اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل نے سطیم پر خیمہ قائم کیا۔ بنی اسرائیل کی شکست کا ایک سامان پیدا ہوا کہ انہوں نے موابی عورتوں سے حرام کاری اور ان کے بت پوجنے شروع کئے جس سے ان پر سخت وبا آئی کہ چوبیس ہزار آدمی مرگئے مگر ہارون کے پوتے فینحاس نے بڑی ہوشیاری کی کہ کزبی کو کہ جس کے خیمہ میں وہ فاحشہ تھی اور اس فاحشہ کو قتل کردیا۔ وبا دفع ہوگئی۔ بنی اسرائیل کی شکست کی تدبیر مدیانی لوگوں نے نکالی تھی۔ اس لیے بارہ ہزار لشکر بنی اسرائیل ان پر جا چڑھا۔ مدیان کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کیا اور بلعم بن عور کو بھی قتل کیا۔ (غالباً جب دعا کا اثر نہ ہوا بلعم نے زنا کی تدبیر بتائی ہوگی) اس کے بعد خدا نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم کیا کہ تیری وفات کے دن قریب آپہنچے تو اباریم کے اس پہاڑ پر چڑھ کہ میں تجھ کو وہ ملک دکھائوں جو میں نے بنی اسرائیل کو عنایت کیا ہے تب موسیٰ ( علیہ السلام) نے یوشع بن نون کو اپنا قائم مقام کیا اور الیعذر ہارون کی جگہ امام ہوا اور صندوق شہادت کہ جس کو تابوت سکینہ کہتے ہیں اور جس میں من کا مرتبان اور ہارون کی چھڑی اور تورات رکھی تھی بنی لاوی کو سپرد کیا اور بہت کچھ بنی اسرائیل کو وصیت اور نصیحت کی اور سب کچھ ذکر کرکے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا عہد آنے والا یاد دلایا کہ میری مانند ایک اور نبی اولو العزم آئے گا ایسا نہ ہو کہ اس کی نافرمانی کرکے مصیبت ابدی میں گرفتار اور ہمیشہ کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجائو۔ پھر موسیٰ ( علیہ السلام) سب سے رخصت ہو کر نیو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے اور دریائے یرون کے پرلے پار پر کچھ ملک خدا نے بنی اسرائیل کو دینا کیا تھا دیکھا اور وہاں جاں بحق ہو کر اپنے لوگوں میں مل گئے اس وقت ان کی عمر ایک سو بیس برس کی تھی بنی اسرائیل موسیٰ ( علیہ السلام) کے لیے سو اب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے۔ فصل : موسیٰ ( علیہ السلام) کی زندگی میں یرون پار کا ملک فتح نہ ہوا تھا۔ یرون شام میں ایک دریا جاری ہے جس میں حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے غوطہ لگایا تھا۔ پس یوشع نے بنی اسرائیل کو آمادہ کیا اور اس وقت بنی اسرائیل سے ان لوگوں سے جو مصر سے بیس برس کی عمر میں نکلے تھے کوئی باقی نہ رہا سوائے کالب اور یوشع کے اس زمانہ میں دریائے یرون کا پل نہ تھا جس طرح موسیٰ ( علیہ السلام) نے قلزم سے لوگوں کو پار کیا تھا اسی طرح دریا بیچ سے خشک ہوگیا اور تمام بنی اسرائیل اتر گئے اور جا کر شہر یریحو پر حملہ کیا۔ رفتہ رفتہ وہ تمام ملک فتح کرکے بنی اسرائیل کو تقسیم کردیا اور نابلس کے پاس حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی ہڈیوں کو دفنا دیا۔ یہیں پر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی بیع بھی ہوئی تھی یہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات سے اٹھائیسویں برس وفات کر گئے۔ ان کے بعد فنیح اس ہارون ( علیہ السلام) کے پوتے تخت حکومت پر بیٹھے اور کالب بھی سرداری کرتے رہے۔ سترہ برس تک یہی معاملہ رہا پھر بنی اسرائیل نے خدا کی نافرمانی کی تو ان پر کو شان جزیرہ قبرص یا ارمن کا بادشاہ چڑھ آیا جو عیص کی نسل سے تھا۔ پس آٹھ برس تک اس کی حکومت رہی تب بنی اسرائیل نے گریہ وزاری کی تو خدا نے غیثال کے بھائی کالاب کو ہمت عطا کی اس نے بنی اسرائیل کو کو شان کے پنجہ سے چھڑایا۔ اس کی چالیس برس تک حکومت قائم رہی پھر یہ سن بانوے موسوی میں مرگئے ان کے بعد پھر بنی اسرائیل نے بت پرستی شروع کی تو خدا نے غفلون بادشاہ مواب کو مسلط کیا۔ یہ نسل لوط سے تھا پھر جب بنی اسرائیل نے گریہ وزاری کی تو آہوذ کو بنی اسرائیل میں قائم کیا۔ اس نے پھر بنی اسرائیل کی حکومت قائم کی اور اسی برس تک اس کی حکومت رہی۔ پس جب یہ سن ایک سو نوے موسوی میں مرگیا تو شنکار بادشاہ ہوا اور ایک سال کامل بھی اس کی حکومت نہ رہی کہ یہ مرگیا اس کے بعد پھر بنی اسرائیل نے بت پرستی اور گناہ گاری کی جس لیے اس پر ملک شام کا بادشاہ یابین نام مسلط ہوا اور بیس برس اس کی حکومت بنی اسرائیل پر رہی۔ پھر جب تائب ہوئے تو بنی اسرائیل میں سے ایک شخص باراق نام اور ایک عورت جس کا نام دیورا تھا دو سو گیارہ موسوی میں قائم ہوئے اور انہوں نے بابین سے بنی اسرائیل کو چھڑایا اور چالیس برس تک خوب حکومت کرکے مرگئے۔ ان کے بعد پھر بنی اسرائیل نے خدا کی نافرمانی کی تب ان پر سات برس تک ان کے دشمن اہل مدین کا قبضہ رہا۔ پھر جب تائب ہوئے تو خدا نے دو سو اٹھاون موسوی میں بنی اسرائیل میں سے کذعون کو بادشاہ کیا۔ اس نے ان کو مخلصی دی اور چالیس برس تک خوب انتظام بنی اسرائیل کیا۔ پھر اس کی وفات کے بعد دو سو اٹھانوے موسوی میں اس کا بیٹا ابی مالخ تخت نشین ہوا اور تین برس حکومت کرکے مرگیا اس کے بعد یواویرجرشی بادشاہ ہوا اور بائیس برس حکومت کرکے مرگیا۔ 224 م میں۔ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل نے سرکشی کی تو ان پر موابیوں میں سے امونیطو بادشاہ اٹھارہ برس تک مسلط رہا۔ پھر بنی اسرائیل خدا کی طرف ملتجی ہوئے اور روئے تو ان میں سے یفتح جرشی 341 م میں کھڑا ہوگیا اور اس نے اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور بیشمار موابیوں کو قتل کیا۔ آخر چھ برس حکومت کرکے مرگیا۔ اس کے بعد ابصن بادشاہ ہوا اور سات برس حکومت کرکے 354 م میں مرگیا۔ اس کے بعد الون حاکم ہوا اور دس برس کے بعد مرگیا۔ اس کے بعد عبدون آٹھ برس تک حکومت کرتا رہا اور 372 موسوی میں مرگیا اس کے بعد پھر بنی اسرائیل نے بےدینی اختیار کی تو خدا نے ان پر فلسطین والوں کو چالیس برس تک مسلط رکھا۔ تب بنی اسرائیل روئے چلائے تو خدا نے ان میں سے شمسون جبارکو قائم کیا اس نے بنی اسرائیل کو 412 م میں ان کے ہاتھ سے رہائی دلائی اور بیس برس تک حکومت کی اس پر اہل فلسطین غالب آئے اور اس کو پکڑ لے گئے اور اپنے کنیسہ کی ستون سے باندھ دیا چونکہ یہ بڑا زور آور تھا اس نے جو زور کیا تو وہ ستون اکھڑ گیا اور چھت گر پڑی وہ بھی اور بڑے بڑے سردار اہل فلسطین سب دب کر مرگئے۔ اس کے بعد دس برس تک بنی اسرائیل بےسردار رہے پھر 442 م میں ایک شخص جس کا نام عالی تھا بنی اسرائیل میں بادشاہ ہوا یہ بڑا نیک بادشاہ ہوا اس کی تخت نشینی کے اول سال حضرت سموئیل ( علیہ السلام) گیارہ برس تک بنی اسرائیل کا انتظام کرتے رہے اب تک بنی اسرائیل کے جو حاکم یا بادشاہ تھے تو بمنزلہ قاضیوں کے تھے جس طرح قوم یا بستی کے چودھری اور سردار فیصلہ جات اور سب کاروبار کرتے ہیں یہ لوگ کرتے تھے۔ یہ زمانہ 493 م تک رہا اس کے بعد سلطنت کا طور قائم ہوا اور اس کا یہ بیان ہے۔ فصل : بنی اسرائیل نے حضرت سموئیل ( علیہ السلام) سے یہ کہا کہ آپ ہم میں کوئی بادشاہ قائم کر دیجئے کہ ہم اس کی مدد سے اپنے مخالفوں سے جنگ کریں۔ اذقالوا لنبی لہم ابعث لنا ملکانقاتل فی سبیل اللہ انہوں نے ساول کو کہ جنہیں طالوت بھی کہتے ہیں بادشاہ مقرر کیا۔ یہ بنیامین کی اولاد میں سے تھا چونکہ یہ شخص خاندانی نہ تھا تو بنی اسرائیل نے کہا انی یکون لہ الملک علینا و نحن لہ الملک علینا احق بالملک منہ ولم یوت سعۃ من المال کہ اس کو مال و دولت میں کچھ وسعت نہیں اس سے تو ہم مستحق زیادہ ہیں کہ بادشاہ بنائے جائیں۔ سموئیل نے فرمایا خدا نے اس کو علم اور جسم میں وسعت دی ہے اور اس کی سلطنت کی یہ علامت ہے کہ صندوق شہادت کہ جس کو اہل فلسطین لڑائی میں لوٹ کرلے گئے تھے از خود واپس آجائے گا۔ چناچہ وہ تابوتِ 1 ؎ سکینہ کہ جس میں موسیٰ اور ہارون کے تبرکات اور الواح اور من کا مرتبان تھا انہوں نے از خود واپس کردیا۔ ملائکہ نے بنی اسرائیل میں لا کر دھر دیا اور ساول چونکہ خوبصورت اور دانا بھی تھا پس ان وجوہ سے بنی اسرائیل نے ان کو بادشاہ بنا لیا۔ پھر طالوت نے عمالیق پر فتح پائی اور کئی شہر اپنے قبضہ میں لایا اور فلسطینیوں سے بھی مقابلہ کی ٹھہرائی۔ ان کا سردار جالوت بڑا قد آور اور بہادر تھا اس کے مقابلہ میں کسی کی طاقت نہ پڑی۔ پھر صموئیل نے فرمایا اس کو ایک شخص قتل کرے گا کہ جس کی 1 ؎ یہ صندوق بنی اسرائیل کے ہاں نہایت سخت وقت پر خیمہ جماعت سے باہر نکالا جاتا تھا بلکہ جب کہ غنیم نہایت طاقتور ہوتا تھا تو اس کے مقابلہ میں اس کو بھی ساتھ لے جاتے تھے پھر اس کی برکت سے فتح پاتے تھے۔ اس صندوق کو بھی لوٹ کرلے گئے مگر اس سے ان کو نحوست معلوم ہوئی تو واپس کردیا۔ خدا نے علامات مجھ کو بتائی ہیں چناچہ سموئیل نے موضع بیت اللحم میں جا کر بیشا بن عوفیذ بن بوغر بن سلمون سے کہا کہ تو اپنے بیٹوں کو دکھا اس نے سات بیٹے علاوہ دائود کے بلائے۔ مگر سموئیل کے پسند نہ آئے کہا کوئی اور بھی بیٹا ہے ؟ کہا ہے، باہر بکریاں چراتا ہوگا اس کو بلایا تو سموئیل نے اس کو پسند فرمایا اور اس کے سر پر تیل ڈالا پھر دائود بھی لشکر میں شریک ہوئے اور لشکر میں یہ حکم دیا کہ جو کوئی اس ندی سے جو راستہ میں حائل ہے ایک چلو سے سوا پانی پئے گا وہ میرا نہ ہوگا اور جو نہ پیوے گا وہ میرے ساتھ آوے۔ چناچہ بہت نے پیاس کا صبر نہ کیا اور پانی پی لیا ان بےصبروں کو دور کیا اور چند خاصان خدا کو ساتھ لے کر مقابلہ ہوا جب جالوت کا لشکر اور شوکت دیکھی تو لوگ گھبرا اٹھے مگر دائود نے سب کو تسلی دی اور جالوت سے مقابل ہوئے اور اللہ کا نام لے کر جو گوپیے میں دھر کر ایک پتھر مارا تو جالوت کے سر پر پڑا۔ وہ برج دھم سے زمین پر گرگیا ۔ پھر اسی کا تیغہ لے کر سر قلم کردیا۔ تمام بنی اسرائیل میں اس جوانمردی کی دھوم ہوگئی اور بادشاہ طالوت نے اپنی بیٹی حسب وعدہ دائود ( علیہ السلام) سے بیاہ دی مگر دل میں اس کی شہرت پر رشک و حسد ہوا کئی بار دائود کا قتل کروانا چاہا مگر کامیاب نہ ہوا۔ آخر یہ بادشاہ مع اپنے کئی لڑکوں کے فلسطینیوں کی جنگ میں مارا گیا۔ دائود ( علیہ السلام) بادشاہ ہوگئے مگر بنی اسرائیل کے گیارہ فرقوں پر طالوت کے بیٹے ایش بوست (انسبت) کی حکومت ہوگئی۔ چھ برس کے بعد ایش بوست نے وفات پائی۔ تمام حکومت حضرت دائود ( علیہ السلام) کے حصہ میں آئی اس وقت ان کی عمر چھتیس برس کی تھی۔ اس کے بعد دائود ( علیہ السلام) نے فلسطین اور گان اور مواب اور ارمن وغیرہ بہت سے ملک فتح کئے۔ مصر تک اور ادھر دمشق تک ملک کو وسعت دی اور ان کی حیات میں ان کے بیٹے ابشاوم نے ان پر بغاوت کی مگر وہ ناکام رہا انہوں نے اپنی حیات میں شہر یروشلم میں خدا تعالیٰ کے لیے مسجد یعنی بیت المقدس بنانے کی تیاری کی مگر اتمام نہ ہوسکا۔ آخر ساٹھ برس کی عمر میں 535 م میں وفات پائی اور ان کی جگہ ان کے بیٹے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) تخت نشین ہوئے اور سات برس تک اپنے باپ کی وصیت بموجب بیت المقدس کی تعمیر میں لاکھوں روپیہ صرف کرکے اس کو نہایت شان و شوکت سے تیار کیا۔ اس مسجد کا طول 60 گز عرض 20 گز اور بلندی 30 گز تھی اور اسی کو اہل کتاب ہیکل کہتے ہیں۔ اس کے تمام مکانات کی کیفیت کتاب تاریخ میں بہ تفصیل مذکور ہے اور سلیمان ( علیہ السلام) کی حکومت کا ایسا شہرہ دنیا میں پھیلا کہ روئے زمین کے بادشاہ ان سے ڈرنے لگے۔ ملک یمن کی بیگم بلقیس ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ چالیس برس سلطنت کرکے باون برس کی عمر میں 575 م میں جاں بحق ہوگئے ان کے بعد ان کا بیٹا 1 ؎ رحبعام جو بدشکل اور بیوقوف تھا، تخت نشین ہوا اس کی سختی سے بنی اسرائیل کے دس اسباط اس کی اطاعت سے نکل گئے۔ صرف سبط یہود اور سبط بنیامین پر حکومت باقی رہ گئی اور ان دس اسباط کا بادشاہ یربعام ہوگیا۔ یہ شخص کافر بدکیش تھا اس زمانہ میں سلطنت بنی اسرائیل کے دو حصے ہوگئے۔ اس بڑے حصہ کی سلطنت کا پایہ تخت شہر حبرون ہوا اور اسرائیلی سلطنت نام ہوا۔ دوسرے کا پایہ تخت شہر یروشلم قرار پایا۔ ان دونوں سلطنتوں میں باہم جنگ وجدال اور حرب و قتال ہوا کرتے تھے اور ان میں سے کوئی بادشاہ دیندار ہوا کرتا تھا تو شریعت اور تورات کی پابندی کرتا تھا دوسرا بت پرستی اور معصیت کو رواج دیتا۔ علماء و انبیاء کو چن چن کر قتل کرتا تھا۔ سلطنت اسرائیل کے دو سو اکسٹھ برس میں یکے بعد دیگرے سترہ بادشاہ ہوئے پھر 837 م میں یہ سلطنت حزقیا بادشاہ پر تمام ہوگئی۔ اس نے صرف چھ برس سلطنت کی۔ رحبعام کے بعد اس کا بیٹا ابیاہ تخت پر بیٹھا اس کے بعد اس کا بیٹا آسا تخت پر بیٹھا یہ بھی دیندار تھا اس کے عہد میں غزیاہ نبی تھے اس کے بعد یہوسفط اس کا بیٹا بادشاہ ہوا یہ بھی دیندار تھا اس کے عہد میں ایلیا اعنی حضرت الیاس ( علیہ السلام) تھے جو آسمان پر چلے گئے اور میکیاہ ( علیہ السلام) کا بھی یہی زمانہ ہے جس نے اخی اب کے حق میں قتل کی خبر دی تھی۔ الیاس کے ش اگر الیسع نبی تھے اور زکریا کے بیٹے یعزی ایل بھی اسی عہد میں تھے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا یہورام تخت پر بیٹھا یہ بھی بیدین تھا اس کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا اخزیاہ تخت پر بیٹھا یہ بھی بےدین تھا۔ اس کے باپ کو فلسطینیوں اور عربوں نے غارت کیا تھا اس کو بھی دشمن نے قتل کیا اس کے بعد اس کا بیٹا یوآس بادشاہ ہوا خوب سلطنت کی بیت المقدس کی مرمت از سرِ نو کی۔ 1 ؎ ان کو یسی بھی کہتے ہیں اور ان کے باپ کو عابد۔ 12 اس کے بعد اس کا بیٹا امصیاہ بادشاہ ہوا اس کے بعد اس کا بیٹا غریاہ بادشاہ ہوا اس نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے قول پر عمل کرکے بڑی مراد پائی۔ سلطنت کو قوت دی آخر کار بگڑ گیا اور 799 م میں مرگیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا یوتام تخت نشین ہوا۔ اس نے بھی ملک کو ترقی دی اور دیندار تھا یونس ( علیہ السلام) اسی کے عہد میں تھے۔ اس کے بعد اس کا آخر تخت نشین ہوا۔ اس نے بھی ملک کو ترقی دی اس لیے اس پر مصیبتیں آئیں۔ بیت المقدس میں اس نے بت پرستی کرائی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا حزقیاہ تخت نشین ہوا اس نے بیت المقدس کو نجاستوں اور بتوں سے پاک کیا اور خدا پرستی کو رواج دیا یہ بڑا نیک بادشاہ اور بااقبال تھا۔ حضرت یسعیاہ ( علیہ السلام) جو عاموص کے بیٹے ہیں اسی عہد میں تھے اس کے بعد اس کا بیٹا منسی تخت نشین ہوا۔ یہ بڑا بےدین اور بت پرست تھا۔ اس نے پھر بیت المقدس میں بت پرستی کو رواج دیا مگر جب وہ اس کی شامت سے بابل میں گرفتار ہو کر گیا تو تائب ہوا جس سے پھر اپنے ملک میں آیا اس کے بعد اس کا بیٹا آمون بادشاہ ہوا تو یہ سب سے زیادہ نالائق ہوا۔ بت پرست تھا چناچہ اسی کی نحوست سے مارا گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا یوسیاہ تخت نشین ہوا۔ بڑا دیندار اور بااقبال تھا اس نے پھر بیت المقدس کو پاک و صاف کیا۔ بتوں کو توڑا، تورات کو تلاش کیا۔ تخمیناً اٹھارہ برس تک کہیں پتا نہ ملا کیونکہ وہ بیشمار حوادث میں تلف ہوچکی تھی مگر خلقیاہ کاہن نے کہیں سے تورات کو بہم پہنچایا۔ غالباً یادداشت کے طور پر احکام و قصص جمع کرکے ان کا نام تورات رکھا ہوگا۔ والعلم عند اللہ۔ اس پر شاہ مصر نے چڑھائی کی یہ اس معرکہ میں مارا گیا اور اس کے عہد میں ارمیاہ ( علیہ السلام) تھے اس کے بعد اس کا بیٹا یہو آخر تخت پر بیٹھا لیکن تیسرے مہینہ میں شاہ مصر نے اس کو معزول کرکے اس کے بھائی الیاقیم کو اپنی طرف سے تخت پر بٹھایا اور بدل کر اس کا نام یہویقیم رکھا۔ یہ بڑا بدکار اور بت پرست تھا اس کی تخت نشینی کے چوتھے سال ملک عراق میں جو شہر بابل ہے وہاں بخت نصر 952 م میں تخت پر بیٹھا اور ملک شام پر حملہ آور ہوا۔ بعض کہتے ہیں یہ واقعہ 978 م میں تھا اور مسیح ( علیہ السلام) کی پیدائش سے چھ سو دس برس پہلے ہوا ہے۔ پس بخت نصر اس کو قید کرکے لے گیا اور اس کے ساتھ بہت سے مشائخِ یہود بھی گرفتار ہو کر گئے۔ پھر اس کے بعد یہویکین اس کے ہشت سالہ لڑکے کو لوگوں نے تخت پر بٹھایا۔ سوا تین مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ بخت نصر نے اس کو بھی گرفتار کروا منگایا اور بیت المقدس کے وہ سونے چاندی کے اسباب و ظروف سب لوٹ کرلے گئے اور کچھ بھی اس میں نہ چھوڑ گئے اور اس لڑکے کی جگہ اس کے چچا صدقیاہ کو قائم کر گئے اور اَبْ کے حملہ میں دانیال اور حزقیل کو بھی اور لوگوں کے ساتھ مقید کرکے لے گئے۔ صدقیاہ بڑا بےدین اور سرکش نکلا اس کو یرمیاہ ( علیہ السلام) بہت کچھ احکامِ الٰہی سناتے اور ڈراتے رہے مگر اس نے ہر قسم کی بدکاریاں کیں اور نبیوں کو ٹھٹھے میں اڑایا اور خدا کے گھر کو ناپاک کردیا اور بخت نصر سے بھی بغاوت کی۔ پھر تو بخت نصر بڑے غصہ میں آ کر چڑھ آیا۔ بیت المقدس کو جلا کر مسمار کردیا اور شہر کو بھی ڈھا دیا۔ تورات کا نسخہ جو بیت المقدس میں دھرا تھا اس کو بھی آگ لگا کر پھونک دیا اور ہزارہا بنی اسرائیل کو تہ تیغ کیا۔ پس آج بنی اسرائیل کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور یہ حادثہ 999 م میں گزرا اور ہزارہا بنی اسرائیل کو غلام بنا کرلے گیا اور ستر برس تک یہ مسجد اور شہر اجاڑ پڑا رہا اور ستر برس تک بنی اسرائیل بابل میں مقید رہے۔ اس عرصہ میں بخت نصر مرگیا اور ایران کا بادشاہ جس کا نام خورس تھا (یہ دارا سے پیشتر تھا غالباً یہ خسرو ہے یا کوئی اور) ملک بابل پر قابض ہوا اور یہودیوں کو مع سامان بیت المقدس ایک پروانہ دے کر ان کے ملک میں بسنے کے لیے روانہ کردیا۔ ان میں عزرا، یعنی عزیر ( علیہ السلام) بھی تھے۔ بنی اسرائیل کے چالیس ہزار سے زیادہ آدمی تھے جو اپنے ملک میں آئے اور بیت المقدس اور یروشلم کو برباد دیکھ کر آنسو بھر لائے اور ارمیاہ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ مقید ہو کر نہ گئے تھے۔ پیچھے ان کو حکم ہوا کہ بیت المقدس کو آباد کرو اور انہوں نے متعجب ہو کر کہا انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا۔ کہ اب یہ کیونکر آباد ہوگا۔ اس وقت وہ سو 1 ؎ گئے تھے اور گدھے کو باندھ دیا اور ایک زنبیل میں کچھ کھانا پانی بھی تھا۔ اس میں سو 1 ؎ سونے سے مراد مرنا ہے جس کو قرآن نے صاف لفظوں میں کھول دیا۔ اہل کتاب کی الہامی کتابوں میں سونا مذکور ہے۔ 12 منہ برس گزر گئے اور خدا نے ان کو بیدار کیا تو کھانا پانی ویسا ہی تھا اور گدھے کی ہڈیاں پڑی ہوئی نظر آئیں۔ فرشتے نے پوچھا کس قدر سوئے، کہا ایک دن یا اس سے کم۔ کہا سو برس تجھ پر گزر گئے پس ان کے روبرو وہ گدھا زندہ ہوا۔ انہوں نے کہا مجھ کو یقین کامل ہوگیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پس جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں بیت المقدس آباد ہوچکا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ صاحب قصہ حضرت عزیر تھے۔ واللہ اعلم الغرض حجی اور زکریا بن عبدو (علیہما السلام) کی اعانت سے دوبارہ داراشاہ ایران کے عہد میں بیت المقدس بنایا گیا۔ جب بنیاد چننے لگے تو نوجوانوں نے بڑی خوشی کا نعرہ مارا اور جو بڈھے تھے جنہوں نے بیت المقدس کو پہلے دیکھا تھا وہ چیخیں مار کر رونے لگے۔ پس جب بن چکا تو شمعون صادق کو سردار بنایا اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) نے ان انبیاء کو جمع کرکے یادداشت کے طور پر تورات کے احکام اوردیگر قصص جمع کرکے گویا تورات کو تعمیر کیا اور پھر یہود کو نصائح و پند کرتے رہے، مگر حکومت بنی اسرائیل جاتی رہی۔ ایرانیوں کا صوبہ وہاں رہا کرتا تھا۔ چند سال کے بعد یونان کے لوگوں نے زور کیا اور سکندر بڑی فوج لے کر ایران پر چڑھ آیا تب ملک شام ان کی حکومت میں چلا گیا۔ پھر یونان کی عملداری کے کئی حصے ہوگئے اس کے بڑے حصے کا پایہ تخت شہر رومہ 1 ؎ تھا۔ یہاں کے بادشاہ کی سلطنت نہایت وسیع تھی اس ملک میں جو نائب رہتا تھا اس کو ہیرودوس کہتے تھے اور بادشاہ کو قیصر۔ حضرت زکریا ان دنوں بیت المقدس کے اماموں میں تھے ان کی بی بی الیسباع کے (کہ جس کو ایسبات 2 ؎ بھی کہتے ہیں) کوئی اولاد نہ تھی اور الیسباع کی بہن حنہ تھی انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا تو میں بیت المقدس کی خدمت کے لیے چڑھائوں گی کیونکہ یہود میں یہ دستور تھا لیکن قدرت خدا سے لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام مریم رکھا اور نذر پورا کرنے کے لیے ہیکل میں بھیج دیا۔ وہاں کے اماموں میں گفتگو ہوئی ایک کہتا تھا میں اس کی پرورش کروں گا، دوسرا کہتا تھا میں اس کو لوں گا۔ زکریا کو جو ان کے خالو تھے بسبب قرعہ اندازی کے اس کے مستحق ٹھہرے۔ پس زکریا نے بیت المقدس میں ان کے لیے ایک جدا جگہ مقرر کردی کہ سوائے ان کے وہاں اور کوئی نہ جاتا تھا۔ وہاں ایک بار کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مریم بےموسم کے پھل کھا رہی ہیں۔ پوچھا یہ کہاں سے آیا ؟ کہاں خدا کی طرف سے۔ پس اس وقت ان کے دل میں خیال آیا کہ جو بےموسم پھل کھلا سکتا ہے مجھ بوڑھے کو بےموسم اولاد بھی دے سکتا ہے۔ اس لیے دعا مانگی اور تین روز تک بحکم الٰہی کسی سے کلام نہ کیا الخ اور فرشتے نے بشارت دی کہ تیرے گھر لڑکا پیدا ہوگا تو اس کا نام یوحنا یعنی یحییٰ رکھنا۔ چناچہ اس بشارت کے مطابق حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے گھر حضرت یحییٰ پیدا ہوئے۔ یہ رشتہ میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ماموں تھے اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ایک روز حضرت مریم حیض سے پاک ہو کر غسل سے فراغت کرکے بیٹھی تھیں کہ آدمی کی شکل میں جبرئیل ( علیہ السلام) ان کو دکھائی دیے انہوں نے دیکھ کر خدا کی پناہ چاہی اور کہا کہ تو کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں جبرئیل ہوں خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہوں کہ تجھ کو بیٹا دوں۔ وہ بولی نہ تو میں بدکار ہوں نہ آج تک کسی مرد کے پاس گئی ہوں پھر بیٹا ہونے کی کیا صورت۔ جبرئیل نے کہا خدا تجھ کو یوں ہی بیٹا دے گا۔ پس جبرئیل نے پاس جا کر ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک دیاوہ حاملہ ہوگئیں اور بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ یہود ان کے مارنے کو آئے کہ تو نے حرام کا بچہ جنا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے لڑکپن میں کلام کرنا شروع کیا تو لوگ ڈر کر چلے گئے۔ یہود کو مریم کے بارے میں حضرت زکریا ( علیہ السلام) پر بدگمانی ہوئی ان کے مارنے کو دوڑے۔ یہ بیچارے ایک درخت گنجان میں جا چھپے۔ یہود نے آرے سے درخت کو چیرا جس سے یہ بھی چر کر دو ٹکڑے ہوگئے اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کا نکاح ان کے چچازاد بھائی یوسف بن یعقوب بن نتھان سے ہوا تھا کہ جو بڑھئی تھے اور جب مریم ان کے پاس آئیں تو حمل دیکھ کر گھبرائے مگر خواب میں فرشتہ نے ان کو مطلع 1 ؎ یہ شہر اٹلی میں ہے۔ پوپ جو نائبِ عیسیٰ کہلاتے ہیں یہی رہا کرتے تھے۔ قسطنطنیہ اس کے بعد آباد ہوا۔ ہرقل شاہ روم کا یہی پایہ تخت تھا۔ 12 منہ 2 ؎ جس کا مخفف ایلزبتھ ہے۔ 12 منہ کردیا تو یہ ان کی پاک دامنی کے مقر ہوئے (شاید یہ بھی ہوا ہو) مگر یوسف مریم کے پاس نہ گیا تھا اور یوسف اس بچہ اور ماں کو لے کر مصر میں چلے گئے۔ ایک عرصہ تک حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے وہاں پرورش پائی۔ پھر جب یہ سنا کہ یہ بادشاہ مرگیا تو پھر یوسف اپنے وطن میں آیا اور اپنے گائوں ناصرہ میں رہا۔ اس لیے حضرت عیسیٰ کے لوگوں کو نصاریٰ کہتے ہیں۔ اب عیسیٰ ہوشیار ہوئے اور طرح طرح کے معجزات لوگوں کو دکھا کر راہ راست پر آنے کی ہدایت کرتے تھے مگر وہ سیاہ دل الٹے ان کے بدخواہ ہوتے جاتے تھے اور حضرت یحییٰ اون کے کپڑے پہنے جنگلوں میں رہتے اور نصیحت کرتے پھرتے تھے۔ دریائے یرون پر حضرت عیسیٰ نے حضرت یحییٰ کی شاگردی کی اور ان کے ہاتھ سے غوطہ لیا جس کو نصاریٰ بپتسمہ کہتے ہیں اور اصطباغ بھی۔ یحییٰ کو ہیرو دوس نے اس لیے قید کرلیا تھا کہ وہ اس کو ایک عورت کے گھر میں رکھنے سے (کہ جس کا رکھنا اس کو جائز نہ تھا) منع کرتے تھے۔ آخر ایک روز ہیرودوس نے سالگرہ کا جلسہ کیا اور اس جلسہ میں اس عورت کی بیٹی نے ناچ کر سب کو خوش کیا۔ ہیرودوس نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے ؟ اس نے بادشاہ سے پکا وعدہ کرا کے اپنی ماں سے پوچھا، اس نے کہا یحییٰ کا سر مانگ۔ بادشاہ نے جلاد کو بھیجا اور وہ ایک لگن میں یحییٰ کا سر کاٹ کر لایا اور اس قحبہ کو دیا اور اس نے اپنی ماں کو دیا جس سے وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ اپنے بارہ حواریوں کے ساتھ جا بجا وعظ کہتے پھرتے تھے اور یہود کو ملامت کرتے تھے جس سے یہود کو ان سے سخت عداوت پیدا ہوئی اور ان کے قتل کی تدبیریں کرتے رہے۔ آخر یہاں کے بادشاہ پلاطوس کو آمادہ کیا اور ایک جگہ سے حضرت کو گرفتار کرکے لے گئے۔ خدا کی قدرت کہ ان میں ایک کو خدا نے مسیح کی صورت میں کردیا اور ان کو صحیح سلامت آسمان پر بلا لیا وہ شخص یہود کے ہاتھ سے بڑی اذیت کے ساتھ مارا گیا اور سولی چڑھتے وقت اس نے بڑی جزع و فزع کی۔ عام لوگ بلکہ کل یہود و عیسائی یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ سولی دیے گئے۔ اس وقت حضرت مسیح کی عمر 33 برس کی تھی اور یہ واقعہ غلبہ سکندر کے 366 برس بعد ہوا ہے اس کے بعد حضرت مسیح (عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے حواریوں کو دکھلائی دیے اور ان کو اپنے دین کی اشاعت کی اور جناب رسول مقبول ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت کی۔ جیسا کہ انجیل برنباس میں مصرحاً مذکور ہے اور دیگر اناجیل میں لفظ فار قلیط ہے۔ ان کے بعد حواریوں نے ملک شام اور یونان اور افریقہ میں دین الٰہی کو رواج دیا اور اس وجہ سے نہ تھا یہود بلکہ شاہ روم جو وہاں کا حاکم اور بت پرست تھا اور جس کو قیصر کہتے تھے حواریوں کا دشمن جانی ہوگیا اور بہت کو شہید کیا اور تکلیف دے کر مارا۔ یروشلم میں سب سے اول استیغان کو شہید کیا مگر جوں جوں لوگ ان پر سختیاں کرتے تھے اسی قدر ان کے خوارق عادات سے دین حق پھیلتا جاتا تھا۔ لیکن ایک یہود نے عجیب فریب کیا کہ لوگوں میں مشہور کردیا کہ مجھ کو حضرت عیسیٰ کا دیدار ہوا ہے اور انہوں نے مجھ کو ایک کتاب بھی دی ہے اس لیے وہ حواریوں میں مل گیا اور چونکہ وہ بڑا منہ زور تھا سب کو دبانے لگا اور سب کے برخلاف اس نے یہ مسئلہ جاری کیا کہ حضرت عیسیٰ خدا تھے خدا آدمی کی شکل میں ظاہر ہوا تھا وہ سب کے گناہ اٹھا کرلے گئے۔ بس اس بات پر ایمان لانا کافی ہے۔ شریعت کچھ نہیں بلکہ شریعت پر عمل کرنے سے لعنتی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس بات پر شہر انطاکیہ میں حواریوں نے بحث بھی کی مگر اس کے مرید زیادہ ہوگئے تھے اس نے غلبہ پایا۔ قصہ مختصر اس نے دین عیسوی کو بالکل پلٹ دیا۔ اس کا نام پولوس ہے تین سو برس تک عیسائیوں کو کہیں امن نہ ملتا تھا۔ اس میں بارہا وہ وہ حملے ان پر ہوئے کہ چن چن کر لوگ قتل کئے گئے، کتابیں جلائی گئیں چناچہ انہیں حوادث میں حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل بھی جاتی رہی۔ لیکن لوگوں نے حضرت کے حالات تاریخ کے طور پر لکھنے شروع کئے۔ عیسائی ان کتابوں کو اپنی اصطلاح میں انجیل کہتے ہیں۔ چناچہ 80 سے زیادہ جھوٹی سچی انجیلیں مشہور ہوئیں لیکن ان میں سے اب عیسائیوں کے نزدیک چار زیادہ معتبر ہیں۔ انجیل مرقس، انجیل لوقا، انجیل متی، انجیل یوحنا، بلکہ اس پولوس اور دیگر اشخاص کے خطوط کو بھی جمع کرلیا ہے اور سب کو حضرت عیسیٰ کی انجیل کہتے ہیں۔ جس طرح کہ بیت المقدس کی بربادی کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے خبر دی تھی۔ اسی طرح ظہور میں آیا تخمیناً اس کے چالیس برس بعد طیطوس 1 ؎ نے یہود کی سرکشی سے ان پر چڑھائی کی اور بیت المقدس کو جلا دیا اور شہر کو بالکل مسمار کردیا اور ان کی تمام کتابیں جلا دیں اور تلاش کرکے یہودیوں کو قتل کیا اس کے بعد پولوس کا مذہب رواج پا گیا۔ روم کا بادشاہ قسطنطین کہ جو بڑا ظالم تھا اسی امید پر کہ میرے سب ظلم عیسیٰ (علیہ السلام) اٹھا لیں گے چوتھی صدی عیسوی میں عیسائی ہوا اور بزور لوگوں کو عیسائی بنایا اور بڑے سخت قانون جاری کئے جس سے روم اور یونان اور اٹلی میں اس مذہب کی زیادہ شہرت ہوگئی اور پھر رفتہ رفتہ اور ملکوں میں بھی یہ مذہب پھیلا۔ تخمیناً آٹھ سو نو سو برس سے انگلستان کے لوگ بھی کہ جو بت پرست تھے، عیسائی ہوئے اور روس و جرمن وغیرہ ملکوں میں بھی یہ مذہب رواج پا گیا لیکن اس میں سینکڑوں فرقے پیدا ہوگئے سب سے زیادہ دو گروہ ہیں۔ اول رومن کیتھولک جس میں روس اور فرانس وغیرہ ہیں۔ یہ مذہب پولوس کے قدم بقدم پرانے خیالات پر ہے۔ روم میں پوپ ایک پادری یا امام ہوتا ہے کہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کا نائب کہلاتا ہے۔ پولوس کی حکومت اور شوکت اول تو سب عیسائی سلاطین تسلیم کیا کرتے تھے مگر بعد میں وہ شوکت جاتی رہی۔ پوپ ہر ایک عیسائی سے اس کے گناہوں کا اقرار کرا کے خواہ مفت خواہ روپیہ لے کر اس کے لیے جنت کی چٹھی بھی دیا کرتے تھے اور جو جو وہ حکم جاری کیا کرتے تھے وہ خدا کا حکم خیال کیا جاتا تھا۔ عیسائیوں کی کنواری لڑکیاں بھی جو اپنے نفس کو خدمات مذہبیہ کے لیے وقف کردیتی تھیں پولوس اور ان کے خادموں کے پاس جلوت اور خلوت میں ساتھ رہتی تھیں۔ پوپوں کی بدعتیں اور بیہودہ باتیں اس قابل نہیں کہ اپنی تفسیر میں بیان کرسکوں۔ تخمیناً تین سو برس ہوئے کہ ایک شخص مارٹین لوتھر اس وقت کے پوپ سے برگشتہ ہوگیا اور اس کے شاگرد جان کالون وغیرہ اس کے مددگار ہوگئے اور اس نے مذہب کی ترمیم کی ان کو پر اٹسٹنٹ کہتے ہیں یہ مذہب انگلستان اور جرمن اور دیگر بلادیورپ کا ہے۔ اب بیت المقدس کا حال سنیئے وہ یہ کہ طیطوس کے بعد پھر لوگوں نے کسی قدر بیت المقدس کو آباد کیا اور اس کا نام ایلیاء رکھا (یعنی خانہ خدا) مگر قسطنطین کی والدہ ہلانہ کو کسی پادری نے یہ پٹی پڑھائی کہ جس سولی پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لٹکائے گئے تھے وہ لائو گی توحیات ابدی پائو گی۔ وہ شام میں آئی اور آ کر اس رہے سہے بیت المقدس کو بھی خراب کرگئی اور یہ حکم 2 ؎ دے گئی کہ تمام شہر کا پاخانہ اور قاذورات یہیں پڑا کرے۔ سالہا سال تک یہی نوبت رہی اور کسی کی جرأت تعمیر کرنے کی نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے اس کو از سرِ نو تعمیر کیا پھر ان کے بعد قدیم بنیادوں پر ولید بن عبدالملک نے تعمیر مستحکم کا حکم دیا بہت سے قبے بنائے کسی کا نام قبہ میزان اور کسی کا نام قبہ معراج رکھا اور یہ بناء اب تک قائم ہے۔ ہدایۃ القدماء۔ ہدایۃ الحکماء : مگر سلاطین عثمانیہ کے عہد میں اس کی پھر تعمیر ہوئی۔ یہ مسجد خاص اہل اسلام کے قبضہ میں ہے اور اس کے آس پاس یہود و نصاریٰ کے کئی قبے بنے ہوئے ہیں جیسا کہ نقشے سے معلوم ہوتا ہے۔ گو تمام عیسائیوں نے پیٹر گریڈ کے اغوا سے بیت المقدس کے لینے کا قصد کیا اور کئی صدیوں تک لڑائیاں رہیں مگر آخر کار صلاح الدین مصری کو خدا نے غالب رکھ کر اپنا قدیم گھر سچّے مذہب والوں کو دلایا۔ بحمدللہ اہل کتاب کے تمام معابد آج تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں والحمد للہ۔ یہ مختصر سا حال بنی اسرائیل کا ہے کہ جس کے جاننے پر قرآن مجید کا سمجھنا موقوف ہے اور تفصیلاً کتب تاریخ میں مذکور ہے۔ قرآن مجید میں مختلف اغراض سے ان قصوں کی طرف بلا لحاظ تقدیم و تاخیراشارہ ہوا ہے۔ پس ناظر کو چاہیے کہ سب کو اس کے مقامات پر چسپاں کرلے۔ واضح ہو : کہ بعض ملحدوں نے جس طرح اور معجزات کا انکار کیا ہے اسی طرح بنی اسرائیل کے عبور قلزم کا بھی انکار کیا ہے اور یہ توجیہ کی ہے 1 ؎ یہ شاہان قیاصرہ میں سے ایک بادشاہ تھا۔ 12 منہ 2 ؎ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بیت المقدس کے خراب اور برباد ہونے کی پیشین گوئی کی تھی۔ عیسائیوں کے نزدیک اس کا آباد ہونا اس پیشین گوئی کے خلاف تھا۔ اس لیے ہلانہ نئی دیندار نے اس مقام مقدس کو اور بھی خراب کرنا اور قازورات اس پر ڈالنا کار ثواب اور موجب نجات سمجھا۔ 12 منہ۔ کہ جزر و مد تھا یعنی جب سمندر کا پانی اترا ہوا تھا اس وقت بنی اسرائیل کا گزر ہوا اور ان کے پیچھے فرعون کا لشکر آیا تو اس وقت دریا کا چڑھائو تھا وہ لوگ سب ڈوب مرے نہ یہ کہ موسیٰ کی عصا زنی سے سمندر کے دو ٹکڑے ہوئے تھے۔ جیسا کہ اہل کتاب اور اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور اپنے اس دعویٰ پر اس نے ایک دلیل عقلی اور ایک نقلی پیش کی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے قولہ ” انفلق ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ماضی جزا میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں اگر ماضی اپنی معنوں پر نہیں رہتی بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے تو اس وقت اس پرنہیں لاتے اور جب کہ وہ اپنے معنوں پر باقی رہتی ہے اور جزا کی معلول نہیں ہوتی تب اس پرلاتے ہیں جیسے کہ اس مثال میں ہے ان اکرمتنی فا کرمتک امس الخ اس مثال میں جزا (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا شرط کا معلول نہیں ہے) کیونکہ وہ اس سے پہلے ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہوسکتا الخ “ اقول : اس کا جواب یہ ہے (1) تو زبان عرب کا یہ قاعدہ نہیں اگر ہے تو کسی اہل زبان یا کتاب کا حوالہ دیجئے۔ (2) بلکہ وہ قاعدہ یہ ہے کہ ماضی جزا میں واقع ہو تو اگر استقبال کے معنی میں ہے جیسا کہ در صورت نہ ہونے لفظ قد کے ہوتا ہے توکا لانا لازم نہیں ورنہاس پر داخل کرتے ہیں۔ واِذَا کان الجزاء ماضیا بغیر قد لفظاً او معنی لم یلزم الفاء (کافیہ) والضابطتہ ان مداراتیان الفاء وتر کہ لتاثیر المعنوی اعنی قلب الجزاء الی الاستقبال فانہان فیہ اثر تاثیر اتاما فلاحا جۃ الی الفاء وان اثر تاثیرا ناقصاً فالوجہان وان لم یوثرفیہ اصلا فالفاء تکملۃ اب کہاں یہ قاعدہ کہاں وہ قاعدہ۔ اس ناواقفیت کا کچھ ٹھکانا ہے۔ (3) نہ یہاں شرط ہے نہ جزاء اور نہ کوئی کلمہ شرط ہے نہ کسی مفسر نے اس کو جزا قرار دیا ہے۔ صرفآنے سے معترض نے جزا سمجھ کر ایک منصوبہ باندھ لیا اورجزا کے سوا اور جگہ بھی آتی ہے بالخصوص تعقیب اور تفریع کے لیے اکثر مستعمل ہوتی ہے جیسا کہ سبب اور مسبب اور علت اور معلول کے درمیان واقع ہوتی ہے جیسا کہ کسرتہ فانکسر قتلتہ فمات اور اس جملہ کی بھی جلالین وغیرہ تفاسیر میں یوں تقدیر کلام کی ہے۔ ان اضرب بعصاک البحر فضربہ فانفلق (جلالین) جس طرح کہ ہماری زبان میں لفظ پس کا استعمال ہوتا ہے اور مسبب پر بیشتر اس کا استعمال آتا ہے جیسا کہ میں نے اس کو مارا وہ مرگیا۔ مارنا سبب اور مرجانا مسبب ہے۔ اسی طرح اس آیت میں ضرب عصا سبب اور پھٹ جانا مسبب ہے۔ افسوس کہ معترض کو زبان عربی سے کچھ بھی واقفیت نہیں ناحق زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ دوسری دلیل نقلی : وہ یہ ہے کہ گلا ڈیس اٹالمی جس کو کہ حکیم بطلیموس 1 ؎ کہتے ہیں جو سن عیسوی کی دوسری صدی میں تھا اور مصر میں رہا کرتا تھا اس لیے وہ بحر احمر کے حال سے زیادہ واقف تھا اس نے بحر احمر کا نقشہ لکھا تھا۔ اصل زبان یونانی ہے مگر اس کا ترجمہ لیٹن جو 1618 ء میں لوئیس سیز دہم شاہ فرانس کے زمانہ میں چھاپا گیا تھا ‘ خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اس میں تیس جزیرے بحر احمر میں مع نام بتلائے ہیں اور اب وہ جزائر نہیں (کیونکہ علم جو ابحی سے یہ بات ثابت ہے کہ جزائر بعض اسباب سے غرقاب ہوجایا کرتے ہیں اور کبھی دفعۃً نکل آتے ہیں) اس سے ثابت ہوا کہ بحر احمر کا اس زمانہ میں یہ زور و شور نہ تھا کہ جو اب اہل اسلام کے زمانہ میں بارہ سو برس سے ہے۔ اس سے یہ یقین 1 ؎ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بطلیموس میں تخمیناً دو ہزار برس کا فاصلہ ہے اگر اس سے بحر احمر کا حال اور نقشہ بنایا ہوگا تو اپنے عہد کا نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد کا۔ پھر اس عرصہ دراز میں جو ابحی کے اصول سے اس ماول نے یہ کیونکر ثابت کرلیا کہ کوئی بھی بحر احمر میں تغیر یا انقلاب پیدا نہیں ہوا اور بطلیموس کے عہد تک بحر احمر اسی صورت پر ٹھیرا رہا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں تھا۔ پھر یہ مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے۔ 12 منہ کامل ہوجاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اترے بلا سبب جوار بھاٹے کے رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہوجاتا ہوگا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو پایاب اتر جانے کا رستہ معلوم تھا۔ پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سمیت بحر احمر کی بڑی شاخ کی نوک میں سے جہاں ہم نے نقطوں کا نشان دیا ہے، پار اتر گئے صبح ہوتے جو فرعون نے دیکھا کہ بنی اسرائیل پار اتر گئے اس نے بھی ان کا تعاقب کیا اور لشکر کو غلط رستے سے دریا میں ڈال دیا پانی بڑھ گیا جس سے وہ سب ڈوب مرے۔ یہودیوں کی تقلید سے مفسرین نے ایک سیدھی سی بات کو معجزہ خارج از قانون قدرت بنا دیا حالانکہ قرآن سے ایسا ثابت نہیں۔ جواب : اول تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ نقشہ بطلیموس کے نقشہ کے موافق اور مطابق ہے۔ (دوم) یہ کیا ضرور ہے کہ بطلیموس کے زمانہ میں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد کا ہے بحر قلزم بدستور ہو ممکن ہے کہ بقواعد جو ابحی اس وقت یہ نئی حالت پیدا ہوئی ہو جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں نہ تھی اور اب پھر ویسی ہی ہوگئی۔ (سوم) اب بھی بحر احمر میں جزائر موجود ہیں اس تقدیر پر زمانہ بطلیموس میں اور زمانہ حال میں فرق ثابت کرنا مدعی کے ذمہ ہے۔ (چہارم) یہ سب کچھ تسلیم بھی کیا جائے تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ بنی اسرائیل بحرِقلزم کی نوک پر سے گزرے تھے جہاں کہ ایسا کنارہ تھا کہ پانی خشک ہوجاتا تھا جہاں کہ مدعی نے نقطے لگائے ہیں۔ (پنجم) اگر یہ تھا تو کیا فرعون کو اس کنارہ کا علم نہ تھا اور جب کہ اس کے ساتھ سینکڑوں اس ملک کے واقف تھے تو مقتضائے قانون فطرت یہ تھا کہ وہ کنارے سے بھی دو چار کوس ہٹ کر گاڑیوں کو خشک زمین سے لے کر نکلتا۔ (ششم) اگر کنارہ پاس تھا تو سینکڑوں بنی اسرائیل پر کیا مصیبت پڑی تھی کہ وہ اس مقام سے گزرتے کہ جہاں پانی پایاب ہوگیا تھا کس لیے کہ گارا اور کیچڑ تو پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جس میں چلنا بالخصوص بھاگنے اور خوف کے وقت مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ مقتضائے عقل یہ تھا کہ اس نوک سے وہ ایک کوس کے فاصلے سے خشک زمین سے گزرتے۔ مدعی کہاں تک تاویل کرے گا۔ علاوہ اس کے قرآن مجید کے الفاظ سے پانی کا پھٹنا ثابت ہے۔ آیت اول فاوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم۔ و اذلفناثم الاخرین۔ ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے عصا کو دریا پر مارے اس نے مارا پس دریا پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا بڑے پہاڑ کی مانند ہوگیا اور لائے ہم اس جگہ دوسروں کو (شعراء) یہاں ضرب کے معنی چلنے کے کہنا اور فی مقدر ماننا اور اضرب بعصاک فی البحر عبارت بنانا نہایت نادانی ہے اول تو بحر مفعول بہ ہے اس کو مفعول فیہ کہنا پڑے گا۔ دوم پھر بھی اقرار لازم آئے گا اور موسیٰ عصا کے ذریعے سے دریا میں سے گزرے۔ سو یہ بھی خلاف قانون قدرت ہے۔ تیسرے فانفلق الخ کے کیا معنی ہوں گے۔ (آیت دوم) فاضرب لھم طریقاً فی البحر یبسا لاتخاف درکا ولا تخشی (طہ) ” کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے لیے دریا کے بیچ میں سے خشک رستہ نکال۔ “ الخ (آیت سوم) واترک البحر رھوا ط کہ دریا کو خشک چھوڑ دو (دخان) و اذفرقنا بکم البحر (بقرہ) اور ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑ دیا۔ اسی طرح تمام کتب تاریخیہ بالخصوص تورات سفر خروج کے 14 باب میں ہے (22) اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہو کر گزر گئے اور پانی کی ان کے دائیں اور بائیں دیوار تھی۔ 16 تو اپنا عصا اٹھا دریا پر مار اور اسے دو حصے کر بنی اسرائیل دریا کے بیچوں بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہو کے گزر جائیں گے۔ تعجب ہے کہ مدعی کے نزدیک توریت میں تحریف نہیں ہوئی وہ تو معتبر نہ ہو اور لیٹن کا نقشہ معتبر مانا جاوے۔ واللہ الہادی اس آیت کی تفسیر۔ ترکیب : واذ واعدنا فعل بافاعل موسیٰ مفعول اول اربعین لیلۃ مفعول ثانی اتخذتم فعل انتم فاعل العجل مفعول اول الٰہا مفعول ثانی محذوف و انتم ظالمون جملہ اسمیہ حال ہے فاعل اتخذ تم سے۔ عفونا فعل بافاعل من بعد ذالک متعلق ہے فعل سے۔ آتینا فعل ضمیر نحن فاعل موسیٰ مفعول اول الکتاب معطوف علیہ والفرقان معطوف دونوں مفعول ثانی لعل قرآن میں اکثر مفسرین کے نزدیک بمعنی کے آتا ہے جس کے معنی ہیں تاکہ بعض کہتے ہیں ترجّی کے لیے مگر لوگوں کے محاورہ کے موافق خدا تعالیٰ بھی کلام کرتا ہے ورنہ اس کو ہر چیز کی ابتدا انتہا معلوم ہے اور اسی طرح اذا جو ظرف ہے ہر جگہ اکثر کے نزدیک اذکر کے متعلق ہے والقول ماقلنا فی المقدمہ۔ تفسیر : چوتھا انعام : ان آیتوں میں خدا تعالیٰ اپنا چوتھا انعام یاد دلاتا ہے کہ جو دریائے قلزم کے پار اترنے کے بعد ظہور میں آیا کیونکہ خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر انعام و عنایت کے لیے بلایا اور چالیس رات وہاں ان کو ٹھہرنا پڑا مگر بجائے شکر گزاری کے بنی اسرائیل نے بعد میں ایک بچھڑا سامری کا ڈھالا ہوا بجائے حقیقی خدا کے اپنا خدا بنا لیا۔ اس کی سزا میں اگر سب ہلاک کئے جاتے تو کوئی بڑی بات نہ تھی مگر اس پر بھی خدا نے ان کو معافی دی۔ یہ کس قدر انعام اور عنایت ہے۔ تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے قلزم کو عبور کیا اور کوہ طور کے پاس پہنچے تو خدا نے فرمایا کہ چالیس رات تم ہماری جناب میں عبادت کرو تاکہ تم کو کلام اور احکام شریعت ملیں۔ یہ اس لیے کہ اس عرصہ میں جسمانی تعلقات کم ہو کر ملکیت کا ظہور ہو تو خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی صلاحیت ہوجائے اور اسی لیے اہل باطن چالیس روز کا چلہ کیا کرتے ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ پر تشریف لے گئے اور بنی اسرائیل سے تیس رات کا وعدہ کر گئے کیونکہ اول میں یہی حکم ہوا تھا۔ پھر دس رات وہاں اور رہنا پڑا تو بنی اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ مشہور ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مرگئے۔ بنی اسرائیل میں ایک شخص سامری نامی تھا اس نے کیا مکر کیا کہ بنی اسرائیل سے کہا اب تو موسیٰ (علیہ السلام) مرگئے اور تمہارے لیے خدا کا ہونا ضرور ہے تم مجھ کو زیور دو میں تمہارے لیے خدا بنا دوں۔ چونکہ مصر کے لوگ گائے بیل اور بلی کو پوجتے تھے۔ یہ بنی اسرائیل بھی ان کے صحبت کے خوگر تھے۔ اس لیے اس نے ایک بچھڑا بنایا۔ سب بنی اسرائیل اس کو سجدہ کرنے لگے۔ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو پہاڑ سے لوحیں کہ جن میں احکامِ الٰہی لکھے تھے لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل کی یہ حالت دیکھ کر بڑے ناراض ہوئے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) پر خفا ہوئے کہ میں تم کو اپنا نائب بنا کر گیا تھا، تو نے کیوں منع نہ کیا ؟ انہوں نے عذر کیا کہ میں منع کرتا تو لوگ مجھ کو مار ڈالتے۔ یہ قصہ آگے بھی آوے گا اور ہم بیان بھی کر آئے ہیں۔ پس خدا کی طرف سے یہ حکم آیا کہ اس بچھڑے کو ریت کر دریا میں ڈلوا دو اور لوگ اس کی توبہ میں اپنے آپ کو قتل کریں چناچہ ایسا کیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے رو کر التجا کی تب یہ حکم معاف ہوا اور خدا نے درگزر کیا اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ پر گئے اور بہت سے احکام لائے اور غالباً یہی مجموعہ تورات تھا کہ جو تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔ اس بچھڑا پوجنے کی کیفیت اگلی آیت میں بیان فرماتا ہے : متعلقات : الکتاب سے مراد تو قطعاً تورات ہے مگر فرقان کہ جو بروزن غفران ہے جس کے معنی فرق کرنے والی چیز کے ہیں اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے بھی تورات مراد ہے یہ تورات کا وصف ہے کہ حق و باطل میں فرق کرتی تھی۔ بعض کہتے ہیں اس سے حجت اور معجزات مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top