Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب کہ تم نے (تمہارے بزرگوں نے) کہا اے موسیٰ جب تک کہ ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں گے آپ کا ہرگز یقین نہ کریں گے تب تم کو بجلی نے دیکھتے دیکھتے آلیا
ترکیب : واذقلتم فعل یا موسیٰ فاعل الخ اس کا مقولہ لن نؤمن لک ای لاجلک اولن نقر لک نری فعل بافاعل لفظ اللہ مفعول ذی الحال جہرۃ حال اور ممکن ہے کہ فاعل سے حال ہو اور ممکن ہے کہ یہ مفعول مطلق ہو کر منصوب ہو۔ (بیضاوی) تفسیر : چھٹا انعام : یہ چھٹا انعام ہے جو ان معافیوں کے بعد بنی اسرائیل کے جرم جدید پر وقوع میں آیا جس کی تفصیل یہ ہے علماء کا اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ کہاں کا واقعہ ہے محمد بن اسحاق جو فن سیرت کے امام ہیں یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب گوسالہ پرستی کی سزا میں بنی اسرائیل پر قتل نفس کی توبہ مقرر ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ستر شخصوں کو لے کر کوہ طور پر معذرت کے لیے گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اپنے رب سے کلام کر ہم سنتے ہیں اور اس ہم کلامی کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کا چہرہ ایسا منور ہوا کہ جس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ قوم نے کہا کہ ہم نے صرف باتیں سنی ہیں مگر ہم جب تک خدا کو کھلم کھلا نہ دیکھیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ تب ان پر بجلی پڑی اور سب مرگئے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا الٰہی میں ان کو بنی اسرائیل کی گواہی کے لیے ساتھ لایا تھا اب یہ تو مرگئے میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا ؟ تب خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کو زندہ کردیا اور سدی (رح) نے کچھ اور طرح پر بیان کیا ہے کہ جب قتل نفس کے بعد خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ تو ستر شخصوں کو لے کر ہمارے پاس آ جب وہ آئے تو کہنے لگے کہ جب تک خدا کو ہم عیاناً نہ دیکھیں گے تیری بات پر یقین نہ کریں گے۔ پس بجلی پڑی اور سب مرگئے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے رو کر عرض کی کہ اول تو قتل کا حکم ہوچکا ہے پھر جو کچھ باقی رہے تھے ان میں سے ستر آدمی لے کر آپ کے پاس آیا اب یہ بھی مرگئے تو بنی اسرائیل سے کیا کہوں گا۔ خدا نے فرمایا کہ یہ ستر وہ ہیں جو بچھڑا پوجنے میں شریک تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ آپ کی آزمائش ہے جس کو چاہتے ہیں آپ گمراہ کرتے ہیں جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں اگر یہی تھا تو مجھ کو اور ان کو پہلے ہلاک کردینا تھا الخ۔ پس خدا نے ان کو زندہ کردیا اور ان کو نبی بھی بنایا (تفسیر کبیر ملخصاً ) ان دونوں قولوں میں کچھ بڑا تفاوت نہیں ہے اول قول کے مضامین تورات سفر عدو کے 11 باب اور سفر خروج کے 34 باب سے سمجھے جاتے ہیں شاید اسی قصہ کو خدائے تعالیٰ نے سورة اعراف میں ذکر کیا ہے۔ وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لِمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبّْ لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ اَتُھْلِکْنَا بْمَا فَعَلَ السُّفَھَآئُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بْھَا مَنْ تَشَآئُ وَتَھْدِیْ مَنْ تَشَآئَ الآیات کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمارے وعدے کے لیے ستر شخص پسند کئے۔ پھر جب ان کو زلزلہ نے آلیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی ہلاک کردیتا کیا بیوقوفوں کے فعل سے آپ ہم کو ہلاک کرتے ہیں یہ تو صرف تیری آزمائش ہے الخ۔ میری رائے میں سورة بقر کا یہ واقعہ وہ ہے جو سفر خروج کے 19 باب سے اشارۃً سمجھا جاتا ہے اور سورة اعراف کا قصہ وہ ہے کہ جو سفر خروج کے 24 باب سے سمجھا جاتا ہے۔ بعض ماول واقعہ سورة بقر کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ ستر شخص مرے نہ تھے بلکہ بجلی کے صدمہ سے بےہوش ہوگئے تھے۔ اس بےہوشی کو موت سے تعبیر کیا ہے جس طرح کہ خواب کو موت کہتے ہیں اور اس سے بیدار ہونے کو زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوہ طور کے لرزنے اور وہاں عجائبات قدرت کے ظاہر ہونے کو بھی اس بات پر محمول کیا ہے کہ وہ پہاڑ آتش فشاں تھا۔ یہ تاویلات ملحدانہ خیالات کے ثمرات ہیں کہ جس پر اس کی تفسیر کا مدار ہے۔ فقط
Top