Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا (اور اجازت دی کہ) جو کچھ ہم نے تم کو پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ (پیو) اور انہوں نے ہمارا تو کچھ بھی نہیں بگاڑا بلکہ اپنا کچھ بگاڑتے رہے
ترکیب : ظللنا فعل بافاعل علیکم متعلق ہے فعل سے الغمام مفعول اور یہ جنس ہے اور جب واحد مراد ہوتا ہے توت زیادہ کرتے ہیں غمامہ بولتے ہیں۔ کلوا فعل بافاعل شیئًا مفعول محذوف من بیان ہے اس محذوف کا طیبات مضاف مارزقناکم مضاف الیہ انفسہم مفعول ہے یظلمون کا ای کانوا یظلمون انفسہم۔ واذ قلنا فعل نحن فاعل ادخلوا فعل انتم فاعل ھذہ موصوف القریہ صفت یہ مجموعہ مفعول فیہ ہوا ادخلوا کا اور کل مقولہ ہوا قلنا کا رغدا منصوب ہے۔ یا اس وجہ سے کہ مفعول مطلق ہے ای اکلا واسعا یا حال ہے فاعل کلوا سے سجدا جمع ساجد حال ہے فاعل اد خلوا سے ای متواضعین۔ حطۃ خبر ہے مبتداء محذوف کی ای سوالنا حطۃ پھر یہ مجموعہ مقولہ ہے قولو اکا نغفرلکم جواب امر ہے اور اسی لیے مجذوم ہے فبدل فعل الذین ظلموا جملہ فاعل بالذی قیل لہم مفعول اول محذوف قولاً موصوف غیر الذی الخ اس کی صفت مجموعہ مفعول ثانی (تبیان) من السماء متعلق محذوف ہو کر صفت ہے جزا کی۔ تفسیر : ساتواں اور آٹھواں انعام : یہ ساتواں اور آٹھواں انعام ہے جس کی تفصیل یہ ہے : بنی اسرائیل جب دریائے قلزم عبور کرکے بیابان میں آئے تو وہاں گرمی کی بڑی شدت تھی خدا نے اپنا فضل کیا کہ ایک بادل کا سایہ بنا کر ان کو دھوپ کی شدت سے بچایا یہ ساتواں انعام ہے۔ پھر کھانے کا یہ سامان کیا کہ من 1 ؎ اور سلویٰ یعنی بیٹریں نازل کرتا تھا کہ ان کے خیموں کے گرد بیٹریں جمع ہوجاتی تھیں۔ 1 ؎ من چنے کے دانوں کی طرح اوس جو بڑی شیریں ہوتی تھی جیسا کہ ترنجبیں، بنی اسرائیل کے خیموں کے آس پاس جم جاتی تھی اس کو اٹھا لیتے اور توے پر روٹیوں کی طرح پکا پکا کر کھاتے تھے (توریت) چونکہ وہ بےمشقت ملتی تھی اس لیے مفت اور بےمشقت چیز کو لوگ من وسلویٰ کہتے ہیں اور شیریں اور لذیذ بھی تھی اس لیے عمدہ غذا کو بھی من وسلویٰ سے تعبیر کرتے ہیں مگر بنی اسرائیل لذیذ اور بےمحنت چیز کو روز اور مسلسل کھاتے کھاتے گھبرا گئے اور خرمستی میں پیاز اور ترکاریاں موسیٰ (علیہ السلام) سے مانگنے لگے گویا وہ فرعون کی قید سے کیا نکلے تھے خدا پر اور موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان جتلاتے تھے۔ آرام طلب مفت خور قوموں کا یہی حال ہوتا ہے ان پر خرمستی سوار ہوجاتی ہے فسق و فجور اور فحش گوئی اور کاہلی ان کا شیوہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس کفران نعمت کا عذاب ان پر نازل ہوتا ہے ان میں اولوالعزمی، غیرت، جفاکشی کا مادہ باقی نہیں رہتا اور غیر اقوام کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی بگڑی قوم کی اصلاح سے موسیٰ (علیہ السلام) بھی عاجز آگئے تھے ایسے لوگوں کے قول و فعل کا اعتبار نہیں نہ ان میں اخوت اور وطنیت کا پاس رہتا ہے۔ یہ امت محمدیہ کو سنایا جاتا ہے۔ رات کو اندھیرے میں یہ لوگ پکڑ لیتے تھے اور پھر گوشت پکا کر کھاتے تھے جیسا کہ تورات میں مشرحاً مذکور ہے۔ یہ آٹھواں انعام ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ یاد دلاتا ہے اور تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل مشقت سفر سے گھبرائے تو خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریائے یرون کے اس کنارہ تک پہنچا کر کنعان کی تمام سرزمین دکھائی اور خبر دی کہ تو اس ملک میں نہ جانے پائے گا بلکہ تیری موت یہیں ہوگی۔ مگر بنی اسرائیل کو کہہ دیجئے کہ میں تم کو یہ ملک دیتا ہوں اور عنقریب تم اس شہر یریحو کو (کہ جس کو اریحا کہتے ہیں) فتح کرو گے۔ پس جب تم ان شہروں میں جا داخل ہو تو خدا کی نعمتیں اور طرح طرح کے میوے کھانا مگر اس کے شکریہ میں یہ بات ضرور ہے کہ جب دروازے میں سے گزرو تو اپنی فتح اور بہادری پر نہ اترانا بلکہ سجدہ کرتے ہوئے یعنی عاجزی کرتے ہوئے اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے جانا۔ اس پر ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور جو تم میں نیک ہیں ان کو اس کے معاوضہ میں ہم اور زیادہ عطا کریں گے۔ پھر جب حضرت یوشع بن نون کے عہد میں بنی اسرائیل نے یہ ملک اور یہ شہر فتح کئے تو بجائے تواضع اور استغفار کے سرکش اور بدکار بن گئے اور طرح طرح کی بدکاری اور بت پرستی کرنے لگے خدا نے ان پر آسمانی بلا نازل کی کہ وبا سے ہزاروں ہلاک ہوئے اپنے افعالِ بد کا نتیجہ پایا۔ فائدہ : یہ قصہ سورة اعراف میں بھی یاد دلایا ہے۔ اس عنوان سے۔ واذ اقیل لہم اسکنو اھذہ القریۃ و کلوا منہا حیث شئتم و قولوا حطۃ وادخلوا الباب سجدا نغفرلکم خطایاکم وسنزید المؤمنین۔ فبدل الذین ظلموا منہم قولا غیر الذی قیل لہم فارسلنا علیہم رجز من السماء بما کانوا یظلمون۔ اب یہ نکات کہ اس سورت میں اسکنوا فرمایا اور بقر میں ادخلوا کہا اور وہاں یظلمون اور بقر میں یفسقون فرمایا (وغیرہ ذلک) تفسیر کبیر وغیرہ کتب میں ملاحظہ کرنے چاہییں۔
Top