Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور بیشک تم کو وہ لوگ بھی معلوم ہیں کہ جنہوں نے تم میں اسی سبت کے دن زیادتی کی تھی پھر ہم نے ان سے کہہ دیا کہ ذلیل پھٹکارے ہوئے بندر ہوجائو
ترکیب : علمتم بمعنی عرفتم فعل انتم فاعل الذین اعتدوا الخ جملہ مفعول منکم حال ہے ضمیر اعتدوا سے ای المعتدین کائنین منکم فی السبت متعلق ہے اعتدوا سے خاسئین جو مشتق ہے خساء اذاذل سے صفت ہے قردۃ کی اور ممکن ہے کہ خبرثانی ہو یا کونوا کی فاعل سے حال ہو فجعلناھا ای العقوبہ نکالا مفعول ثانی ہے۔ تفسیر : جب خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنے انعام یاد دلا چکا تو اس کے بعد جو کچھ نافرمانی اور انعام پر ناشکری کرنے سے برے نتیجے پیدا ہوتے ہیں وہ یاد دلاتا ہے تاکہ لوگوں کو عبرت و نصیحت ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس قسم کے واقعات پر سوائے اس شخص کے (کہ تورات کیا بلکہ مجموعہ عہد عتیق کا بڑا حاوی ہو) اور کوئی عادتاً واقف نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص وہ شخص کہ جو امی ہو اور جس نے یہود کے ملک میں پرورش بھی نہ پائی ہو چہ جائیکہ ان کی تعلیم و صحبت۔ پھر یہ حالت بیان کرنا صریح اس بات کی دلیل ہے کہ خدا علام الغیوب اس شخص کو خبر دے رہا ہے اور یہ اس کا سچا نبی ہے۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد یہود پر گزرا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے عہد میں سمندر کے کنارہ پر ملک شام میں کوئی شہر یا قصبہ تھا (جس کو بعض نے ایلہ کہا ہے) ہفتہ کے روز کہ جس کو سبت کہتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں شکار کھیلنے یا اور کاروبار دنیاوی کرنے کی سخت ممانعت تھی جیسا کہ تورات میں مذکور ہے۔ وہاں کے لوگوں نے حیلہ کیا کہ پانی کی نالیاں حوضوں میں ڈال دیں ہفتہ کے روز ان نالیوں کے ذریعہ سے حوضوں اور تالابوں میں مچھلیاں جمع ہوجاتی تھیں اور وہ نالیوں کو بند کردیتے تھے پھر اتوار کو پکڑ کر کھاتے۔ جب یہ پشت گزر گئی تو نئی پشت کے لوگ تو خاص ہفتہ کے روز بھی مچھلیاں پکڑنے لگے۔ ہرچند انبیاء اور صلحاء سمجھاتے تھے مگر وہ نہ مانتے تھے۔ تب خدا نے ان پر قہر نازل کیا کہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور شدت ورم سے ان کی شکلیں بگڑ کر بندروں کی سی ہوگئیں اور تین روز میں ہزاروں آدمی مرگئے۔ چناچہ سموئیل کی دوسری کتاب کے 24 1 ؎ باب میں مجملاً اس قصہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہود میں یہ واقعہ عبرت انگیز ہر شخص کے زبان زد تھا۔ چناچہ آنحضرت (علیہ السلام) کے ہمعصر یہود مدینہ بھی اس کو خوب جانتے تھے۔ اس لیے فرما دیا ولقد علمتم۔ اس واقعہ کو سورة اعراف میں بھی خدا تعالیٰ یاد دلاتا ہے۔ واسئلہم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر اذیعدون فی السبت اذتاتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرعا و یوم لایسبتون لاتاتیہم کذلک الآیۃ مجاہد نے کہا ہے کہ خدا نے ان کو سچ مچ بندر ہونے کا حکم نہ دیا تھا جس طرح احمق اور بےشرم کو گدھا اور کتا کہتے ہیں اسی طرح ان کو بندر فرمایا مگر جب اس کلام کے حقیقی معنی جو ہم نے بیان کئے صحیح ہوسکتے ہیں تو مجاز کی طرف رجوع ہونے کی کیا ضرورت ؟ فائدہ : ان بندروں کو ان کی نسل سمجھنا بیوقوفی ہے۔
Top