Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دار نہیں ہیں۔
ترکیب : یقول فعل ضمیر ہوراجع مَنْ کی طرف اس کا فاعل اور آمنا باللہ الخ جملہ فعلیہ اس کا مقولہ فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صفت ہوئی مَنْ نکرہ موصوفہ کی من جار الناس مجرور جار مجرور متعلق ثابت یا ثبت کے ہوا جو رافع ہے من کا تقدیر کلام یوں ہوئی و من الناس ناس یقولون یہ جملہ خبر یہ ہوا اس کا عطف الذین یؤمنون الخ پر یا قصہ کفار مصرین پر ہے اور ممکن ہے کہ من کو موصولہ مانا جاوے ھم ما کا اسم اور بمؤمنین خبر۔ اسم و خبر مل کر جملہ خبریہ ہوا اور واو حالیہ کے ساتھ مل کر حال ہوا۔ فاعل یقول سے جو من ہے من لفظ مفرد ہے مگر معنی میں تثنیہ اور جمع کے بھی آتا ہے اسی لیے علم اصول میں اس کو عام گنا ہے۔ پس بااعتبار لفظ کے یقول صیغہ واحد بولا گیا اور باعتبار معنی کے ھم اور امنا جمع کے صیغے بولے گئے۔ بعض یوں بھی کہتے ہیں کہ من یقول امنا باللہ الخ مبتدا اور من الناس ثابت کے متعلق ہو کر اس کی خبر ہوئی۔ تنبیہ : کفار کے حال کو بطور عطف کے اس لیے نہیں بیان کیا تھا کہ وہاں متقین کا حال بطور ضمن کتاب کے تھا اس لیے مضادت مانع عطف ہوئی اور چونکہ کفار کا حال مستقلاً بیان کیا دوسری قسم منافقین کا عطف اس پر زیبا ہوا۔ تفسیر : مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بظاہر تو یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ اور رسول ﷺ اور قیامت پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے تاکہ مسلمانوں میں مل کر منافع دنیا حاصل کریں اور ہر قسم کی سختی سے جو ان پر پیش آنے والی تھی اسلام کو آڑ بنا کر بچیں مگر یہ ایمان درحقیقت ایمان نہ تھا اور بغیر خلوص دل زبان سے کہنا خدائے تعالیٰ علام الغیوب کے آگے کچھ بھی وقعت نہیں رکھتا، اس لیے خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرنے کے لیے فرمایا کہ یہی لوگ فریبی ہیں ہرگز مومن نہیں۔ ان لوگوں کو شرع میں منافق کہتے ہیں ان میں سب کا سرگروہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ حضرت ﷺ کے مدینے میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں نے چاہا تھا کہ اس کو سرداری کی پگڑی بندھوا دیں اور مدینہ کا سردار بنا دیں لیکن جب حضرت ﷺ تشریف لائے اور روح کی زندہ کرنے والی باتوں سے تمام جہالت کی تاریکیاں لوگوں میں سے دور ہوگئیں اور لوگوں کو ایک نئی زندگانی کا مزہ آگیا تو پھر ان کے روبرو اس دنیا پرست کی کچھ بھی وقعت نہیں رہی۔ اس لیے اس شخص کو حضرت ﷺ اور اہل اسلام سے حسد اور رنج پیدا ہوا مگر غلبہ اسلام کی وجہ سے یہ خبث باطن کو ظاہر نہ کرسکا اور لوگوں کے ساتھ بظاہر آپ بھی اسلام میں شمار ہوا کیا۔ لیکن یہ اور اس کے رفیق یہود جو مدینہ کے آس پاس بستے تھے اور دس پانچ اور اسی کے ہم قوم ہمیشہ درپردہ اسلام کی بیخ کنی کرتے رہے اور اس آفتاب عالمتاب پر گرد اڑانے اور اس چراغ جاودانی کے بجھانے میں ہر طرح کی کوشش کرتے رہے۔ سورة برأت اور منافقون اور اس سورة اور دیگر سورتوں میں ان کے اقوال و افعال ناشائستہ کا جواب مذکور ہے اور جو کچھ غزوات میں انہوں نے فتور برپاکئے ہیں وہ بھی مسطور، جس سے خدا نے نفاق کی جڑ کو بالکل کاٹ دیا۔ متعلقات : نفاق کی چند قسم ہیں : اول یہ کہ زبان سے اسلام اور ایمان ظاہر کرے مگر درپردہ صاف منکر ہو۔ دوم یہ کہ درپردہ صاف منکر تو نہ ہو مگر یقین بھی نہ ہو بلکہ متردد اور تذبذب ہو۔ سوم یہ کہ دل میں تصدیق تو ہو مگر کامل نہ ہو اور گناہوں اور حب دنیا اور غلبہ شہوات نے اس کو ایسا کردیا ہو کہ یہ دنیا کے منافع کو ایمان پر مقدم سمجھتا ہو، دنیا کی خاطر لشکر اسلام کا مقابلہ اور اہل اسلام کی بربادی اور دین کی ہجو اس کے نزدیک کچھ مشکل نہ ہو۔ یہ تینوں خدا کے نزدیک سخت کافر ہیں اور جہنم کے سب سے اسفل طبقہ میں رہیں گے۔ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارْ ، ان تینوں قسم کے منافق مدینہ میں موجود تھے۔ چہارم یہ کہ قال حال کے مطابق نہ ہو۔ زبان سے کچھ کہے دل میں کچھ اور ہو جس کو تقیہ 1 ؎ کہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے کافر نہیں ہوتا مگر یہ بھی انہیں منافقین کا شیوہ ہے اور سراسر ناراستی ہے، نور ایمان اور صداقت کی روشنی ذرا بھی مکروفریب کو گوارا نہیں کرتی چہ جائیکہ اس پاک مذہب کا رکن قرار دے کر اس کے نورانی چہرہ پر دھبہ لگایا جاوے۔ بلکہ نبی ﷺ کے فیض صحبت سے صحابہ ؓ تو اپنی حالت قلبیہ میں ذرا بھی فرق آنے کو نفاق سمجھتے تھے۔ چناچہ امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ حنظلہ بن ربیع اسدی ؓ سے حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا میں تو منافق ہوگیا۔ ابوبکر ؓ نے کہا تو یہ کیا کہتا ہے۔ اس نے عرض کیا کہ جب ہم نبی ﷺ کے پاس سے گھر آتے ہیں اور بیوی بچوں میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ کیفیت جو وہاں ہوتی ہے اس کو بھول جاتے ہیں۔ ابوبکر ؓ نے کہا میرا بھی یہی حال ہے۔ تب دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں گئے اور حنظلہ ؓ نے یہ حال بیان کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے حنظلہ ! اگر تم اسی حالت میں رہو کہ جو میرے پاس ہوتی ہے اور یاد الٰہی میں رہو تو ملائکہ تم سے گلی کوچوں میں اور بستروں پر مصافحہ کیا کرتے مگر یہ بات کبھی کبھی ہوتی ہے۔ نکات : (1) منافقین دعویٰ کرتے تھے ہم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے بھی ان کی ادعا کے موافق باللہ و بالیوم الآخر کو خاص کیا تاکہ معلوم ہو کہ جس میں تم کو دعویٰ ہے اس میں بھی تم سچے نہیں کیونکہ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تو اس مکر اور فریب کو خدا اور اس کے رسول ﷺ سے جائز نہ رکھتے اور باتوں میں تو تمہارے ایمان کا کیا اعتبار ہے یعنی جہاں تم کو سچائی کا دعویٰ ہے وہیں جھوٹے ہو، چہ جائیکہ جہاں تم کو خود نفاق مقصود ہو۔ (2) اگرچہ سیاق کلام یہ چاہتا تھا کہ ان کے جواب میں ما آمنوا کہا جاتا تاکہ جواب مطابق ہوتا مگر برعکس اس کے ماھم بمؤمنین فرمایا تاکہ ان سے ایمان کی نفی اچھی طرح سے ہوجائے۔ کس لیے کہ زمانہ ماضی میں ان کو ایمان سے باہر بیان کرنا جیسا کہ ما آمنوا سے سمجھا جاتا اس امر میں اتنا فائدہ نہیں بخشتا کہ جو ان کو ہمیشہ کے لیے ماھم بمؤمنین سے ایمان سے باہر کردینا بخشتا ہے۔ علاوہ اس کے ما آمنوا میں بمقابلہ جواب صرف اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے کی نفی سمجھی جاتی اور جبکہ ماھم بمؤمنین کہا اور نفی کو با سے مؤکد کردیا تو بالکل ایمان سے بےبہرہ ہونا ثابت کردیا کہ ان کا ایمان نہ اللہ پر ہے، نہ قیامت پر، نہ نبی ﷺ اور قرآن اور اس کے معجزات پر۔ اس کے بعد خدائے تعالیٰ ان کے اس فعل سے جو غرض ہے اس کو بیان فرماتا ہے : 1 ؎ اہل اسلام میں اول صدی کے اخیر میں جو کچھ خلافت کی بابت زیادہ نزاع ہوئی تو ایک گروہ حضرت علی ؓ کی طرفداری کا یہاں تک دم بھرنے لگا کہ جس کو وہ خود بھی جائز نہ رکھتے تھے اور پھر رفتہ رفتہ وہ ایک فریق ہوگیا جس کو شیعہ کہتے ہیں اور یہ فریق اکثر عراق ایران میں پھیلا اور ایران میں مجوس کے ہاں یہ تقیہ ہمیشہ سے چلا آتا تھا۔ چناچہ دساتیر نامہ ساسان اول کے (40) جملہ میں مرقوم ہے ان کی تقلید سے یہ مسئلہ اس گروہ نے بھی اپنے مذہب میں جاری کیا اور جہاں کہیں حضرت علی ؓ اور آئمہ اہلبیت سے خلفائِ ثالثہ کی مدح منقول ہے اس کے جواب میں اس تقیہ سے کام لیا اور کہہ دیا کہ وہ تقیہ کرتے تھے۔ اس لغویات کو روشن دماغ شیعہ بھی ہرگز نہیں تسلیم کرتے اور آئمہ کبار کی نسبت حق پوشی اور نفاق کا عیب لگانے سے ازحد ڈرتے ہیں۔ ہاں جو لوگ ملائوں کی تقلید اور ان کے رطب و یابس روایات حکایات پر غش ہیں وہ اس کو مانتے ہیں۔ 12 منہ
Top