بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب تو قریب آ لگا اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
ترکیب : وھم مبتداء و معرضون خبر وفی غفلہ ضمیر معرضون سے حال ہے ای اعرضوا غافلین اور ممکن ہے کہ خبرثانی ہو۔ لاھیۃ قلوبہم حال ہے ضمیر یلعبون سے اور یہ دونوں حال مترادف یا متداخل ہیں اور جس نے لاھیۃ کو مرفوع پڑھا ہے تب ایک ہی حال ہے کس لیے کہ یہ خبر بعد خبر ہے ہل ہذا جملہ محل نصب میں ہے النجوی سے بدل کر ای واسروا ھذا الحدیث۔ قال بصیغہ ماضی رسول کا قول ہوگا حمزہ و کسائی و حفض کی قرأت کے بموجب اور دیگر قراء نے قل بصیغہ امر پڑھا ہے۔ تفسیر : یہ سورة مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہے اس میں بیشتر توحید و نبوت اور عالم آخرت کا ثبوت اور انبیاء (علیہم السلام) کے عبرت انگیز تذکرے اور ان کی نافرمان امتوں کا انجامِ بد اور انسان کا بارگاہِ الٰہی میں حساب دینے کے لیے حاضر ہونا بیان ہے پس فرماتا ہے اقترب الخ کہ انسان کے حساب کا وقت تو قریب آ لگا اور وہ غفلت میں ہی پڑا ہوا خدا کے فرستادوں سے منہ موڑ رہا ہے اور جو کوئی نئی بات وعظ و پند کی ان کے کانوں میں پڑتی ہے تو اس کی طرف کھیل کود میں توجہ بھی نہیں کرتے۔ حسابہم مفسرین کہتے ہیں کہ حساب سے مراد قیامت کے دن کا حساب ہے اور گو وہ ابھی صدہا ہزارہا سال بعد آئے گا مگر آیندہ آنے والی چیز تو گھڑی گھڑی قریب ہی ہوتی جاتی ہے کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ ما اقرب ماھوآت۔ وما ابعد ماھوفات۔ آنیوالی چیز بہت قریب ہے۔ اور جانے والی چیز بہت دور ہے۔ فقیر کہتا ہے کہ حساب کا وقت کچھ قیامت ہی پر موقوف نہیں بلکہ موت کے بعد بھی انسان اپنے خدا کے روبرو جاتا اور اس کو قبر میں اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے سو یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے پس اس وقت کے قریب ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں یعنی انسان غفلت کی نیند میں سوتا ہے کہ موت آلیتی ہے اسروا النجوی یہ جملہ مستانفہ ہے ان کی عادات رذیلہ کے بیان میں ان کے اعراض اور کھیل اور کود کے ثبوت میں۔ النجویٰ اسم ہے التناجی سے جس کے معنی سرگوشی کرنا پھر اس کے مخفی کرنے کے یہ معنی کہ ان باتوں کو جن کا ذکر اگلے جملہ میں آتا ہے نہایت مخفی طور پر باہم کہتے تھے۔ انسان جس بات کو اہم سمجھتا ہے اس کی بابت مخفی طور پر مشورہ کیا کرتا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں۔ (1) ھل ھذا الابشر مثلکم کہ یہ رسول تو تمہارے جیسا آدمی ہے جس طرح ہم کھاتے پیتے ‘ سوتے جاگتے ہیں ایسا ہی یہ بھی ہے۔ پھر یہ رسول کیسا جو خدا کی باتیں خاص اس کے پاس آتی ہیں ہمارے پاس نہیں ؟ ان کے خیال میں رسول بشریت کے جامہ سے باہر اور ملکیت کے لباس میں ہونا چاہیے تھا جو کھانے پینے سے پاک ہو اور ہمیشہ جیتا رہے جس کے رد میں آگے ارشاد ہوتا ہے۔ (2) افتاتون السحر و انتم تبصرون قرآن مجید کو اس کے اعجاز کی وجہ سے مکہ کے کافر جادو کہتے تھے۔ پھر اس کی نسبت ایک دوسرے کو کہتا تھا کہ تم قرآن پر نہ چلو جان بوجھ کر کیوں جادو پر چلتے ہو ؟ یہ بات ان کے دل میں نہ تھی دل میں تو حق جانتے تھے مگر لوگوں کے گمراہ کرنے کو سحر اور جادو کہتے تھے قال ربی یعلم القول یہ ان کے مخفی کہنے کے جواب میں ہے کہ رسول نے ان کا مخفی راز ان سے کہہ دیا یارسول کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہہ دو تم ہزار چھپاؤ میرا رب جو آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے اور سننے والا ‘ جاننے والا ہے اس سے تمہارا یہ مخفی مشورہ کب مخفی رہ سکتا ہے ؟ القول صاحب کشاف کہتے ہیں لفظ قول عام ہے شامل ہے سروجہر کو تاکید کے لیے یعلم السر کی جگہ یعلم القول کہا۔
Top