Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور (اے نبی ! ) آپ سے پہلے بھی ہم نے کسی آدمی کے لیے ہمیشگی نہیں بنائی۔ تو پھر کیا آپ مرجائیں گے تو وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ؟
ترکیب : فتنۃ مفعول یا موضع حال میں اے فانتین یا مفعول مطلق ای نفتنکم بھا فتنہ الا ھزوا مفعول ثانی۔ من عجل موضع نصب میں خلق سے علی المجاز جیسا کہ خلق من طین۔ اور حال بھی ہوسکتا ہے ای عجلا و جواب لو محذوف وحین مفعول بہ ہے۔ بغتۃ مصدر موضع حال میں۔ تفسیر : آفتاب و ماہتاب اور دیگر داردنیا کے ارکان بیان فرما کر جن میں غور کرنے سے اس گھر کے بنانے والے کا وجود ثابت ہوتا تھا یہ بات بیان فرماتا ہے کہ کسی کو سدا اس گھر میں رہنا نہیں۔ اے محمد ﷺ ! تم سے پہلے کوئی ہمیشہ رہنے والا نہیں بنایا نہ تم کو ہمیشگی ہے اور نہ تمہارے بعد ہمیشہ یہ رہیں گے جو تمہارے مرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ وما جعلنا الخ اس دنیا میں امتحان کے لیے تم آئے ہو تاکہ تم نیکی کر کے دار آخرت کی خوبیوں کے مستحق بنو اور ہمارے پاس ہر ایک کو ضرور آنا ہے پھر ہر ایک کو نیکی بدی کا بدلہ ملنا ہے واذا راک الخ مگر اب ان دار آخرت سے غافلوں اور داردنیا کے مفتونوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ دار آخرت کے ہادی کا اتباع کرتے اس سے ہر وقت تمسخر اور ٹھٹھا کر کے کہتے ہیں کہ کیا یہی تمہارے بتوں کو برائی سے یاد کرتا ہے ؟ یعنی ان کی خدائی باطل کرتا ہے ان کو بےاختیار اور عاجز کہتا ہے مقاتل وسدی کہتے ہیں کہ یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی ہے یعنی وہ زیادہ تر ٹھٹھا کیا کرتا تھا۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ فرماتا ہے کہ بتوں کے اور اپنے فرضی معبودوں کے ذکر سے تو ایسا خفا ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے ذکر یعنی اس کے اوصاف حمیدہ وحدہ لاشریک لہ اور قادر مطلق ہونے وغیرہ کے منکر ہیں ایسا برتاوا کرتے ہیں جس سے اس کے ان اوصاف کا انکار لازم آتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ حقیقی معبود کے مقابلہ میں فرضی معبودوں کی یہ قدرومنزلت ؟ پھر دارآخرت اور حیات جاودانی کیونکر نصب ہوگی ؟ خلق الانسان من عجل اے خلق عجولا وذلک علی المبالغۃ۔ یعنی دارآخرت کا ہادی جو ان کو بری باتوں سے جو پیش آنے والی ہیں روکتا ہے تو اپنی جلدبازی سے کہتے ہیں کہ متی ھذا الوعد وہ وعدہ کب پورا ہوگا اور جلد ہم پر کیوں عذاب نہیں آچکتا۔ فرماتا ہے س اور یکم آیاتی کہ ابھی میری آیتوں کا یعنی ان باتوں کا کہ جن کا وعدہ کیا گیا ہے زندگی میں اور مرنے کے بعد ظہور ہوجاتا ہے جلدی نہ کرو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جلدبازی اس لیے ہے کہ ان کو اس کا یقین نہیں اور اگر ان کو وہ وقت معلوم ہوجائے کہ جب جہنم میں ہر طرف سے آگ ان کو گھیرے گی کبھی اس کی جلدی نہ کرتے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان آیات میں سے ایک قیامت ہے کہ جو فوراً آجائے گی مہلت نہ لینے دے گی۔ پھر آپ کو (علیہ الصلوۃ والسلام) تسلی دیتا ہے کہ یہ تمسخر کوئی نئی بات نہیں کفار ہمیشہ انبیاء سے تمسخر کرتے چلے آئے ہیں جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ وبال عذاب جس کی بابت وہ تمسخر کرتے تھے انہی پر الٹ پڑا۔
Top