Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے عطا کی مُوْسٰى : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون الْفُرْقَانَ : فرق کرنیوالی (کتاب) وَضِيَآءً : اور روشنی وَّذِكْرًا : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور البتہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی اور روشنی دینے والی اور پرہیزگاروں کی فہمائش کرنے والی (کتاب) دی تھی
تفسیر : یہ دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جس میں حضرت کا ابتدائِ عمر میں موحد ہونا اور اپنی قوم سے بت پرستی کی تحقیر کرنا اور جب وہ عید میں باہر گئے تھے بعد میں ان کے چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالنا اور بڑے کا باقی رکھنا اس الزام دینے کے لیے کہ ان سے پوچھو پھر بت پرستوں کا اس بات سے ناراض ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنا اور رحمت الٰہی سے جو ہمیشہ اس کے پاکباز بندوں کے ساتھ رہتی ہے آگ کا سرد اور باغ ہوجانا مذکور ہے اس میں عرب کے مشرکین کی طرف سے تعریض بھی ہے کہ تم کیسے ابراہیم کے فرزند ہو اس نے تو بت پرستی کو یوں مٹایا اور تم خود بت پرستی میں مشغول ہو۔ اگر باپ دادا ہی کی تقلید کرتے ہو تو اپنے جدِامجد ابراہیم کی تقلید کرو۔ ولقد اتینا ابراھیم رشدہ من قبل رشد سے مراد نبوت جس پر جملہ کنابہ عالمین دلالت کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نبوت کے ساتھ اس کو مخصوص کیا کرتا ہے کہ جس کو جان لیتا ہے کہ یہ اس عہدہ کو بامانت و حفاظت سرانجام دے گا اور انجام دینے کے قابل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد نور ہدایت اور باطنی روشنی ہے جس میں نبوت بھی آگئی۔ من قبل سے مراد یہ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) سے پیشتر بعض کہتے ہیں لڑکپن کا زمانہ جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) غاریاتہ خانہ میں پوشیدہ تھے جب ہی سے آثار رشد ان میں نمایاں تھے کیوں نہ ہو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ تماثیل جمع تمثال آدمی یا دیگر حیوان یا کسی اور چیز کی صورت جسم دار خواہ پیتل کی ہو، پتھر لکڑی کی ہو جس کو ہندی میں مورت کہتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شہر بابل یا آہواز کے باشندے تھے۔ اس عہد میں صابیوں کا مذہب مروج تھا جو ستاروں اور 1 ؎ یعنی شرمندہ ہو کر کہا۔ 12 منہ۔ دیگر پیکر نورانی کی پرستش کیا کرتے تھے اور ان کے مناسب ان کی مورتیں بنا کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے خاص بابل میں ان کا ایک بڑا عالیشان مندر تھا جس کی بلندی اور دیگر عمارات کا حال سن کر حیرت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) لڑکپن سے ہونہار اور ابد تک موحد قوم کے پیش رو ہونے والے علم الٰہی میں مقرر ہوچکے تھے۔ ان کو اس بت پرستی سے نفرت ہوئی باپ اور دیگر اقارب سے اس امر میں مناظرے شروع ہونے لگے پہلے ستاروں کے طلوع و غروب سے ان کی الوہیت باطل کر کے قوم کو الزام دیا پھر کہہ اٹھے کہ میں تمہارے معبودوں کو بھی ٹھیک کروں گا چناچہ جب سب لوگ شہر سے باہر اپنی عید کے لیے گئے جو تو ان کے معبودوں کی پرستش میں ایک سالانہ بڑا بھاری جشن ہوا کرتا تھا۔ ابراہیم ( علیہ السلام) مرض کا عذر کر کے پیچھے رہ گئے ان کے بت خانہ میں جا کر ان کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہنود کے ہاں چھوٹی چھوٹی مورتیں ہوتی ہیں ان کے ہاں بھی ویسی ہوں گی اور ایک مورت کو جو سب میں بڑی تھی رہنے دیا جب وہ لوگ واپس آئے یہ حال دیکھا تو بڑے طیش میں آئے۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا کام ہے کیونکہ کسی نے کہا کہ آج قوم بھر میں وہی ان کی اہانت کیا کرتا ہے پھر اس کے سوا اور کون ایسا کرسکتا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجلس قومی کے سامنے حاضر کیا گیا اور ان سے سوال کیا کہ یہ کام کس ظالم نے کیا۔ فرمایا کہ یہ تمہارے معبود ہیں اس میں ہر قسم کی قدرت ہے خود ان سے دریافت کرلو۔ الزام دینا مقصود تھا کہ یہ کیسے معبود ہیں کہ جن کو کسی نے توڑ ڈالا یہ کچھ نہ کرسکے اور نیز اب بیان بھی نہیں کرسکتے۔ ان میں باہم لڑائی ہوئی ہوگی ‘ بڑے نے چھوٹوں کو مار ڈالا 3 ؎ واضح ہو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے آپ کو بیمار کہنا اور بت شکنی کو بڑے بت کی طرف منسوب کرنا آفتاب کو ہذاربی کہنا یا مصر میں جا کر کافر بادشاہ کو خوف سے اپنی بیوی سارا کو بہن کہنا نسب آبائی کے لحاظ سے جھوٹ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ باتیں ازقسم تعریض وتوریہ ہیں مجازا جھوٹ کہو تو کہو ‘ سو یہ بھی ایسے اولوالعزم نبی کے لیے موجب استغفار تھا۔ لوط ( علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرنا اور صالحین میں سے ہونا فرمایا اب اس سے وہ قصہ جو تورات موجودہ میں ہے کہ لوط نے شراب پی کر اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کیا غلط ثابت ہوگیا ایسا نبی کہ جس کی امت اغلام کرنے سے ان کے روبرو غارت ہو آپ ایسا فعلِ بد کرسکتا ہے۔ 12 منہ
Top