Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 94
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
فَمَنْ : پس جو يَّعْمَلْ : کرے مِنَ : کچھ الصّٰلِحٰتِ : نیک کام وَهُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : ایمان والا فَلَا كُفْرَانَ : تو ناقدری (اکارت) نہیں لِسَعْيِهٖ : اس کی کوشش وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے كٰتِبُوْنَ : لکھ لینے والے
پھر جو کوئی اچھے کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی اور ہم اس کے لکھنے والے ہیں
جس کے بعد بطور معیار کے فرماتا ہے فمن یعمل من الصلحت کہ جو کوئی ایمان لائے گا اور پھر نیک کام کرے گا خواہ کوئی ہو اس کی کوشش کا قطعاً بدلہ ہم دیں گے پھر فرماتا ہے و حرام علی قریہ حرام خبر ہے اس کا متبداء یا انہم لایرجعون ہے یا کچھ اور۔ اول صورت میں بعض علمائے نے لاکو زائد نہیں مانا ہے تب یہ معنی ہوں گے کہ ان کا عدم رجوع حرام یعنی ممتنع ہے تب رجوع کرنا ان پر واجب یعنی ضرور ہے اور آخرت کی طرف اھلکناھا ‘ اکثر مفسرین لاکو زائد کہتے ہیں تب یہ معنی کہ ان پر رجوع کرنا دنیا میں باردگر آنا حرام کردیا ہے یا یہ کہ ان کی تقدیر میں شرک و معاصی سے باز آنا حرام تھا اس لیے وہ غارت ہوئے۔ جمہور کا قول بہت ٹھیک ہے کہ ان کو باردگر دنیا میں آنا تدارک مافات کے لیے حرام ہے پھر اس کی غایت فرماتا ہے کہ کب تک ؟ حتی اذافتحت یاجوج وماجوج یا جوج وماجوج جو دو قومیں بند ہیں (دیوار سے) ان کے کھلنے تک اور اس وقت تک کہ وعدہ قیامت قریب آلگے اور لوگوں کی آنکھیں اس سخت وقت میں خوف و دہشت سے رحمت کے انتظار میں اوپر کی طرف لگ جاویں اور کافر یہ کہنے لگیں کہ ہائے خرابی ہم بدکار تھے یعنی قیامت تک وہ دنیا کی طرف رجوع نہ کریں گے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حتی اذافتحت یا جوج ماجوج الخ حرام کی غایت نہیں بلکہ مستقل کلام ہے اور حتی کسی محذوف مناسب کی غایت ہے قیام الدین و غیر یا اور یہاں سے مسئلہ معاو شروع ہوتا ہے یعنی یہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) دنیا میں لوگوں کی رہنمائی کو آئے تھے کہ دارآخرت میں عذاب سے بچیں۔ نعیم باقیہ حاصل کریں اور یہ دنیا ایک وقت معین تک باقی ہے پھر فنا ہوجائے گی فنا کی ابتداء اور علامت خروجِ یا جوج وماجوج ہے اس کے بعد وعدہ حق بہت قریب آلگے گا ‘ قیامت برپا ہوجائے گی اور اس روز گنہگاروں کی آنکھیں دہشت یا انتظار رحمت میں اوپر لگی ہوں گی اور اپنے گناہوں کا آپ اقرار کریں گے حقیقت حال کھل جائے گی بت اور بت پرست جہنم میں پھینک دیے جائیں گے وہاں روئیں پیٹیں ‘ چیخیں چلائیں گے مگر بےسود نیکوں کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھ کر نعمائِ ابدیہ سے سرفراز کیا جائویگا۔ یاجوج و ماجوج کا مفتوح ہونا یعنی دیوار سے کھولا جانا قرب قیامت میں ہوگا وہ دیوار ٹوٹ جائے گی یہ قوم بدکار پھیل پڑے گی۔ ہر بلندی سے اترتے آنا محاورہ ہے دوڑتے ہوئے آنے سے۔ یہ جملہ یا جوج و ماجوج کے ذکر میں تبعاً آگیا۔ اس قوم کا قریب قیامت میں ظاہر ہونا اس آیت اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور کتاب حزقیل کی 39 فصل میں مصرحاً مذکور ہے۔
Top