Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 14
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو لوگ ایمان لائے وَ : اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : انہوں نے درست عمل کیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
بیشک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کئے ایسے باغوں میں داخل کرے گا کہ جن کے نیچے پڑیں نہریں بہتی ہوں گی۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
منافقوں کی عبادت اور ان کے معبودوں کا حال بیان فرما کر اس جگہ سچے ایمانداروں کی عبادت کا حال بیان فرماتا ہے اور ان کے معبود حقیقی کا وصف کرتا ہے کہ اللہ جو معبود حقیقی اور قادر مطلق ہے اپنے ایمانداروں نیکو کار بندوں کو مرنے کے بعد ایسے باغوں میں داخل کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے قادر مطلق ہے برخلاف ان کے معبودوں کے کہ ان کو نفع و ضرر کا کچھ بھی اقتدار نہیں۔ من کان یظن ان لن ینصرہ اللہ میں ان منافقوں کی طرف روئے سخن ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عبادت تردد اور شک سے کرتے ہیں کہ جہاں کوئی دنیا کا فائدہ معلوم ہوا تو جمع رہے ‘ کوئی تکلیف آپڑی تو اللہ سے پھر کر باطل معبودوں کی طرف متوجہ ہوگئے کہ بھلا وہ ان معبودوں کی طرف متوجہ ہو کر تو اپنا کام بنالیں اور دیکھیں ان کے دل کا غصہ جو خدا پر ہے کس طرح سے نکالتے ہیں۔ وہ جیسی چاہیں تدابیر کرلیں ‘ جس قدر چاہیں زور لگا لیں حتٰی کہ آسمان کی طرف یا اپنے گھر کی چھت میں (کیونکہ السماء سے سماء البیت بھی مراد ہوسکتا ہے) کوئی رسی لٹکا کر اس سے گلا گھونٹ کر مرجاویں۔ پھر دیکھیں کہ اس تدبیر سے بھی ان کے دل کا غصہ نکلتا ہے ؟ یعنی ہزار تدبیریں کریں کچھ نہ ہوگا۔ خدا ہی نہ چاہے، تو کیا ہوسکتا ہے۔ یہ معنی اس تقدیر پر ہیں کہ ینصرہ کی ضمیر من کی طرف رجوع کی جاوے جیسا کہ سیاق چاہتا ہے۔ مگر ابن عباس ؓ و کلبی و مقاتل و ضحاک وقتادہ و ابن زید و سدی و فراء وزجاج اس کو حضرت محمد ﷺ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ محمد ﷺ کی دنیا میں اس کا بول بالا کر کے اور آخرت میں اس کا درجہ بلند کر کے اس کی مدد نہ کرے گا اور اسی لیے وہ اسلام کے قبول کرنے میں تردد کرتا ہے جیسا کہ مقاتل کہتے ہیں یہ آیت غطفان اور اسد کے چند لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو کہتے تھے کہ ہم کو خوف ہے کہ خدا محمد ﷺ کی مدد نہ کرے تو ہم اپنے حلیفوں سے بھی گئے گزرے ہوئے یا جو آنحضرت ﷺ سے حسد رکھتے ہیں اور حسد کے مارے یہ خیال کرتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ جیسا دل چاہے ویسی تدبیر اور داؤ کرلیں یہاں تک کہ کوئی رسی لٹکا کر اس سے گلا گھونٹ کر مرجاویں یا رسی کے ذریعہ سے آسمان پر پہنچ جائیں تب بھی کچھ نہ ہوگا خدا اپنے رسول کی دنیا و آخرت میں مدد کرے گا اور ضرور کرے گا کیونکہ ابھی ہم کہہ چکے ہیں ان اللہ یفعل ما یرید یا کوئی ایسا سبب پیدا کریں کہ جس سے آسمان پر چڑھ جاویں اور وہاں سے ناکام ہونے پر گر کر مرجاویں لیقطع کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں سبب کے معنی رسی کے اور وسائل کے بھی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ بعض مسلمان حضرت ﷺ کے فتوحات اور غلبہ میں دیر ہونے کی وجہ سے خفا اور دل تنگ ہوا کرتے تھے اس آیت میں ان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ جو چاہیں کرلیں ان کی تدابیر سے کچھ نہ ہوگا خدا ایک وقت پر مدد و فتح حضرت کی کرے گا۔ تمام قرآن کو آیات بینات بنا کر ہم نے یوں ہی نازل کیا ہے۔ رہی ہدایت سو وہ ہر ایک کے حصہ میں نہیں خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ گو دنیا میں اکثر چھ 1 ؎ فریق ہیں اہل اسلام جن کو الذین آمنو اسے تعبیر کیا۔ دوم یہودی۔ سوم صابی۔ چہارم نصاریٰ ۔ پنجم مجوس۔ ششم مشرکین اور ان میں سے ہر ایک اپنے تئیں ہدایت پر کہتا ہے مگر دراصل ہدایت پر وہی فریق ہے کہ جس کو خدا نے ہدایت دی یعنی اہل اسلام۔ رہی ان کی یہ قیل وقال سو اس کا قیامت میں اللہ آپ فیصلہ کر دے گا اس کے سامنے ہر چیز ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔ 1 ؎ کس لیے کہ جو لوگ فاعل مختار حق سبحانہ کے قائل ہیں پھر یا تو انبیاء کے قائل نہیں جیسا کہ مشرکین اور جو قائل ہیں پس یا سچے نبی کے پیرو ہیں یا فرضی اور متبنی کے پس انبیاء کے متبع تو اہل اسلام اور یہود و نصاریٰ اور صابئین ہیں جو یہود و نصاریٰ کے بین بین ہیں اور فرضی نبی کے متبع مجوس۔ 12 منہ
Top