Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ اپنے فوائد کو دیکھیں اور تاکہ جو چارپائے خدا نے ان کو دے رکھے ہیں ان پر ایام مقررہ میں خدا کا نام یاد کیا کریں (قربانی کرنے میں اس کا نام لیا کریں) پھر ان میں سے آپ بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی کھلائو
فوائد حج : فقال لیشہد وامنافع لہم، حج کے منافع دو قسم کے ہیں ایک منافع دنیا سو وہ بھی 1 ؎ بیشمار ہیں : (1) تمام اہل مذہب کا ایک جگہ جمع ہونامیل جول کرنا۔ (2) ۔ ایک قوم کا دوسرے سے علم و ہنر میں مستفید ہونا۔ (3) دور دراز کے صحیح صحیح حالات کا بہم پہنچانا (4) پھر اس سے تجارت و دیگر امور دنیا میں فوائد حاصل کرنا (5) تجارت کے منافع سے مستفید ہونا (6) قوت اجتماعیہ اور اخوتِ 1 ؎ حج موت کا بھی نمونہ ہے۔ گھر سے چلنا ‘ اولاد مال کو چھوڑنا گویا دنیا سے گزرنے کو یاد دلاتا ہے۔ پھر کعبہ کے قریب آکر احرام باندھنا گویا کفن میں لپٹنے کا نمونہ ہے پھر احرام میں شکار و جماع وغیرہ مرغوبات سے رکنا ‘ مرنے کے بعد ان چیزوں سے رکنے کا نمونہ ہے۔ پھر وہاں زادو راحلہ کا ہمراہ ہونا ‘ ہدی کا ہونا ‘ اس بات کو یاد دلاتا ہے کہ مرنے کے بعد اعمال ہی کا توشہ ساتھ رہے گا۔ پھر عرفات میں کھڑا ہونا ‘ حشر میں کھڑے ہونے کا نمونہ ہے۔ پھر قربانی کر کے احرام کھولنا ‘ نہانا ‘ صاف ہونا ‘ گناہوں سے بری ہونے کا نمونہ ہے۔ پھر طواف کرنا ‘ حرم مکہ میں جانا سب چیزوں کا درست ہوجانا جنت میں جا کر وہاں کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کا یاد دلانے والا ہے اللھم ادخلنا الجنۃ۔ اور نیز سفر بہت سی بیماریوں کے لیے مفید ہے 12 منہ۔ دنییہ کا استوار کرنا۔ (7) جس بات پر تمام قوم کو اتفاق کرنا ہو وہاں اس متبرک جگہ میں اس کا بسہولت میسر آنا۔ (8) سفر کا عادی ہونا ریاضت و مشقت و تجربہ حاصل کرنا وغیرہ۔ دوسرے فوائدِ دینیہ وہ بھی بہت ہیں۔ صدہا ہزار ہا خدا پرستوں کا ایک جگہ جمع ہو کر دنیا میں آسمانی سلطنت کا نمونہ دکھانا (2) ایک پر دوسرے کے انوار و برکات کا منعکس ہونا۔ (3) تمام خلائق کو یہ دکھا دینا کہ دنیا میں یہی ایک جماعت ہے کہ جو خاص اس کی پیرو ہے جس سے عام طبائع پر توحید و خدا پرستی کا ایک ولولہ پیدا ہو وغیرہ۔ ان سب کی طرف اس جملہ میں مجملاً ایماء ہے۔ لیشہدوا منافع لہم پھر بعض فوائد کی تفصیل فرماتا ہے فقال ویذکرو اسم اللہ فی ایام معلومات کہ چند معین دنوں میں اللہ کا نام لیا کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قربانی کرنا ہے جس کا قرینہ علی ما رزقہم اللہ الخ ہے کیونکہ قربانی میں اللہ کا نام کسی چیز یعنی جانور پر ذکر کیا جاتا ہے تکبیر بسم اللہ واللہ اکبر کہی جاتی ہے اور یہ بھی اللھم منک والیک اور یہ بھی ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین۔ اکثر علماء کہتے ہیں۔ ایام معلومات سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے اور معدودات سے ایام التشریق اور یہ مجاہد وعطاء وقتادہ حسن و سعید بن جبیر و ابن عباس ؓ کا قول ہے اور اسی کو شافعی اور ابوحنیفہ ; نے اختیار کیا ہے کیونکہ یہ ایام عرب کو زیادہ معلوم رہا کرتے تھے۔ اور اب بھی معلوم رہا کرتے ہیں اس لیے کہ انہیں کے آخر میں حج کا وقت ہے اور اس طرح قربانی بھی انہیں ایام میں سے یوم النحر کو ہوتی ہے یعنی دسویں تاریخ۔ خلاصہ یہ ایام معلومات سے عشرہ ذی الحجہ کا مراد ہے اور اس کے جزاء خیر میں یہ قربانی دسویں تاریخ ہوتی ہے۔ عطاء کی روایت میں ابن عباس ؓ سے یوں منقول ہے کہ ایام معلومات سے یوم النحر اور اس کے بعد کے اور تین روز مراد ہیں۔ کیونکہ یہ ایام قربانی کے لیے عرب میں معلوم و معین تھے اور یہی قول صاحبین کا ہے اور اسی کو ابومسلم نے پسند کیا ہے۔ بہیمۃ الانعام بہیمہ ہر چار پائے کو کہتے ہیں خواہ بری ہو خواہ بحری۔ اس معنی میں یہ لفظ مبہم تھا پھر جب اس کے ساتھ الانعام لگا دیا تو تعین ہوگئی یعنی اونٹ گائے بیل، دنبہ بکرا۔ (کشاف) فکلوا منہا 1 ؎ بعض کہتے ہیں یہ امر وجوب کے لیے ہے کیونکہ ایام جاہلیت میں برسم یہودیا ازخود اپنی قربانی میں سے آپ نہیں کھاتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے دفع حرج کے لیے مسلمانوں کو قربانی میں سے کھانے کا حکم دیا لیکن اکثر علماء کہتے ہیں امروجوب کے لیے نہیں بلکہ اباحت کے لیے یعنی ہدی تطوع و تمتعہ و قران میں سے آپ بھی کچھ کھاوے اور باقی فقیروں محتابوں کو دیوے۔ بعض کہتے ہیں نصف آپ کھاوے اور نصف کو تصدق کرے۔ بعض کہتے ہیں تین حصے کرے ایک حصہ اپنے لیے ‘ ایک احباب و اقارب کے لیے ‘ ایک مساکین کے لئے۔ مگر جو قربانیاں کہ نذریا کفارات یا حج کے جنایات میں کی جاتی ہیں ان میں سے بالاتفاق نہ کھانا چاہیے۔ سب کو تصدق کردینا چاہیے یہ مساکین کا حق ہے پہلی امتوں میں قربانیوں کو خواہ کسی قسم کی ہوں کھاتے نہ تھے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں آپ کھانے کی اجازت صرف اس قربانی میں ہے جو تطوعاً ہو۔ ثم لیقضواتفثہم۔ مبرد کہتے ہیں تفث کلام عرب میں ناپاکی کو کہتے ہیں جو انسان کے لگتی ہے اس میں میل کچیل ناخونوں کا بڑھنا ‘ حجامت کا بڑھ جانا ‘ سب آگیا۔ مراد یہ کہ حج میں قربانی کرکے احرام کھول دو حجامت بنواؤ نہاؤ دھو و میل کچیل دور کرو ولیفضوا اے لیودوا ازالۃ و سحھم ولیوفوا نذورھم اور جو کچھ ہدایا اور قربانیاں تم نے نذر مانیں ہیں ان کو بھی پورا کرو یا یہ مراد کہ حج میں جو چیزیں واجب ہوتی ہیں کہ جن کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا جیسا کہ دم قران و تمتع وغیرہ ان کو پورا کرو، نذورھم مواجب حجتھم و العرب یقول لکل من خرج عماوجب علیہ وفی نذرہ وان لم ینذراو ماینذرو نہ من اعمال البر فی حجھم (مدارک) ۔ 1 ؎ ولایجوزالاکل من ہدی التطوع و المنعۃ والقران لانہ دم نسک فیجوزالاکل منھا بمنزلۃ الاضحیۃ قدصح ان النبی (علیہ السلام) اکل من لحم ھدیہ وحسامن المرفۃ ھدایہ 12 منہ واللہ اعلم۔ ولیطوفوا بالبیت العتیق قربانی کے بعد جو دسویں تاریخ منیٰ میں ہوتی ہے احرام کھول دیتے ہیں پھر اس کے بعد خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں جس کا اس جملہ میں حکم دیتا ہے۔ بالاتفاق اس طواف سے مراد طواف واجب ہے جسکو طواف الزیارۃ اور طواف الافاضہ کہتے ہیں۔ کعبہ کو بیت العتیق کہا۔ عتیق قدیم اور پرانے کو کہتے ہیں۔ سو کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا ہے اس سے پرانا اور قدیم عبادت خانہ دنیا پر اور کوئی نہیں۔ یہ احکام بیان فرما کر فرماتا ہے ذلک کہ بات یہی ہے جو بیان کی۔ یہ عرب کا محاورہ ہے ایک کلام تمام کر کے یہ جملہ بول دیا کرتے ہیں جس طرح ھذا پھر فرماتا ہے کہ جو خدا کی منع کی ہوئی چیزوں کی رعایت کرے گا تو یہ اس کے لیے عنداللہ بہتر ہے۔ ومن یعظم حرمات اللہ حرمات اللہ وہ امور کہ جن سے خدا تعالیٰ نے منع کیا ہے اور ان کی تعظیم ان سے بچنا ہے۔ زجاج نے کہا ہے حرمۃ وہ ہے کہ جس کے قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا اور اس میں کمی کرنا حرام ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس جگہ حرمات اللہ سے مراد مناسکِ حج ہیں۔ منجملہ ان کے احرام میں شکار نہ کھیلنا اور فحش باتوں کی ممانعت ہے اس لیے اس کے بعد احرام کے متعلق ذکر کرتا ہے واحلت لکم الانعام الا ما یتلٰی علیکم کہ احرام میں تمہارے لیے سب چارپائے حلال ہیں ان کو ذبح کر کے گوشت کھانا مباح ہے مگر وہ جو تم سے سورة مائدہ میں بیان کئے گئے وہ درست نہیں۔ خنزیر وغیرہ اور وہاں وانتم حرم بھی فرما دیا ہے کہ جس سے یہ بات نکلی کہ ان چارپایوں میں سے جو وحشی جانور ہیں جن کا شکار کیا جاتا ہے محرم کے لیے ان کا شکار کرنا ممنوع ہے ہاں غیر محرم شکار کر کے لاوے تو کھا لینا درست ہے۔ خلاصہ یہ کہ احرام کی حالت میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان حلال جانوروں کے گوشت کی بھی ممانعت ہے بلکہ حرام جانوروں کی اور شکار کرنے کی۔ یہ لب لباب ہے تمام احادیث و اقوال کا۔ گوشت سے کیا پرہیز ہے بچنے کی تو یہ چیزیں ہیں فاجتنبو الرجس من الاوثان کہ بتوں سے بچو جو ناپاک چیز ہے اور اجتنبواقول الزور اور جھوٹی اور لغو بات سے بچو۔ ابن مسعود ؓ کہتے ہیں قول الزور سے مراد جھوٹی گواہی ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین کا وہ قول ہے جو حج میں کہا کرتے تھے۔ لاشریک لک لبیک الاشریکا ھو لک الخ پھر اخیر تک توحید کی تاکید اور شرک کی مذمت بیان فرماتا ہے اور مشرک کو اس بدنصیب سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان سے گرے اور پھر پرندے اس کی تکے بوٹی کرلیں یا ہوا سے کہیں دور جا پڑے مراد یہ کہ اس کا بالکل ستیاناس ہوگیا۔
Top