Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور منکر تو ہمیشہ اس 1 ؎ سے شک میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یکایک ان پر قیامت آجاوے یا ان کو نحس دن کا عذاب آلیوے۔
1 ؎ یعنی قرآن ووحی سے۔ 12 منہ بعض مفسرین کی عادت ہے کہ وہ قرآن مجید کے صاف اور سیدھے مطلب کو الجھاوے میں ڈال دیتے ہیں اور جب کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا تو اس کے لیے کوئی قصہ گھڑ لیتے ہیں پھر اس کو شان نزول قرار دے لیتے ہیں اور پھر لفظ حدثنا یا اخبرنادیکھ کر خوش اعتقاد لوگ اس مہمل بات کو حدیث سمجھ لیتے ہیں چناچہ انہیں آیات کی تفسیر میں ایک قصہ نقل کیا کرتے ہیں کہ مکہ میں آنحضرت ﷺ نے سورة النجم کی اس آیت کے بعد ومناۃ الثالثہ الاخری القائِ شیطانی سے جو آپ کے دل میں خیال تھا بت پرستوں کے خوش کرنے کو یہ جملہ بھی پڑھا دیا تلک الغرانیق العلٰی وان شفاعتھن لترتجیٰ جس سے مشرکین خوش ہوگئے مگر جبرئیل ( علیہ السلام) نے آ کر آپ کو متنبہ کیا اور آپ کو رنج ہوا اس لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ پھر بعض اس کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ شیطان نے اثنائِ قرأت میں یہ جملہ ملا دیا تھا بعض کہتے ہیں استفہام انکاری کے طور پر یہ جملہ آپ نے کہا تھا مگر جب سرے سے اس قصہ کی اصل نہیں اور امام بیہقی نے خاص اس کے رد میں ایک رسالہ لکھ دیا اور ثابت کردیا کہ یہ قصہ زندیقوں کا بنایا ہوا ہے۔ کسی صحیح سند اور معتبر راویوں سے اس کا کچھ بھی پتا نہیں لگتا تو پھر ان توجہات اور اس کے مقابلہ میں قرآن مجید کے آیات اور دیگر دلائل کی کیا ضرورت ہے ؟ امام فخر رازی و صاحب مدارک و بیضاوی وغیرہ محققین نے اس قصہ کا ابطال بڑی دلائلِ عقلیہ و تقلید سے کیا ہے۔ مگر اسلام پر عیب لگانے کے لیے پادری صاحب ایسے لغوقصہ کو خواہ مخواہ پیش ہی کردیا کرتے ہیں حالانکہ ایسی بےاصل باتوں سے اسلام پر عیب لگانا انصاف اور خدا ترسی سے بہت ہی بعید ہے واللہ اعلم اولئک لہم عذاب مہین تک اسی بیان کا تتمہ ہے پھر والذین ھاجروا فی سبیل اللہ سے لے کر ان اللہ لعفو غفور تک اصل مطلب کی طرف رجوع ہے کہ خدا کی راہ میں ہجرت کرنے والوں اور ظالموں کے ہاتھ سے مارے جانے والوں کو آخرت میں بڑے درجات اور عمدہ مقامات ہیں اور دنیا میں بھی خدا اس گروہ کی مدد کرے گا وہ ہر بات پر قادر ہے
Top