بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے مراد کو پہنچے
ترکیب : الذین المؤمنون کی صفت یا بدل والذین اس پر معطوف الا علی ازواجہم فی موضع نصب لان المعنی صانواھاعن کل فرج الاعن فروج ازواجھم اور حال بھی ہوسکتا ہے ای الاوالین علی ازواجھم او قوامین علیھن من قولک کان فلاں علی فلانۃ ھم فیہا خالدون جملہ حال مقدر ہے فاعل سے یا مفعول سے۔ تفسیر : یہ سورة بھی مکہ میں ہجرت سے پیشتر نازل ہوئی ہے۔ احمد و ترمذی و نسائی نے روایت کی ہے جس کا اخیر جملہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے وحی کے بعد فرمایا کہ مجھ پر دس آیات یعنی اس سورة کا اول ایسی نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کریگا جنت میں داخل ہوگا۔ سورة حج کے آخیر میں تھا کہ اے امت محمد ﷺ تم کو خدا نے برگزیدہ کیا ہے کہ تم اور لوگوں پر دنیا و آخرت میں نیکی اور بدی کے معاملات میں شہادت ادا کرو جس کام کو بالاتفاق تم اچھا کہو یا جس شخص کو تم بھلا کہو وہی اچھا اور وہی بھلا ہے اور رسول ایسے معاملات میں تم پر شہادت ادا کرنے والا ہے تمہاری اچھائی اور برائی رسول کی شہادت پر موقوف ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ گواہ جب تک عدل یعنی نیک اور معتبر نہ ہو تو اس کی گواہی کیا۔ اس لیے اس سورة میں اصول حسنات کی طرف اس جملہ فاقیموا الصلوٰۃ و آتوا الزکوۃ و اعتصموا باللہ اجمالا اشارہ تھا۔ اس سورة میں اس کی تشریح فرمائی گئی اور اصول حسنات جو موجب فلاح و صلاح دارین ہیں بتلائے گئے اور اصول حسنات بیان فرمانے سے پہلے ان پر عمل کرنے والے کو بلفظ قد جس کے معنی تحقیق اور ضرور کے ہیں فلاح کا مژدہ بھی دے دیا کہ اس کی فلاح میں کوئی شک و شبہ نہیں فقال قد افلح المؤمنون کہ ایمانداروں نے فلاح حاصل کرلی۔ آگے اس فلاح کی بھی شرح فرمائے گا مگر اس سے پہلے وہ اوصاف ارشاد فرماتا ہے جن پر فلاح مرتب ہے یہ سات صفت ہیں جو تمام مکارم اخلاق کے اصل اصول ہیں اور جن میں دنیا و آخرت کے متعلق حکمت نظری عملی تہذیب اخلاق سے لے کر تدبیر المنزل تک کوئی بات رہ نہیں گئی ہے (1) المومنون اس میں ایمان کا ذکر ہے جو سب نیکیوں کی جڑ ہے اس میں اجمالا اللہ اور اس کے صفات اور ملائکہ اور انبیاء اور ان کی کتب اور دار آخرت کی تصدیق آگئی۔ یہ تمام حکمت نظریہ کا عطر ہے۔
Top