Tafseer-e-Haqqani - Al-Muminoon : 102
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَمَنْ : پس جو۔ جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئی مَوَازِيْنُهٗ : اس کا تول (پلہ) فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
پھر جن کا پلہ بھاری 1 ؎ ہوا تو وہی فلاح پائیں گے
1 ؎ نیک اعمال کا پلہ مراد یہ ہے کہ جس کے نیک اعمال بدعملوں سے زیادہ ہوئے تو ان کو نجات ہے ورنہ جہنم۔ 12 منہ تفسیر …تناسخ کا ابطال : یہاں سے تناسخ کا صریح ابطال ہوگیا اور یہی مسلک تمام انبیاء کا ہے۔ پھر قیامت کی کیفیت ظاہر فرماتا ہے فاذا نفخ فی الصور کہ جس رور صور پھنکے گا تو اس روز نہ انسان کا نسب کام آوے گا جیسا کہ دنیا میں رشتہ کا لحاظ ہوتا ہے کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ فلاں کی اولاد ہے ‘ فلاں قوم اور قبیلے کا ہے اونچی ذات کا ہے ‘ شریف خاندانی ہے یا کم قوم پاجی ہے اور نہ کوئی ان باتوں سے پوچھا جائے گا ‘ وہاں تو انسان کے اعمال اور ایمان سے کام پڑے گا فمن ثقلت موازینہ الخ پھر جس کی نیکیوں کا پلہ بدی کے پلہ سے بھاری ہوگا وہ مراد پاوے گا اور جس کا پلہ ہلکا ہوگا جہنم میں جاوے گا پھر آگے جہنم کی کیفیت بیان فرماتا ہے۔ میزان کی بحث : موازین میں چند اقوال ہیں : (1) یہ کہ عدل و انصاف سے استعارہ ہے۔ (2) اس سے مراد اعمال حسنہ ہیں پھر جس کے اعمال کی قدر و منزلت ہوئی یعنی پسند الٰہی ہوئے وہ کامیاب ہے ورنہ خرابی میں پڑے گا ابن عباس ؓ کہتے ہیں موازین جمع موزون اور یہ اعمال صالحہ کے موزونات ہیں جیسا کہ آیا ہے فلانقیم لہم یوم القیامۃ وزنا ای قدرا (3) یہ کہ درحقیقت اعمال کے تولنے کے لیے ترازو قائم ہوگی کہ جس کے دو پلے ہوں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے مگر اس سے بھی مراد دنیا کی ترازو نہیں جس پر اعراض کا تولنا محال خیال کیا جاوے (بلکہ اعمال تولنے کے مناسب جس کی حقیقت وہی خوب جانتا ہے) ۔ ان کے مونہوں کو آتش جہنم جھلس دے گی جلا دے گی۔ اور وہاں ان کے منہ بگڑے ہوں گے کلوح کے معنی دونوں ہونٹوں کا پھول کر دانتوں سے جدا ہوجانا ایک نیچے لٹک پڑے دوسرا اوپر چڑھ جاوے پھر ان کے رونے چلانے پر فرشتے کہیں گے الم تکن آیاتی تتلی علیکم کہ دنیا میں کیا تم کو اللہ کی آیتیں نہ سنائی جایا کرتی تھیں کہ جن کو تم جھٹلایا کرتے تھے وہ کہیں گے ہماری بدبختی تھی اور ہم گمراہ تھے۔ اب ہم کو اس آگ سے نکال دو اور دنیا میں بھیج دو پھر اگر ایسا کریں تو ہم ظالم ہیں۔ وہاں سے جواب ملے گا یہیں پھٹکارے ہوئے پڑے رہو اور بات نہ کرو خساء کتے کو دھت دھت کرنے کو کہتے ہیں مطلب یہ کہ کتے کی طرح بھونکتے رہو۔ یہ ذلت کا کلمہ ہے کیونکہ دنیا میں میرے بندوں میں سے ایک فریق یعنی ایمان والے دعا کیا کرتے تھے رب اغفرلنا وارحمنا وانت خیرالراحمین تم ان سے ہنسی تمسخر کیا کرتے تھے آج اس کا بدلہ تم کو دیا گیا تم یہاں روئو ‘ انت پیسو ‘ وہ ایمان والے کامیاب ہیں جنت میں ہیں تم پر ہنستے ہیں۔
Top