Tafseer-e-Haqqani - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اور ہم نے کہہ دیا تھا) کہ اے رسولو ! پاک چیزیں کھایا کرو اور اچھے کام کرتے رہو جو کچھ تم نیک کام کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
ترکیب : :۔ ان کو قرائِ کوفہ نے بکسر الہمزۃ پڑھا ہے تب یہ جملہ مستانقہ ہے ھذا اس کا اسم امتکم خبر اور امۃ واحدۃ منصوب ہے حال لازمہ ہونے کی وجہ سے خبر ان سے دیگر قراء نے ان بالفتح پڑھا ہے یا لام مقدرمان کر جو اتقون سے متعلق ہوگا ای فاتقون لان ھذہ اور موضع ان کا نصب ہے یا جریا یہ معطوف ہے ماقبل پر۔ زبر الضمتین جمع زبورائے کتبامختلفہ یعنی جعلوا دینھمادیانا وزبراقطعا استعیرت من زبر الفضۃ والحدید (کبیر) تقربفتح الباء وھواجمع زبرۃ وھی القطعہ والفرقۃ والنصب علی الوجہ الادل علی الحال من امرھم وعلی الوجہ الثانی حال من الفاعل ان بابمعنی الذی و خبران نسارع۔ تفسیر : :۔ رسولوں کا ذکر فرما کر ان کے اس شبہ کے جواب میں (کہ ان رسولوں میں ہم سے کیا فوقیت ہے جو ہم کھاتے پیتے ہیں یہ بھی وہی کھاتے ہیں یعنی ملائکہ یا ان کی مانند کیوں نہیں) فرماتا ہے کہ ہم نے رسولوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ طیب یعنی حلال اور پاک چیزیں کھاؤ تمہارے لیے یہ نعمتیں ہم نے پیدا کیں ہیں۔ ہاں حرام اور گندی چیزیں نہ کھائو۔ بزرگی کا مدار پاک اور حلال چیزوں کو ترک کردینے پر نہیں جیسا کہ بعض سمجھے ہوئے ہیں اور ان نعمتوں کے شکر میں وعملوا صالحا نیک کام کیا کرو میں تمہیں دیکھ رہا ہوں اور یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ اے رسولو ! تم سب کا ایک ہی طریقہ ہے توحید و عبادت۔ اسی طرح تمہاری سب امتیں بھی باہم الگ الگ مذاہب کے لوگ نہیں۔ اصول شریعت میں سب ایک ہیں اور تم سب کا رب بھی میں ایک ہوں پس مجھ سے ہی ڈر کر بری باتوں سے پرہیز کیا کرو۔ لیکن انبیاء کے بعد ان کے پیروں نے باہم افراط وتفریط کر کے جدا جدا فرقے بنا لیے پھر ہر فریق اپنے تراشیدہ خیالات پر خوش ہے۔ یہود اپنے ہی آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں نصاریٰ اپنے تئیں و مشرکین و مجوس اپنے مذہب کو موجب نجات خیال کر رہے ہیں۔ حضرت ﷺ کو فرماتا ہے فذرھم الخ ان سے حجت و تکرار نہ کر ان کو اپنی غفلتوں کے دریا میں ڈوبا رہنے دو ایک وقت تک بعض علماء کہتے ہیں اس وقت سے مراد وہ وقت ہے کہ جب اسلام اپنی پوری شوکت دنیا میں ظاہر کرے گا پھر تحدید کے چابک سے ان کو بیدار وہوشیار کردیا جاوے گا۔ بعض کہتے ہیں موت یا عذاب الٰہی کے وقت تک کہ پھر ان کو آپ معلوم ہوجاوے گا۔ وہ دنیا کی ثروت و دولت ‘ کثرت اولاد و مال کو اپنے مذہب کے برحق ہونے کی دلیل جانتے تھے بلکہ اب یہی کہا کرتے ہیں ہم نے فلاں دیوی دیوتا کی نذر بھینٹ کی تو اس نے ہم کو مال و اولاد دیا۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے ایحسبون انما نمدھم الخ کہ کیا وہ اس افزائشِ مال و اولاد کو ہماری مہربانی سمجھتے ہیں ہرگز نہیں بلکہ لا یشعرون ان کو شعور نہیں۔ چارپائے ہیں کیونکہ دنیا فانی کی آسایش کچھ چیز نہیں حیوانات کو بھی نصیب ہے۔ یہاں جن پر ہماری مہربانی ہے اور ان کے لیے ہم بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ جو شرک نہیں کرتے اور وہ جو اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ شاید قبول نہ ہو یہی لوگ نیکی میں دوڑنے اور سبقت کرنے والے ہیں۔
Top