بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ سورة ہے کہ جس کو ہم نے ہی نازل کیا اور اس کے احکام ہم نے ہی فرض کئے ہیں اور ہم نے ہی اس میں کھلی کھلی آیتیں نازل کیں ہیں تاکہ تم سمجھو۔
ترکیب : سورة مبتداء محذوف کی خبر اے ھذہ انزلناھا سورة کی صفت فا جلدوا الزانیۃ و الزانی کی خبر مائۃ منصوب ہے مفعول مطلق کی صفت ہو کر وکذا ثمانین۔ تفسیر : ابن مردویہ نے روایت ابن عباس و ابن زبیر ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ سورة مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اسی پر جمہور کا اتفاق ہے۔ سورة مومنون کے خاتمہ میں اس دعا کرنے کا حکم دیا تھا کہ اے رب ! ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو بڑارحم والا ہے۔ رحمتِ الٰہی اس کی مخلوق بالخصوص انسان پر ہمہ وقت سایہ افگن ہے مگر اس رحمت سے محروم کرنے والی یا یوں کہو اس نور کا حجاب دو ہی چیزیں ہیں : اول خالق سے سرکشی اس سے غفلت ‘ دوسرے معبودوں کی طرف التفات۔ اس کا تدارک تو سورة مومنون میں بخوبی کردیا فلاح کے کام ارشاد فرمائے۔ دوم حقوق العباد میں ظلم اور کسی کو ناحق ایذا دینا منجملہ ان کے زنا ہے اور اسی طرح کسی پارسا پر زنا کی تہمت لگانا بھی بمنزلہ زنا ہے۔ آبروریزی اور فتنہ فسادات اور تمدن اور معاشرت کے اصول کے خلاف اور بڑا ہی ظلم اور مردم آزادی ہے اس لیے اس سورة میں اس کا تدارک کرنا بھی ضروری تھا ورنہ نصاب تعلیم میں قصور متصور ہوتا اس لیے اس سورة میں زنا اور تہمت اور زنا کے اسباب ‘ عورتوں کی بےحجابی ‘ عورتوں کو اپنے محاسن کا دکھانا اور کسی کے گھر میں بےاجازت چلا جانا یا اپنے ہی گھر میں بےدھڑک ننگے کھولوں میں چلا آنا ‘ سب کو کس عمدہ پیرایہ سے حرام و ممنوع فرمایا ہے اور انسانی تہذیب اور معاشرت کا دستور العمل بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے سب سے اول اس سورة کے فضائل اور اس کے احکام کا وجوب اجمالاً ارشاد فرمایا ہے فقال سورة انزلناھا کہ یہ سورة ہم نے نازل کی ہے پیغمبر (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے نہیں گھڑی ہے ہم نے فرضنھا اس کے احکام فرض واجب کئے ہیں نہ کسی غیر نے وانزلنا فیھا آیات بینات اور ہم نے ہی اس سورة میں آیات بینات نازل کئے ہیں یعنی احکام مفیدہ جن کے مفید ہونے میں کسی کو بھی کلام نہیں اس لیے وہ آیات اللہ یعنی اس کی نشانیاں ہیں بشر اور وہ بھی ان پڑھ اور اس ملک کا جس میں تہذیب شایستگی مفقود ‘ پھر نہ اس کی معین کوئی قانونی جماعت ایسے احکام بیان کرے ‘ نبوت کی دلیل ہے اور دلیل بھی کیسی روشن اور آیات بنیات کیوں نازل کئے لعلکم تذکرون تاکہ تم سمجھو عقل پکڑو اس تمہید کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں : زنا کا مسئلہ : (1) الزانیۃ الخ کہ مرد یا عورت جو کوئی زنا کرے اس کو سو درے مارو لوگوں کے سامنے تاکہ لوگوں کو عبرت و نصیحت ہو اور اس حکم کی تعمیل میں کسی پر رحم نہ کھائو۔ شریف ووضیع اپنے وبیگا نے کا کچھ لحاظ نہ کرو اگر تم کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ سخت تاکید و 1 ؎ یعنی اس کے احکام فرض اور واجب التعمیل ہیں 13۔ منہ۔ تہدید ہے یعنی اگر ایسا نہ کروگے تو تمہارے ایمان میں کلام ہے پھر اس کام کے کرنے والوں کی توہین کی جاتی ہے کہ الزانی لاینکح کہ یہ بدنصیب اور ناپاک گروہ پاک مردوں اور عورتوں سے نکاح کرنے کے قابل ہی نہیں ‘ اکثر اپنی ہی جنس کو ڈھونڈ لیا کرتے ہیں۔ انہیں سے ان کو رغبت ہوا کرتی ہے لیکن ایمانداروں پر یہ حرام ہے۔ زنا کے معنی : زنا کی تعریف بعض علماء نے یہ کی ہے کہ پیشاب گاہ کو اس مقام مخصوص میں داخل کرنا (فرج میں) جو طبعاً مرغوب اور قطعاً حرام ہو۔ غالباً یہ تعریف عرف عام کے دستوروں کو اور شرعی قیود کو ملحوظ رکھ کر کی ہے پیشاب گاہ داخل کرنے کی قید سے یہ بات پیدا ہوئی کہ اگر کوئی کسی کی فرج میں انگلی یا لکڑی داخل کرے گا اس پر زنا کا اطلاق ہوگا نہ اس کے احکام جاری ہوں گے یہ اور بات ہے کہ یہ فعل بھی حرام و ممنوع ہے اور اس کے لیے تعزیز ہے۔ اسی طرح ایسے مقام مخصوص میں داخل کرنے کی قید سے جو طبعاً مرغوب ہو بعض کے نزدیک دبر یعنی پائخانہ کی جگہ میں داخل کرنے سے خواہ مرد کے خواہ عورت کے زناکا اطلاق نہ ہوگا نہ اس پر احکام زنا جاری ہوں گے البتہ یہ فعل بھی حرام ہے اور اس کی تعزیز ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کیونکہ یہ مقام طبعاً مرغوب نہیں۔ طبائعِ سلیمہ کا ذکر ہے نہ خبیثہ کا مگر امام شافعی (رح) اس کو بھی زنا کہتے ہیں کیونکہ لذت اور قضائے شہوت دونوں جگہ برابر ہے اور اسی طرح چار پایوں سے کرنے کو بھی زنا نہ کہیں گے گو اس حرام فعل پر اس کو سزا دی جائے گی اور اسی طرح حرام قطعی کے قید سے یہ بات پیدا ہوئی کہ جو فرج اس کے لیے حلال ہے جیسا کہ اس کی بیوی اور شرعی لونڈی اس کے ساتھ کرنے سے زنا کا اطلاق نہ ہوگا گو حالات حیض و نفاس ہی کیوں نہ ہو یہ اور بات ہے کہ حالات حیض و نفاس میں بیوی کے ساتھ بھی یہ فعل کرنا شرعاً حرام ہے اور اسی طرح جہاں حرام قطعی نہیں بلکہ شبہ اور اختلاف کی صورت ہو جیسے کہ وطی بالشبہ یا نکاح فاسد وغیرہ۔ اس طرح عورت کا عورت سے رگڑنا یا ہاتھ سے مرد کا منی نکالنا بھی زنا نہیں گو شرعاً ممنوع اور بدکام ہے۔ یہ بہت سے مسائل ہیں کہ جن کی تفصیل اور ادلہ بڑی کتابوں میں ہیں زنا کی برائی تمام عقلا کے نزدیک ادلہ عقلیہ سے ثابت ہے اور اہل ادیان بھی اس کو برا جانتے ہیں۔ زنا کی قباحت : ہماری شریعت میں بھی کثرت سے اس کی برائیاں آئی ہیں ایک جگہ قرآن شریف میں آیا ہے لاتقربوا لزنا کہ زنا کے پاس بھی نہ جائو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے بری نگاہ سے دیکھنا بھی زنا ہے یعنی ویسا ہی گناہ ہے اسی طرح ہاتھ سے چھونا اور شہوت انگیز باتیں کرنا بلکہ دل میں اس کا قصد مصمم کرنا بھی گناہ ہے۔ اس فعل کے نتائج : اس فعلِ بد کی شامت سے دنیا میں بھی انسان پر سینکڑوں بلائیں نازل ہوتی ہیں ‘ دشمن کا غلبہ ‘ رزق کی تنگی ‘ عزت وہیبت کی بربادی عمر میں بےبرکتی ‘ ملک و دولت کی بربادی ‘ وباء اور سینکڑوں بیماریوں کا آنا اور روح پر بھی ایک ایسی تاریکی پیدا ہوتی ہے جو مرنے کے بعد اندھیری اور عذاب آتش بن کر سامنے آئے گی۔ خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی یہ شخص مقہور ہوجاتا ہے روحانی لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں دعا میں اثر نہیں رہتا وغیرہ ذلک توبہ توبہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں زنا کی سزا جان سے مار ڈالنا تھا جیسا کہ توریت کتاب احبار کے بیسویں باب کا دسواں جملہ ہے قولہ وہ جو دوسرے کی جو روکے ساتھ یا اپنے پڑوسی کی جو روکے ساتھ زنا کرے وہ دونوں قتل کئے جاویں اور 19 باب کے 20 درس میں غیر کی لونڈی اور غیر کی منگیتر کے ساتھ زنا کرنے کی سزا میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے اور جب لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک زنا کار عورت کو مارنے کے لیے لائے تو آپ نے حد نہ ماری نہ حد مارنے کا حکم دیا جیسا کہ انجیل میں موجود ہے۔ اس لیے عیسوی شریعت میں زنا پر کوئی حد قائم نہیں اور شاید اسی خیال سے انگریزی قانون میں زنا صرف شوہر دار عورت کے ساتھ مباشرت کرنے کا نام ٹھہرایا گیا جس پر کچھ خفیف سی سزا رکھی ہے اور نئی تعلیم کے لوگ خواہش نفسانی کے لحاظ سے اس کو پسند کرتے ہیں۔ مگر قرآن مجید نے اس افراط وتفریط کو دور کر کے یہ مناسب حکم دیا۔ الزانیۃ والزانی الخ کہ زنا کار کو سو کوڑے 1 ؎ مارو اور اس حکم میں فروگذاشت نہ کرو اور یہ سزا جماعت کے سامنے دو ۔ اول اسلام میں زنا کی سزا بیاہی کے لیے گھر میں قید کر کے رکھنا تھا موت تک اور کو اری کے لیے زبان سے لعنت ملامت کرنا جیسا آیا ہے واللاتی الفاحشۃ من نسائکم فاستشہد واعلیہن اربعۃ منکم فان شہدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفاھن الموت او یجعل اللہ لہن سبیلا والذین یاتیانہا منکم فاذوھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنہما۔ اور اسی طرح لونڈی غلام جو اس امر قبیح کے مرتکب ہوتے تھے تو ان کو جوتے تھپڑ مار کر چھوڑ دیتے تھے پھر یہ حکم بدل گیا بیاہی کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا اور کنواڑی کی سزا سو کوڑے یا درے مقرر ہوئے۔ امام شافعی (رح) اس کے ساتھ برس تک جلاوطنی کا بھی حکم حدیث سے استدلال کر کے دیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) حدیث کو منسوخ العمل قرار دیکر یہ بات امام کی رائے کے سپرد کرتے ہیں کہ چاہے تعزیراً ایسا کرے اگرچہ الزانیۃ و الزانی کا لفظ عام ہے لہذا خوارج اسی عموم کو ملحوظ رکھ کر محصن کے لیے بھی سو درے کی سزا قرار دیتے ہیں رجم نہیں کہتے مگر اس میں کوئی بھی شبہ نہیں کہ لونڈی کی سزائے زنا پچاس درے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ماعلی المحصنات من العذاب اور غلام کا بھی یہی حکم اس پر قیاس کر کے قائم ہے پس اس عموم کی تخصیص ہوگئی اور عموم مخصوص البعض کی تخصیص خبرا حاد سے درست ہے چہ جائیکہ مخصص خبر متواتر ہو۔ پس جمہور اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جو مرد یا عورت محصن ہو (یعنی عاقل بالغ مسلم نے نکاح صحیح کر کے ایک بار مباشرت کا حصہ حاصل کرلیا ہو جس کو عرف عام میں بیاہا ہوا کہتے ہیں) اس کو سنگسار کرنا چاہیے۔ یہ سزا بسند 2 ؎ صحیح آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اور اس پر اجماع صحابہ منعقد ہوچکا ہے اس لیے اس حکم کے مؤکد کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا (1) ولا تاخذکم بہما رافۃ الخ کہ تم کو یہاں ترس نہ کھانا چاہیے اگر تم کو اللہ اور قیامت پر ایمان ہو۔ (2) یہ سزا مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور یہ خراب بات جہاں سے کم ہو الزانی لاینکح الازانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لاینکحہا الازان او مشرک مکررجملہ نہیں کس لیے زانیہ کو بسا اوقات نیک مرد سے نکاح کی رغبت ہوتی ہے یہ تیسری زنا کی ہے۔ اگر ان الفاظ کو خبر تسلیم کیا جاوے کماھوالظاہر تو یہ ایک عام اور غالب دستور کا ذکر ہے کہ بدکار کو بدکار یا مشرکہ عورت سے رغبت ہوا کرتی ہے اور اسی طرح ایسی عورتوں کو ایسے مردوں سے رغبت ہوتی ہے اور وہی باہم نکاح یا وطی کرتے ہیں اور ایمانداروں کے لیے یہ رغبت بحیثیت مذکورہ حرام ہے یہ معنی سعید بن جبیر و ابن عباس و عکرمہ کے نزدیک ہیں یا بالخصوص ان کے حق میں ہے کہ جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چناچہ نسائی و احمد نے روایت کی ہے کہ ایک عورت جس کا نام ام مہزوں تھا بدکار تھی۔ ایک صحابی نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو ممانعت میں یہ آیت نازل ہوئی اس لیے بعض ائمہ کے نزدیک زنا کار عورت سے نکاح درست نہیں نہ پارسا عورت کا بدکار مرد سے نکاح درست ہوسکتا ہے مگر صحیح توجیہ وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ زنا کاروں کو ایسی ہی بدکار عورتوں سے نکاح کی رغبت ہوتی ہے ورنہ بقصد تعفف زنا کار عورت سے نکاح کرلینا شرعاً جائز ہے اور ایسا عہد صحابہ ؓ میں ہوا ہے کہ جس نے کسی عورت سے زنا کیا بعد میں اس کے ساتھ نکاح ہوا اس نکاح کو جائز سمجھا گیا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ فاحشہ عورتوں سے نکاح کرنا اچھا نہیں واللہ اعلم۔ 1 ؎ عورت کو مقدم اس لیے کہا کہ پیشتر اس فعل بد کی ابتداء اس کی لگاوٹ سے پیدا ہوتی ہے یا اس لیے کہ زنا کا عار اس کے لیے زیادہ ہے۔ 12 2 ؎ چناچہ بخاری و مسلم نے سنگسار کیا جانا بسند صحیح روایت کیا ہے اور یہ ماجرا حد تواتر کو پہنچ گیا ہے۔ 12 منہ
Top