Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
(اسی طرح) قوم عاد نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا تھا
تفسیر : : یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کا قصہ ہے اس کے شروع میں بھی وہی الفاظ ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے کے ابتداء میں تھے اس لیے ان کی تفسیر کی بار دیگر ہم کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ صرف ان کلمات کی تفسیر کی جاتی ہے جو حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے دعوت میں فرمائے تھے اور پھر قوم نے ان کو کیا جواب دیا تھا ؟ قوم ہود کی عادت : (1) اتبنون بکل ریع آیۃ تعبثون ریع بلند جگہ آیۃ نشان 2 ؎۔ قوم عاد عرب میں ایک بڑی مالدار قوم تھی ان میں سلطنت بھی تھی ایک زمانہ تو ان کی سلطنت و شوکت کا ایسا گزرا ہے کہ مصر سے لے کر ترکستان اور ہندتک ایشیاء کے اکثر ملکوں میں انہیں کا پھریرہ ہوا میں اڑتا تھا جب مال و اقبال حد کو پہنچا تو اس کے ساتھ حرام کاری وغیرہ افعال نشست بھی حد کو پہنچے جس لیے خدا نے ان میں ہود (علیہ السلام) معبوث کئے۔ منجملہ ان بےفائدہ اور نکمی باتوں کے ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کو نام آوری اور اپنے یادگار چھوڑ کر مرنے کا ازحد شوق تھا جیسا کہ مالداروں کو ہوا کرتا ہے اس لیے وہ ایک بلند پہاڑی یا ٹیلے پر اپنی یادگار کے لیے بلند منارے بناتے تھے جو ان کے مقبرے خیال کئے جاتے تھے چناچہ مصر کے بلند منار اب تک ان کے مناروں کی نظیر دنیا میں باقی ہیں 3 ؎ چونکہ یہ عبث کام ہے اس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے سب سے اول ہود (علیہ السلام) نے اسی پر اعتراض کیا کہ کیا تم ایسا کرتے ہو ؟ یعنی ایسا کرنا نہ چاہیے مفسرین نے گرچہ اس کی تفسیر میں اور اور توجیہیں بھی لکھی ہیں مگر سیاق وسباق اور تاریخ کے بھی یہ توجیہ موافق ہے۔ (2) وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون۔ مصانع پانی کے حوض۔ اور بلند محل جب مقبروں کی تعمیر میں ان کا یہ حال تھا تو مکانات کی تعمیر میں کیا کچھ اسراف نہ ہوگا ؟ چناچہ وہ عجائب غرائب بلند اور مضبوط محل بنواتے تھے اور ان کی تعمیر میں بیشمار روپیہ صرف کرتے تھے اس کو بھی بیجا خرچ اور دنیا فانی کو مقام جادوانی سمجھنے کے خیال سے منع فرمایا یعنی تم جو ایسے استحکام کرتے ہو کیا یہاں ہمیشہ ہوگے ؟ دنیا چند روزہ کے لیے بقدر ضرورت مکان کافی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کا یہ پہلا کام ہے کہ دنیا کی بےثباتی اور آخرت کا ثبوت دکھاویں۔ (3) واذا بطشم بطشتم جبارین یعنی باوجود اس حبِّ دنیا اور حبِّ جاہ اور علو کے غیروں سے تمہارا جابرانہ معاملہ ہے عدل و انصاف کا نہیں جیسا کہ جبار قوم کی عادت ہوتی ہے جس کو چاہا بیکار میں پکڑ لیا ذرا سا انکار کیا پیٹ ڈالا ‘ مار ڈالا کسی کا کچھ دینا ہو دھمکایا یا مار کر نکال دیا یا کسی کی عورت یا عمدہ چیز کو زبردستی چھین لیا۔ یہ باتیں بھی بربادی کا سبب ہوتی ہیں اس لیے فرمایا واتقو اللہ واطیعون اللہ سے ڈرو میرا کہنا مانو مگر پھر ان کو خواب غفلت سے مجملاً تفصیلا بیدار کر کے عذاب الٰہی سے ڈرایا مجملاً واتقو الذی امدکم بماتعلمون میں پھر اس کی تفصیل کی امدکم بانعام الخ مگر وہ کب مانتے تھے کہہ دیا آپ وعظ کریں یا نہ کریں ہم پر کچھ اثر نہ ہوگا۔ یہ پہلوں کی عادت ہے وہ ہمیشہ یوں ہی وعظ کرتے آئے ہیں پس تکذیب کی تو تمام قوم عذاب الٰہی سے غارت ہوئی۔ 2 ؎ چناچہ قصر عمدان جو حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں گرایا گیا اور دیگر آثار باقیہ اب تک ملک یمن میں اس قوم کی یادگار ہیں۔
Top