Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ لُوْطِ : قومِ لوط ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
(اسی طرح) قوم لوط نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا
تفسیر : چھٹا قصہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حقیقی بھتیجے تھے اور ان کے حکم سے اس سرزمین پر بھیجے گئے تھے جو شام کے جنوب و مشرق میں ہے۔ جھیل مردار کے قریب سدوم عمورہ وغیرہ اس جھیل کے قریب چند شہر تھے وہاں کے لوگ علاوہ بت پرست ہونے کے لونڈے باز بھی تھے ‘ عورتوں سے رغبت نہ رکھتے ‘ تھے لڑکوں پر مرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اس فعلِ بد سے منع کیا۔ اس کے جواب میں کہنے لگے کہ اگر تو اس وعظ سے باز نہ آئے گا تو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت ( علیہ السلام) نے فرمایا میں تو منع ہی کروں گا کس لیے کہ میں اس ناپاک کام سے بیزار ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور میرے گھر کے لوگوں کو اس کی شامت سے بچائیو۔ مراد یہ کہ اس پر عذاب آنے والا ہے میں اس سے پناہ مانگتا ہوں۔ پس ایک روز ان پر عذاب آیا حضرت لوط اور ان کے گھر والوں کو حکم ہوا کہ بڑے تڑکے سے تم شہر چھوڑ کر چل دو پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا صبح کو یہ غارت ہوں گے۔ حضرت کی بیوی انہیں لوگوں میں کی تھیں ان کو اہل وطن سے تعلق تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بھی ہلاک ہوئیں تمام شہروں پر پتھر برسے ‘ الٹ دیے گئے جن کے آثار حضرت نبی آخرالزماں (علیہ السلام) کے عہد تک باقی تھے۔ اب بھی کچھ کچھ سیاحوں کو معلوم ہوتے ہیں۔
Top