Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 193
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ
نَزَلَ بِهِ : اس کے ساتھ (لے کر) اترا الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ : جبریل امین
اس کو روح الامین
ترکیب : بلسان نزل سے متعلق اور منذرین سے بھی ہوسکتا ہے۔ لم یکن کان تامہ ہے تو فاعل ایتۃ ان یعلمہ بدل اور ناقصہ ہے تو آیۃ خبر مقدم ان یعلمہ الخ اسم۔ تفسیر : ان ساتوں قصوں کے بعد چند باتیں ثبوت نبوت ورد منکرین کے لیے ذکر فرماتا ہے۔ (1) وانہ لتنزیل رب العالمین کہ یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ لفظ رب العالمین دو باتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے فرمایا اول یہ کہ جس طرح ہم تمہاری جسمانی پرورش کرتے ہیں رزق روزی دیتے ہیں اسی طرح روحانی تربیت بھی ہمارا کام ہے اور روحانی تربیت کا ذریعہ وحی اور پیغمبر پر کتاب نازل کرنا ہے۔ دوم یہ کہ تم جو اس نعمت آسمانی کا مقابلہ کرتے ہو اور پھر اب تک تم عذاب سے بچے ہوئے ہو یہی سبب ہے کہ یہ رب العالمین کا کلام ہے جس کا شیوہ رحمت عام ہے ورنہ دیکھتے کیا ہوتا اور اس لیے قصص مذکورہ میں ہر ایک کا مقطع وان ربک لہو العزیز الرحیم پر کیا جس سے آنحضرت ﷺ کے مخاطبوں کو یہ جتلایا جاتا ہے کہ ہم زبردست ہیں۔ دم بھر میں ہلاک کرسکتے ہیں لیکن رحیم بھی ہیں اور رب ہیں پرورش کرنے والے تم پر ترس کھانے والے۔ کیف نزول قرآن : (2) نزل بہ الروح الامین الی عربی مبین وہ جو فرمایا تھا کہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔ اس پر یہ شبہ باقی رہتا تھا کہ رب العالمین نے اس کو کس طرح سے نازل کیا ہے۔ کیا لکھی لکھائی کتاب آسمان سے فرشتہ لے کر آیا ہے کیا حضرت کو غیب سے آواز آتی ہے یا آپ سے ہر وقت خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے کیا صورت ہے ؟ اس کی کیفیت بیان فرماتا ہے کہ اس کو روح الامین یعنی جبرئیل ( علیہ السلام) محمد ﷺ کے دل پر لے کر آیا ہے صاف عربی زبان میں۔ انکشاف غیبی انسان کے دل پر لے کر آیا ہے صاف عربی زبان میں۔ انکشاف غیبی انسان کے دل پر ہوا کرتے ہیں اور جبرئیل چونکہ روح ہیں ان کی سرایت دل تک بخوبی ہوتی ہے اور ایسی روحانی اور لطیف چیزیں اپنے الفاظ سے جو مضمون چاہتے ہیں بشر کے دل پر القاء کردیتے ہیں۔ جن لوگوں پر جن یا کسی روح ناپاک کا گزر ہوتا ہے باوجود کہ وہ جس زبان سے واقف بھی نہیں ہوتے اس زبان میں ان کو وہ دور دراز کی باتیں اور دیگر مطالب القاء کر جاتے ہیں جس کا لوگوں کو بارہا مشاہدہ ہوا ہے۔ چہ جائیکہ روحانیت مقدسہ اور ان میں سے خاص حضرت جبرئیل امین جس کے اوپر القاء کریں۔ حواریوں پر بعد مسیح کے روح القدس اترا تھا جس سے وہ مختلف زبانیں بولنے لگے تھے (کتاب اعمال) ۔ معلوم ہوا کہ حضرت روح الامین نہ صرف معانی بلکہ الفاظ کے ساتھ قرآن کا القاء حضرت کے دل پر کرتے تھے پھر اس کو حضرت جمع کرا دیتے تھے۔ یہ ہے نزول قرآن کی کیفیت۔ (3) وانہ لفی زبرالاولین نیز اس قرآن اور نبی (علیہ السلام) کا پہلوں کی کتاب میں بھی ذکر ہے۔ یہ بھی بڑی دلیل حقانیت کی ہے گرچہ کتب سابقہ بالفعل بعینھا موجود نہیں۔ ان میں بہت کچھ تحریف و تبدیل ہوگئی اور ہوتی ہے مگر تاہم جس قدر پیشین گوئیاں آنحضرت ﷺ کی بابت ان میں اب تک پائی جاتی ہیں اور کسی کے لیے اتنی نہیں پائی جاتی (4) اولم یکن لہم آیۃ ان یعلمہ علمائِ بنی اسرائیل میں بہت سے دینداروں نے آنحضرت ﷺ اور قرآن کی تصدیق کی اقرار کیا کہ ہماری کتب میں ان کا ذکر ہے اور وہ آپ کے منتظر تھے یہ بھی ایک بڑی علامت حق ہونے کی ہے عبداللہ بن سلام وغیرہ علمائِ یہود نے اقرار کیا۔ (5) ولو نزلناہ الخ قرآن مجید پر ان کا یہ بھی شبہ تھا کہ یہ تو ہماری زبان میں ہے جس کو محمد ﷺ بخوبی جانتے ہیں اگر کسی اور زبان میں بناکے لاتے تو جانتے اس کا جواب دیتا ہے اگر غیر عربی زبان میں آتا تو تم ہرگز نہ مانتے۔
Top