بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
یہ آیتیں ہیں قرآن اور کھلی کتاب کی
ترکیب : و کتاب معطوف ہے قرآن مجرورمضاف الیہ پر ھدی و بشری دونوں محل حال میں ہیں آیات یا کتاب سے اور مبتدا محذوف کی خبر بھی ہوسکتے ہیں الذین یقیمون صفت ہے المؤمنین کی وھم بالآخرۃ الخ تتمہ صلہ کا ہے و حال یا عطف کی صورت میں جملہ فعلیہ سے اسمیہ کی طرف تغیر کرنا ان کے ثبات اور ایمان پر استمرار ثابت کرنے کے لیے ہے۔ تفسیر : یہ سورة بھی مکہ میں نازل ہوئی ہے اس میں بھی توحید اور اثبات نبوت کے مباحث اور چند انبیاء (علیہم السلام) کے تذکرے ہیں اور ان پر جو کچھ انعامات ہوئے وہ بھی بیان ہوئے ہیں جو ان کی خدا پرستی کا نتیجہ تھا۔ فرماتا ہے طس ان دو حرفوں سے کسی خاص بات کی طرف اشارہ ہے جس کو وہی خوب جانتا ہے۔ تلک یہ یعنی آیتیں جو اس سورة میں ہیں قرآن اور کتاب مبین کی آیات ہیں کسی شاعر کا کلام نہیں۔ کتاب مبین سے مراد بھی قرآن ہے مگر کتاب مبین کہنے سے یہ بات بتلانی مقصود ہے کہ قرآن مجید میں کوئی بات بعید از عقل نہیں سب باتیں اس کی صاف اور ظاہر ہیں جن کو ہر ایک صاحب عقل سلیم تسلیم کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں کرسکتا مگر وہی کہ جس کے دل کی آنکھیں روشن ہیں ورنہ عقل کے اندھوں اور جنم کے کور باطنوں کج طبعوں کو اس میں ہزارہا قیل و قال ہیں۔ اس لیے فرماتا ہے ھدی و بشریٰ للمؤمنین کہ یہ قرآن ہدایت ہے سب کے لیے مگر نفع اس سے وہی اٹھاتے ہیں جن میں راستی کا مادہ رکھا ہوا ہے اس لیے بشرٰی کو مومنین کے ساتھ مخصوص کیا۔ پھر آگے یہ بھی کھول دیا کہ زبان سے مومن کہنا کافی نہیں جب تک کہ اس میں یہ اوصاف نہ پائے جائیں۔ (1) الذین یقیمون الصلوٰۃ کہ وہ جو نماز قائم کرتے ہیں یعنی اہتمام سے اور اس کی ساری شرطوں اور قاعدوں سے نماز ادا کرتے ہیں معلوم ہوا کہ جو نماز نہ ادا کرے وہ پورا اور کامل مومن نہیں۔ حیف ہے ان لوگوں پر جو خدا پرستی اور دین کی حمایت کا تو دعویٰ کرتے ہیں مگر نماز سے بےفکر ہیں۔ (2) ویؤتون الزکوٰۃ اور جو زکوٰۃ دیا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ شرع میں مال میں سے چالیسواں حصہ خدا کے نام دینا اور اس کے علاوہ ہر ایک قسم کی خیرات کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں مالی اور بدنی دونوں عبادتوں کو شامل کرلیا مگر سب کے ساتھ ایک بڑی قید بھی ہے وہ کیا ؟ وھم بالآخرۃ ھم یوقنون کہ وہ آخرت پر یقین بھی رکھتے ہوں۔ اس میں ایمان یعنی جملہ اعتقادیات کی طرف ایک اہم جز کے ذکر کرنے سے اشارہ کردیا کیونکہ مکہ کے لوگ برائے نام خدا تعالیٰ کے اور کچھ کچھ صفات باری تعالیٰ کے معتقد تھے مگر آخرت کے بالکل منکر تھے اور نہ صرف وہ بلکہ اس عہد میں استثناء بعض سب مذاہب آخرت کے منکر تھے اس لیے اس کی تصریح کی تاکہ قوت عملیہ اور نظریہ کی تکمیل ہوجائے اور اس کے بعد ان الذین لایؤمنون بالآخرۃ الخ میں آخرت کے منکروں کا بد نتیجہ بھی بیان فرما دیا کہ لہم سوء العذاب وھم فی الآخرۃ ھم الاخسرون کہ ان کو بہت ہی برا عذاب ہے اور آخرت میں وہی زیادہ نقصان اٹھائیں گے کیونکہ یہ جب اس کے منکر ہیں تو اس دن کے لیے کوئی توشہ کیوں جمع کرنے لگے ؟ یہی خسارہ ہے اور آخرت کے انکار کی وجہ بھی بیان کردی کہ زینالہم اعمالہم فہم یعمہون کہ وہ کام جو لذات و شہوات وفراہمی مال و زر اور دنیا کے استحکام کے لیے کرتے ہیں وہ ان کو بھلے معلوم ہوتے ہیں قضاء و قدر نے ان کی نظروں میں زیبا کردیے ہیں اس میں حیران و سرگردان ہیں ‘ آخرت اور مرنے کا تصور بھی برا جانتے ہیں۔ جو دنیا میں اس طرح غرق ہے گویا آخرت کا منکر ہے۔ یہاں تک قرآن کا مبین ہونا ثابت کر کے یعنی دعویٰ کی دلیل پیش فرما کر پھر اس دعویٰ کو بطور نتیجہ کے پیش کیا جاتا ہے۔ وانک لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم یعنی اے نبی ! تم قرآن کو حکیم وعلیم کی طرف سے پار ہے ہو وہی حکیم وعلیم جس کی کوئی بات حکمت و علم سے خالی نہیں قرآن وہی وقتاً فوقتاً تم پر نازل کر رہا ہے اس لیے اس جملہ کو ان اور لام تاکید سے صادر کیا اور نیز یہ جملہ اگلے بیان کے لیے تمہید بھی ہے اس کی حکمت کا ثبوت احکام سے جن میں تکمیل قوت نظریہ و عملیہ (جس کو ہندی میں گیان و کرم کہتے ہیں (جس پر نجات ومکش کا مدار ہے جس میں کوئی بات نہیں چھوڑی بخوبی ثابت ہے اور علم کا ثبوت انبیاء (علیہم السلام) کے گزشتہ واقعات سے جو ابھی بیان ہوتے ہیں اچھی طرح ہوجائے گا۔ کس خوبی کے ساتھ توحید کے مسئلہ کو نبوت کے مسئلہ سے اور نبوت کے مسئلہ کو معاد کے مسئلہ سے اور پھر ان سب سے احکام کی پابندی نیک روی کو ثابت کیا ہے اور خلاف ورزی اور شہوات اور لذات کی پیروی کے قصص انبیاء سے کیا برے نتائج دکھائے ہیں یہ ہے وہ قرآن کا اعجاز جس کا معارضہ ناممکن ہے نہ صرف مقفّٰی و مسجع عبارت۔ اب قصص انبیاء (علیہم السلام) شروع ہوتے ہیں فقال۔
Top