Tafseer-e-Haqqani - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب موسیٰ نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہا امید ہے کہ اللہ مجھے سیدھا رستہ بتادے
ترکیب : علی استحیاء حال ماسقیت، مصدریۃ ان تاجرنی فی موضع الحال و ثمانی ظرف۔ فمن عندک یجوزان یکون خبر مبتداء محذوف اے فالا تمام الرعاء اجمع راع تذودان تمنعان اغنامھما عن الماء۔ الزیاد منع۔ تفسیر : یہ ہے کہ ہرچند اسرائیلی مجرم نہ تھا زیادتی مصری کی تھی مگر مشہور ہے ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی، بہرحال بازاروں میں لڑنا لپا ڈ کی ہونا صالحین کی سیرت نہیں ان کو جو کوئی برا بھلا بھی کہتا ہے تو صبر ہی کرجاتے ہیں، آمادئہ جنگ نہیں ہوتے، اس لیے اس اسرائیلی کو اگلے روز آپ نے انک لغوی مبین کہا، اس لحاظ سے حضرت ( علیہ السلام) نے اس کو بھی مجرم ہی قرار دیا اور قصد کیا کہ آیندہ سے ایسے جھگڑوں میں نہ پڑوں گا، مگر خدا کی قدرت اگلے روز اسی اسرائیل کا کسی اور شخص سے بازار میں جھگڑا ہورہا تھا، موسیٰ ( علیہ السلام) کو دیکھ کر پھر اس نے فریاد کی، آپ نے خفا ہو کر اس کو فرمایا کہ تو بڑا بےہودہ ہے، ہر روز لوگوں سے لڑا کرتا ہے، ان کو چھوڑانا اور ہاتھ بڑھا کر الگ کردینا چاہا تو اس بےہودہ اسرائیلی نے اس پہلی خفگی کی بات سے یہ سمجھا کہ میرے مارنے کو ہاتھ بڑھایا ہے، اس لیے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کہا جس طرح سے کہ آپ نے کل ایک آدمی کو مار ڈالا آج مجھے بھی مارنا چاہتے ہیں۔ اس کے اس کہنے سے راز قتل افشاء ہوگیا۔ یہ خبر فرعون کے دربار تک پہنچی، ان کے اعتراضات اور تنفر کی وجہ سے وہ پہلے ہی ان سے ناراض اور باغی سمجھتے تھے، اب تو اور بھی غضبناک ہوگئے اور انتقام میں موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ فرعونیوں میں سے ایک نیک مرد موسیٰ ( علیہ السلام) کا خیر خواہ بھی تھا وہ دوڑا ہوا آیا اور موسیٰ ( علیہ السلام) کو خبردی اور کہا آپ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اسی حالت میں نکل پڑے اور مدین کی طرف رخ کیا۔ یہ ایک بستی قلزم کے پار فرعون کی عملداری سے باہر عرب میں ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کے لوگوں کی تھی، حضرت شعیب ( علیہ السلام) ایک پیر مرد اسی بستی میں رہتے تھے، ان کی صرف دو لڑکیاں تھیں۔ بکریوں پر گزر اوقات تھی، کنوئیں سے ڈول کھینچ کر جب لوگ پانی پلاچکتے تو بچا ہوا یہ بھی پلاتیں اور اتنی دیر اپنی بکریوں کو روکے کھڑی رہتی تھیں۔ اتفاقاً حضرت ( علیہ السلام) کئی دن کا سفر طے کرکے مدین آئے اور اسی کنوئیں پر پہنچے، سایہ دار درخت کے تلے بیٹھے ہوئے دیکھ رہے تھے، لڑکیوں سے پوچھا تم کیوں نہیں پلاتیں۔ اُنہوں نے کہا ہم سے ڈول نہیں کھنچ سکتا اور ہمارا باپ بوڑھا ہے، ان کو رحم آیا۔ قوی مرد تھے۔ تنہا چرس کھینچ کر ان کی بکریوں کو پانی پلادیا، گھر جاکر انہوں نے باپ سے کہا ایک نووارد مسافر آیا ہوا ہے اور بڑا نیک اور قوی ہے۔ آپ اس کو نوکر رکھ لیجئے، باپ نے کہا اس کو بلا لاؤ، ایک آئی مگر شرم و حیا کے ساتھ آکر کہا میرے باپ آپ کو بلاتے ہیں کہ آپ کی اجرت دیں، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) گئے اور سب قصہ بیان کیا۔ شعیب نے فرمایا خوف نہ کر خدا نے تجھ کو نجات دی۔ خدمات کا مہر ہونا : پھر کہا میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا تیرے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں، اس شرط پر کہ آپ آٹھ برس تک میرے ہاں کام کاج کریں اور دس پورے کردیں تو آپ کی مہربانی اور میں آپ کو تکلیف نہ دوں گا۔ آخر نکاح ہوا اور باہمی قول وقرار پر اللہ کو ضامن کرکے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) وہاں رہنے لگے۔ یہ آٹھ برس کی نوکری گویا حضرت کا مہر تھا، اس وقت بجائے مال کے خدمات بھی مہر قرار پاتی تھیں۔ بعض علماء نے اس سے اور نیز بعض احادیث سے کہ جن میں آنحضرت ﷺ نے قرآن پڑھانا مہر قرار دیا ہے، آج کل بھی اس قسم کا مہر مقرر کرنا جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ظاہر یہ کہتے ہیں، امام ابوحنیفہ (رح) مال ہی کو مہر قرار دیتے ہیں۔ بدلیل قولہ تعالیٰ اِبْتَغُوْا بْاَمْوَالِکُمْ الآیۃ۔
Top