Tafseer-e-Haqqani - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور البتہ ہم ان کے پاس ہدایت بھیجتے رہے تاکہ وہ سمجھیں
ترکیب : لہم وصلنا سے ای متعلق بینا القول القرآن مفعول و صلنا۔ من قبلہ ای من قبل القران پس یہ آیتنا سے متعلق ہے۔ تفسیر : اہل مکہ کا ایک یہ بھی شبہ تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرح ایک ہی بار تمام کتاب محمد ﷺ کو کیوں نہ دی گئی ؟ تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوتا ہے ؟ اور نیز کیا موسیٰ ( علیہ السلام) کی کتاب کافی نہ تھی۔ پھر نئی کتاب کیوں نازل کی گئی ؟ (آج کل کے بعض ناواقف پادریوں نے بھی یہی شبہ کیا ہے) اس کا جواب دیتا ہے، ولقد وصلنا لہم القول لعلہم یتذکرون کہ ہم جو پے درپے 1 ؎ قول یعنی ہدایت کی بات قرآن مجید اور اس کی آیات یکے بعد دیگر اس لیے بھیجتے رہے کہ وہ سمجھیں ہر روز ایک نئے فائدے اور نئی حکمت سے فیض اٹھانا اور تدریجاً یاد کرنا اور ہر ایک وقت اور زمانہ کی ضرورت کے موافق حکمت نوآمیسیہ اور اسرار شریعت سے واقف ہونا زیادہ تر موثر ہے۔ جیسا کہ مشاہدہ اور تجربہ شاہد ہے۔ 1 ؎ قرآن 12 منہ الذین اٰیتناھم الکتب 1 ؎ من قبلہ ھم بہ یؤمنون تمہارے اس شبہ کی کچھ بنیاد نہیں، وہ لوگ کہ جن کو اس سے پہلے کتابیں دی گئی ہیں توریت، زبور و دیگر صحف انبیاء و انا جیل وہ قرآن مجید کے مضامین عالیہ پر نظر کرکے اس پر ایمان لاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مصلحتوں کے لحاظ سے ہر وقت میں یکے بعد دیگر خدا تعالیٰ انبیاء پر الہام کرتا آیا ہے۔ توریت کے بعد زبور اور پھر اور بہت سے نبیوں کی کتابیں اور ان کے بعد انجیل مقدس نازل ہوئی، ایک کتاب کافی نہ سمجھی گئی اور یہ بھی نہیں ہوا کہ ان کتابوں کو ایک ہی بار نازل کردیا ہو اور نہ وہ صرف ایمان ہی لاتے ہیں بلکہ اذا یتلٰی علیہم الخ وہ اس کے برحق ہونے کی گواہی بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اس پر پہلے ہی سے ایمان لائے ہوئے ہیں، کیونکہ پہلی کتابوں میں انہوں نے اس کی بابت پیشین گوئیاں دیکھی تھیں، پس اعتباران اہل علم کی شہادت کا ہے جو کلام الٰہی کے پہچاننے کا ملکہ رکھتے ہیں نہ کہ تم جاہلوں کا کہ تم کلام الٰہی کے اسلوب ہی سے واقف نہیں۔ پھر تمہارے شبہ کی کیا وقعت ہو ؟ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی نسبت ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے شریعت سابقہ پر عمل کرتے تھے، پھر جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ پر بھی ایمان لائے۔ منجملہ ان کے سلمان اور عبداللہ بن سلام ؓ ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں، چالیس عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے بتیس آدمی تو وہ ہیں کہ جو جعفر ؓ کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر حبشہ سے آئے تھے اور آٹھ شام سے آئے تھے اور رفاعہ بن قرطہ ؓ کہتے ہیں کہ دس آدمیوں کے بارے میں ہے کہ جن میں سے ایک میں بھی ہوں، مگر ان کی خصوصیت نہیں جس کسی میں یہ صفات پائے جاویں۔ (نیشاپوری) خدا تعالیٰ ان لوگوں کے حق میں خوشخبری دیتا ہے اور ان کے چند اوصاف بھی ذکر فرماتا ہے، خوشخبری یہ ہے اولئک یؤتون اجرھم مرتین کہ ان کو دگنا ثواب ملے گا اور دو چند بدلہ دیا جائے گا، پہلی شریعت پر عمل کرنے کا بھی اور اس شریعت پر عمل کرنے کا بھی یا ان کے ایمان لانے کا اور پھر شہادت دینے کا کیونکہ ان کو بڑی بڑی سختیاں پیش آئی ہیں جس پر انہوں نے صبر کیا۔ بما صبروا۔ یہ اول وصف تھا ویدرون بالحسنۃ السیئۃ یہ دوسرا وصف ہے کہ جو کوئی ان سے برائی کرتا ہے وہ اس کے در جواب اس سے بھلائی سے پیش آتے ہیں۔ گالی کے بدلے دعا دیتے ہیں۔ ومما رزقناھم ینفقون کہ اللہ کے دیے میں سے دیتے ہیں۔ خیرات و صدقات بھی کرتے ہیں، صرف زبانی جمع خرچ نہیں۔ یہ تیسرا وصف تھا۔ واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ اور جب جاہلوں ‘ کج بحثوں کی بےہودہ باتیں اور رکیک حجتیں اور بد زبانیاں سنتے ہیں تو کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، اچھا بھئی تمہارے اعمال تمہارے لیے اور ہمارے اعمال ہمارے لئے، ہم تم سے لڑنا تکرار کرنا نہیں چاہتے۔ یہ چوتھا وصف ہے۔ فرماتا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دور سے ان اجنبیوں کو کیوں ہدایت ہوگئی اور ان لوگوں کو کیوں نہ ہوئی کہ جن کی ہدایت کی تجھے بڑی کوشش ہے کس لیے کہ انک لاتہدی من احببت الخ ہدایت تیرے قبضہ میں نہیں، اللہ جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ زجاج کہتے ہیں تمام اہل اسلام متفق ہیں کہ یہ آیت ابی طالب 2 ؎ کے بارے میں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بہت کچھ چاہا کہ ایمان لاویں پر وہ ایمان نہ لائے۔ اس آیت اور اس آیت میں کچھ منافات نہیں وانک لاتہدی الی صراط مستقیم کیونکہ نفی جو ہے تو ایصال الی المقصود کی ہے اور اثبات جو ہے تو ارائۃ الطریق کا یعنی آپ رستہ بتاتے ہیں مگر اس پر چلنا اور مقصد تک پہنچنا اللہ کے بس میں ہے۔ 1 ؎ اہل کتاب کے علماء کی طرف اشارہ ہے وہ اپنی کتابوں میں آنحضرت ﷺ کا ذکر دیکھ کر حضرت ﷺ کے ظاہر ہونے سے پہلے اسلام کی طرف مائل تھے۔ 12 منہ 2 ؎ بخاری نے روایت کیا ہے کہ جب ابی طالب کا وقت وفات قریب پہنچا۔ تو آنحضرت ﷺ ان کے پاس آئے وہاں ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ لا الہ الا اللہ کہہ لے میں اس سے تیرے لیے اللہ کے ہاں سند پکڑوں گا۔ ان دونوں نے کہا اے ابی طالب کیا تو ملت عبد المطلب سے پھرتا ہے حضرت بار بار وہی فرماتے تھے اور وہ بھی وہی اپنی کہتے تھے یہاں تک کہ آخر میں مطالب نے یہی کہہ دیا کہ میں تو عبد المطلب کے مذہب پر ہوں اور کلمہ طیب نہ کہا۔ حضرت ﷺ کو رنج ہوا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 12 منہ۔
Top