Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مسلمان ہی رہ کر مرنا
ترکیب : اخوانا خبر ہے اصبحتم کی اور یہ جمع اخ کی ہے کنتم کا اسم ضمیر علی شفا الخ خبر شفا بالفتح اس کے معنی کنارہ کے ہیں۔ اس کا تثنیہ شفوان آتا ہے ولتکن کان تامہ منکم اس کے متعلق امۃ اسم یدعون الخ اس کی صفت۔ تفسیر : باہمی نقیض و عداوت کے اسباب کا قلع و قمع کرکے اتفاق اور باہمی محبت کی تاکید کرتا ہے اور اس نااتفاقی کے زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جہنم کا گڑھا تھا اور جس کے کنارے پر لوگ پہنچ گئے تھے۔ قریب تھا کہ گر کر ہلاک ہوجائیں لیکن خدا نے اس سے نجات دی۔ نبی (علیہ السلام) کی برکت سے آپس میں ایسی محبت ہوگئی کہ بھائی بھائی ہوگئے۔ پھر اس کے خیرو برکات دنیا اور دین میں بیشمار ظہور میں آئے۔ دنیا کی تمام سرسبز سلطنتیں ان بھوکے ننگے عرب کے اونٹ بکری چرانے والوں کے ہاتھ میں آگئیں اور دین میں بھی تمام بنی آدم کے ہادی اور رہنما بن گئے۔ اس نعمت کی طرف اشارہ کرکے حکم دیتا ہے کہ اس کو یاد کرو کہ تمہاری کیا حالت تھی کیا ہوگئی ؟ یہ اتفاق بلکہ تمام عرب بلکہ روئے زمین کے نیک لوگوں کا اتفاق اس لئے قائم ہوا کہ نبی (علیہ السلام) کی برکت سے ان پر تجلی ذاتی ہوئی۔ سب کا مقصود اور مشرب وصال معبود حقیقی متحد ہوگیا اور جب تک کہ سب کو کوئی ایک غرض مجتمع نہیں کرتی۔ اتفاق نہیں ہوتا۔ سو یہ آنحضرت ﷺ کا بڑا معجزہ ہے کہ تمام درندوں کو بھائی بنا دیا۔ پھر آیندہ اس سلسلہ برکت کے جاری رکھنے کے لئے تمام امت کو بطور فرض کفایہ حکم عام دیتا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا بھی رہنا چاہیے کہ جو لوگوں کو نیک باتوں کی تعلیم کیا کریں۔ بری باتوں سے منع کیا کریں ٗ اچھی باتوں کا حکم دیا کریں۔ یہ خاص لوگوں کا گروہ ہے جو نبی (علیہ السلام) کے نائب ہیں جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے بڑی محنتیں اٹھا کر دور دراز تک دین پھیلا دیا 1 ؎ تھا مگر صحابہ نے اس سے بھی بڑھ کر دکھایا جس کی تواریخ شہادت دے رہی ہیں۔ اس آیت میں چند حکم ہیں (1) یہ کہ جہاں تک اس سے ڈرنے کا حق ہے ڈرو۔ اول سیڑھی یہی ہے محققین کے نزدیک حق ڈرنے کا یہ ہے کہ اس کی ذات میں اپنی ذات کو اور صفات میں صفات کو نیست کردے۔ (2) یہ کہ مرتے وقت تک اسلام پر قائم رہنا (3) سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑ لو۔ رسی سے مفسرین نے مختلف معنی مراد لئے ہیں۔ کسی نے عہد ازلی کسی نے قرآن کسی نے دین اسلام مدعی واحد ہے۔ (4) یہ کہ اختلاف نہ کرنا اختلاف سے تائید ربی دور ہوجاتی ہے۔ (5) تم میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا قائم رہے جو لوگوں کو دین کی رہنمائی کیا کرے۔ بری باتوں سے منع کرے۔ اس لئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسلام کا شیوہ ہے جب تک یہ رہا دین میں ترقی رہی۔
Top