Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
(مسلمانو ! ) تم اچھی جماعت پیدا کئے گئے ہو (اس لئے کہ تم) لوگوں کو اچھی باتیں بتایا کرتے ہو اور بری باتوں سے منع کیا کرتے ہو اور تم اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بھی بھلا ہوتا ( مگر) کچھ تو ان میں سے مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں
ترکیب : کنتم اسکا اسم انتم خیر امۃ خبر ای فی علمی و قیل حرتم کان زائدہ ہے ای انتم خیر امۃ اخرجت الخ امت کی صفت الاذی کا استثناء اشیائِ محذوف سے ہے۔ تفسیر : پیشین گوئی : اول فرمایا تھا کہ جن کے منہ روشن ہوں گے وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ یہاں اس کی وجہ اور علت فرماتا ہے کہ یہ نورانیت تم کو اس لئے حاصل ہوئی کہ تم دنیا میں کمال اور درجہ سعادت حاصل کرچکے ہو۔ برخلاف اہل کتاب کے کہ ان کو یہ سعادت نصیب نہیں۔ گرچہ کسی قدر ان میں ایماندار ہیں مگر اکثر تو فاسق و فاجر ہیں۔ سو اس اتفاق کی بدولت وہ تم کو کچھ بھی ضرر نہ دے سکیں گے مگر کچھ زبانی طعن وتشنیع سے دل شکنی کریں تو کریں اور جو تم سے لڑیں گے بھی تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے بالخصوص یہود تو ایسے ذلیل و خوار ہوں گے کہ دنیا میں ان کو بغیر پناہ 1 ؎ الٰہی یعنی ذمی بننے کے اور بغیر امن لوگوں کے چارہ نہ ہوگا۔ یہ ان کی سرکشی اور نافرمانی اور کفر اور انبیاء (علیہم السلام) کو ناحق قتل کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ چناچہ قرون سابقہ میں ہر قوم پر اسلام نے غلبہ پایا۔ اجتماع امت دلیل شرعی ہے : یا یوں کہو کہ انسان جس طرح باہم صورتوں میں مختلف ہیں اسی طرح اختلافِ آرا و اختلاف خواہش ان کی فطرت میں خمیر کیا گیا ہے جس کی اصلاح کے لئے دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) آئے۔ اپنے عہد میں سب کے سربند آنحضرت ﷺ تھے۔ بعد میں قیامت تک اپنا قائم مقام اجماع امت قائم کیا کہ جس طرف جمہور امت ہو وہ حق اور سب کا مرکز ہے۔ تمام اختلاف کا فیصلہ اسی پر ہے اور اس لئے نبی (علیہ السلام) نے احادیث صحیحہ میں جماعت سے الگ ہونے والے کے لئے سخت وعید بیان فرمائی ہے کہ جس نے جماعت کو چھوڑا اس نے اسلام کی رسی اپنے گلے سے نکال ڈالی۔ (مشکوٰۃ) اور اجماع امت کے برحق ہونے کے لئے یہ ضرور ہے کہ امت میں کوئی خوبی اور عصمت ہو۔ اس لئے فرمایا کہ تم اے امت محمد اچھی امت ہو۔ علاوہ اپنی تکمیل کے تم اوروں کے بھی ہادی اور معلم خیر ہو تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر میں قوۃِ عملیہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے وتومنون باللّٰہ میں قوت نظریہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے اور اسی لئے نبی (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور یہ کہ میری امت کبھی گمراہ نہ ہوگی (رواہ ابن ماجہ)
Top