Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے زخم پہنچنے کے بعد (بھی) اللہ اور رسول کا حکم مانا ان میں سے جنہوں نے نیکی اور پرہیزگاری کی (ان کے لئے) اجر عظیم ہے۔
ترکیب : الذین استجابوا موضع جر میں صفت ہے المؤمنین کی۔ اجر عظیم مبتدا موخر للذین احسنوا منہم خبر۔ الذین قال لہم بدل ہے الذین استجابوا سے۔ حسبنا ای فحسبنا مبتداء اللّٰہ خبرا و العکس بنعمتہ من اللہ لم یمسسہم بھی حال ہے ضمیر انقلبوا سے واتبعوا معطوف ہے انقلبوا پر۔ تفسیر : پہلی آیت میں شہیدوں کی مدح کے بعد یہ تھا کہ خدا مومنوں کے اجر ضائع نہیں کرتا۔ یہاں ان مومنوں کی تشریح کرتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں۔ یہ نہیں کہ برائے نام اسلام اختیار کرکے ان درجوں کا اپنے تئیں مستحق سمجھ بیٹھے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ شہید ہوگئے ہیں وہ تو منزل مقصود کو پہنچ ہی گئے مگر جو اس جماعت کے لوگ زندہ ہیں ٗ وہ بھی انہیں میں شمار ہیں۔ فرماتا ہے کہ مومن کامل وہ لوگ ہیں کہ جو ہزیمت کھا کر زخم اٹھا کر بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کو موجود ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کے لئے اجر عظیم ہے کیونکہ انہوں نے اوامر پر عمل کیا۔ احسنوا اور منہیات سے بچے۔ اتقوا اس مدح میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ وہ یہ کہ جب جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ستر (70) آدمی شہید ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے اور مشرکین چڑھے چلے آتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی لاشوں کی بےحرمتی کریں۔ چناچہ حضرت حمزہ ؓ کی لاش کی بےادبی کی۔ کان ناک کاٹ کر شکل بگاڑی۔ اس میں آنحضرت ﷺ نے سنبھل کر پھر اہل اسلام کو پکارا تو باوجود اس شدت کے پھر دوڑے چلے آئے اور مشرکین کو ہٹا دیا۔ واقدی وغیرہ اہل سیریہ کہتے ہیں کہ اس کا سبب نزول یہ ہے کہ احد کی جنگ سے جب ابو سفیان مشرکین کا لشکر لے کر واپس چلا اور بمقام روحا پہنچا تو اس کے دل میں آیا کہ ہم نے بہت سے مسلمان قتل کئے اور بہت کو زخمی کیا افسوس ان کو بالکل نیست و نابود ہی کیوں نہ کیا پھر چلو اور کام تمام کر آؤ کیونکہ اب ان میں دم نہیں ہے اس کے اس ارادہ کی خبر نبی ﷺ کو بھی پہنچ گئی۔ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں سے کہا ٗ ابو سفیان کے مقابلہ کے لئے چلو۔ منافقوں نے کہا کیا خوب یہ تو حال ہوا ہے پھر ان سے لڑنے چلو مگر مخلصین اہل اسلام باوجود زخموں کے کمر ہمت باندھ کر آمادہ ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ ستر صحابہ کو لے کر حمراء 1 ؎ اسد تک کہ جو مدینہ سے تین میل ہے پہنچے ابو سفیان ڈر کر بھاگ گیا۔ یہ ان مسلمانوں کی مدح ہے جو ساتھ گئے تھے۔ پھر الذین قال لہم الناس میں ایمانداروں کی دوسری مدح ہے۔ اس میں بدر صغریٰ 1 ؎ کے غزوہ 2 ؎ کی طرف اشارہ ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ احد کے روز جب ابو سفیان مکہ کو واپس چلنے لگا تو پکار کر کہا ٗ اے محمد ﷺ ہمارا تمہارا مقابلہ اب کے بدر صغریٰ کے موسم پر ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے عمر ؓ سے کہا ٗ کہہ دو منظور۔ جب وہ دن آئے اور ابو سفیان لوگوں کو مکہ سے اکٹھا کرکے مر الظہران تک آیا تو اس کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے رعب آگیا اور وہ واپس پھر گیا اور نعیم بن مسعود اشجعی کو کچھ دینار دے کر مدینہ میں اس لئے بھیجا کہ مسلمانوں کے ڈراوے کہ تمہارے مقابلہ کے لئے بڑی فوجیں جمع ہو رہی ہیں۔ یہ عقل کی بات نہیں کہ تم وہاں لڑنے کو جائو۔ جب یہاں آکر انہوں نے یہ کہا کہ تم کو قتل کیا جائے گا اور وہاں جا کر کوئی زندہ واپس نہ آئے گا۔ منافق تو سن کر کانپنے لگے مگر مخلصین مسلمان بالکل آمادہ ہوگئے اور یہ کہا کہ کچھ پروا نہیں۔ ہم کو اللہ کافی ہے اور وہی ہمارا مددگار ہے۔ آخر تمام صحابہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ حسب وعدہ پہنچے۔ یہاں مخالفین میں سے کوئی بھی نہ ملا۔ اس مقام پر ایام جاہلیت میں ہر سال کئی روز تک خریدو فروخت کا میلہ لگا کرتا تھا۔ صحابہ نے وہاں جو کچھ زاد راہ لے گئے تھے اس کو فروخت کرکے دو چند نفع اٹھایا اور ثواب اخرت لے کر یہ لوگ صحیح سلامت گھر آئے۔ قال لہم الناس سے مراد نعیم ہے۔ ان الناس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ بنعمۃ من اللّٰہ سے العافیۃ اور فضل سے مراد نفع تجارت ہے۔ لم یمسسہم سو یعنی قتل و ضرب کوئی برائی پیش نہ آئی۔ واتبعوا رضوان یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کی۔ اس سے منافقین کے دل میں حسرت پیدا کرتا ہے۔ 1 ؎ یعنی باردگر لڑنے کے لئے تیار ہوگئے۔ احد کی لڑائی کے بعد جاتے وقت ابو سفیان سردار قریش یہ کہہ گیا تھا کہ اب ہم بدر صغریٰ پر پھر تم سے لڑنے کو فلاں فلاں وقت آئیں گے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو تیار کیا ٗ خدا پرست تیار ہوگئے اور حضرت کے ساتھ وہاں پہنچے وہاں کفار میں سے کسی کو بھی نہ پایا ٗ ابو سفیان کی خالی شیخی تھی۔ ان حکم برداروں کی ان آیات میں مدح کی جاتی ہے کہ وہ صحیح سلامت بھی آئے اور ان کو اجر بھی ملا۔ 12 منہ 2 ؎ یہ بنی کنانہ کا تالاب یا کنواں تھا یہاں ہر سال خریدو فروخت کے لئے میلہ لگا کرتا تھا اور یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ 12 منہ 3 ؎ غزوہ اس لشکر کشی کو کہتے ہیں جس میں خود آنحضرت ﷺ بھی شریک تھے۔ اور سریہ وہ کہ جس میں خود شریک نہ تھے۔
Top