Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 175
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں ذٰلِكُمُ : یہ تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان يُخَوِّفُ : ڈراتا ہے اَوْلِيَآءَهٗ : اپنے دوست فَلَا : سو نہ تَخَافُوْھُمْ : ان سے ڈرو وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
(یہ خبر دینے والا) تو صرف (ایک) شیطان تھا جو اپنے دوستوں کو ڈرایا کرتا ہے۔ سو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرا کرو۔ اگر تم ایماندار ہو
ترکیب : ذلکم مبتدا الشیطان خبر ‘ یخوف جملہ حال ہے الشیطان سے ‘ والعامل الاشارۃ ای یخوفکم باولیائہ او یخوف اولیاءہ الذین کفروا فاعل ‘ لایحسبن الذین انما نملی لہم جملہ قائم مقام دو مفعولوں کے۔ تفسیر : پہلے ذکر تھا کہ کفار اہل ایمان کو ڈراتے ہیں کہ تمہارے لئے فوجیں جمع ہو رہی ہیں۔ یہاں فرماتا ہے کہ یہ ڈرانے والا (یعنی نعیم بن مسعود 1 ؎ یا جماعت کفار ابو سفیان وغیرہ) شیطان ہے کہ جو اپنے دوستوں یعنی مشرکین و کفار کی شوکت سے خدا کے دوستوں کو ڈرایا کرتا ہے اور دل میں وسوسہ ڈالا کرتا ہے یا یہ معنی کہ یہ شیطان اپنے یاروں کو ڈرایا کرتا ہے یعنی اس کا گذر زیادہ انہیں کے دل میں ہے۔ وہیں زیادہ وسوسہ ڈالا کرتا ہے۔ سو تم اس کے دوست نہیں ہو۔ تم کیوں ڈرتے ہو۔ تم مجھ سے ڈرو اگر سچے مومن ہو۔ اس کے بعد مشرکین کے کروفر اور منافقوں اور یہود کے خداع و مکر کی بےثباتی بیان فرماتا ہے کہ اے نبی یا اے ہر مخاطب ‘ اہل ایمان ! تم کو ان کے اس کفر کی تیاری اور کوشش سے ہراساں نہ ہونا چاہیے۔ یہ سب ہیچ ہے جو کچھ اللہ کو کرنا ہے وہی کرکے رہے گا۔ یہ اس کے ارادے اور اس کے جاری کئے ہوئے دین میں کچھ بھی خلل اندازی نہ کرسکیں گے۔ خدا کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے یہ صرف اپنا ہی بگاڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اس شرارت سے خدا یہ چاہ رہا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں سعادت کا کوئی حصہ بھی نہ رہے۔ بدبخت ازلی رہیں ان کو عذاب عظیم ہوگا اور وہ لوگ جو فطری ہدایت چھوڑ کر کفر اس کے بدلے میں اختیار کرتے ہیں یعنی ایمان دے کر کفر خریدتے ہیں منافقین وغیرہ وہ بھی کیا خدا کو مضرت دے سکتے ہیں۔ ان کو عذاب الیم ہوگا۔ بعد مردن ان کے یہ افعال شنیعہ جہنم کی آگ بن کر ان کو جلا دیں گے۔ احد کی لڑائی کے بعد مشرکین اپنی فتح یابی پر نازاں ہو کر یہ کہا کرتے تھے کہ جس دین پر ہم ہیں وہ حق ہے کہ ہم کامیاب ہیں اور دنیا اور دولت ہم کو نصیب ہے۔ مسلمان اسلام کی بدولت کس پست حالت میں ہیں نہ مال ہے نہ اسباب ہے ‘ گھر بار چھوڑے مدینہ میں فاقہ کشی کر رہے ہیں۔ قتل کئے جاتے ہیں۔ اس کا جواب دیتا ہے کہ ہم نے جو ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اور یہ سامان مہیا کردیے ہیں اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں۔ ان کو یہ سامان اس لئے ملے ہیں کہ نافرمانی اور گناہ میں کامل ترقی کرکے مرنے کے بعد اس کی پوری سزا پائیں جس طرح کوئی مجرم کرے اور بادشاہ باوجود علم وقدرت کے اس کو فوراً گرفتار نہ کرے اور اس کو اتنی مہلت دے کہ وہ خوب بغاوت اور فتنہ پھیلا دے۔ : بعض معترض اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا کا لوگوں کے حق میں برائی پہنچانے کا ارادہ کرنا اس لئے ڈھیل دینا کہ وہ اور بھی گناہ کرکے زیادہ عذاب میں مبتلا ہوں اور نیز بار بار یہ فرمانا کہ ہم کو امتحان مقصود تھا یا ہم کو نیک اور بدوں کی آزمائش کرنی تھی۔ اس کی شان تقدیس اور علم ازلی کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب مجازات و استعارات ہیں۔ بندہ جب اپنے اس اختیار و ارادے وقدرت خداداد کو برائی میں صرف کرتا ہے اور کسی ناصح کی بات نہیں مانتا جس سے اس پر برے نتائج پیش آتے ہیں تو ان نتائج کو کہیں بطور سرزنش علم ازلی کے سبب جو ازل میں خدا کو ان باتوں کا علم تھا اور وہ دفتر علم الٰہی میں ثبت ہوچکے تھے۔ اپنی طرف اسناد کردیا جاتا ہے اور اس مفاد میں کوئی بات خلاف تقدیس نہیں۔ اسی طرح گو اس کو ازل میں ہر چیز کا علم تھا مگر اس عالم شہود میں وہ علم جس کو بندے بھی حاصل کرتے ہیں۔ بعد وقوع معاملات ہی ہوتا ہے اس لئے آزمانا وغیرہ اس علم کے لحاظ سے فرمایا گیا۔ 12 منہ 1 ؎ یہ لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے۔ ان کی یہ مذمت اس حال پر ہے۔ 12 منہ سو یہ بادشاہ کے کامل غضب کی علامت ہے کہ پھر اس کو گرفتار کرکے اس بڑے بھاری جرم کے معاوضہ میں سخت سزا دے گا۔ بادشاہ کا یہ ڈھیل دینا کچھ اس کے حق میں مہربانی نہیں بلکہ زہر اور قہر ہے۔ اسی طرح بےدینوں کا دنیا میں کامیاب ہونا اور عمر و دولت میں ترقی کرنا وجود خدا کی نافرمانی کے ان کے حق میں زہر ہے۔
Top